30/12/12

Appartenenza



Chissà se un giorno, guardando negli occhi di chi ti avrà dopo di me cercherai qualcosa che mi appartiene.

مکمل تحریر  »

کیا تم نے کبھی کوئی بات بھی کی

کیا تم نے کبھی کوئی بات بھی کی
یا یونہی رہے چپ سادھے
کیا کی ہے محبت جی بھر کے
یا عشق ادھورے آدھے
خوشبو کے پیچھے جائے کون
ہوا کا ساتھ نبھائے کون
او مولا عشق عشق بھر دے
وہ لمس تمہارے ہاتھوں میں تحریر ہیں
کتنی باتوں سے
اک چاند کی سلوٹ چادر میں
من اداس ہو جیسے راتوں سے
خوشبو کے پیچھے جائے کون
ہوا کا ساتھ نبھائے کون

مکمل تحریر  »

17/12/12

تمہاری یاد

تمہاری یاد بھی میرے لیے تو اب اس سورج کی طرح ہوتی جارہی ہے جس کے بارے ہر شب مجھے یہ گمان گزرتاہےمیں نے اسے  دور کسی ساحل کنارے  ڈبو دیا ہے لیکن وہ ہر صبح کسی چٹان میں سے دوبارہ سر نکال لیتا ہے  

مکمل تحریر  »

07/12/12

ساڈاحق ۔۔ ایتھے رکھ

عورتوں کی تو بہت سی قسمیں ہوسکتی ہے لیکن مرد صرف دو طرح کے ہی ہوتے ہیں ایک وہ جو بہت خوش و خرم زندگی گزارتے ہیں اور دوسرے وہ جن کی شادی ہوجاتی ہے یا جنہیں کسی عورت سے محبت ہوجاتی ہے کہتے ہیں کسی جنگل میں شیر کی شادی میںایک چوہا اچھل اچھل کر ناچتا اور گاتاجارہا تھا کہ ”آج میرے بھائی کی شادی ہے“سب جانوروں نے کہا کہ کہاں تم اور کہاں جنگل کا راجہ شیر؟چوہے نے جواب دیا کہ”نہیں نہیں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے شادی سے پہلے میں بھی شیر ہی تھا“ایک غمگین شخص نے اپنے ایک دوست سے سرد آہ بھرتے ہوئے پوچھا یار ذرا بتاو ¿ تو خوشی کیا ہوتی ہے.دوست نے حیرت سے کہا ” خوشی ؟؟؟ میں کیا جانوں خوشی کسے کہتے ہیں، میری تو کم عمری میں ہی شادی ہوگئی تھی “کہتے ہیں کہ حسین لڑکیاںکبھی بھی ڈاکٹر یاانجینئر بننے کی کوشش نہیں کرتی ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ کوئی ایک بیوقوف ہے جو اس کی جگہ ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے لئے رات دن محنت کررہا ہے ہمارے ہاں تو ایک عام سی عورت جس کانام وزیر ہواگر وہ اعظم نامی کسی شخص سے شاد ی کر لے توبڑی آسانی سے ” وزیر اعظم “کہلا سکتی ہے کہتے ہیں ایک باپ اپنے بیٹے کو چڑیا گھر سیر کرانے لے گیا تو وہاں دونوں نے ایک گدھا اور گدھی کا جوڑا دیکھا باپ نے بیٹے سے پوچھا ”پاپا وہ گدھے کے ساتھ کون ہے “ تو اسے کے باپ نے جواب دیا “بیٹا وہ اسکی بیوی ہے “بیٹا پوچھنے لگا کہ ”پاپا کیا گدھے بھی شادی کرتے ہیں “ تو اس کے والد نے کہا ”ہاں بیٹاصرف گدھے ہی شادی کرتے ہیں “بقول مشہور شاعر شفیق بٹ
  شادی تو میری ہوئی ہے اے بٹ   یہ شہر کیوں مجھے ”سائیں سائیں “کہتا ہے
 گزشتہ دنوں ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس کا موضوع تھا ”اسٹالکنگ“یعنی تعاقب کا قانون ۔ اصل میں اطالوی گورنمنٹ نے مورخہ 23فروری 2009ءسے اسٹالکنگ کے نام سے ایک قانون بنایا ہے جس کے تحت اگر کوئی بھی شخص کسی بھی دوسرے فرد کو تنگ کرنے کے لیے اس کا پیچھا کرتا ہے اور اس کو نفسیاتی طور پر ٹارچر کرتا ہے تو اُسے اس جرم ِتعاقب کی پاداش میں چھ ماہ سے لیکر چار سال تک کی سزا ہوسکتی ہے دلچسپ بات یہ کہ سرکاری اعداد و شمارکے مطابق اس قانون کی زد میں 55% وہ مرد آتے ہیں جن کی بیوی یا سنگ دل محبوب انہیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور وہ بےچارے اپنے محبوب کو منانے کے لئے یا تو فون کال، ایس ایم ایس اور ای میل کا سہارا لیتے ہیں یا ان کے پیچھا کر کے انہیں منانے کی کوشش کرتے ہیںاس موقع پر شفیق بٹ کہتے ہیں
 وہ تیری بدنصیبی کہ ”اسٹالکنگ“ کا قانون آگیا   دل ِنا سمجھ میری بات مان اسے بھول جا
میرے ایک دوست کا کہنا تھا کہ یہ قانون تو سیدھا سیدھا محبت کے دشمنوں کا بنایا ہوالگتا ہے کیونکہ اگر محبت کے اظہار کے لئے کوئی اپنے محبوب کا تعاقب نہیں کرے گا تو اس سے اپنی محبت کا اظہار کیسے کر سکے گا اسی طرح اگر کسی کا دلبر جانی ناراض ہوجائے تو اگراسے اپنی غلطی کی معافی مانگنے کا موقع بھی نہ دیا جائے تو ”دلبرداشت “ہوجائے گامیں نے اسکا فقرہ ٹھیک کرتے ہوئے کہا کہ دلبر داشت کو ئی لفظ نہیں ہوتا بلکہ ” دلبرداشتہ“صحیح لفظ ہوتا ہے کہنے لگا”داشتہ تو مونث ہوتی ہے ۔او ہو۔ یعنی لفظوں میں بھی مردوں کے ساتھ امتیازی سلوک رکھا گیا ہے “کہنے لگا شکر ہے تعاقب کا ایسا کوئی قانون ہمارے ملکوں میں نہیں بنتا ورنہ ہماری تو ساری پریم کہانیاں نا ممکن ہوجاتی ہمارے ہاںتو اصلی مجنوں ہی اسے سمجھا جاتا ہے جو محبوب کو بدنام کردے اپنے سر پر خاک ڈال کر لیلیٰ لیلیٰ کہتے گلیوں میں گھومتا رہے ہمارے ہاں تو اتنے لیچڑ قسم کے عاشق ہوتے ہیں کہ اگر لڑکی کسی اور سے بھی بیاہی جائے تو اسے کے گھر کے باہر سبزیوں اورخشک میوں کی ریڑھی لگالیتے اور بقول مشہور شاعر شفیق بٹ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں
  تم اگر بھول بھی جاﺅ تو یہ حق ہے تمہیں   میری بات اور ہے میںروز بادام کھاتا ہوں
واقعی اس قانون کی وجہ سے تو ہماری ساری فلمیں بھی فلا پ ہونے کا خطرہ ہے ہمارے تو ہیرو بھی وہی ہیں جو ”کک کک۔۔۔ کرن “کہتے ہوئے ہیروئین کے پیچھے پڑ جائیں یا ”روک اسٹار“ بن کر ایک شادی شدہ عورت کا پیچھا بھی ”پراگ “تک کریںمیرا دوست کہنے لگا اس قانون نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ یورپی معاشرہ مردوں کے خلاف ہے اسی لیے یورپ میں زیادہ تر قوانین عورتوںکے لئے بنائے جاتے ہیںاس کی بات سچ بھی ہے کیونکہ یورپ میں اپنی بیویوں یا محبوباﺅں کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے والے مردوں کی تعدا د میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے بلکہ اب تو باقاعدہ ایسی تنظیمیں بھی بن چکی ہیں جو مردوںپر عورتوں کی جانب سے ہونے والے تشدد کی رپورٹس جمع کر رہی ہیںاٹلی کے سابق وزیر اعظم برلیسکونی پر ایک کیس میں الزام ہے کہ انہوں نے اپنی ایک مراکشی محبوبہ روبی کو ”منہ بند رکھنے “کے لئے پانچ ملین یورو دیئے تھے دیکھ لیں مرد عورت کا منہ کھولنے سے کتنے پریشان ہوتے ہیں ایک دفتر میں جب باس نے دیکھا کہ اس کا ایک ملازم تیس منٹ سے فون کا ریسیور کانوں سے لگائے خاموش بیٹھا ہوا تھا تو اس کے باس نے ڈانٹتے ہوئے کہا ”میں نے کہا نہیں تھا کہ دفتر کا فون بیویوں سے کال کرنے کے لیے نہیں ہے “ بقول مشہور شاعر شفیق بٹ
   او نادان پرندے! گھر آجا  تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا
 میںنے اپنے دوست کو سمجھا یاکہ یورپ ہی نہیں پاکستان میں بھی مردوں کی ذات بڑی مظلوم ہے بلکہ لڑکپن سے ہی اگر وہ گھر میں بیٹھے تواسکے والد اسے ڈانٹنا شروع کردیں گے کہ سارا دن عورتوںکی طرح گھر بیٹھے رہتے ہو شرم نہیں آتی اگر وہ باہر نکل کر گلی کی کسی نکڑ پر کھڑا ہو تو چند ہی لمحوں میں کوئی” ماسی شریفاں“ ٹائپ کی آنٹی لعن طعن شروع کردے گی کہ ”تمہیں شرم نہیں آتی گلی میں کھڑے ہومسٹنڈوں کی طرح! یہاں سے محلہ کی عورتوں نے گزرناہوتا ہے“ اگر وہ باہر جا کر کرکٹ کھیلنا شروع کرے تولوگ کہنا شروع کردیں گے کہ فلاں کا لڑکا بڑا ”کھویڈل “ہے تعلیم کی طرف اس کا کوئی دھیان نہیں اگر وہ مسجد چلا جائے تو مولوی صاحب ڈانٹنا شروع کر دیتے ہیں ”مسجد آگئے ہو ۔۔ضرور امتحان قریب ہوں گے“ فوزیہ وہاب مرحومہ نے حقوق نسواں کے عالمی دن کے موقع پر بیان دیا تھا کہ ”مرد سارے نالائق ہوتے ہیں“ ان کی بات ایک لحاظ سے بالکل ٹھیک بھی تھی کیونکہ پاکستان میں یہ فقرہ تو عام ہے کہ بزرگ کہتے ہیں ”اونالائقا۔۔“‘لیکن یہ کبھی سننے میں نہیں آیا کہ ”اوئے نالائقے ۔۔“ یعنی لفظ نالائق صرف مردوں کے لئے بنا ہے پاکستان میں اگر کوئی لڑکا بس میں چڑھ جائے تو کنڈکٹر آواز لگادیتا ہے لڑکے چھت پرہوجائیں اگر وہ بجلی کا بل جمع کرانے جائے لمبی لائین میںانتظار کرے ، اور اگر باری آجائے توکسی خاتون کے آجانے پر بنک کیشئر اسے پیچھے کر دیتا ہے کہ صبر کروپہلے عورتوںکو جمع کرانے دوپاکستان میں کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ جھگڑنے کا توسوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ قصور کسی کا بھی ہو پورا محلہ اکٹھا ہوکر مرد کوہی برا بھلا کہے گابقول شفیق بٹ صاحب
 کسی نے اہل ستم سے اک حرف بھی نہ کہا   سبھی نے مل کر میری ہی ٹھکائی کی
زندگی کے دیگر معاملات دیکھو توان میں بھی ساری لعن طعن مردوں کے لئے ہے اگر کوئی لڑکی قہقہہ لگائے تو اس ہنسی کو شاعرلوگ” جھرنے“ کی آوازسے مشابہت دیں گے جبکہ اگر کوئی لڑکا ذرا زور سے ہنسے تو اسے ”ڈنگر “کہنا شروع کردیا جاتا ہے اگر لڑکی خاموش رہے تواسے ”سنجیدہ “ خیال کیا جاتا ہے اور اگر کوئی لڑکا خاموش رہنا شروع کردے تو پوچھتے ہیں ”بھئی کہیں شادی تو نہیں کرا لی۔۔۔ “اگر لڑکی اخلاق کا مظاہرہ کرے توکہتے ہیں ”بڑی پیاری باتیں کرتی ہے “ اگر کوئی مرد تھوڑی سی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرے تو کہا جاتا ہے ”ایک نمبر کا فراڈیا ہے۔۔ “اگر کسی کی بیوی اسے دبا کر رکھے تو کہا جاتا ہے کہ ”ان کی بڑی انڈر اسٹینڈگ ہے “ جبکہ مر د کو کہاجاتا ہے کہ ”نیچے لگا ہوا ہے “ ہمارے تو اردو ادب تک میں چاہے محبوبہ کوئی عورت ہی کیوں نہ ہو اسے سنگدل محبوب ،اور ظالم جیسے مذکر جنس سے ہی مخاطب کیا جاتا ہے
 میری ساری تقریر و تشریح سن کر میرا دوست کہنے لگا کہ باقی سب باتیں تو ٹھیک ہیں لیکن یہ شعر شفیق بٹ کے تو نہیں ہیں میں نے کہا میں جانتا ہوںوہ میرا دوست ہے اور بہت اچھا مزاح نگار ہے لیکن کافی عرصہ سے اس نے کوئی مزاحیہ کالم نہیں لکھا میں نے یہ شعر اس لئے اس کے نام سے منسوب کئے ہیں تاکہ وہ دوبارہ مزاحیہ کالم لکھنا شروع کردے کہیں اٹلی کے اردو ادب کا یہ خلا بھی مجھے ہی نہ پرُ کرنا پڑے باقی جہاں تک تعلق ”اسٹالکنگ “ کے قانون کاہے کہ تو اٹلی میںرہنے والے پاکستانیوں کو بھی اس قانون کو سمجھنا چاہیے کہ کسی کے بھی سر پر اگر سوار رہیں یا اسکاتعاقب کرتے ہوئے اس کی زندگی اجیرن کر دیں تو چاہے اسے کوئی جسمانی تشدد نہ بھی پہنچائیں تو بھی اس قانو ن کے تحت وہ آپ کو چھ ماہ سے چار سال تک کی سزا دلوا سکتا ہے اوریاد رہے یہ قانون صرف عورتوں کے لئے نہیں ہے اس قانون کی ذد میں آپ کا پڑوسی ، کام کا کولیگ اور فیملی ممبربھی آسکتا ہے اس لئے ایسے قوانین کی موجودگی میں ہمیں دل کو سمجھانا ہو گا کہ
 دل ِسادا !تجھے یہ باور کرانا   جسے تم یاد کرتے ہو اسے اب بھول جانا
 


مکمل تحریر  »

04/12/12

یہ ہم نہیں


 ” پاکستان ایکسپریس“ پر تبصرہ و تجزیہ محمو د اصغر چودھری....

 جب کسی” چیز “کی ساکھ خراب ہونا شروع ہوتی ہے تو اس کا مول گر جاتاہے لیکن جب کسی قوم یا ملک کی پہچان منفی پراپیگنڈہ کے بہاﺅ میں آجاتی ہے تو اس کا مورال گرنا شروع ہوجاتا ہے برائی چھوٹی سی ہوتی ہے لیکن اچھائی کے مقابلے میںبڑی نظر آتی ہے جیسے دھوپ ہر روزبھی نکلے اسے کوئی اتنی توجہ نہیں دیتا لیکن دھند کی ایک صبح سب کوشاکی کر دیتی ہے سفید چادر پر لگا ہوا اک چھوٹا سا دھبہ اتنی زیادہ توجہ حاصل کرتا ہے کہ چادر کا اصلی حسن زیر بحث ہی نہیں آتا امریکہ میں ہونے والے نائن الیون واقعہ کی سب سے بھاری قیمت جس ملک نے ادا کی وہ پاکستان ہے جس کا ایک بھی باشندہ ان حملوںمیں برائے راست یا بالواسطہ شامل نہیں تھالیکن پاکستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ اسکی کم عمری میںہی دنیا میںہونے والی سپر پاورز کی بڑی جنگوں میں اس کی جیوگرافیائی پوزیشن اور نااہل قیادت کے نا عاقبت اندیش فیصلوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑاہے جہاں ایک طرف اسلام کے نام پرروس کے خلاف لڑی جانے والی مغربی جنگ کا تحفہ پاکستان کے باسیوں کو ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر کی شکل میں ملا اور بھٹی کنارے بیٹھے سفید پوش وطن کے بدن پر جابجا کالک کے دھبے اور سوراخ بنتے رہے وہیں دہشتگردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں فرنٹ لائین اتحادی بننے کی قیمت پاکستان نے دہشت گردوں کے عتاب کا نشانہ بن کرادا کی آج پاکستان نے اس جنگ کے گوشوارہ میں چالیس ہزار جانیں بم دھماکوں میں ضائع کی ہیں لیکن نتیجہ یہ ہے کہ اس کے 24فوجی اسی کے اتحادیوں کے حملے میں مار دئے گئے ہیں یعنی نہ خدا ہی ملااور نہ وصال صنم برائی کو برائی سے ختم کرنے اور خون کو خون سے دھونے کی نادانی میں ریاست کے اندر رویوں اور سوچوں میں متشددانہ روش عروج پکڑگئی چند محدودے لوگوں کی سوچ ہزاروں لاکھوں مثبت ذہن والے پاکستانیوں کے نمائندگی کرنے لگی وارث شاہ ، بابا فرید ، بلھے شاہ ، اشفاق احمد ،محمد علی جناح ، اقبال اور فیض جیسے امن پسند نام منفی رویوں کی سوچ کے دھندلکوں میںغائب ہوتے چلے گئے جذباتی پن سوچوں پر ایسا حاوی ہواکہ خوف کے اس سفر میں اہل قلم بھی مصلحت اندیشی کا سہارا لیکر پاکستان کے اصل چہرہ کو دنیا کے سامنے لانے میں ناکام رہے
   حال ہی میں اٹلی میں ایک مراکشی اطالوی جرنلسٹ اور مصنفہ ”انا مھجرباردچی“ کی پاکستانی کلچر پر ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے جس کانام بھی ”پاکستان ایکسپریس “ ہے اس میں مصنفہ نے بڑی محنت سے دنیابھر کی نظروں میں پاکستان کے بارے منفی تصور کو زائل کرنے کی کوشش کی ہے دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کے دھندلکوں سے پرے اپنے حقوق کی آواز اٹھانے والے شہریوں، پابندیوں سے قطع نظر روک میوزک سننے والے نوجوانوں اور عورت کو غلام بنا کر رکھنے والے تصور سے بہت دور ایک عورت کو مملکت خداداد کا 2دفعہ وزیرا عظم منتخب کرنے والے عوام کا تعارف کرایا ہے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان صرف وہ نہیںہے جو مغربی میڈیا دکھاتا ہے کہ جہاں پر طالبان کا راج ہے جہاں گولیاں چلتی ہیں جہاں گلیوں میں لاشیںگرتی ہیں ،جہاں بچیوں کے سکول گرائے جاتے ہیں بلکہ پاکستان وہ بھی ہے جہاں لوگ دہشت گردی سے نفرت کرتے ہیں جہاں عورتیں اپنے حقو ق کے لیے لڑتی ہیں جہاں میڈیا آزاد ہے جہاں یورپین اسٹائیل میں ایک ڈریگ کوئین ٹی وی پروگرام ہوسٹ کرتی ہے جہاں بیسیوں میوزیکل گروپ ہیںاور کئی انسانی حقوق کی تنظیمات ہیں
 کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ مصنفہ خو دپاکستان میں اس شہر میں کئی سال تک رہی جس کا نام ذہن میں آتے ہی پاکستانیوں کے دلوں میں تو امن سکون اور تفریح کا تصور ابھرتا تھا انیسویں صدی میںبرطانوی راج میں ایک انگریز آفیسر سر جیمز ایبٹ کے رہائشی شہر اوراسی کے نام سے موسوم ہونے والا شہر جس نے اس کے حسن اور سادگی کا نقشہ اس طرح کھینچا ” یہ شہر ایک خواب سا لگتا ہے اور میں اس کے قدرتی حسن کے سامنے اپناسر جھکاتا ہوں “ لیکن ٹھیک ڈیڑھ صدی کے بعد 2مئی 2011ءسے جب اس شہرکو عالمی سطح پرپہچان ملی تو وجہ شہرت دہشت گردوںکے سرغنہ کی پناہ گاہ ٹھہری انا ایبٹ آباد میںرہی اور پاکستان میں تعلیم بھی حاصل کرتی رہیں یہ کتاب بھی اسی شہر کی گلیوںکا تذکرہ کرتی ہے جہاں 2مئی تک امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ میں ہٹ لسٹ پر پہلے نمبر پر موجود شخص اسامہ بن لادن موجود تھا مصنفہ کے مطابق یہ حسن اتفاق ہے کہ وہ اس گھر سے چند سو میٹر کے فاصلہ پرکئی سالوں تک رہائش پذیر رہی اس لیے وہ اس گلی محلہ میں پھرنے والے لوگوںاور اس بازار میں خرید و فرخت کرنے والے دوکانداروں کے مزاج اور اندازکو بخوبی جانتی ہے
  یہ کتاب آپ بیتی طرز میں لکھی گئی ہے لیکن ایک ہی وقت میں سفرنامہ اور افسانوں کا مجموعہ بھی لگتی ہے جس میں لمبے قد ،صاف رنگت ،بچگانہ مسکان اور روشن آنکھوں والی سمیرا کی داستا ن ہے جو کسی سے دوستی کرنے سے پہلے یہ پوچھتی ہے کہ وہ خدا پہ یقین رکھنے والی ہے یا نہیںجو ٹائپ رائٹنگ کی طالبہ ہے جس کی آنکھوں میں فرانس دیکھنے کے سپنے تھے لیکن اسکی داستان کا اختتام اس کزن کے ساتھ شادی پر ہوتا ہے جو اس نے نہیں بلکہ اسے کے والد نے منتخب کیا تھا مصنفہ نے اس معاشرہ پر طنز کے کوڑے بسائے ہیں جہاں ایک مڈل کلاس کی ہونہاربچی کی کہانی کا انجام والدین کی طرف سے طے شدہ شادی پر ہوتاہے لیکن اگر فیملی طاقتور ہو تو اسی ملک کی بچی ملک کی وزیر اعظم بھی بن سکتی ہے وہ لکھتی ہیں کہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں کے سب قاعدے سب قانون اور سب اصول متوسط طبقہ کے لوگوں کے لیے ہیں جب کی ہائی کلاس کے پاس اس رقبہ کے محلات ہیں ، ان کی نائٹ لائف اس قدر رنگین ہے ان کی محافل شراب وشباب اور ناچ وموسیقی سے اس طرح لبریز ہیں کہ یورپین معاشرہ کو بھی مات دیتی ہیںوہ اسی کتاب میں پرانے فوجی سامان بیچنے والے اس بوڑھے محمد کا تذکرہ بھی کرتی ہیں جو اپنی دوکان پر بیٹھے”دل دل پاکستان “کے نغمے گا کر خوش ہوتا رہتا ہے جس کی آنکھوں میں کشمیر کے آزاد ہونے کا خواب بستا تھااور جس کابیٹا اس کا یہ خواب پورا کرنے کے لئے کارگل میں لڑتے ہوئے شہید ہوتا ہے لیکن اس وقت کی سیاسی و فوجی قیادت امریکہ کے ایک ہی اشارے پر کارگل کی جنگ ہارجاتی ہے وہ اسی کتاب میں ترقی پسند جرنلسٹ خالد حسن اورسابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیربھٹو سے ملاقات کا تذکرہ بھی کرتی ہے کہیں وہ لال مسجد کی خود پر پابندیوں کا مطالبہ کرتی عورتوں کا تذکرہ کرتی ہے تو کہیں کراچی میںویمن ایکشن فورم کی صدر فاطمہ سے ملاقات کا تفصیلی واقعہ سناتی ہے جو عورتوں کے حقوق کےلئے دھمکیاں وصول کرتی ہے ایک جانب وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ٹی وی چینل میں بیگم نوازش علی کے شو کی تذکرہ کرتی ہے جو درمیانی جنس کی نمائندگی کرتا ہے تودوسری جانب جنون گروپ کے صوفی میوزک گروپ کو دادو تحسین دئیے بغیر نہیں رہ سکتی اسی ملک میں مارکیٹوں میں کلاشنکوفوں کے سایہ میںشاپنگ کا تذکرہ کرتی ہیں تو کہیںانتہا پسندوں پر کامیڈی لکھنے والے یونس بٹ کو خراج تحسین پیش کرتی ہےں وہ20فیصد لوگوں کے متشدد مذہبی رویہ کو80فیصد صوفی اسلام کے ماننے والوں پر تھوپنے والوںکو موضوع بحث بناتی ہے تو خو دکش حملوں کو جواز بنانے والے کے مقابلے میں مفتی احمد رضانعیمی کی شہادت کا واقعہ بیان کرتی ہے اور تصوف کے پر امن اسلام کی تشریح کرتی ہے مصنفہ کی بحیثیت رائٹر یہ کامیابی ہے کہ اس نے اپنی کتاب کااختتام افسردہ اور غمگین کرنے والا نہیںبلکہ خوف اور دہشت کے اس ماحول میں امید کی کرن پر کیا ہے
 مصنفہ نے ایک ہی کتاب میں پاکستان کی تاریخ ،جغرافیہ ، تفریح ، مذہب ، تصوف ،ادب ، سیاست ، تہذیب اور معاشرہ کا متنجن اس انداز سے پلیٹ میں رکھا ہے کہ پڑھنے والادم بخو د ہوکر رہ جاتا ہے اس نے کتاب کی دلچسپی اس طرح برقراررکھی کہ اس نے اپنی یاداشتوں میں پاکستانی کچن کی ہر ڈش اور ہر مشروب کو محفوظ کر لیاہے اور ہر باب میں بیان کیے گئے مشروبات اورکھانوں کی ترکیب باب کے آخر میں تحریر کردی ہے اٹلی بسنے والی پاکستانیوں کی نئی نسل کے لیے یہ کتاب پاکستان کے بارے بہت سی معلومات کے علاوہ پاکستانی کچن کی ڈشز کی ترکیبات کے لیے بڑی موزوں ہوگی جس میں سیخ کباب سے لیکر چکن بریانی تک ، چائے ،دودھ پتی سے لیکر لسی اور پاکولا تک کی ساری ترکیبیات اور اجزائے ترکیبی کی تفصیل بیان کی گئی اس لیے خوف و دہشت کی داستانوں میںمشکلات کا مقابلہ کرتے پاکستانیوں کے تناول کاتذکرہ قاری کوزیادہ دیر کے لئے افسردہ اور غمگین نہیں رکھے گا جن لوگوں کی توجہ پیٹ کی خوراک سے زیادہ روح کی خوراک میں ہے اور جن کی پیاس مشروبات سے نہیں بجھتی بلکہ وہ علم ودانش اورہوش و خرد کے چشموں کے متلاشی ہوتے ہیںان کے لئے کتاب کے ہر باب کا آغاز پاکستان کے کسی شاعر ادیب یا کسی بڑی ہستی کے فرمان یا قول سے ہوگا، اقبال سے لیکر منیر نیازی تک اور کشور ناہید سے لیکر افتخار چوہدری تک کے فرمان یا اشعار موجود ہیں
 وہ خو د لکھتی ہیں کہ”آج پاکستان طالبان اور دہشت گردوں کی آماجگاہ کے نام سے جانا جاتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں کام، کھیل ، تفریح اور مسائل میںگھرے ہوئے عام لوگ اپنی زندگی کیسے بتا رہے ہیں ، حیران کن بات یہ ہے کہ اسلامی انتہا پسندی اور عام معمولات زندگی ایک ساتھ انہی گلیوں ، انہی پارکوں اور گھروں میں ایک دوسرے کے ساتھ گزارا کر رہے ہیںمیں طلباء، محنت کشوں ، صحافیوں اور مختلف شعبہ ہائے جات کے لوگوں سے ملی طالبان اور دہشت گردوں کے سائے میں رہتے ہوئے بھی ان کی آنکھوں میں ہماری ہی طرح کے خواب اور ہمار ی ہی طرح کے مستقبل کی امیدیں ہیںان کے کھانے ،عربی، ہندوستانی اور ایرانی کچن کا حسین امتزاج ہیں جن کی خوشبو اور ذائقہ ناقابل فراموش ہے “ وہ مزید لکھتی ہیں کہ دہشت گردوں کے کسی ایک سربراہ کو مار دینے سے دہشت گردی کی شکست نہیں ہوسکتی بلکہ اس آئیڈیالوجی کو کمزور کرنا ضروری ہے اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب اس کتاب میں رقم کئے گئے بہت سے کرداروں کو آواز اور مدد بہم پہنچائی جائے جو ایک آزاد معاشرے اور انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں“سچ تو یہ ہے کہ وہ پاکستانیوں کی زبان میںہی پاکستانیوں کے مقبول گانے کو موضوع بنا کر یہ بتانے میں کامیاب ہوئی ہے کہ
یہ ہم نہیں ۔ یہ ہم نہیں ۔ یہ ہم نہیں
جیسے شام آتے ہی کوئی رستہ ہم بھلا بیٹھے
اندھیروں سے ڈرے اتنا کہ ہم گھر ہی جلا بیٹھے
یہ کیا چاروں طرف اڑتی ہوئی رائیگانی ہے
ہمارے نام سے پھیلی ہوئی جھوٹی کہانی ہے
یہ ہم نہیں ۔۔ یہ ہم نہیں ۔۔ یہ ہم نہیں



مکمل تحریر  »

30/11/12

عشق مجازی

"اپنی انا اور نفس کو ایک انسان کے سامنے پامال کرنے کا نام عشق مجازی ہے اور اپنی انا اور نفس کو سب کے سامنے پامال کرنے کا نام عشق حقیقی ہے، اصل میں دونوں ایک ہیں۔ عشق حقیقی ایک درخت ہے اور عشق مجازی اسکی شاخ ہے۔
جب انسان کا عشق لاحاصل رہتا ہے تو وہ دریا کو چھوڑ کر سمندر کا پیاسا بن جاتا ہے، چھوٹے راستے سے ہٹ کر بڑے مدار کا مسافر بن جاتا ہے۔۔۔ تب، اس کی طلب، اس کی ترجیحات بدل جاتیں ہیں۔"
زاویہ سوئم، باب :محبت کی حقیقت سے اقتباس

مکمل تحریر  »

چوٹ

 جس طرح غیر مرئی چیز ،مرئی چیزوں سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے اسی طرح بیرونی اور ظاہری چوٹیں اتنی خطرناک نہیں ہوتیں جتنی اندورنی اور ظاہراً نہ نظر آنے والی ہوتی ہیں کوئی دکھ انسان کو جتنی جلدی گھن کی طرح کھاتا ہے اور جتنا دیر تک قائم رہتا ہے اتنی دیر تک جسمانی چوٹ کا درد نہیں رہتا اگر اس سے بھی ذرا آگے جائیں تو جسم پر لگنے والی چوٹ اتنی تکلیف نہیں دیتی جتنی دل پر لگنے والی دیتی ہے دل سے بھی آگے ایک مقام ہے اور وہ ہے روح کاتوروح پر لگے ہوئے زخم دل یا جسم پر لگنے والی چوٹوں سے بھی زیاد ہ کرب ناک اور اذیت ناک ہوتے ہیں 

مکمل تحریر  »

28/11/12

تربیت

 

ترقی یافتہ معاشروں میں معاشرتی برائیوں سے آگاہی اورلوگوں کی تربیت کے لئے تدریس وتبلیغ کے مختلف طریقہ کار اختیار کئے جارہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں محراب ومنبر سے لیکر سیاسی و سماجی محاذوں پرصدیوں سے تربیت کا ایک ہی طریقہ رائج ہے اور وہ ہے ”ون مین شو“والا یعنی کسی بھی مسئلہ پر بات چھیڑنی ہوتو مذہبی ، سیاسی یا سماجی تنظیمات کی جانب سے بڑی تیاری کی ساتھ ایک اسٹیج سجایا جاتا ہے اسکے بعد ایک مہمان بلایا جاتا ہے جو دو دو تین گھنٹے بلاتکان بولتا ہے اور ایسی ایسی سریں لگاتا ہے کہ سننے والا کشمکش میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ بات کرنے والا مبلغ ہے، معلم ہے یا گلوکار ؟ اس ون مین شو میں اس کے سامنے ایک ہجوم اکٹھا کیا جاتا ہے جس میں سے کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ خطاب کے آخر میں کسی قسم کا سوال کرے اور اگر کہیں کوئی سوال کرنے کی جسارت کر بیٹھے تو اس کی ایسی درگت بنائی جاتی ہے کہ آئندہ وہ کسی بھی محفل میں سوال کی کوشش نہ کرسکے سیاسی محفلوں میں میزبان اعلان کر دیتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی سوال نہیں کیا جا سکتا عجیب معمہ بن جاتا ہے کہ سیاسی قائد سے سیاسی سوال نہ کریں تو کیا صرف و نحو پر گفتگو کی جائے سوال کیا جانا برائے راست قائد کی توہین کے مترادف سمجھا جاتا ہے مذہبی محافل میں سوال کر نے والے کے سر پر یہ خوف تلوار کی طرح لٹکتا رہتا ہے کہ اگر مبلغ کوسوال کو جواب نہ آتا ہوا تو وہ سیدھا سیدھا کافر کا فتوی ٰ لگا کر دائرہ اسلام سے خارج ہی نہ کر دے جدید دنیا میں انسان کی تربیت میں فلم اور تھیٹر کا بھی بہت اہم کردار ہے لیکن پاکستان جیسے معاشرے میں فلم اور تھیٹر کو اکثریت تو ویسے ہی گناہ خیال کرتی ہے اور جو لوگ اس کو گناہ نہیں سمجھتے وہ بھی ان کی مدد سے معاشرتی برائیوں کی بجائے فحاشی اور بے ہودگی کو ترویج تو دیتے ہیں لیکن ان کی مدد سے کسی سماجی مسئلہ کو خال خال ہی زیر بحث لاتے ہیں
 گزشتہ دنوں ایک سیمینار میں شرکت کرنے کا موقع ملا ،سیمینار کا انعقاد ایک ایسی ایسوسی ایشن کی جانب سے تھا جو یورپین یونین کے ایک پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے یہ پراجیکٹ اٹلی ،فرانس ، بلجیم ، پرتگال اور اسپین کے علاوہ دیگر ممبر ممالک میں بھی مختلف تنظیمات سر انجام دے رہی ہیںیہ تنظیمات نسل پرستی اور مختلف ایسے تاثرات جو معاشرے میں خو ف پیدا کرتے ہیں کے خلاف لوگوں کو آگاہی دینے کے لئے اسٹریٹ تھیٹر کا اہتمام کرتی ہیں لیکن اس تھیٹرکا سب سے دلچسپ پہلو یہ کہ اس کے کردار ایک مخصوص مدت کا” شو“ کرکے مسئلہ عوام کے سامنے رکھتے ہیں اور اس کے بعدعوام میں کھلی بحث چھیڑ دیتے ہیں ،حاضرین میں موجود ہرشخص کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ متعلقہ موضوع پر بات کرے ، اس پر سوال اٹھائے یااپنی تشکیک اوراپنے ابہام کا تذکرہ کرے ، تھیٹر انتظامیہ وہاں موجود ہر شخص کو یہ موقع بھی دیتی ہے کہ کہ وہ خود اٹھ کر اس شوکا حصہ بنے یعنی جو سین اسے پسند نہیں آیااس کو تبدیل کرائے یاخو د بحیثیت اداکار پرفارم کرکے بتائے کہ اگر یہ سین ایسے کیا جائے تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے اس شو کے اختتام پر تھیٹر انتظامیہ متعلقہ مسئلہ کے حل کے لئے عوام سے تجاویز طلب کرتے ہیں اورباہمی مشاورت سے ان کوباقاعدہ تحریر کرتے ہیں جو تجاویز علاقائی انتظامیہ سے وابستہ ہوں وہ ان تک پہنچائی جاتی ہیں جو ملکی سطح پر پارلیمنٹ، عدالت یا حکومت کو پیش کرنے والی ہوں وہ وہاں تک پہنچائی جاتی ہیں اور جوتجاویز یورپین یونین کی انتظامیہ تک پہنچانے والی ہوں وہ ان تک بھجوائی جاتی ہیں اس طرح تھیٹر کی مدد سے متعلقہ مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے عوام کو اپنی خامیوں کو محسوس کرنے اوران پر غور کرتے ہوئے اپنی اصلاح کا موقع بھی ملتا ہے
17نومبر کو ہونے والایہ سمینار اس تنظیم کا پراجیکٹ ختم ہونے پر منعقدکیا گیا تھا،یہ تنظیم مختلف موضوعات پر اٹلی کے مختلف شہروں میں اسٹریٹ تھیٹر کا اہتما م کر چکی تھی اس سیمینار میں مختلف شعبہ وکالت ، صحافت اور سیاست کے ماہرین نے مختلف ایسے موضوعات پر گفتگو کرنا تھی جویورپی معاشرے میں خوف کا باعث بنتے ہیں۔ مجھے یورپ میں موجو د تارکین وطن شہریوں کے مسائل اور انہیں جن نفرتو ں سے واسطہ پڑتا ہے ان پر گفتگو کرنا تھی میں نے مروج طریقے سے تقریر تیار کی اور وہاں پہنچ گیا لیکن وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ اس سیمینار میں بھی وہ مجھے ون مین شو والا موقع فراہم نہیں کرنے والے تھے بلکہ آج بھی انہوں نے حاضرین کو پورا موقع دیا کہ وہ مجھ سے سوالات کر سکتے تھے اور بیان کئے گئے مسائل کا حل اور تجاویز نہ صرف مجھ سے طلب کر سکتے تھے بلکہ اس پر ایک کھلی بحث کا آغاز کر سکتے تھے اور اس موضوع پر اپنی تجاویز دے سکتے تھے بحث شروع کرنے سے پہلے جو چند لمحے مجھے اپنی خطابت کے جوہر دکھانے میں میسر آئے وہ قارئین کے دلچسپی کے لئے پیش کرتا ہوں
”اٹلی میں تارکین وطن شہریوں کی تعداد 50لاکھ سے تجاوز کررہی ہے امیگرنٹس کی دوسری نسل سکولوں سے فارغ التحصیل ہوکر معاشرہ کا حصہ بن رہی ہے اگر اٹلی میں امیگریشن کو ابھی بھی سیکورٹی رسک کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے یا ان کا وجود معاشرہ میں خوف کا باعث ہے تو ظاہری بات ہے کہ اٹلی کا سیاسی و سماجی طبقہ اپنی سوسائٹی کے اتنے اہم حصہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا اور وہ ابھی بھی ایمرجینسی اور سیکورٹی خطرہ جیسی فضول بحثوں میں مبتلا ہے
کسی بھی صحت مند معاشرہ کے قیام میں دو طبقات کا کردار ستون کا سا ہوتا ہے جن میں سر فہرست ایک تو ہےں اس ملک کے سیاستدان اور دوسرا طبقہ ہے اس ملک کا میڈیا یہ دنوں ہی طبقات معاشرہ کو سمت دیتے ہیں
اٹلی کے سیاستدانوں کاحال یہ ہے کہ یہ ووٹ لینے کے لئے تارکین وطن شہریوں کے خلاف نفرت استعمال کرتے ہیں اور اپنے شہریوں کی ہمدردی اور ووٹ لینے کے لئے خوف کا کارڈ استعمال کرتے ہیں آ پ کی شناخت کی دہائی دیتے ہیں اور یہ کبھی نہیں بتاتے کہ یہ پچاس لاکھ شہری کس طرح معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیںاور یہ بھول گئے ہیں کہ اگر معاشرہ کے اس اہم جزو کو نظر انداز کیا گیاتواگلی نسلوں کے درمیان اجنبیت کی کتنی خلیجیں حائل ہوں گی جو کسی بھی صحت مند معاشرے کے لئے نقصان دہ ثابت ہوں گی
دوسرا طبقہ میڈیا یا جرنلزم کا ہے جو رائے عامہ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے حکومتی اداروں کی ریسرچ کے مطابق اطالوی میڈیا امیگرنٹس کے بارے منفی تاثر پیدا کر رہے ہیں ان کی رپورٹ کے مطابق اخبارات کا 52.8فیصد حصہ امیگرنٹس کی جانب سے کئے گئے جرائم اور ان پر ہوئی عدالتی کاروائیوں پر ہوتا ہے 34%حصہ ان کے بارے بنائے گئے سخت قوانین کے بارے 5.3%حصہ غیرقانونی پر اٹلی داخل ہونے والی کھیپ پر اور صرف 7.9% حصہ ان کے کلچر اور مسائل کے بارے ہوتا ہے ۔۔۔
دودن پہلے ہی ایک مراکشی مسلمان کے بارے خبر چھپی ہے کہ اس نے اپنی گیارہ سالہ بچی اور چھ سالہ بیٹے کو اس لئے قتل کر کے خودکشی کی کوشش کی کہ اس کی بیوی اس سے ناراض ہو کر چلی گئی تھی لیکن چونکہ اطالوی میڈیا کو اس خبر میں کوئی مصالحہ نظر نہیں آیا اس لئے اخبارپر سرخی یہ لگائی گئی کہ والد نے اپنی بیٹی کو اس لئے قتل کردیا کہ وہ اسے پردہ کروانا چاہتا تھااور اس طرح اخبار والوں نے دودن کے اند ر ہی فیصلہ بھی سنا دیا اور مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ بھی بنادی کہ مسلمان اتنے ظالم ہیں کہ پردہ کے لئے اپنی معصوم بیٹیوں کو قتل بھی کر دیتے ہیں آپ خود اندازہ لگا لیں کہ اسطرح کے جرنلزم کے بعد معاشرہ میں تارکین وطن شہریوں کے خلاف اور ان کے مذہب کے بارے کیسی رائے عامہ پیدا ہوگی(ہال میں تالیاں اور پبلک کی جانب سے شرمندگی کااظہار )ہمیں ایک صحت مند اطالوی معاشرہ کے قیام کے لئے سیاست اور میڈیا کے کردار کا تعین کرنا ہوگا
 جہاں تک بات ہے خوف کی تویاد رکھیں کہ تارکین وطن شہری آپ لوگوں سے زیادہ ہمہ وقت خوف کی حالت میں ہوتا ہے اس کاخوف اس شخص جیسا ہوتا ہے جسکا مکان کسی قدرتی آفت کی زد میں تباہ وبرباد ہوجائے تو اسے اپنا مکان گرنے کا اتنا خوف نہیں ہوتا جتنا بعد میں اس کونئے سرے سے تعمیر کرنے اور گھر کی ایک ایک چیز اکٹھی کرنے کا ہوتا ہے ان کے لئے چونکہ نیاملک ،نئی زبان اور معاشرہ بھی نیا ہوتا اس لئے اس میں رہائش کا اندیشہ ہر پل موجود رہتا ہے آج اطالوی سکولوں میں ان کے بچے پڑھ رہے ہیں انہیں اپنی مذہبی روایات کھو جانے کا خوف ہے،بچوں کی شہریت اطالوی نہ ہونے کے باعث ان کے مستقبل کے خواب سجانے کاخوف اور تنکاتنکا جوڑتے والد کو روزگار کے کھو جانے کا خوف ہمہ وقت پریشان رکھتا ہے
اگر ہم ان اندیشوں کو دور کرنا چاہتے اور ایک ملٹی کلچرل سوسائٹی تخلیق کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان باتوں پر غور کرنا چاہیے
کہ ابھی تک اٹلی والے ”ہم “ اور ”وہ“ یعنی امیگرنٹس کا فرق نہیں مٹا سکے دنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان صرف دو قسم کے ہوتے ”اچھے “یا” برے“ اس کے علاوہ کسی بھی جنس ،قوم ، نسل یا مذہب کی تقسیم یا تفریق کرنا فضول ہے ۔
اٹلی کی آخری مردم شماری کے مطابق حالیہ کساد بازاری کے نتیجے میں یہاں سے آٹھ لاکھ تارکین وطن شہری ہجرت کر کے دوسرے ملکوں میں شفٹ ہوگئے ہیںیہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ وہ اٹلی میں اپنے مستقبل کو محفوظ محسوس نہیں کرتے یاد رکھیں اٹلی کا مستقبل تارکین وطن شہریوںکے بغیر ناممکن ہے ، اعدادوشمار کرنے والے اداروں کے مطابق2050ءتک پینسٹھ سال سے زائد عمر والوںاطالوی شہریوں کی تعداد 22ملین سے تجاوز کر جائے گی ایسی صورت میں سترہ ملین کام کرنے والے ورکرز کی کمی ہوجائے گی،ہمیں اس امیگریشن والے پراسس کے بارے حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی نفرت اور سختی کی پالیسی سے حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتی
گاندھی نے کہا تھا کہ میری نظر میں جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں معاشرے کے کمزورطبقہ کو طاقتور کے برابرمواقع ملیں
چونکہ امیگرنٹس کسی بھی ملک میں کمزور طبقہ ہوتا ہے اس لئے اگر انہیں جمہوری سسٹم کا حصہ نہ بنایا جائے انہیں ووٹ کا حق نہ دیا جائے تو و ہ کبھی بھی طاقتور کے برابر حقوق نہیں لے سکتے اور معاشرہ میں حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہوسکتی ۔۔۔۔ “
سیمینار کے آخر میں تمام تجاویز نوٹ کی گئی اور عوام کی جانب سے اکثریت رائے سے تارکین وطن بچوں کو پیدائش کے وقت ہی اطالوی شہریت کے حصول کے لئے قانون سازی اور میڈیا کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ متعین کرنے کے سفارشات تیار کی گئی تاکہ یورپین یونین کو بھجوائی جاسکیں





مکمل تحریر  »

23/11/12

میٹھاپانی

اپنی ادھوری محبت کی پوری داستان سنا چکنے کے بعد اس نے مضطرب نظروں سے بابا جی کی طرف دیکھا اور پوچھنے لگا ”باباجی ۔اس ساری داستان میں میری غلطی کیا تھا؟ سب سے بڑی سزا مجھے کیوں ملی؟ بے چینی میرا مقدر کیوں بن گئی ہے؟ اور کیا میرے دل کواب کبھی سکون میسر نہیں آئے گا ؟“
 باباجی کے چہرے پر عجیب سی طمانیت تھی ایسے جیسے غم جاناں کے ان بکھیڑوں سے ان کا کوئی لینا دینا نہ ہو وہ مسکرائے اور کہنے لگے میں تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں اسے باباجی کی بھول بھلیوں والی یہی عادت عجیب لگتی تھی کہ وہ کبھی بھی کسی بات کا دو ٹوک جواب نہیں دیتے تھے وہ گویا ہوئے ۔۔۔۔۔
”ایک دفعہ صحر ائی گاﺅں کے ایک رہاءشی نے ایک مسئلہ کے لئے حاکم وقت سے ملاقات کے لئے سفر اختیار کیا تو راستہ میں اسے ایک میٹھے پانی کا کنواں ملااس نے اس کنویں سے پانی پیااتنا میٹھا پانی اس نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں پیا تھا وہ سمجھا شاید یہ پانی کی کوئی انمول اورنایاب قسم ہے اس نے سوچا کہ وہ بادشاہ سے ملنے جارہا ہے تو کیوں نہ اس کے لئے بھی تحفے کے طور پر پانی لے جائے جب وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا تو اس نے بادشاہ کو اپنی درخواست پیش کی اور وہی پانی تحفے کے طور پر بادشاہ کہ یہ کہتے ہوئے دیا کہ”بادشاہ سلامت آپ نے اتنا میٹھا پانی اپنی زندگی میں کبھی نہیں پیا ہوگا“ بادشاہ نے پانی پیا اسے اس پانی میں کوئی خاص بات نظر نہ آئی لیکن اس نے اس کا مسئلہ حل کیا اور انعام وکرام دیکر رخصت کیا لیکن اس سے ایک شرط رکھی کہ وہ اپنا سفر یہیں ختم کرے گا اور یہیں سے واپس اپنی بستی لوٹ جائے گا“ اس نے بادشاہ کے حکم کی تکمیل کی اور انعامات لیکر واپس لوٹ گیا بادشاہ کے وزیر نےاس سے دریافت کیا کہ ”آپ نے اس صحرائی کو یہیں سے واپس لوٹ جانے کا کیوں کہا؟“تو بادشاہ کہنے لگا کہ وہ بے چارا اتنا بھولا اور سادہ لوح ہے کہ پانی کی میٹھے ذائقہ سے ہی آشنا نہیں تھا اور ایک عام پانی کو بڑا نایاب سمجھ رہا تھا میں نے اسے یہیں سے واپس اسے لیے بھیج دیاہے کہ وہ اگر میرے دوسرے شہروں میں جاتا تو دیکھتا کہ اس سے بھی بہتر پانی ہمارے ملک میں موجو د ہے وہ اگر پانی کے اصلی ذائقہ سے آشنا ہوجاتا تو اسے نایا ب نہیں سمجھتا اور شاید اسی قسم کے پانی کا مطالبہ سارے علاقے کے لیے کر دیتا“یہ واقعہ سنا کر بابا جی کہنے لگے ”اصل میں اس سے ملنے سے پہلے تم بھی محبت کے اس ذائقہ سے آشنا نہیں تھے اس لیے تمہاری زندگی سکون سے گزر رہی تھی اور تم بھی کڑوے پانی کو ہی میٹھا سمجھ رہے تھے لیکن جب سے اس نے تمہیں میٹھے پانی کی مٹھاس سے آشنا کراد یاہے تمہاری زندگی سے سکون غائب ہوگیا ہے اور یہ سکون اب کبھی آئے گا بھی نہیں ۔۔۔“ اس نے اضطرب بھرے لہجے میں پھر سوال کیا ”تو کیا پھر میں اس بے سکونی و بے چینی کو اپنا مقدر سمجھ لوں“
بابا جی پھر مسکرائے اطمینان نے پھر ان کے چہرے کو اپنی آغوش میں لے لیا کہنے لگے” نہیں۔ بالکل نہیں۔۔۔۔۔ تم اس محسن کے دئے ہوئے اس انمول ونایاب تحفے کو لوگوں میں بانٹ دو۔۔۔۔۔۔ اس مٹھاس کو اپنے لہجے میں لے آﺅ۔۔۔۔۔

میں جانتا ہوں اس مٹھاس کا قحط تمہیں تاریکی میں جلنے والی شمع کی طرح کر دےگا اور لمحہ بہ لمحہ تمہارا وجود اس بے چینی کی آگ میں جل کر کم ہونا شروع جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یاد رکھوکہ شمع خود تو جل کر راکھ ہوجاتی ہے لیکن اس کی روشنی  کئی گم راہ مسافروں کو جانب ِمنزل سفر کا موقع دے دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔“
باباجی پھر مسکرائے لیکن ان کی آنکھوں میں نمی سی تیرنا شروع ہوگئی تھی جیسے وہ بھی تاریکی میں جلنے والی کوئی شمع ہوں


مکمل تحریر  »

20/11/12

نعم البدل

آج اس کے لہجے میں غصے اورمایوسی کے ساتھ گستاخانہ پن کی جھلک بھی شامل تھی وہ کہنے لگا ”بابا جی آپ کی ساری باتیں بھی سچ نہیں ہیں آپ کا سارا فلسفہ بھی حقیقت کے قریب نہیں ہے “باباجی کما ل اطمینان سے مسکر ا دئے اور کہنے لگے ”عزیزم میں نے پیغمبری کا دعویٰ تو کبھی نہیں کیا اور نہ ہی اپنوں باتوں کو وحی کا درجہ دیا ہے البتہ تم بتاﺅ کیا ہوا ہے؟ “ وہ اسی بے چینی سے گویا ہوا جو اس کی طبعیت کا خاصہ تھی ”باباجی آپ نے کہا تھا کہ ، انسان کے اندر بھو ل جانے کی صلاحیت بہت بڑ ی نعمت ہے اور کسی کو بھلانے کے لیے وقت بہت بڑا مرہم ہے  آپ نے کہا تھا کہ جسطرح ایک کھیل میں اچھا کھیلنے والا کھلاڑی ،ایک اداکار کی اداکاری اورایک گلوکار کی موسیقی کانوں کو بھلی لگ جائے تو انسان ان پر فریفتہ ہوجاتا ہے لیکن جوں ہی کوئی نیا کھلاڑی ، کوئی نیا اداکار یا کوئی نیا گلوکار ان سے بہتر فن کا مظاہرہ کرے تو انسان پرانوں کو بھول کر نئے آنے والوں کو دل میں بسا لیتا ہے ،اور آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ پرانے چہرے نئے چہروں کی جگہ لے لیتے ہیں ، نئی محبتیں پرانی محبتوں کی یاد بھلا دیتی ہیں زندگی میں نئے آنے والے چھوڑ کے جانے والوں کا نعم البدل بن سکتی ہیں ۔ آپ کی انہی باتوں کو سن کر میں نے نئے تعلقات ، نئی دوستیاں اور نئے رشتے تلاش کرنی کی کوشش کی لیکن کوئی نیا چہرہ اس دلنشین چہرے کو آنکھوں سے ہٹا نہیں سکا کوئی نیا عکس اس پرانے عکس کا نعم البدل نہیں بن سکا“ بابا جی مسکرا دئے کہنے لگے ”دل و جسم کے رشتے اور ہوتے ہیں اور روح کے تعلق اور ہوتے ہیں ۔۔روح کے رشتوں میں کسی پہلے کی حیثیت ثانوی نہیں ہوتی ۔۔۔کوئی نیا جسمانی رشتہ پرانے روحانی رشتہ کانعم البدل نہیں ہوسکتا۔۔تم دیو داس کی طرح اپنی ”پارو“ کو اگر کسی ”چندر مکھی “ کے جسم میں ساری زندگی ڈھونڈتے بھی رہو تو کبھی کامیاب نہیں ہوگے “ 

مکمل تحریر  »

18/11/12

سانچہ

اس کے گاﺅں میں ایک بہت ہی خوبصورت درخت تھا جس کے بارے عجیب عجیب قصے بھی مشہور تھے کسی نے اسے کہا کہ اس درخت میں ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ جب کسی کو کوئی دکھ پہنچے تو اگروہ اس درخت کو آکر گلے لگالے اور اپنے دل کا حال سنالے تویہ درخت اس کا غم جذب کر لیتا تھا وہ ایک پڑھا لکھا سمجھ بوجھ والا شخص تھا ان باتوں کو توہمات سمجھتا تھا لیکن ایک دن اس نے یوں ہی آزمانے کے لئے درخت کو گلے لگایا اور اپنے دل کا حال سنانا شروع کر دیاباتیں ختم ہوئیں تو اسے محسوس ہوا کہ اس کے غموں کا بوجھ واقعی ہلکا ہوگیا ہے وہ ہنستا مسکراتاواپس لوٹا
اس کے بعد اس نے اپنی عادت ہی بنا لی کہ اسے جب بھی کوئی چوٹ پہنچتی کوئی دردملتا جب بھی کسی غم سے اس کا ناتا جڑتا اوراس کادل غمگین ہوتاتو وہ اس درخت کو گلے لگالیتا اور چیخیں مارمار کر اسے اپنے دل کا حال سنانا شروع کر دیتا جب وہ واپس لوٹتا تو اپنے آپ کو ہلکا محسوس کرتا عقل اور شعور کی ساری بحثیں اس احساس اطمینان کے سامنے مات کھاجاتیں جو اسے بعد میں نصیب آتا تھا اسے آہستہ آہستہ محسوس ہوا کہ وہ اس شجر کا اسیر ہونا شروع ہوگیا تھا اسنے اس درخت سے دوستی کر لی تھی اسنے سنا تھآ کہ دوست وہی ہوتا ہے جس کو سارے غم سنادیں تو غموں کو بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے چاہے وہ غموں کو کم کرنے میں کچح بھی نہ کر سکتا ہو
گاﺅں کے کچھ لوگوں کو جب پتہ چلا کہ ایک شخص ایک شجر سے باتیں کرتا ہے تو انہوں نے مختلف چہ مہ گوئیاں شروع کر دیں اور اسے پاگل کہنا شروع کردیا گاﺅں کے مولوی کوخبر ہوئی تو اسنے اس پر شرک کا فتوی ٰ داغ دیا کہ یہ ایک شجر کی پوجا کرنا شروع ہوگیا ہے مولوی نے گاﺅں کے لوگوں کو بھڑکانا شروع کر دیا اور اس بات پر اکسایا کہ فساد کی جڑ اس درخت کو ہی کا ٹ دیا جائے
 وہ درخت اس کا دوست تھآ اس کا  آخری سہارا تھا جس کی بنا پر اسے غموں سے نجات ملتی تھی وہ مولوی صاحب کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا اور عرض گزار ہوا کہ اس درخت کو نہ کاٹاجاے کہ یہ فطرت کی نشانی ہے اور وعدہ کیا کہ وہ کبھی اس درخت کوگلے نہیں لگائے گا اس کے اس وعدہ کے بعد گاﺅں والوں نے درخت کا ٹنے کا ارادہ ترک کر دیا معاشرہ جیت گیا، ریت رواج جیت گئے اور دوستی کا رشتہ ہار گیا اس نے درخت کے پاس جانا بھی چھوڑ دیا اور اسے اپنا حال سنانابھی چھوڑ دیا لیکن آج بھی جب غم کی گھٹا ٹوپ راتوں میں اس کا دل کسی کو گلے لگاکر اپنے حال سنانے کو کرتا ہے تو اسے وہ درخت بہت یاد آتا ہے
لیکن کیا کریں کہ رسم ورواج کی اس دنیامیں ہم نے ہر رشتہ ہر ناتا اور ہر تعلق کو ایک نام کے سانچے میں ڈالا ہوا ہے اسی لئے ہمیں ہر اس تعلق ہراس ناتے اور ہر اس رشتہ کی سمجھ نہیں آتی جو ہمارے بنائے ہوئے رسم ورواج کے سانچے میں نہ سمائے جب تک کسی بھی تعلق کو کوئی نام نہ دیا جائے وہ غیر فطری سمجھا جاتا ہے حالانکہ اتنی خوبصورت دنیا میں قدرت کی سب نشانیوں میں سے کسی سے بھی محبت ہوجانا عین فطرت کا ہی مظاہرہ ہے 

مکمل تحریر  »

07/11/12

راحت

جو چیزیں انسا ن کوراحت کا احساس دلاتی ہیںان کا انحصار اس بات پرہے کہ وہ انسان کی طبیعت کوکتنی بھلی محسوس ہوں جیسے خوبصورت رنگ اور سبزہ آنکھوں کوسکون دیتا ہے اسی طرح قدرتی مناظراور بہتا پانی ذہن کو ، عقل و شعور کی باتیں دماغ کو، خو شبوناک اور سونگھنے کی حس کو ، لذیذ کھانے قوت ذائقہ کواور دلکش و سریلی آوازیں کانوں کو راحت پہنچاتی ہیںلیکن راحت اور مسرت کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسا عمل ہو جو انسانی احساسات میں ارتعاش پیدا کرے اور مسرت سے آگاہی ممکن بنائے خوشی کا احساس اس آگ کی طرح ہوتا ہے جو پتھر میں پوشیدہ تو ہوتی ہے لیکن عام حالات میں نظر نہیں آتی لیکن جوں ہی اس پتھر پر ضرب لگائی جائی تو اس کے اندر ارتعاش پیدا ہوتے ہی وہ اپنے اندر چھپی آگ کو باہر نکال دیتا ہے پرندوں کی چہچہاہٹ ، عصر کی اذان ، صبح کی تلاوت اور نعت کے میٹھے بول یہ سب ایسے سریلے احساسات ہیں جن کے سننے سے انسان کی اندورنی دنیا میں راحت و فرحت پیدا ہوتی ہے انسانی طبیعت میں یہ فرحت یہ خوشی پہلے سے موجود ہوتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ انسان کے پتھر دل پر ضرب لگانے کے لئے کسی آرٹسٹ کی ضرورت ہوتی ہے جو اس احساس کو باہر نکالنے کا سبب بنے انسان کی خوشی اس بات میں بھی مضمر ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو پہچان لے کہ کونسی ضرب اس کے پتھر دل میں ارتعاش پیدا کرنے اور اس کے اندر ونی حرارت باہر نکالنے کا سبب بن سکتی ہے
انسان کی طبیعت شاد ہو تو فطری سے بات ہے کہ وہ کچھ گنگناتا شروع کر دیتا ہے زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب انسانی معاشرہ میںمادیت پرستی نے عروج نہیں پکڑ اتھا اور انسان نے خواہشات کے گودام بھرنے کا مشغلہ نہیں اپنا یا تھاتو شام ڈھلتے ہی دیہات کے پر سکون ماحول میں ایک طرف فضاﺅں میں قطار در قطار پنچھی اپنے ٹھکانوں کو لوٹتے تھے تو دوسری جانب کہیں دن بھر کھیتوں میں مشقت کرنے والا کسان اپنے ڈھور ڈنگر کے ساتھ” ماہیے “گنگناتا واپس گاﺅں کولوٹتا تھاتو کہیں شہر کا فیکٹری ورکر اپنی سائیکل پر شاداں وفرحاں اپنے راہ تکتے گھروالوں کے پاس لوٹنے کے لئے اپنے ہونٹوں پرہلکی سی سیٹی سجاتا تھا یوں تو ”سیٹی گم ہونا “کامحاورہ کسی مشکل میں پھنس جانے کی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن پاکستانی بالخصوص خوش ہونا اور خوشی سے محظوظ ہونا بھول گئے ہیں اس بات کا اندازہ مجھے گزشتہ دنوں اٹلی کے شہر میلان میں پاکستان کی دنیائے موسیقی کے شہنشاہ راحت فتح علی خان کا کنسرٹ دیکھنے سے ہوا راحت ان دنوں ورلڈ ٹور پر تھے اور ان کے ٹور کا آخری پروگرام فیشن کی دنیا میں اپنا بلندمقام رکھنے والے شہر میلان میں تھا
راحت فتح علی خان کو کون نہیں جانتا اس وقت انڈین، پاکستانی اور بنگلہ دیشیوں کے علاوہ شایدہی کوئی ایسا اردو سمجھنے والا ہو جو اس کی شہرہ آفاق موسیقی سے بے خبر ہو ،راحت فتح علی خان کے تعارف کراتے ہوئے انہیں نصرت فتح علی خان کا بھتیجا بتا نا ان کے فن کے ساتھ ناانصافی ہے کیونکہ جب اتنا بڑا نام ان کے ساتھ جڑتا ہے تو ان کا قد چھوٹا لگنا شروع ہوجاتا ہے جیسے کسی چوٹی کا مقابلہ کسی بلند پہا ڑسے نہیں کرنا چاہیے اسی طرح ان کے تعارف میں نصرت فتح علی کا حوالہ نہیں دیا جانا چاہیے اگرکچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قسمت کی دیوی راحت فتح علی خان پر مہربان ہے تو انہیں شاید راحت کو سننے کا موقع نہیں ملا کیونکہ وہ اگر انہیں سن لیں تو انہیں اندازہ ہوکہ راحت کی کامیابی میں قسمت کی بجائے اس کی ذاتی محنت کا کتنا بڑا عمل دخل ہے
پاکستانیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں اپنے ہیرے کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کسی غیر کے ماتھے پر چمکنا شروع ہوتا ہے راحت فتح علی خان کی عالمی سطح پر کامیابیوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب وہ پڑوسی ملک کے فلم سازوں کے ہاتھ آیااورانڈیامیں کامیاب ہونے والی فلمیں اس کے ہر دلعزیز گیتوں کی مرہون منت ہونے لگیں فلم" دبنگ " کے ایک گیت پر انہیں چار ایوارڈ ملے جن میں آئیفا ایوارڈ سرفہرست ہے 2010ءمیں شاہ رخ خان کی فلم " مائی نیم از خان" کے لئے راحت کے میوزک نے وہ مقام بنایا کہ اٹلی میں اس کی جب اطالوی ڈبنگ ریلیز ہوئی تو وہ اطالوی بھی اس پر سر دھنتے پائے گئے جنہیں اردو کی سمجھ ہی نہیںہے بالی وڈ فلموں میں اسکے گیت سال کے سب سے زیادہ سنے جانے والے گانوں کا ٹائیٹل بھی لینا شروع ہوگئے اور آخر راحت فتح علی خان کے گانے " تیری میری ، میری تیری پریم کہانی"کی دنیا بھر میں مچی دھوم کی بدولت انڈیا کی معمولی نوعیت کی فلم بھی ڈیڑھ ارب روپے کا ریکارڈ بزنس کرگئی گزشتہ دنوں انہیں اسی گیت کی بنا پر لندن میں اس عشرے کا بیسٹ ایشیائی سنگر کے ایوارڈسے بھی نواز ا گیا
راحت نے 2003ءمیں بھارتی فلموں سے گیتوں کا سفر شروع کیا توہٹ گانوں کی لائین لگادی اخبارات میں یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ راحت فتح علی خان بیرون ممالک میں ایک پروگرام کا معاوضہ ایک لاکھ امریکی ڈالر لینے والے پہلے پاکستانی گلوکار بھی بن گئے ہیںایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق وہ پہلے پاکستانی گلوکار ہیں جنہیں امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپ سمیت دیگر ممالک میں پرفارم کرنے کے فی شو ایک لاکھ امریکی ڈالر ادا کئے جارہے ہیں جبکہ وہ پاکستان میں ایک شو میں پرفارم کرنے کا معاوضہ بیس سے پچیس لاکھ روپے وصول کرتے رہے ہیں راحت فتح علی خان کے منیجرکے مطابق ایک لاکھ امریکی ڈالر صرف راحت فتح علی خان کی پرفارمنس فیس ہے جبکہ بیرون ملک جانے کے لئے بیس سے زائد افراد پر مشتمل ٹیم کی ائیر ٹکٹنگ، فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام اور دیگر مراعات کے اخراجات پروموٹرز کے ذمے ہوتے ہیںڈیڑھ ارب کے باسیوںکا ملک انڈیا جن کا اوڑھنا بچھونا موسیقی ہے اور جو موسیقی کو اپنی دیوی ”سرس وتی “ کی دَین سمجھتے ہیں ان کے ملک میں جاکرہمارے سنجیدہ گائیک اپنے فن کا لوہا منوارہے ہیں اور ان سے اپنے گھٹنوں کو ہاتھ لگوا رہے ہیں اور دوسرے جانب ہمارے ملک کی حالت یہ ہے کہ ہم بازاری گانوں اور گھٹیا شاعری کو عروج دے رہے ہیں تاکہ اس ملک سے آرٹ و فن کا دیوالیہ نکل جائے
 میلان میں ہونے والے شو میں اٹلی میں پاکستانی قونصلیٹ سے قونصل جنرل زاہد علی خان کے علاوہ پاکستانیوں کی قلیل تعداد موجود تھی لیکن انڈیا اور بنگلہ دیش کے شہری اپنی اپنی فیملیوں کے ہمراہ بڑے پر جوش طریقے سے اس کنسرٹ میں شامل ہوئے اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم پاکستان سے آنے والے سیاسی کلاکاروں کے جھانسے میں آکر تو ہزاروں یورو خرچ کر سکتے ہیںلیکن ہم نہ تو فن کے قدر دان ہیں اور نہ ہی ہم آرٹ شناس ہیں چھ سات سو شائقین ِموسیقی میں فخر پاکستان راحت فتح علی خان کے اپنے دیس سے شامل ہونے والے اوورسیز پاکستانیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی لیکن راحت فتح علی خان بڑے فخر سے اپنا اور اپنے گروپ کا تعارف بحیثیت پاکستانی ہی کراتے رہے
اگرکوئی شخص کسی بھی فن ،کھیل یا آرٹ میں اپنا لوہا منوا لے تواس کے چاہنے والوں میں سرحدوں کی بندش ختم ہوجاتی ہے جب لوگ کسی کی عزت اسکے فن کی بنا پر کرنے لگیں تووہ سب کے دلوں پر راج کرنا شروع ہوجاتا ہے کسی بھی صحت مند معاشرے کی ترویج میں فن اور آرٹ مثبت کردار ادا کرتے ہیں بین الاقوامی سطح پر امن کی کاوشوں میں سب سے اہم کردارکسی بھی ملک کے آرٹسٹ ، کھلاڑی ، فنکار اور گلوکار ہی بہتر طریقے سے ادا کرسکتے ہیں کیونکہ ان کے فن کے مظاہرہ میں کسی ہتھیار ، کسی بندوق اور کسی بارود کی ضرور ت نہیں ہوتی اور نہ ہی فن وآرٹ کی دنیا کسی ملک ،کسی علاقہ یا کسی سرحد کی جاگیر ہوتی ہے جب کوئی آرٹسٹ سب میں ہر دلعزیز ہوجاتا ہے تو پھر ہر ملک کے شہری کو وہ اپنا لگتا ہے میلان کنسرٹ میں بھی راحت کی موسیقی نے پاکستانی، انڈین ، بنگلہ دیشی ، افغانی اور اطالوی باشندوں کو ایک لڑی میں پرو دیا تھاان کی درمیان دوریوں کی دیواریں ہٹ گئی تھیں اور وہ اسی کے رنگ میں رنگے گئے ان کے چہرے پر ابھرنے والی شادمانیوں سے اندازہ ہوتاتھا کہ راحت فتح علی خان کو پتھر دلوں پر ضرب لگا کر خوشی کی حرارت باہر نکالنے کا فن آتا ہے وہ گا تو بیٹھ کر رہے تھے لیکن ان کے فن میں اتنی طاقت تھی کہ سامنے کرسیوں پر بیٹھنے والے بار بار پاﺅں پر کھڑے ہوجانے پر مجبورہوجاتے تھے راحت نے کنسرٹ ہال کی انتظامیہ اور موسیقی سننے آنے والے اطالوی باشندیوں کے سامنے یہ ثابت کر دیا کہ اگر انسان کے فن میں کمال ہو تووہ اچھل کود کئے بغیر ”اللہ ہو اللہ ہو “کی ضرب لگا کر لوگوں کو دلوں پر دستک دے سکتا ہے اور ان پر وجدکی کیفیت طاری کر سکتا ہے

مکمل تحریر  »

04/11/12

موت سے اٹلی تک کا سفر

موت سے اٹلی تک کا سفر
  تحریرمحمود اصغر چودھری 
 
ہجرت انسانی سرشت میں تب سے شامل رہی ہے جب سے انسان اس دنیا میں بھیجا گیا ہے ،بالکل اسی طرح جب کوئی انسان سخت گرمی میں موٹے کپڑے اتارنے اور سخت سردی کی صورت میں موٹے کپڑے یا سویٹر پہننے کی کوشش کرتا ہے یہ چیزبھی اس کی فطرت میں ہے کہ جب اس پرجیناتنگ اور مرنا مشکل ہوجاتا ہے تو وہ ایک شہرکو چھوڑ کر دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر اختیار کرتا ہے ۔ جس طرح انسان نے پانی کی تلاش میں دریاﺅں اور چشموں کے نزدیک شہر آباد کئے ،بالکل اسی طرح جب اس کی زندگی کوافلاس ،غربت ،جنگوں یا دہشت گردی جیسی عفریت کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے فوری طور پر ایک مقام سے دوسرے مقام منتقل ہونے میں کبھی دیر نہ کی اٹلی میں امیگریشن پر جاری بحث نے بہت سے ممالک کے باشندوں کو اس جانب ہجرت پر مجبور کیاہے ،گزشتہ دنو ں اٹلی کے ساحلوں پر افریقہ کے غریب ترین ممالک ایریتریا سے ایک کشتی پہنچی ہے جو وہاں سے روانہ ہوتے ہوئے تو 78افراد پر مشتمل تھی مگر اٹلی پہنچنے تک ان کی تعداد5 رہ گئی،73افراد اپنی آخری منزل یعنی موت کی جانب روانہ ہوگئے موت کا سمندر پار کر کے آنے والے ان پانچ مسافروں کو اٹلی کے حالیہ قانون کے تحت مجرموں کی لسٹ میں شامل کیا گیا ہے ،کیوں کہ ائیر کنڈیشنڈ پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے اور کئی سالوں تک ان ممالک میں کالونیزم کے ذریعے انکو اپنا غلام بنانے والے اب نہیں چاہتے کہ انسان اپنی سرشت اور فطرت کے عین مطابق رونما ہونے والے عمل کا ارتکاب کرے ، ان کے خیال میں گرمی میں کپڑے نہ اتارنا اور سردی میں ٹھٹرتے رہنا غیر فطری تو ہے مگر اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ بھوک افلاس ، سیاسی ابتری اور انہی کے غلاموں اور ان کی آشیر باد سے آنے والے حکمرانوں کے ظلم وستم سے تنگ آکر بھاگنے والے مجبور ، مقہور اور مظلوم افراد کو پناہ دی جائے
زندہ بچ جانے والوںمیں ایک لڑکی کا نام ”ٹیتی ٹازرار“ہے جس کا سفر21دن پہلے نہیں بلکہ ایک سال چار ماہ اور 21دن پہلے شروع ہوا تھا جوپانچ بہنوں اور ایک بھائی کی بہن ہے جس نے اپنی آنکھوں میں اٹلی کے سپنے سجائے ،کیونکہ اس کی سکھیوں نے کہا کہ زندگی ہے تو اٹلی میں،سکول میں فیل ہونے کی صورت میں اس پر لازم ہوگیا کہ وہ فوج میں ٹریننگ لے اسے فوج بالکل پسند نہیں وہ وہاں سے دو ماہ بعد ہی بھاگ جاتی ہے اورسات راتیںبسوں میں اور پیدل سفر کرتے گرتے پڑتے سوڈان پہنچتی ہے وہاں ایک فیملی کے ہاںصفائی کا کام کرتی ہے اور 250پاﺅنڈ ماہانہ تنخواہ جمع کرنا شروع کر دیتی ہے وہ اٹلی لانے والے دلالوں سے اٹلی آنے کی قیمت پوچھتی ہے تو اسے 900ڈالر بتایا جاتاہے یہ رقم جمع کرنے کے لئے اسے ایک سال لگ جاتا ہے یہ سفر لیبیا کے صحرا سے ہوتا ہواساحل سمندرتک پہنچاتا ہے وہاںایجنٹوں کی اپنی بستیاں ہیں جہاں وہ ان عورتوں سے کام کراتے ہیں ، ان کو خوراک وغیرہ دیتے ہیں اور ہر وہ کام کرتے یا کراتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں ہر شام کہتے ہیں کہ بس ابھی روانہ ہوتے ہیں اور اسی طرح کہتے ان کے چار ماہ گزار دیتے ہیں
پھر ایک شام بھگدڑ مچ جاتی ہے اور سب کو ایک کشتی میں سوار ہونے کا کہا جاتاہے کسی کو پتہ نہیں تھا کہ آج روانہ ہونا تھا کسی نے کوئی تیاری نہیں کی ہوئی تھی ، کسی نے کھانے کا سامان نہیں لیا سب کا خیال تھا کہ تھوڑے سے وقت میں وہ اٹلی کے ساحل پہنچ جائیں گے ،اور پھر ان کی جنت ان کے سامنے ، ”سنا ہے وہاں ایک شہر پانی میں ہے “پانی تو ان کے بھی چاروں طرف ہے ، اس کشتی میں دس سے پندرہ آدمی سوار ہوسکتے ہیں مگر اس میں 78افراد ٹھونس دئے جاتے ہیں ،جن میں 25عورتیں بھی شامل ہیں،اور ان عورتوں میں دو حاملہ ہیں، کون کھڑا ہے کون بیٹھا کون پھنسا ہواہے اور کون لٹکا ہوا کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا سب کو ایک ہی جنون ہے کہ جیسے تیسے اٹلی پہنچا جائے ان کا یہ سفر 28جولائی کو شروع ہوا ،سارے خوش ہیں کہ چلو تھوڑا سا تو سفر ہے یہاں کس کو پڑی ہے کہ فرسٹ کلاس کی سیٹ یا برتھ ہونی چاہیے خیالوںاور خوابوں میں گم سفر ہے کانوں میں” ایرس رامسوتی“ کے گانے ہیں، ایک پوری رات گزر جاتی ہے اور منزل نہیں آتی ، دوسرے دن دوپہر کو جب لڑکیوں کا خیال ہے کہ وہ پہنچنے والی ہیں کشتی کی موٹر بند ہوجاتی ہے ،ماجھی بتاتا ہے کہ اس کشتی کا پٹرول ختم ہوگیا ہے ،وہ سرخ بٹن بار بار دباتا ہے جیسا کہ اس کو ایجنٹوں نے بتایا تھا مگر موٹر آن نہیں ہوتی ،موٹر کا کوئی شور نہیںہوتا ، شور ہے توصرف موجوں کا، سمندر کی لہروں کا ،خوف کا ، ڈر کا اور موت کا ، کسی کو کچھ پتہ نہیں کیا کرنا ،کسی کو کشتی آن کرنا نہیں آتی ، مرد بار بار اس بٹن کو دبا کر اس میںجان ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں مگر نتیجہ صفر ، ان کے پاس جو پانی کی بوتلیں تھی ان میں پانی ختم ہورہا ہے ایک دوسرے کو مشورے دئیے جارہے ہیں،ان کے پاس روٹی کے جو ٹکڑے ہیں وہ آپس میں تقسیم کئے جارہے ہیں ، پھر رات آجاتی ہے اور خوف کا اندھیرا پھیلنا شروع ہوجاتا ہے ،کوئی روشنی نہیں ، کوئی بستی کوئی ٹھکانا نہیں ہر طرف پانی ہی پانی ہے کشتی موجوں کے سہارے ادھر سے ادھر خود ہی ہچکولے کھا رہی ہے ٹھنڈ ہوتی ہے تو عورتیں شال لے لیتی ہیں ،پھر اس طرح چار راتیں گزر جاتی ہیں ، ہوش جواب دے گئی ہے پہلے پہل انسانی ضرورت کے وقت شرم آتی تھی اور ایک چادر کا پردہ کر کے سمندر کی جانب منہ کر کے کشتی آہستہ کراکر کر لی جاتی تھی اور اب مایوسی ،بھوک اور خوف کے مارے شرم بھی نہیں آتی حالات خراب ہوگئے ہیں
مگر ساتویں دن صورت حال بدل جاتی ہے اب یہ سارے مسئلے ثانوی حیثیت اختیار کر گئے ہیں ،کیونکہ موت نے ان کے کشتی پر دستک دے دی ہے ان کا ایک بیس سالہ ہمسفر” ہدیش “ گزشتہ چار گھنٹوں سے قے کر رہا تھا ، اس کے دوست اسے لٹاتے ہیں اور وہ بے سدھ ہوگیا ہے کوئی نہیں جانتا کہ بے ہوش ہوا ہے کہ مر گیا ہے ،پھر دوسرے دن ”گینے “ کہتا ہے ” ہم سفر میں ہیں مگر وہ منزل پر پہنچ گیا ہے “ موت نے اس کی مشکل آسان کر دی ہے اس کے ہمسفر اسکے بوٹ اتارتے ہیں اور اس کی لاش کو سمندر کے حوالے کر دیتے ہیں ، ایک مسافر ”یاسف “اپنے ساتھ بائیبل لے کر آیا ہے وہ روز دوسروں کو پڑھ کر سناتا ہے ”اے خدا ہمارے حال پر رحم کر ، ہماری التجاﺅں کو سن لے “مگر خدا تو بے نیاز ہے ، سارے پریشان ہیں ”ٹیٹی“ بھی پریشان ہے کہ شاید یہ سفر کبھی ختم ہی نہیں ہوگا ، دوپہر کو سورج کی حدت انہیں بھوک اور پیاس سے زیادہ تنگ کرتے ہے رات کو سرد ی کی شدت انہیں بے حال کرتی ہے ،پٹرول کی بو اور کشتی میں جمع گندا پانی کی بو سے سب کا سر چکرا رہا ہے ،
ہر رو ز کوئی نہ کوئی مر رہا ہے کبھی ایک کبھی تین کبھی پانچ تو ایک دن پورے پندرہ ،کسی نے کہا کہ وہی مر رہے ہیں جنہوں نے سمندر کا پانی پیا ،ان کے چاروں طرف پانی ہی پانی اور ایک گھونٹ پانی انہیں پینے کے لئے میسر نہیںپھر ایک لڑکے کو انوکھا آئیڈیا آتا ہے کہ ایک خالی ڈرم لیاجائے اور اسے اچھی طرح دھو کر اس میںسب کا پیشاب جمع کیا جائے ، پھر اسے پیا جاتا ہے ،موت سے بچنے کے لئے کچھ بھی کیا جاتا ہے ،سوار عورتوں میں دو حاملہ بھی تھیں ، یہ ان کے ان مالک کی کارستانی ہوگی جس کے سامنے وہ ڈراور اٹلی جانے کی امید میں خاموش رہیں یا خاموش رکھی گئیں ،ایک عورت کا بچہ کشتی میں ہی ضائع ہوا ، ٹیٹی نے اس کی مدد کی مگر عورت کہنے لگی کوئی فائدہ نہیں اس زندگی سے موت اچھی ہے اور پانی میں چھلانگ لگا دی موت نے اس کی بھی مشکل آسان کردی ،” ٹیٹی“ کو رونا نہیں آیا کیوں کہ اس کے پاس رونے کی ہمت موجود نہیں رہی، وہ بائیبل کے وہی فقرے دھرانے کی کوشش کرتی ہے جو وہ کئی دنوں سے سن رہی تھی وہ سوچتی ہے جنگوں میں بھی ایسے ہی ہوتا ہوگا پھر ایک دن کچھ ماہی گیروں کی کشتی دور سے نظر آتی ہے وہ مدد کے لئے چلانا چاہتے ہیں مگر چلا نہیں سکتے ان کے پاس ہمت نہیں، ماہی گیر قریب آتے ہیں مگر جب کشتی میں لاشیں دیکھتے ہیں تو خوف کے مارے واپس کشتی بھگا لیتے ہیں ، جاتے جاتے ایک شاپر پھینکتے ہیں اس میں روٹی ہے اور پانی کی دوبوتلیں ، وہ کھانا کھانا چاہتی ہیں ، مگر اس کا گلہ فورا سب کچھ باہر پھینک دیتا ہے ،اتنے دنوں سے خالی معدہ اور خالی گلے پر وہ روٹی کا ٹکٹرا چھری کی طرح چبھتا ہے ، پانی سے کچھ ہمت ملتی ہے ، اور پھر ایک ہیلی کاپٹر آتا ہے ،شاید ماہی گیروں نے اطلاع کر دی ہوگی ، ہیلی کاپٹر سے لوگ نیچے اترتے ہیں مگر ان کا کوئی ارادہ ان کو ساتھ لے جانے کا نہیں وہ کشتی میں پٹرول ڈالتے ہیں ، موٹر چلاتے ہیںاور انہیں کشتی آن کر کے دیتے ہیں ،اور انہیں سمجھاتے ہیں کہ کیسے چلانا ہے اور پھر واپس چلے جاتے ہیں ایک رات اور ایک پورا دن پھر ایک آخری کشتی آتی ہے اس میں ان کو سوار کر لیتے ہیں ، ٹیٹی کو کوئی ہوش نہیں اسے اٹھا کر سوار کیا جاتا ہے ، اس کے منہ پر پانی پھینکا جاتا ہے ، وہ کئی دنوں سے ہسپتال میں ہے اٹلی میں بحث جاری ہے کہ موت کی وادی پار کر کے آنے والی ٹیتی کو 8اگست 2009ءسے لاگو ہونے والے قانون کے تحت پانچ ہزار یورو کا جرمانہ کیا جائے یا سیاسی پناہ دی جائے
انسانی حقو ق کی تنظیمیں اورعیسائی راہنما جو زندگی کی اہمیت کے لئے دن رات دعویٰ دار بنتے ہیں ان میں بحث چھڑ جاتی ہے سب کا کہنا ہے کہ ٹیٹی اور اس کے باقی چار ساتھیوں کو سیاسی پناہ دی جائے ، مگر میں سوچتا ہوں کہ یہ سمندر نجانے کتنے گھر اجاڑ چکا ہے کتنے یورپ آنے کے شیدائی کی لاشیں اس سمندر کی مچھلیوں کی خوراک بنی ہیں ، مگر نہیں اس میں سمندر کا کیا قصور ، کوئی پوچھے یہ ٹیٹی اور اس کے ہمسفر اس موت کے سفر کا آغاز کیوں کرتے ہیں ؟ ان کے اس قتل کا مجرم کون ہے جن کی لاش کو گورو کفن بھی میسر نہیں ہوا ، ان پر نہ کوئی رویا اور نہ کسی کی آنکھ کے آنسو بہے ، ان کی لاشیں ایک نیوز چینل کی خبر ہی تو ہےں کیا ان کو موت کی وادی میں دھکیلنے والے ایجنٹ مجرم ہیں یا پھر وہ حکمران مجرم جنہوں نے اس طرح کے حالات پیدا کر دئے کہ ان کو فطرت کے اصولوں کے عین مطابق ہجرت کرنا پڑی ، کیا دنیا کو جنگوں کی آگ میں جھونکنے والے مجرم ہیں کیا وہ پالیسی ساز مجرم ہیں جنہوں نے تیسری دنیا کو ہمیشہ محکوم بنا ئے رکھنے کا عہد کر رکھا ہے ، کیاچند کروڑ لوگوں کو تعیش کی زندگی دینے کے لئے ضروری ہے ، باقی اربوں باشندوں کو تعلیم ،حقوق اور جینے کے حق سے محروم رکھا جائے ، کیا تیسری دنیا کو غلام بنا کر رکھنے والے پالیسی سازوں کو موت کی ہچکیاں نہیں لگیں گی ؟ کیا خدا کی کچہری میں ان کی پیشی نہیں ہو گی؟



مکمل تحریر  »

مقابلہ

مقابلہ
 محمود اصغر چوہدری ایڈیٹر جذبہ اٹلی www.mahmoodch.com, mahmoodch1@gmail.com
کیا مقابلہ ان قوموں کا جو ہر افتاد کی توجیہہ تلاش کرنے اور اس کا تدارک کرنا قومی فریضہ سمجھیں اس قوم سے جو ہر مصیبت اور کٹھن لمحہ میں صرف اور صرف تقدیر کو مورد الزام ٹھہر ا کر اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرے کیا مقابلہ اس قوم کا جو کسی سانحہ پر تدبر ، تجزیہ اور سوچ کی راہ اختیار کرے اس قوم کے ساتھ جو ہر بات کو غیروں کی سازش قرار دے کر ساری ذمہ داری دوسروں پر ڈال دے اٹلی کی عدالت نے ایک قدرتی آفت پر تاریخی فیصلہ دیکر پوری دنیا کوسوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اٹلی والوں کے لئے ان کے شہریوں کی جان کی کیا قیمت ہے اٹلی کے شہر لا قولہ میں سال 2009ءکے ایک زلزلہ کے نتیجہ میں ہلاک ہونے والے چند شہریوں کے جانب سے حکومت کے خلاف کئے گئے ایک کیس میں عدالت نے ساڑھے تین سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے ملک کے قدرتی خطرات کے سب سے بڑے کمیشن کے سات اعلی ٰ عہدہ داران اور ملک کے نامی گرامی سائنسدانوں کو 6چھ سال قید کی سز ا سنادی ہے اور ملک کی وزارت عظمی ٰ کو مجرم قرار دیتے ہوئے متاثرین کو7.8ملین یورو ہرجانہ ادا کرنے کاحکم جاری کیاہے
واقعہ کچھ یوں ہے کہ اٹلی کے لاقولہ شہر میں دسمبر 2008ءمیں زلزلوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں وقفہ وقفہ سے ہلکے زلزلے آرہے تھے لوگ خوف اور ڈر کی کیفیت میں گھروں کے اندر سونہیں رہے تھے حکومتی سطح پر قدرتی آفات کے خطرہ کے لئے ایک کمیشن قائم ہے جس نے مورخہ 31مارچ 2009ءکو ایک اہم اجلاس بلایا جس میں ماہرین نے ان زلزلوںکی صورت حال اور مستقبل کی پشین گوئی کرناتھی صرف 45منٹ کے اجلاس کے بعد کمیشن نے اپنے علم و تجربات کی بنیا دپر اعلان کیا کہ شہر میں مزید کسی بڑے زلزلہ کا کوئی خطرہ نہیں ہے لوگوں نے حکومت کی جانب سے قائم کردہ اس اہم کمیشن کے اعلان پر بھروسہ کر لیا اور اپنے گھروں میں سکون کی نیند لینا شروع کر دی لیکن اس اعلان کے ٹھیک 5دن بعد مورخہ 6 اپریل 2009ءکو لاقولہ میں ہی 6.3درجہ سکیل کا زلزلہ آیا اورسارا شہر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں 309لوگ ہلاک اور 1500افراد زخمی ہوگئے
 اٹلی کی عدالت نے31مارچ 2009ءکی میٹنگ میں خطرہ نہ ہونے کااعلان کرنے والے اس وقت کے کمیشن کے صدرفرانکو باربیری اور کمیشن کے دیگراہم ممبران یعنی نائب صدرسول پروٹیکشن ، صدر برائے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ،صدر زلزلہ ڈیپارٹمنٹ اور جینوا یونیورسٹی کے فزکس کے ایک پروفیسرکو 29افراد کے قتل اور چار آدمیوں کے زخمی ہونے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 6سال قید کی سز ا سنائی ہے اور ملک کی وزارت عظمی ٰ کو بھی اس فیصلہ میں ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اسے حکم دیاہے کہ وہ متاثرہ علاقہ کو 7ملین یورو کا ہرجانہ ادا کرے
 سزاﺅں کی تاریخ میں یہ انوکھی اور بھاری سز اہے کیونکہ متاثرین کے وکلاءنے ماہرین کے لئے صرف 4سال قید کی سز ا کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن جج نے چھ چھ سال کی قید کی سزا سنائی ہے عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ ماہرین کی جانب سے ”پیشہ وارانہ تجاہل “ سے کام لیا گیا ہے جو ”خطرہ کی ناقص پشین گوئی“ کا سبب بنا اورجس کے نتیجہ میں جو معلومات دی گئی وہ ”نامکمل ، غلط، اور خطرہ کی نشاندہی کے حوالہ سے متضاد تھیں “
 اس فیصلہ کے بعداٹلی میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کیونکہ زلزلہ جیسی قدرتی آفات کے بارے میں وقت سے پہلے سو فیصدصحیح پشین گوئی نہیں کی جا سکتی حکومت کا موقف ہے کہ اس فیصلہ کے بعد ملک کے ماہر ین و سائنسدان اس اہم شعبہ میں کام کرنے سے کنی کترائیں گے اور مستقبل میں کسی ممکنہ سز ا کے خطرہ کے باعث یہ نوکری اختیار نہیں کریں گے لیکن میرے خیال میں اس قسم کے فیصلہ قوموں کی تقدیر بدلنے اور انہیں خدا کی کائنات میں پوشیدہ رازوں سے آشکار کرنے کے لئے مدد گار ثابت ہوتے ہیں
 آپ اپنے ملک پاکستان کا مقابلہ اس واقعہ سے کریں تو صرف 2005ءمیں آنے والا زلزلہ 82ہزار لوگوں کی ہلاکت کا سبب بنا اور حکومتی اداروں اور انتظامیہ کی معلومات کا عالم یہ تھا کہ ابتدائی لمحات میں انہیں پتہ ہی نہیں چل سکا تھا کہ کتنی بڑی تباہی ہوئی تھی حکومتی ترجمان بی بی سی کو ایک ہزار متاثرین کی اطلاعات دے رہی تھیں ، سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے اس وقت کے وزیر اطلاعات شیخ رشید نے راولپنڈی میں صرف ایک بچی کے مرنے کی اطلاع دی جو سکول سے واپس گھر آرہی تھی ملک کے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اسلام آباد میں ایک بلڈنگ کے نیچے ایک درجن افراد کے مرنے کی اطلاع دنیا کو دی چلیں یہ تو ابتدائی اطلاعات تھیں لیکن زلزلہ کے بعد حکومت نے کیا اقدامات کئے؟ کون سے شعبہ نے مستقبل کی کیا پالیسی مرتب کی ؟اس کے بارے کوئی نہیں جانتا صدر مشرف نے ماہرین پر نہیںبلکہ فوجیوں پر مشتمل جو ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا شعبہ بنایا اس کی کیا رپورٹ تھی؟
 چلیں خیر قدرتی آفات کی تو ذمہ داری پاکستان میں کون لے گا ہمارے ہاں تو عید کے دن ٹی وی پر خبر آتی ہے کہ ایک باپ عید قربان پراپنے پانچ بچے موٹر سائیکل پر بٹھا کر دوسرے شہر قربانی دکھانے لے جا رہا تھا اور انہیں شالیمار ایکسپریس نے اڑا دیا گھر میں صف ماتم بچھ گئی اس پر بھی ذمہ دار تقدیر کو ہی ٹھہرایا گیا ہوگااس قسم کے موٹر سائیکل سواروں کو کہاں سے ایسا لائسنس جاری ہوتا ہے جس کے تحت اتنی چھوٹی سی سواری پر پانچ بچے بٹھائے جا سکتے ہیں
ابھی ڈیڑھ ماہ پہلے لاہور کی ایک جوتا فیکٹری میں 29لوگ جل کر مر گئے بتایا گیا کہ فیکٹری کا جنریٹر ناقص تھا جس کی وجہ سے آگ لگ گئی اسی روز کراچی میں ایک اور فیکٹر ی میں 9آدمی جل کر مر گئے اس میں بھی خراب جنریٹر کو موردالزام ٹھہرایا گیا ان جنریٹر وں کا سرٹیفیکیٹ کون جاری کرتا ہے؟اور کیا کسی الیکٹریشن یا کسی جنریٹر کمپنی کوقیمتی جانوں کے ضیائع پر سزا ملتی ہے ستمبر کے ہی مہینے میں کراچی کی ایک ٹیکسٹائیل فیکٹری میں 300سے زیادہ لوگ جل کر راکھ ہوگئے اور ان پر انحصار کرنے والے ہزاروں افراد بے یارو مدد گار ہوگئے ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا کہ فیکٹری کا گزشتہ نو سال سے الیکٹریکل معائنہ نہیں ہواتھا فائر برگیڈ کے ذمہ داران کا کہنا تھا کہ فیکٹری کے اندر آگ بجھانے کا کوئی بندوبست نہیں تھا ، الیکٹرک فٹنگ ناقص اورخطرناک تھیں فیکٹری سے نکلنے کے سارے دروازے بنداور ایمرجینسی دروازہ پر تالاتھا اوپر والی منزلوں میں جو کھڑکیاں تھیں ان میں لوہے کی مضبوط سلاخیں تھیں جنہیں توڑنااور وہاں سے چھلانگ لگانا ناممکن تھا ہمارے ملک میں ان واقعات پر ہر دفعہ یہی خبر آتی ہے کہ صدر نے نوٹس لے لیے لیکن اس نوٹس کا کیا بنتا ہے اس کی کوئی خبر نہیں ملتی
حکومت پاکستان نے 1953ءسے بین الاقوامی کنونشن بھی سائین کیا ہوا ہے جس کے تحت فیکٹریوں اور کام کے دیگر شعبہ جات میں ورکروں کی سیکورٹی کے لئے انسپکشن حکومتی ماہرین پر لازم ہے ،پاکستان کے آئین کے تحت مزدوروں کے جان اور صحت میں خطرہ کی صورت میں حفاظت پاکستانی قوانین میں لازمی ہے لیکن حالت یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے دئے گئے آخری اعداد وشمار کے مطابق صرف سال 2008ءمیں 419ایسے حادثات ہوئے ہیں جن کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ کام کے سیکورٹی سے متعلق قوانین کی پابندی نہیں کی گئی تھی اس عید کی بھی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ کراچی ہی میں شیرشاہ میں گلبائی چوک کے قریب واقع کیمیکل فیکٹری میں اچانک لگنے والی آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری فیکٹری کو لپیٹ میں لے لیا، شہربھرکے فائربرگیڈرات بھرامدادی کام میں مصروف رہے کیمیکل کے ڈرم پھٹنے سے فیکٹری میں کئی دھماکے ہوچکے ہیں آگ نے فیکٹری کےساتھ اناج کے گوادم کو بھی لپیٹ میں لے لیا
ہمارے ملک میں ہر سال سیلاب ہماری فصلوں اور میویشیوں کو تباہ کر کے چلا جاتا ہے ، ٹریفک حادثات ہزاروں زندگیوں کو خاک کے طرح اڑا دیتے ہیں ،دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا اژدھاہزاروں انسانی جسموں کو نگل گیاہے ، ملاوٹ شدہ ادویات کئی زندگیوں کا چراغ گل کر گئی ہیں ،ہماری سڑکیں ریت کے طرح اڑجاتی ہیں ،پل کاغذ کی طرح بہہ جاتے ہیں ، بلڈنگیں زمین بوس ہوجاتی ہیں ، بچوں تک کے سکولوں کی چھتیں گر جاتی ہیں ، بسوں کو آگ لگ جاتی ہیں، ٹرینیں حادثوں کا شکار ہوجاتی ہیں ،بچے گٹروں کے ڈھکنوں کی عدم موجودگی میں گر کر ہلاک ہوجاتے ہیں ، ریلوے پھاٹک غائب ہوجاتے ہیں ، واپڈا کی تاریں ننگی ملتی ہیں لیکن کبھی کسی عدالتی قانون میں کبھی کسی انجینئر کو سز ا نہیں ہوتی ، کسی ٹھیکیدار کو عدالت کے سامنے نہیں لایا جاتا ،کسی میڈیکل کمپنی کسی ڈاکٹرکو سزا نہیں سنائی جاتی ، ایفی ڈرین تک کے کیس کو سیاسی سازش قرار دیا جاتا ہے ، ڈینگی مچھر کے تدارک نہ کرسکنے والی ماہرین کی کسی ٹیم کو سزا نہیں سنائی جاتی ٹریفک حادثہ میں کبھی کسی ایسی انسپکشن ٹیم کو قانون کے کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا جاتا جس نے ناقص گاڑیوں کو لائسنس جاری کیاکبھی کوئی ایسا سروے نہیں کیا جاتا کہ کتنی فیکٹریاںانسانی جان کی حفاظت کے قوانین پر پوری اترتی ہیں کتنے سکول بچوں کی تعداد کے لحاظ سے مناسب سیکورٹی انتظامات رکھتے ہیں کیونکہ انفرادی و اجتماعی طور پر ہم نے ہر سانحہ اور حادثہ کی ساری ذمہ داری تقدیر پر ڈالنا ہوتی ہے تدبیر سے ہمارا کوئی سرو کار نہیں اسی لیے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے کبھی اپنی اونٹنی کا گھٹنا باندھنا ضروری نہیں سمجھتے

مکمل تحریر  »

26/10/12

خوشیاں

حقیقی دوست صرف وہ نہیں جو تمہارے غم بانٹے بلکہ وہ ہے جو تمہاری خوشیوں کو بھی دوبالا کرے
اپنے اور پراءے کا صحیح انداز لگانا خوشیوں میں ممکن ہوتا ہےغم میں نہیں کیونکہ  
غم میں غمگین شکل بنا لینا تو بڑا آسان ہے
 لیکن کسی کی خوشیوں میں خوش ہونا بہت مشکل کام  ہے کیونکہ خوش ہونے کی ایکٹنگ نہیں کی جا سکتی خوشی کے تاثرات پیدا نہیں کیے جا سکتے بناوٹی ہنسی فوراًپکڑی جاتی ہے
اس لیے یہ پتا لگانے کے لیے کہ کوءی تمہیں  کتنا چاہتا ہے دیکھو کہ وہ تمہاری خوشیوں میں کتنا خوش ہوا ہے   

مکمل تحریر  »

22/10/12

Khawab

عذاب دے گا تو پھر خواب بھی دے گا
میں مطمئن ہوں میرا دل تری پناہ میں ہے ۔۔

مکمل تحریر  »

بھروسہ

وہ کہنے لگا بابا جی میں کس پر بھروسہ کروں انہوں نے بہت مختصرجواب دیا
 
کہنے لگے اس پر بھروسہ کرو جو تمہاری تین باتیں جان سکے
مسکراہٹ کے پیچھے دکھ
غصے کے پیچھے پیار
خاموشی کے پیچھے وجہ  

مکمل تحریر  »

certo

Certo che ti farò del male. Certo che me ne farai.
Certo che ce ne faremo.
Ma questa è la condizione stessa dell’esistenza.
Farsi primavera, significa accettare il rischio dell’inverno.
Farsi presenza, significa accettare il rischio dell’assenza.


Antoine de Saint-Exupéry

مکمل تحریر  »

20/10/12

وقت

 
 
جو زندگی تھی میرے یار وہ تیرے ساتھ گئ
کتاب عمر کے صفحوں میں بس اک اب وقت بھرنا باقی ہے 

مکمل تحریر  »

18/10/12

آنکھ مچولی

آءو آنکھ  مچولی کھیلیں اور ایک دوسرے کو تلاش کریں !
دیکھو !
اگر تم میرے دل میں چھپے ہو تو میرے لیئے تمہیں ڈھونڈ لینا دشوار نہیں ۔۔
لیکن اگر تم اپنی دیوار ہستی کے پیچھے چھپ گئے ہو تو لوگوں کا تم تک پہنچنا ایک سعی لاحاصل ہو گا ۔۔!
خلیل جبران


مکمل تحریر  »

خوش قسمت

کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں زندگی میں صرف غم جاناں ہی ہوتا ہے اور غم دوراں سے ان کا دور تک بھی واسطہ نہیں ہوتا 

مکمل تحریر  »

16/10/12

daulat

جس کے پاس ہو دولت وہی باکمال ہے
دین ودنیا کے سب عقدے دولت کے دم قدم سے حل ہوجاتے ہیں جو لوگ دولت سے نفرت کرتے ہیں وہ بیوقوف ہیں اور جو کما کر بھی اس کو استعمال میں نہیں لا تے یا اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے وہ بدقسمت ہیں جس طرح زمین کے سب گھڑے پانی سے بھر جاتے ہیں اسی طرح دولت مند کے سارے عیب اور سارے نقص روپے سے ڈھکے جاتے ہیں
اس کے مقاصد پورے ہوجاتے ہیں امیدیں بر لاتی ہیں، کامیابیاں قدم چومتی ہیں ادائیں ا
س کا طواف کرتی ہیں نظریں اس پر مرتکز ہوتی ہیں وہ توجہ و انہماک کے تخت پر بیٹھ کر شہرت والتفات کا تاج پہنتا ہے
 اگرکسی کے پاس دولت نہیں تواس کا فن بے قدری ،اس کا ہنر بے کاری اوراس کا کرداربے توجہی کا شکار ہوجاتا ہے
غریب اگر کسی محفل میں کبھی لب کشائی کرے تو گستاخوں کے زمرے میں آتا ہے ،اگر بالکل ہی خاموش رہے تو جاہل و بیوقوف گردانا جاتا ہے سچی اور کھری باتیں کرنا شروع کر دے توفتنہ انگیز سمجھا جاتا ہے عاجزی کا مظا ہرہ کرے تو خوشامدی مشہور ہوجاتا ہے اگر کسی کی خدمت میں تسلیم وآداب نہ بجا لائے تو بدتہذیب کہلاتا ہے اگر کسی کو عزت دے تو اس کی نیک سیرتی کو چاپلوسی سے تعبیر کیا جاتا ہے
اس کی دانشمندی کی باتیں عام سے سمجھی جاتی ہیں کیونکہ انسان کی قدر علم سے ہے اور علم کی قدر مال سے ہے اب تو عالم یہ ہے کہ دنیا میں جو علم دولت کمانا نہیں سکھاتا اسے علمِ نافع ہی خیال نہیں کیا جاتا مفلس انسان کے پھٹے پرانے کپڑے اسکے سارے عیب ظاہر کر دیتے ہیں دولت مندوں کے بڑے بڑے گناہ ان کی دولت چھپا لیتی ہے دولت ہونے سے انسان دوسروں کو بھول جاتا ہے اور دولت نہ ہونے سے لوگ اسے بھول جاتے ہیں
جس کے پاس دولت نہیں اس کی دنیا تو خراب ہے ہی اس کا دین اور اس کی آخرت کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں اس کی دنیا حسرت و یاس کا نام ہے اور ان کی آخرت روسیاہی ہو سکتی ہے کیونکہ مفلس شخص نہ صرف تنگ حال رہتا ہے بلکہ غالب امکان ہے کہ اس کے اندر خیانت ، بد دیانتی ، بے وفائی ، بے حمیتی و بے حیائی جیسے برے اوصاف پیدا ہوجائیں
کہتے ہیں کہ ایمان سب سے بڑی دولت ہے اور دولت سب سے بڑاا یمان ہے
مفلسی ہمیں فیا ضی سے محروم کر دیتی ہے اور تنگ دستی ہمدردی سے ناتا توڑنے کا سبب بنتی ہے ، بدی کے ساتھ مقابلہ کرنے کی اہلیت مفقود کر دیتی ہیں حق تو یہ ہے کہ مفلس شخص پانچوں ارکان اسلام میں سے کسی ایک رکن پر بھی کماحقہ پورا نہیں اترتا
نماز میں خشوع و خضوع ہونا ضروری ہے لیکن مفلس کے ذہن میں تو ہر وقت غم دوراں کا دور دورا ہوتا ہے وہ کیاحضوری کی کیفیت سے آشنا ہوگا۔ روزہ کے لئے اچھی غذا کا ہونا ضروری ہے اگر روزی نہ ہوگا تو روزے کیسے مکمل ہوں گے اگر کھانے کو کچھ نہیں ہے تو مفلس روز ہ ہی کھا جائے گا۔حج جیسا تکلف تو ویسے ہی وہ غریب شخص کیسے اٹھائے گا جس کے پاس ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کا آسرا نہیں ہے ۔زکواة دینے کی پوزیشن میں وہ کیا آئے گا جو دوسروں پر نظریں جمائے بیٹھا ہے ۔جہاد میں جانے کے لئے بھی اہل و عیال کے لئے سال چھ مہینے کا انتظام کر کے جانا ہوتا ہے

جہاں روپیہ بولنا شروع کرتاہے وہاں باقی سارے خاموش ہوجاتے ہیں جہاں دولتمند محوگفتگو ہوتا ہے وہاں غربت قطع کلامی نہیں کرتی
 کہتے ہیں کہ لفافہ یا تھیلا اگر خالی ہو تو وہ بھی سیدھا کھڑا نہیں ہوتا فوراً زمین پر لیٹ جاتا ہے ارسطو کا قول ہے کہ غربت انقلاب اور جرم کی ماں ہے ابرایم لنکن نے کہا تھا کہ ہر آدمی کی ایک قیمت ہوتی ہے جس سے وہ خریدا جا سکتا ہے نپولین نے کہا تھا کہ جنگ میں خدابھی انہی کے ساتھ ہوتا ہے جن کے پاس توپیںزیادہ ہوتی ہیںبانو قدسیہ نے کہا تھا کہ اب تو افسانوں میں بھی دوشیزائیں اس کے سپنے نہیں دیکھتیں جو سائیکل پر کالج آتے ہیں بلکہ نظریں انہی کو ڈھونڈتی ہیں جن کے پاس گاڑی اچھی ہو
 دولت مند بیوہ کے آنسو جلد خشک ہوجاتے ہیں اس کا نصف سہاگ تو دولت کی بنا پر ہی قائم رہتا ہے ، دولت پری کو شیشے میں اتار لیتی ہے ،دیو کو پنجر ے میں قید کرلیتی ہے قاتل کوسزا سے بچالیتی ہے بلکہ اب تو والدین کو بھی وہی بچہ اچھا لگتا ہے جو دولت کمانے میں کامیاب ہوجائے شاعر نے کہا کہ
اب تو ماں بھی۔۔۔۔
 پردیس سے آنے والے
 بیٹے کے روپے کی خوشی خبری
 پہ کان دھرے
 حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا کی دوڑ میں بھی کامیاب اسے ہی گردانا جاتا ہے جو دولت کمانے کی دوڑ میں کا میاب ہوگیا اسی کی بات کا وزن سمجھاجاتا ہے جس کی جیب کا وزن بھاری ہو بلکہ اب تو ”امیر“( لیڈر) بھی اسی کو مانا جا تا ہے جو روپے کے اعتبار سے بھی امیر (دولتمند )ہو آج امیر ملک غریب ملکوں کو غلام بنا کر رکھتے ہیں بنک امیر ملکوں کی اکانومی کنٹرول کرتے ہیں ، سرمایہ دار سیاستدانوں کی پالیسیاں تبدیل کراتے ہیں ، ٹھیکیدار میڈیا خرید لیتے ہیں ، کالم نگار اینکر پرسن اور ٹی وی مالکان دولت والوں کے در پر سلامی دیتے ہیں ،دولت والے حکومتیں تبدیل کرا لیتے ہیں
دولت اگر رذیل انسانوں کو میسر آجائے تو دوسروں کے لئے زندگی جہنم بنا دے لیکن اگر کسی اچھے انسان کو میسر آجائے تو وہ سب کی زندگیوں میں سکون لے آئے دولت اگر کسی مست شہنشاہ کے ہاتھ میں آجائے تو وہ اسے اپنی بیوی کی قبر پر تاج محل بنا کر لٹا دے اور اگر وہی دولت سر سید احمد خان کے ہاتھ میں آجائے تو وہ ظلم کی چکی میں پسنے والے غریب مسلمان کے بچوں پر تعلیم کے دروازے کھول دے ، دولت اگر فرعون و قارون کے ہاتھ میں آجائے تو وہ خدائی کا دعویٰ کر دے اور یہی دولت اگرحضرت خدیجہ ؓ یا پھر حضرت عثمان غنی ؓ کے ہاتھ میں آجائے تو وہ اسلام کی ترویج اور خلق خدا کی مدد کے لئے سرکار دوعالم  کے قدموں میں لاکر ڈھیر کردیں یہی دولت اگر دنیا کے آمروں اور بادشاہوں کے ہاتھ آجائے تو وہ عیاشی اور مستی میں خرچ کر دیں اور اگر یہی دولت ”بل گیٹ“ جیسے انسان کو میسر آجائے تو وہ مائیکرو سافٹ کی دنیا میں کمال کر کے دنیا کی سینکڑوں خیراتی کمپنیوں کے لئے وقف کر کے کمال کر دے لیکن کمال کرنے کے لئے پہلے شرط یہ ہے کہ آپ کے پاس دولت تو ہو



مکمل تحریر  »

24/09/12

Yaad

 
 
 
کوءی بھی وقت ہو غم اس کا مجھے  ڈھونڈ لیتا ہے
یہ  ایسا تیر ہے جس  کو   نشانہ    یاد     رہتا ہے 

مکمل تحریر  »

21/09/12

Udassi


مکمل تحریر  »

10/09/12

غم

بعض غم گناہوں کے اس بوجھ کی طرح ہوتے ہیں جن کی کبھی معافی نہیں آتی
 عمر قید کے نتیجے میں ملنے والی اس  جیل کی چکی کی طرح ہوتے ہیں جسے  چلاتے چلاتے ہاتھ شل ہوجائیں لیکن ان سے رہائی موت سے پہلے ممکن نہیں ہوتی
جو جوتے میں چبھے ہوئے اس کانٹے کی طرح ہوتے ہیں جو سارا رستہ آ پ کے پاءوں کو زخمی کرتے رہتے ہیں اور اس جوتے کو اتارنے یا بدلنے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا
وہ خون میں سرایت اس سرطان کی طرح ہوتے کہ جس پر ہر طبیب نے بھی اپنے ہاتھ کھڑے کر دئے ہوں کہ وہ بے بس ہے
 جوہاتھوں سے سرکنے والی ریت کے ان ذروں کی طرح ہوتے ہیں جنہیں جتنا زیادہ مٹھی میں دبایا جاءے دنیا سے چھپایا جاءے کہ کسی کو نظر نہ آئیں  اتنا ہی زیادہ پھسلتے ہیں کہ سب کو نظر آجاتے ہیں
بعض غم لاعلاج ہوتے اس عشق کی طرح جس میں وصال نہ ہوسکا اور ہجر قسمت ٹھہر گئی  

مکمل تحریر  »

07/09/12

certe persone


Ad un certo punto devi renderti conto che certe persone possono stare nel tuo cuore ma non nella tua vita.

مکمل تحریر  »

Inteha Pasandi

  اس کے لہجے سے محسوس ہورہا تھااس بار معاملہ ذرا سنجیدہ تھاوہ ایک اطالوی تنظیم کا صدرہے اور جب بھی ہمارے علاقہ میں موجود پاکستانیوں کے حوالے سے کوئی معاملہ ہوتا ہے تو وہ میرے ساتھ رابطہ کرتا ہے اس نے کہا کہ بات فون پر نہیں ہوسکتی مجھے ان سے ملنا پڑے گا میرا خیال تھا کہ پھر کسی پاکستانی نے اپنی بیوی کو پیٹا ہوگا اور پولیس کیس بن گیا ہوگا، کسی پاکستانی باپ نے اپنی بیٹی کو سکول جانے سے روک دیا ہوگا یاپھر کسی محلے کے اطالوی باشندوں سے کسی پاکستانی کا جھگڑا ہوگیا ہوگالیکن ملاقات کے بعد راز کھلا کہ بات واقعی سنجیدہ تھی ان کے شہر کے پادری نے اس تنظیم کی مدد مانگی تھی معاملہ ایک پاکستانی نوجوان کا تھا جو کچھ دنوں سے لگاتار ان کے چرچ میں جارہا تھا اور اس کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ وہ عیسائیت قبول کرنا چاہتا تھا چرچ کے پادری نے شروع میں اس معاملہ کو سنجیدگی سے نہ لیا اور اس لڑکے کے بارے تحقیق کرنا شروع کرد ی چند ہی دنوںکی چھان بین سے اسے پتہ چلاکہ دراصل لڑکے کو کسی اطالوی ہم جماعت لڑکی سے عشق ہوگیا تھا اور وہ اس کی بے پناہ محبت کی اسیری میں اپنا مذہب چھوڑنا چاہتا تھا لڑکی کے والدین نے اپنی بیٹی سے اس بارے پوچھا تو لڑکی کا کہنا تھا کہ اس نے اسے کبھی بھی ایک دوست سے بڑھ کر نہیں سوچا لڑکی کے گھر والے مذہبی تھے اس لئے پاکستانی لڑکے کے ذہن میں یہ ترکیب آئی کہ اگر وہ اپنا مذہب تبدیل کرلے تو پھرشاید وہ لڑکی کی ہمدردی یا محبت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے اس شہر کے پادری کا ہم سے یہ مطالبہ تھا کہ اس لڑکے کو سمجھایا جائے کہ ہم کسی بھی ایسے شخص کو اپنے مذہب میں خوش آمدید نہیں کہہ سکتے جو اس کی تعلیمات سے متاثر ہو کر نہیں بلکہ کسی لالچ یا کسی مفاد کے لئے آئے مجھے بہرحا ل حیرانی بھی ہوئی کہ اگرایسا ہی کوئی معاملہ کسی مولوی صاحب کے سامنے پیش آتا تو وہ شاید ایسی کوئی ارچن نہ ڈالتے بلکہ بڑے فخر سے لوگوں کو بتاتے کہ ان کی تعلیمات کی وجہ سے لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں آئے دنوں یورپ میں یہ خبریں گردش کرتی رہتی ہیں کہ فلاں جگہ پہ ایک عورت نے اسلام قبول کر لیا لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اسلام قبول کرتے ہی ان کی شادی بھی کسی مسلمان کے ساتھ ہوگئی مذہب کی تبدیلی کے ساتھ ہی شادی والا اتفاق عجیب ہے
جہاں تک تعلیمات اور اصول کا معاملہ ہے تو اسلام میں اس معاملہ میں بڑی چھان بین کا حکم ہے کہ اسلام قبول کرنے والا کسی لالچ ، دباﺅ یا خوف کی وجہ سے تو اسلام قبول نہیں کر رہااوراگر وہ کسی مفادیا ڈر کی وجہ سے اسلام میں آناچاہے تو علاقہ کے حکمران یا بااثر مسلمانوں پر واجب ہے کہ اسکی مدد کریں اور اسے یہ سمجھائیں کہ وہ اسلام کے آفاقی پیغام کو سمجھے اور پھر یہ مذہب اختیار کرے لیکن ہمارے ہاں چونکہ کریڈٹ لینے کی جلدی ہوتی ہے اس لئے اکثر اس بحث میں نہیں پڑتے یورپ میں ایک جگہ ایسی ہی کسی شادی سے پہلے اسلام قبول کرنے کے لئے مولوی صاحب کو بلایا گیا جب لڑکی کو کہا گیا کہ اپنے گلے میں لٹکی صلیب اتار دو تو وہ کہنے لگی اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟اسے گلے میں ہی رہنے دیں ۔۔تو اس کا پاکستانی شوہر بھی کہنے لگا اس کی خیر ہے آپ کلمہ پڑھائیں بعد میں پتہ چلا کہ موصوف کو شادی کی جلدی تھی کہ ان کی دوست حاملہ تھی لیکن اس ساری بحث کا مطلب یہ بھی نہیںکہ اکثریت ایسا ہی کرتی ہے کچھ لوگ خود بھی اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر مسلمان ہورہے ہیںشادی کی بنا پر اسلام قبول کرنے والوں میں ابھی تک کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی صرف یورپین خواتین کو مسلمان کرنے میں ہی کامیاب ہوئے ہیںجبکہ ان کے مقابلے میں مراکش اور تیونس کی عورتیں کافی زیادہ یورپین مردوں کو شادی کی بنیاد پر مسلمان کررہی ہیں یورپین معاشرہ سے نکل کر اگر ہم پاکستان جائیں تو ان دنوں وہاں بھی ہندو عورتوں کوزیادہ سے زیادہ مسلمان کیا جارہا ہے حیرت یہی ہے کہ سولہ سترہ سالہ بچیوں کو مسلمان کر کے ان کی شادی بھی فوراًکسی مسلمان مرد سے کر دی جاتی ہے جبکہ کسی کی توجہ ہندو مردوں پر نہیں جارہی ہے کہ انہیں بھی اسلام کی روشنی سے منور کیا جائے یا پھر پاکستان میں بھی ہم نے صرف عورتیں ہی مسلمان کرنی ہیں کہ وہ کمزور ہیں اللہ تعالی ٰ سورہ یونس میں ارشاد فرماتا ہے کہ ”تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے کہ وہ مومن ہوجائیں“ پاکستانی میڈیا میں یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ سینکڑوںہندو خاندان پاکستان چھوڑ کر ہندوستان جارہے ہیں کیونکہ وہ پاکستان میں اپنی جان ،مال ،عزت اور مذہب محفوظ نہیں سمجھتے ہمارے دانشوروں کا خیال ہے کہ یہ سب بھارتی لابی کا پراپیگنڈہ ہے جو پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے کیا جارہا ہے کہ ہمارے ملک میں اقلیتیں بڑی محفوظ ہیں
 ان سارے معاملات میں حکومت یا ریاست نام کی کوئی چیزنظر نہیں آرہی پاکستان بنانے کا مقصد تو یہی تھا کہ اس وقت کی مسلمان اقلیت کا خیال یہ تھا کہ متحدہ ہندوستان میں ان کے مذہبی حقوق کی ضمانت نہیں تھی اور و ہ ایک ایسا دیس بنانا چاہتے تھے جہاں سب کو مذہبی آزاد ی ہوگی بانی پاکستانی کے خطابات اور پاکستانی پرچم میں سفید رنگ اسی بات کی ضمانت تھی کہ یہاں اقلیتیں امن اور سلامتی سے رہیں گی تو اگر کہیں بھی اقلیتوں کے حقوق پر کوئی قدغن لگ رہی ہے تو یہ بات نہ صرف بحیثیت پاکستانی سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے بلکہ بحیثیت مسلمان بھی ایک سوالیہ نشان ضرور ہے کیونکہ اسلامی ریاست میں ایک غیرمسلم کے جان مال اور عزت کے حقوق مسلمانوں کے مساوی ہیں ایک غیر مسلم کا قصاص و دیت ایک مسلمان کے برابر ہے غیر مسلم کی عبادتگاہوں کا تحفظ مسلم ریاست کی ذمہ داری ہے امیر المونین حضرت عمر ؓاپنے دورخلافت میں غیر مسلم شہریوں میں سے ایک بوڑھے شخص کے پاس سے گزرے جو بھیک مانگ رہا تھاآپ نے فرمایا ”ہم نے تمہارے ساتھ انصاف نہیں کیا کہ ہم نے تمہاری جوانی میں تم سے ٹیکس وصول کیا پھر تمہارے بڑھاپے میں تمہیں بے یارو مدد گار چھوڑ دیا “اس کے بعد اس کی ضروریات کے مطابق بیت المال سے وظیفہ جاری کردیا حضرت عمر فاروقؓ کو اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی اقلیتوں کے حقو ق کااتنا خیا ل تھا کہ اپنی وصیت میں بھی ان کی حفاظت کا حکم دیا یورپین مورخین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ عرب مسلم حکمرانوں کے دور اقتدار میں عیسائی خود کواپنے ہم مذہب حکمرانوں سے بھی زیادہ محفوظ سمجھتے تھے دراصل یہ تعلیمات تھیں اس آفاقی پیغام کی جس میں خود اللہ تبارک و تعالی ٰ اپنے پاک کلام میں لااکرہ فی الدین”دین میں کوئی جبر نہیں “ کا سبق دیتا ہے اور یہ اثر تھا اس نبی رحمت ﷺ کی تربیت کاجنہوں نے جنگ کے بھی اصول وضع کئے جس میں غیر مسلموں کے بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں ، تاجروں ،کسانوں مزدوروں اورمذہبی راہنماﺅں یا پادریوںکے علاوہ بھی ہر اس شخص کا قتل منع کیا جو دوران جنگ غیر متحارب کا کردار ادا کر رہا ہواور تعلیمات تھیں اس کریم نبی ﷺ کی جس نے جنگ جیسے نفرت آمیز لمحات میں بھی درختوں اور پودوںکو کاٹنے یا جلانے مویشیوں ، چوپایوںکو ذبح کرنے یا لوٹنے اورگرجاگھر ودیگر عبادتگاہوں کو گرانے یا نقصان کرنے سے منع کیا
 آج کے مسلمان اور اسلام کے نام پر بننے والے ریاست کے پاکستانی کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایک چودہ سالہ لڑکی کوتوہین مذہب کے کیس میں پھنسانے کے لئے اس کے جلائے جانے والے کاغذات میں خود قرآن کے صفحے ڈال دیتا ہے اور اگر اس بچی کا جرم ثابت بھی ہو جائے تو کیا ہم مذہب کے نام پر اتنے جنونی ہیں کہ اس کے گھر والوں کو شہر چھوڑ کر بھاگ جانے پر مجبور کر دیں؟ اس کی ساری کمونٹی کی عزت غیر محفوظ بنا دیں؟ سینکڑوں لوگوںنے اس کے گھر کا محاصرہ کرکے پوری دنیا کو اسلام کا کو نساچہرہ دکھا یا ہے اللہ تبارک و تعالی ٰ تو سورہ المائدہ آیت نمبر ۸میں فرما رہے ہیں ”اے ایمان والو ۔اللہ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہوجاﺅ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔عدل کیا کرو وہ پرہیز گاری سے نزدیک تر ہے اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے “عدل کیا ہے ؟کہ ایک شخص کے جرم کی سز ا اس کی ساری قوم کو دی جائے پاکستانی میں اقلیتوں کی تعداد اتنی کم ہے اور وہ معاشی طور پر اتنے پسماندہ ہیں کہ شاید ہی کوئی اتنا متکبر ہو کہ وہ اکثریت کے نظریات کی توہین کرے پھر جانے کیوں ایسے واقعات سامنے آتے ہیں
شاید عالمی سیاست کا بدلہ پاکستانی شہری اپنے ہی ملک کی اقلیتوں سے لینا چاہتے ہیں یا پھر ملک میں انتہا پسندی تیزی سے عروج پکڑتی جارہی ہے ایک سال سے گلگت بلتستان اور بلوچستان میں شیعہ فرقہ کے افراد کو بسوں سے اتار کر قتل کیا جارہا ہے کراچی میں شیعہ اور سنی کمونٹی کو ٹارگٹ کلنگ کا سامناہے ان ساری باتوں کے محرکات جاننے کے لئے کسی سائنس کو سمجھنے کی ضرورت نہیں آپ یو ٹیوب پر چلے جائیں یا کسی بھی سوشل میڈیا کی ویب سائیٹ نکال لیں سوائے فرقہ وارانہ اور تعصب بھری گفتگو کہ آپ کو کچھ نہیں ملے گا انتہا پسندی کا عالم یہ ہے کہ کسی عام سے نوجوان نے بھی کوئی دینی بات شئیر کی ہوگی تو ساتھ ہی یہ دھمکی لکھی ہوگی کہ” اس کو آگے شئیر کرنے سے شیطان آپ کو روکے گا “یعنی انتہا پسندی کی حد یہ ہے کہ اگرکوئی اس پوسٹ کو آگے نہیں پہنچاتا تو اسے شیطان کا ساتھی سمجھا جائے آج کے نوجوان کا سارا اسلام مخالفین کی عورتوں کے پردہ کرنے یا نہ کرنے کی بحث پر ہے آج محفل میں بیٹھے ہوئے پاکستانی کے فون کی رنگ ٹون سے آپ اس کے مسلک یا فرقہ کا اندازہ لگا سکتے ہیں فیس بک و دیگر ویب سائٹس پر اولیا اللہ کی قبروں کے ساتھ جانوروں کی تصاویر ، صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں گستاخی والے جملے اور مسلمانوں میں ہی مخالف مسلک کے مذہبی و روحانی اکابرین کی توہین اور اہانت دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ اسی دین کے ماننے والے ہیں جو کافروں اور مشرکوں کے جھوٹے معبودوں کو گالی دینے سے بھی منع کرتا ہے ہماری قوم آہستہ آہستہ اخلاقی موت مر رہی ہے اس کے اندر برادشت ختم ہورہی اور انتہا پسندی کالاوا ابل رہا ہے اور کوئی بھی اس شعلہ برساتی آگ پر پانی ڈالنے کو تیار نہیں اسلام میانہ روی کا دین ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس امت مسلمہ اور ملت اسلامیہ کی پہچان یہی فرمائی ہے وکذلک جعلنکم امة وسطاً”اور اے مسلمانو اسی طرح ہم نے تمہیں اعتدال والی بہتر امت بنایا


مکمل تحریر  »

03/09/12

Ehsaas

حضرت ایوب ؑکو جب اپنی بیماری سے نجات ملی اور ان کی تکالیف دور ہوئی تو کسی نے سوال کیا کہ اب کیسا محسوس ہوتا ہے اللہ نے آپ کی پریشانی دور کر دی ہے اور صحت نصیب کی ہے فرمانے لگے کہ بیماری تو اب ٹھیک ہوگئی ہے لیکن ایک کمی سی محسوس ہوتی ہے کہ جب میں درد و کرب کی کیفیت میں مبتلا تھا تو دن کے چوبیس گھنٹوں میں کم ازکم ایک دفعہ میرا محبوب حقیقی مجھ سے سوال پوچھتا تھا کہ بتاﺅ کیاحا ل ہے ؟ بس اس کا یہ پوچھنا اتنا دلنشین ہوتا تھا کہ اس کی ایک ڈھارس سے میرا سارا دن شاد گزرتا تھا اور میں دردو الم کی کیفیت کو بھلاکراپنے دوست کے محبت بھرے انداز سے سارا دن اطمینان محسوس کرتا تھا اب صحت مل گئی ہے اور میں اس احساس یار کی لذت سے محروم ہوگیا ہوں

مکمل تحریر  »

28/08/12

Mitti

اطالوی پریس میں ایک خبر چھپی ہے کہ بولونیا کے نزدیک ایمولا میں عبدالعزیز نامی ایک بیس سالہ مراقشی نوجوان نے گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کر لی ہے خبر کے مطابق وہ گزشتہ پندرہ سال سے اٹلی میںرہائش پذیر تھا لیکن اس کے علاقہ کی پولیس اسٹیشن نے اس کے کاغذات کی تجدیدصرف اس لیے روک لی کہ عبدالعزیز کے پاس گزشتہ کئی سالوں سے روزگار نہیں تھا اسے ملک چھوڑنے کا نوٹس دے دیاگیا وہ پانچ سال کی عمر میں اٹلی آیا تھا اس کے پاس چھوٹی عمر کی بنیاد پر ملنی والی امیگریشن تھی گزشتہ پندرہ سالوں سے اُس نے اٹلی کی زبان بولتے بولتے اسی کی گلیوں کوچوں کو اپنی گلیاں تصور کیا تھا اس نے اسکی مٹی کو اپنی مٹی سمجھ لیا تھا لڑکپن کی صبح پھوٹنے سے لیکر جوانی کی دوپہر کے آغاز تک اگر اس کے ذہن میں ”ملک “کی کوئی تعریف آتی تھی تو اس تعریف میں اسے اٹلی ہی اپنا ملک اور وطن لگتا تھا اس لئے جب اس مٹی کو چھوڑنے کا نوٹس ملا جسے وہ اپنی سمجھتا تھا تو اس سے یہ صدمہ برداشت نہ ہوا اور اس نے خود کشی کرلی خبر میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ اس کی لاش کو اس مٹی میں دفنایا جائے گا یا اسے بھی ملک بدر کر دیا جائے گا ۔۔۔۔۔ 

مکمل تحریر  »

23/08/12

Tazleel

ایک عقلمندفرد ایک ہی شخص یا ایک ہی جگہ سے دو دفعہ دھوکہ نہیں کھا تا لیکن کسی فرد ، کسی کام ، کس لگن یا کسی جذبہ سے سچی محبت کرنے والاایک ہی مقام سے یا اس محبت کی وجہ سے ہزاروں دفعہ تذلیل اٹھا سکتا ہے اگر اس فارمولا کو ریاضی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہزار بار تذلیل کا شکار ہونے والا عقل وخرد سے باہر ہوجاتا ہے چونکہ یہ شخص اپنے محبت کے جذبہ کی وجہ سے ذلت اٹھا رہا ہوتا ہے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ بنیادی طور پر وہ پاگل نہیں ہے لیکن ایک ایسا موضوع ہے جسمیں وہ اپنی ہوش یا دانش کو خدا حافظ کہہ دیتا ہے

مکمل تحریر  »

21/08/12

DOST دوست

آپ کسی بازار میں چلے جائیں جہاں ہزاروں لوگ گھوم پھر رہے ہوں آپ کسی تفریحی مقام پر چلے جائیںجہاں افراد کا جم غفیر ہوآپ کسی تقریب میں چلے جائیں جہاںتل دھرنے کی جگہ نہ ہو لیکن اگر آپ کے ساتھ آپ کا دوست موجود نہیں تو ہزاروں لوگوںکا ہجوم بھی آپ کی تنہائی دور نہیں کر سکے گا آپ افراد کے جم غفیر میں بھی تنہااور کھوے سے کھوا چلنے والے افراد کے ہجوم میںبھی خود کو اکیلا محسوس کریں گے

مکمل تحریر  »

18/08/12

scherzo

مکمل تحریر  »

kis ko munsaf banain?

 

کس کو منصف بنائیں ؟
تحریر محمود اصغر چوہدری ایڈیٹر جذبہ اٹلی
 www.mahmoodch.com       mahmoodch1@gmail.com
گزشتہ ماہ سے اٹلی میں قانونی طور پر مقیم تارکین وطن پاکستانیوں کو ایک ایسا مسئلہ درپیش آیا ہے جس نے ساری پاکستانی کمیونٹی میں نہ صرف تشویش کی لہر دوڑا دی بلکہ ان کی حقیقت میں بھی دوڑیں لگوا دیں پاکستانی ایف آئی اے حکام نے ائرپورٹوں پر اٹلی واپس آنے والے ایسے تمام پاکستانیوں کو روکنا شروع کر دیا جوچھ ماہ سے زیادہ عرصہ پاکستان میں رہائش پذیر رہے روکے جانے والے پاکستانیوں کواس امر کی کوئی قانونی وجہ نہیں بتائی گئی اور نہ ہی انہیں کوئی تحریری لیٹر جاری کیا گیا اس لئے ہر پاکستانی اس بندش کو اپنے انداز سے بیان کرنے لگا کوئی کہنے لگا کہ ائرپورٹ پر ”گورا “بیٹھا ہوا تھا جس نے کہاہے کہ اوورسٹے کی وجہ سے آپ اٹلی نہیں جا سکتے یعنی گورا نہ ہوا اکبر بادشاہ ہوگیا جو کسی بھی پاکستانی ائر پورٹ پر آکر کرسی رکھ کر بیٹھ سکتاہے اور وہیں پر اپنے ملک کا امیگریشن لاءاپلائی کر سکتا ہے کسی نے کہا کہ ائر پورٹ انتظامیہ کو اوپر سے آرڈر آئیں ہیں اوپر سے کہاں سے ؟ اس کی وضاحت کوئی نہیں کر سکا اور کوئی حسب سابق کہنے لگا کہ ائرپورٹ حکام نے پچاس ہزار روپے کی رشوت کا مطالبہ کیا یعنی ایسا گھناﺅنا الزام کیا کوئی پاکستانی آفیسر ایسا بھی ہے جو رشوت لے ؟یقین نہیں آتا تھا الغرض جتنے منہ اتنی باتیںبہرحال وجہ کوئی بھی تھی ایف آئی اے حکام نے اس غیر ملکی رٹ کو اپنے ملک میں قائم کرنے میں اتنی مستعدی دکھائی جتنی واپڈا والے لوڈشیڈنگ کرنے میں بھی نہیں کرتے ایک ہی فلائٹ میں 80اسی پاکستانیوں کو اٹلی آنے سے روک دیا گیا رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا تھا اس لئے مساوات کا عملی مظاہر ہ کیا گیا اور بغیر کسی اضافی تحقیق کے ہر قسم کی سوجورنو والے کو روک لیا گیاچاہے ان کے پاس اٹلی کافار ایور کا کارڈکیوں نہ تھاان بچوں کو بھی روک لیا گیا جن کی پیدائش اٹلی میں ہوئی تھی اور ان بوڑھوں کو بھی روک لیا گیا جوگزشتہ دو دہائیوں سے اٹلی رہ رہے تھے اور وہ کبھی کبھار اٹلی صرف اپنی پنشن لینے آتے تھے ایک واقعہ تو ایسا بھی پیش آیا جس میں ایک پاکستانی اپنی فیملی کو پہلی بار پاکستان لینے گیا اطالوی ایمبیسی سے ویزہ وغیر ہ لگوانے میں اسے چھ ماہ کا عرصہ لگ گیا لیکن جب وہ اپنی بیوی کو لیکر اسلام آباد ائر پورٹ پہنچا تو اس کی بیوی کو فلائی کرنے کی اجازت دے دی گئی لیکن اس کے شوہر کو یہ کہہ کر روک لیا گیا کہ اسے چھ ماہ سے زیادہ عرصہ پاکستان میں ہو چکا تھا یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ایک غیر ملک میں پہلی بار یہ پاکستانی خاتون اپنے شوہر کے بغیر کیسے ڈاکومنٹس بنوائے گی؟
کون کہتا ہے کہ پاکستان میں قانون پر عمل درآمد نہیں ہوتا ؟یہ واقعات تو بتاتے ہیں کہ جب ملکی معیشت کو زرمبادلہ کی صورت میں آکسیجن مہیا کرنے والے تارکین وطن پاکستانیوں کو تنگ کرنے کا معاملہ ہو تو سارے آفیسران شیر ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان تارکین وطن شہریوں کی کوئی آواز تو ہے نہیں۔ اکثریت کا تعلق گجرات ،سیالکوٹ ، گوجرانوالہ ، منڈی بہاﺅالدین اور پنجاب کے دیگر شہروں سے ہے جبکہ ان کی وزارت برائے اوور سیز کبھی پنڈی میں خوار کی جاتی تو کبھی کراچی پہنچا دی جاتی ہے تاکہ یہ اپنے وزیر سے رابطہ تک بھی نہ کر سکیں اور ویسے بھی یہ کیوں سکون کی روٹی کما کر کھائیں کیوں نہ ان کو بھی لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں اور گرمی میں ڈینگی مچھروں کا نظارہ کرایا جائے کون پوچھنے والا ہے ؟ ان پاکستانیوں نے اطالوی ایمبیسی سے رابطہ کیا تو انہیںایک لیٹر جاری کر دیاگیا کہ سفارت خانہ کو کوئی اعتراض نہیں اس لیٹر پر بعض پاکستانیوں کو تو فلائی کرنے کا موقعہ دے دیا گیا لیکن اکثریت کو اس کے باوجود روک لیا گیا
 سب سے پہلے اس مسئلہ کا نوٹس جذبہ ڈاٹ کام نے لیا او ر چیف ایڈیٹر جذبہ اعجاز پیارا نے اٹلی میں موجودپاکستانی ایمبیسی و قونصلیٹ کو اس سلسلہ میں تحریری درخواست دی اس کے بعد میں نے سی جی آئی ایل کی جانب سے تحریری درخواست بھیجی ، سفیر محترمہ بیگم تہمنیہ جنجوعہ ،قونصل جنرل طارق ضمیر صاحب اورہیڈ آف چانسلری شہباز کھوکھر صاحب نے فوری ایکشن لیتے ہوئے پاکستانی وزارت داخلہ اور اسلام آباد میں اطالوی ایمبیسی سے رابطہ کیا اور اس مسئلہ کو حل کروانے کی لئے روزانہ کی بنیاد پر کوششیں تیز کردیں،جذبہ کے صحافی اعجاز وڑائچ ،سجاد کھٹانہ اور محمد انور نے خبروں کے ذریعہ اس مسئلہ کو اجاگر رکھا اس سلسلہ میں پاکستان سے شکیل احمد ذکاءاور چوہدری شبیر ککرالی نے پاکستانی ایف آئی اے حکام سے ملاقات کی اورپاکستانیوں کو روکے جانے کی وجوہات دریافت کی تو ایف آئی اے حکام نے انہیں فرانس ایمبسی کاوہ لیٹر دکھا یا جس میں ایسے تمام تارکین وطن کو روکنے کے احکامات جاری کئے گئے تھے جو اٹلی سپین یا فرانس کے دستاویزات پر گزشتہ چھ ماہ سے زائد مدت سے پاکستان رہ رہے تھے اس لیٹر کا ملنا تھا کہ اٹلی میں موجود بہت سے لیڈروں نے ایسا پراپیگنڈ ہ شروع کر دیا کہ یہ قانون اٹلی کی طرف سے جاری کیا گیا تھا بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے کمیونٹی کو درخواست بھی کی گئی کہ وہ فی الفور اٹلی واپس آجائیں کیونکہ قانون تبدیل ہوگیا ہے اس کے بر عکس اطالوی ایمبیسی تک کا موقف یہ تھا کہ ایسا کوئی قانون اٹلی میں تبدیل نہیں ہوا خیر سفارتخانہ روم وقونصل جنرل میلان کی تگ و دو کام آئی اور اس سوموار سے شکیل ذکاءکو اطالوی ایمبیسی اسلام آباد نے اس لیٹر کی کاپی دے دی جس کے تحت ایسے پاکستانیوں کو نہ روکنے کا آر ڈرپاکستانی ائیر پورٹ کو جاری کیا گیا ہے جن کے پاس اٹلی کی ویلڈ سوجورنوہے
 یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی ایف آئی اے کے لیے یورپ کی کسی ایک ایمبیسی کا لیٹر اتنی زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ وہ اس کی بنا پر دیگریورپی ممالک کے باشندوں کو بھی روک سکتی ہے؟کیا پاکستان میں تارکین وطن کی کوئی آواز نہیں؟ کیا اس مسئلہ کو حل کروانے کے لیے بھی اٹلی میں موجود پاکستانی سفارتخانوں کا ہی خالی فرض بنتا تھا ؟کیا اٹلی میں موجود ہزاروں سیاسی جماعتوں کا اپنے قائدین سے کوئی سوال نہیں بنتا ؟یا پھر وہ یورپ کی ٹھنڈی ہواﺅں میں چھٹیا ں منا کر چلے جاتے ہیں اور ایسا کوئی ایجنڈا اپنے سیاسی منشور میں شامل نہیں کرتے جس میں اوورسیز کے مسائل پر بات ہو ۔کیا ان اسی ہزار پاکستانیوں کا کوئی والی وارث نہیں؟ کیا ہماری دوڑ صرف اپنے ملک کے سفارتخانوں کو بدنام کرنے تک ہے؟ اٹلی میں موجود حکومتی پارٹی کے بعض ممبران نے تو ایف آئی اے کا دفاع کرنا شروع کردیاتھاکہ انہیں خواہ مخواہ بدنام کیا جارہا ہے کیاان کا یہ عمل قابل دفاع تھا؟ کیا ان کو یہ احساس نہیں ہوا کہ اتنی کثیر تعداد میں جو لو گ روکے جارہے تھے ان میں کوئی ایسا بھی ہوسکتا تھا جسکے کاغذات ختم ہونے والے تھے ؟کسی کے بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہوسکتا تھا کیا ان کا فرض نہیں بنتا تھا کہ ایسے کسی سرکلر کی قانونی وضاحت فرانس ایمبیسی سے طلب کرتے یاپھر کسی بھی یورپین ملک کے لیٹر کی حیثیت ہمارے امیگریشن آفیسران کے لئے شاہی فرمان کا درجہ رکھتی ہے ؟اس وقت اٹلی میں مختلف ممالک سے پچاس لاکھ غیرملکی شہری مقیم ہیں اور دنیا کے کسی بھی ائر پورٹ سے انہیں اٹلی فلائی کرنے سے نہیں روکا گیاایسا امتیازی سلوک صرف پاکستانیوں کے ساتھ کیوں ؟جن لوگوں نے ٹکٹوں کی مد میں لاکھوں روپے برباد کئے ان کا ہرجانہ کون ادا کرے گا ؟وہ کن سے منصفی چاہیں کس سے اپنے نقصان کا ازالہ طلب کریں ؟
 اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کہ اٹلی میں قانونی طور پر رہائش پذیر تارکین وطن شہریوں کو دنیا کے کسی بھی ائر پورٹ سے نہیں روکا جا سکتا اور نہ ہی اٹلی کے کسی ائیر پورٹ سے انہیں ڈی پورٹ کیا جا سکتا ہے جن کے پاس اٹلی کی ویلڈ سوجورنو ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اٹلی کی سوجورنو لیکر سالوں اٹلی سے باہر رہیں کیونکہ اٹلی کے امیگریشن قانون DPR394/1999کے آرٹیکل 13کے تحت ایسے تارکین وطن شہریوں کی سوجورنوکی تجدید نہیں ہوگی جو عام سوجورنو پر چھ ماہ سے زیادہ یا 2دو سا ل مدت کی سوجورنو پرایک سال سے زیادہ اٹلی سے باہر رہیںان دنوں اٹلی کے بہت سے پولیس اسٹیشن ایسے لوگوں کی سوجورنوکینسل کر رہے ہیں جو لمبی مدت تک اٹلی سے باہر رہے ہاں البتہ اگرکوئی اپنے ملک میں لازمی فوجی ٹریننگ کے سلسلہ میں یا کسی بیماری یا حادثہ کی صورت میںرہاہے تو اس صورت میں متعلقہ کستورا(پولیس اسٹیشن ) اس کی سوجورنو کی تجدید کرنے یا نہ کرنے کااختیار رکھتا ہے فوجی ٹریننگ پاکستان میں قانونی طور پر سب پاکستانیوں کے لئے لازمی نہیں ہے اس لیے یہ بہانہ تو سوجورنو نئی کرانے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہاں البتہ بیماری یا حادثہ کی صورت میں تمام دستاویزات اطالوی ایمبیسی سے تصدیق و ترجمہ کرا کے لا ئے جا سکتے ہیں اگر دوران سفر کسی کی سوجورنو ختم ہوجائے تو اس صورت میں اسے اٹالین ایمبیسی سے اٹلی آنے کے لیے ویزہ حاصل کرنا ہوگا لیکن اس صورت میں پرمیسو دی سوجورنو کو ختم ہوئے 60 دن سے زیادہ کی مدت نہیں گزرنی چاہئے۔ وہ غیر ملکی جو کہ بیمار ہونے کیوجہ سے اپنے ملک میں رہتے ہوئے سوجورنو ختم کر بیٹھتے ہیں ان کے لیے 60 دنوں کی بجائے سوجورنو ختم ہونے کے بعد 1 سال کا وقت ہوتا ہے اٹالین ایمبیسی متعلقہ اٹالین تھانے سے تصدیق کرے گی اور انٹری ویزہ جاری کرے گی یاد رہے کہ امیگریشن قانون testo unico 286/98کے آرٹیکل 9کوما 7dکے مطابق کارتا دی سوجورنو (لا محدود مدت کی سوجورنو )کے ساتھ اگر آپ 12ماہ کے عرصہ سے زیادہ یورپی یونین کے ایریا سے باہر رہتے ہیں تو آپ کا کارتا دی سوجورنو واپس لیا جا سکتا ہے جس کے دوبارہ حصول کے لیے آپ کو نئے سرے سے تمام شرائط پوری کرنی ہوں گی
 

مکمل تحریر  »

محفوظات