30/09/13

مذاق رات

ایک سروے کے مطابق پاکستانی اپنے قریبی ہمسایہ ممالک کے شہریوں سے زیادہ ہشاش بشاش اور خوش باش رہنے والی قوم ہیں یہ بات حیران کن ضرور ہے کہ جس ملک میں ہرقت بم دھماکے ، دہشت گردی ، قتل وغارت گری ، چوری، ڈکیتی اور بھتہ مافیا کا بازار سر گرم ہو وہاں کے لوگ خوش وخرم رہنے والوں میں سر فہرست ہیں میرا نائر کی ہالی وڈ کی حالیہ فلم ”ریلکٹنٹ فنڈامنٹلسٹ “میں میشا شافی سے ایک گانا گوایا گیا ہے کہ بجلی آئے نہ آئے ڈھول بجے گا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستانی جن معاملات میں‌ رونا ہے ان میں‌ بھی ناچتے گاتے رہتے ہیں ویسے میرے ایک بہت ہی خوش رہنے والے دانشور دوست کا خیال ہے کہ خوش رہنا کوئی مشکل کام نہیں بس آدمی کو تھوڑا بے وقوف ہونا پڑتا ہے ویسے اس سروے کی حقیقت کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ گزشتہ دنوں ملک میں سیلاب نے تباہی مچائی لوگ بے گھر ہوگئے تو عوام کی اکثریت اس میں پریشان ہونے کی بجائے ایک جم غفیر کی صورت میں موٹر سائیکل اور گاڑیاں لیکردریاﺅں کے پل پر بچوں سمیت پہنچ گئے اور انہیں پل کے نیچے سے گزرنے والا سیلابی ریلہ دکھانا شروع کردیا بلوچستان میں آنے والے حالیہ زلزلہ میں اڑھائی سوافراد لقمہ اجل بن گئے ہیں لیکن پاکستانیوں کے لیے یہ خبراہم نہیں ہے بلکہ ان کے لیے خوشی کی خبر یہ ہے کہ اس زلزلہ کے نتیجے میں گوادر کے نزدیک سمندر میں ایک جزیرہ نمودار ہوگیاہے قوم زلزلہ کی تباہ کاریوں کا افسوس کرنے کی بجائے جزیرہ پرپہنچ کر سجدہ شکر بجا لارہی ہے اور اس کا نظارہ کررہی ہے سوشل میڈیا میں ”پراکسی تھیوری“ کے دانشور وں نے تو یہ شور بھی مچانا شروع کردیا کہ امریکہ اور مغربی ممالک اتنے سالوں سے پاکستان کے پیچھے اسی لیے پڑے ہوئے ہیں کہ یہاں یہ جزیرہ نکلنے والا تھا
عمران خان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے مولانا فضل الرحمان کو یہ مطالبہ جتنا بھی بچگانہ کیوں نہ لگے میرے خیا ل میں قابل غور ہے ہوسکتا ہو کہ خا ن صاحب نے سوچا ہو کہ تحریک طالبان ودیگر دہشت گرد جمعہ کو بھی چھٹی نہیں کرتے اگر انہیں دفتر کھول دیا جائے تو کم از کم وہ اپنی دفتری اوقات کا خیال رکھیں گے اورعوام کو ان دھماکوں سے ریلیف ملے گی کہتے ہیں کہ دفتر ی کام کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جو کام آپ ایک دن میں کر سکتے ہیں وہ داخل دفتر ہوتے ہی کئی کئی مہینے میں بھی نہیں ہوپاتا کیونکہ دفتر میں فائل ورک اور پراجیکٹ بنانے میں کئی کئی مہینے لگ جاتے ہیں اس طرح اگر دہشت گردوں کو دفتر کی عادت پڑگئی تو شاید ان کے خون آشام پنجوں سے عوام کو کچھ دیر کے لیے آرام مل سکے اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آئے دن جوطالبان کے ساتھی بعض طلباءتنظیموں کے ہوسٹل سے ملتے ہیں وہ اپنے دفتر میں ملا کریں گے اگر تو خان صاحب کی نیت یہ ہے تو ا س میں حکومت کو سیخ پا نہیں ہونا چاہیے اور ان کے مطالبہ پر غور ضرور کرنا چاہیے لیکن میرے ایک دانشوردوست کا خیال ہے کہ صرف عمران خان ہی نہیں بلکہ کوئی بھی خا ن جو بیان جوش میں دے وہ اپنے دل کی صفائی سے دیتے ہیں اس لیے ان کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے پٹھان تواپنی بیوی کی تعریف بھی کرنا چاہیں تو جوش محبت میں بغیر سوچے سمجھے یہ کہہ دے گا ” خدا کی قسم اتنا خوبصورت ہے کہ جی چاہتا ہے گولی مار دوں۔۔“
جہاں تک مذاکرات کی بات ہے اس میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو پچاس فیصد کامیابی ہوچکی ہے وہ یہ کہ حکومت” مذاق رات“ کے لیے تیار ہے لیکن دہشت گر د تنظیمیں ابھی تیار نہیں ہیں اسی لیے وہ مسجدوں ، مزاروں ، مارکیٹوں اور چرچ جیسی مذہبی عبادت گاہوں کے بعد اب سرکاری ملازمین کی بسوں تک کو نشانہ بنا رہے ہیں اور حکومت کے جانب سے ان کے قیدی رہا کرنے کے باوجود وہ اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ہر جنگ کا اختتام بھی ڈائیلاگ کی ٹیبل پر ہوتا ہے میری ذاتی خیال میں مذاکرات ہی کسی مسئلہ کا سب سے بہتر حل ہوسکتے ہیں لیکن امن قائم کرنے میں جوبات سب سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ کا مخالف آپکی امن کی خواہش کو آپکی کمزوری سمجھ لے تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جوحالیہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کے ساتھ ہوا نواز شریف تواپنے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کے ساتھ محبت کی پینگیں ڈال کر” ککلی کلیر دی“ کھیلنے کی تیاری میں تھے لیکن ان کے مذاکرات میں پہل کی خواہش کا جواب من موہن سنگھ نے یہ دیا کہ پاکستان کو دہشت گردوں کا مرکز قرار دے دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ خطے کو جن مشکلات کا سا منا ہے اس کی وجہ بھی پاکستان ہے وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم لگتا ہے دیہاتی عورتوں کی طرح میری شکایتیں لگانے گئے تھے ۔۔۔
سکھوں کے عقل و شعو ر کے معاملے میں کسی کو شک وشبہ نہیں ہونا چاہیے کہتے ہیں ایک سکھ کتابوں کی دوکان پر گیا اور کہنے لگا مجھے سکھوں کے بارے لطیفوں والی کتاب چاہیے دوکاندار نے حیران ہوکر کہا کہ وہ لطیفے نہیں سچے واقعات والی کتاب ہے من موہن کو پاکستان کی نیت پر شک اس لیے بھی ہے کہ سکھ عموماًشقی القلب ہونے کے ساتھ ساتھ شکی المزاج بھی ہوتے ہیں کہتے ہی ایک سکھ گھر آیا اور اپنی بھابھی کو پیٹنا شروع کر دیا اس کے بھائی نے پوچھا بھابھی کو کیوں مار رہے ہو کہنے لگا اس کا کریکٹر ٹھیک نہیں اس کے بھائی نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگا میرے جتنے بھی دوست ہیں وہ شادی شدہ ہیں وہ جب بھی فون کر رہے ہوں میں ان سے پوچھوں کہ کس کو فون کر رہے ہو تو وہ ہنس کر کہتے ہیں یار تیری بھابھی کو فون کر رہا ہوں ۔۔
اصل میں میاں صاحب کو سمجھ جانا چاہیے کہ من موہن سنگھ ہمارے پڑوسی ملک کا نحیف سا وزیر اعظم ہے جو اپنے ملک کی سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتا رہتا ہے پڑوسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آپکے گھر کے حالات کو آپ سے بہتر جانتا ہوتا ہے بھارت کا پاکستان بارے جو جارہانہ رویہ گزشتہ کئی دنوں سے جاری ہے اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اسے ہمارے ملک کے اندرونی حالات کا پتہ چل گیا ہے کہ ریاست اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ اس میں پانچ سال تک کی بچیوں کی عزت محفوظ نہیں ہے بچیوں کی عزت تار تار ہونے کے واقعات کا حل تو ہمارے مذہبی طبقہ نے یہ نکالا ہے کہ بعض علماءکے بقول اگر چار گواہ نہ ملیں جنہوں نے اس واقعہ کو دیکھا ہو تو اس خبر کو پھیلایا نہ جائے بعض کا خیال ہے کہ یہ واقعات دین سے دوری کا نتیجہ ہیں اس لیے چار ما ہ کی بچیوں کو بھی پردہ کرایا جائے یعنی ان کے خیال میں دین سے اس دوری میں بھی پانچ سال کی بچیوں کا قصور ہی ہے
حالیہ حکومت کی کار کردگی دیکھ کر ٹیپو سلطان کا مشہور جملہ ذہن میں آتا ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے حالیہ حکومت نے بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شیر کی سو دن کی حکومت دیگر حکومتوں سے بہتر ہے سو دنوں کے اندر پٹرول کی قیمت 98سے 110روپے لیٹر تک پہنچا دی گئی ہے توانائی کے ذرائع کی قیمتوں اور جی ایس ٹی میں اضافہ سے ضروریات زندگی کی قیمتوں میں شیر کی رفتار جیسی تیزی لائی گئی ہے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 10سے 15فیصد تک اضافہ ہواہے ، آٹے کی فی کلو قیمت 37سے یکبار 46 پرپہنچائی گئی ہے حالانکہ شیر تو آٹا کھاتا بھی نہیں ہے ۔۔۔سو دن کی کارکردگی یہ ہے کہ ڈالر 98 روپے سے بڑھا کر 105روپے تک پہنچادیا ہے اس طرح مسلم لیگی دوستوں کا کہناہے کہ یہ الزام غلط ہے کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے کیونکہ ہرچیز مہنگی نہیں ہوئی غیر ملکی کرنسی کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں بے انتہا کمی کر کے مسلم لیگ کی حکومت نے ثابت کیا ہے وہ چیزیں سستی بھی کر سکتی ہے
مسلم لیگ حکومت بچت کی پالیسی پر اس حد تک سختی سے کار بند ہے کہ بلوچستان میں وزیر اعلیٰ تو بنوا دیا ہے لیکن اس کی کابینہ ہی نہیں بن سکی کہتے ہیں ایک شخص سے کسی نے پوچھا تم کیا جاب کرتے ہو وہ کہنے لگا میں ہیڈ ماسٹر ہوں تو پوچھنے والے نے پوچھا تمہارے سکول میں کتنے ماسٹر ہیں وہ کہنے لگا میں اکیلا ہی ہوں ویسے شریف برادارن کا یہ خاصہ ہے کہ یہ بہت ساری عہدے اور وزارتیں اپنے پاس ہی رکھتے ہیں لیکن اب اضافی کام یہ کیا جارہاہے کہ اس میں تبدیلی کر کے پنجاب کے سارے اختیارات اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو دے دیے گئے ہیں صحافیوں کا شور و غوغہ ہے کہ بہت سے حکومتی و سرکاری عہدے اور سیٹیں بھی ابھی خالی ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں عہدے بہت زیادہ ہیں اور شریف بردران کے رشتہ دار کم۔۔ ویسے اگر بہت سے عہدے خالی ہیں توبھی کوئی بات نہیں حکومت کی سو دن کی کارکردگی دیکھ کر مجھے ہمارے کالج کا وہ پروفیسر یاد آگیا جس کی کلاس کے سارے طلباءاس کے مضمون میں فیل ہوگئے پرنسپل نے اسے اپنے آفس میں بلایا اور اسے کہا ”ویسے پروفیسر صاحب اگر آپ سارا سال بھی کلاس میں نہ آتے ۔۔۔تو ایسا رزلٹ پھر بھی آہی جانا تھا “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر محمود اصغر چوہدری اٹلی مورخہ 29ستمبر 2013ء

مکمل تحریر  »

29/09/13

Politeness


مکمل تحریر  »

01/08/13

deserve


مکمل تحریر  »

27/06/13

ho messo via

ho messo via un bel pò di cose ma non mi spiego mai il perchè io non riesca a metter via te

مکمل تحریر  »

27/05/13

Tutto Passa. . . Tutto Cambia. . . Ma Niente si Dimentica...

Tutto Passa. . . Tutto Cambia. . . Ma Niente si Dimentica...

مکمل تحریر  »

اٹلی کی پہلی سیاہ فام منسٹر




  یہ ہفتہ کی سہ پہر تھی پورے یورپ میں ہفتہ کے دن کو” ویک اینڈ “قرار دیا جاتا ہے اورلوگ سارا ہفتہ کام کی تھکن کے بعد شاپنگ کرتے ہیں یا پھر گھومنے کے لئے باہر نکلتے ہیں وہ بھی اپنی ایک دوست کے ساتھ بلونیا سٹی میں چہل قدمی کر رہی تھی تین بجے کے قریب اس کے فون کی گھنٹی بجی فون کی دوسری جانب اٹلی کے نئے منتخب شدہ وزیر اعظم ”این ریکو لیتا“ تھے انہوں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ حالیہ اطالوی حکومتی کابینہ میں وزیر بننا چاہیں گی وہ ایسی آفرکیسے ٹھکرا سکتی تھی اسے اپنے کانوں ، ٹیلی فون پرسنی جانے والی آوازاور اس کے نتیجے میں کئے گئے سوال پر یقین نہیں آرہا تھا اسے تو یہ سب کچھ خواب سا لگ رہا تھا ابھی دو تین سال بھی نہیں گزرے تھے کہ اطالوی سیاسی پارٹیاں سیاہ فام باشندوں کے لیے بسوں میں علیحدہ سیٹوں کا مطالبہ کر رہی تھیں کہ ان سے بو آتی ہے ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ اٹلی کے سیاستدان سمندری راستہ سے غیرقانونی طور پر اٹلی داخل ہونے والے امیگرنٹس کو توپوں سے اڑانے کی بات کر رہے تھے ابھی کچھ سال پہلے ہی اٹلی میں امیگرنٹس کو ایک بوجھ اور حالیہ معاشی کساد بازاری کی وجہ قرار دیا جا رہا تھا کیا وقت اتنی جلدی بدل سکتا ہے؟ کیا جمہوریت واقعی اس دور کا سب سے بہترین نظام ہے جو نفرت زدہ پسے ہوئے لوگوں کو بھی سرفرا ز کر سکتا ہے ؟کیا یہ ڈیمو کریسی ہے جس کے نتیجہ میں سیاہ فاموں سے اتنی نفرت کے بعد اٹلی اپنی تاریخ بدلنے جا رہا ہے وہ جو انہیں ووٹ کا حق دینے کا روادار بھی نہیںتھا اب اپنی حکومتی کابینہ میںان کے لئے جگہ بنا رہا ہے ابھی چند دن پہلے ہے 25اپریل کو اٹلی والوں نے اپنا یوم جمہوریہ منایا ہے کیا 68سالوں میں ہی یہ قوم اس طرح تیار ہوگئی ہے کہ اس نے جمہور میں ہر اس شخص کو بھی مقام دینا ضروری سمجھ لیا جو اس ملک میں پیدا بھی نہیں ہوا اور جس نے یہاں آکررہائش اختیار کر نے کی درخواست دی تھی اور اب اسے اطالوی حکومت میں وزیربنا لیا گیا ہے جہاں وہ نہ صرف اپنے جیسے سیاہ فام باشندوں کے حقوق کی آواز اٹھائے گی بلکہ اس ملک کے باسیوں کی تقدیر کا فیصلہ بھی کرے گی
  وہ اٹلی کی پہلی سیاہ فام وزیر بنی ہیں لیکن یہ کامیابی اسے اس لیے نہیں ملی کہ کوئی ہما نام کا پرندہ اس کے سر پر آبیٹھا تھا بلکہ اس نے اس کامیابی کے لیے جدد جہد کی تھی ”چیچیلے کنگے“ کا تعلق رپبلک آف کونگو سے ہے ان کی عمر 49سال ہے شادی شدہ ہیں اور وہ دو بچیوں کی ماں ہےں انہوں نے اطالوی شہریت لی ہوئی ہے ان کے پاس آئی اسپیشلائزیشن کی ڈگری ہے اور وہ پیشہ کے اعتبار سے بھی اٹلی میں بطور ڈاکٹر برائے امرا ض چشم کے فرائض سر انجام دے رہی ہیںسن 2004ءمیں وہ اٹلی کے شہر مودنہ کی ایک چھوٹی سے وارڈ سے بائیں بازو کی پارٹی کی جانب سے کونسل کی ممبر منتخب ہوئی تھیں اور اپنی سیاسی جد وجہد کا آغاز کیا تھا اس کے بعد صوبائی سطح پر امیگریشن فورم کی ذمہ دار نامزہ ہوئیں مورخہ 7جون 2009ءکو ڈیمو کریٹک پارٹی کی جانب سے مودنہ صوبائی اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئیں اور پھر 2010ءسے وہ ہر سال منائے جانے والے امیگرنٹس کے یکم مارچ والے احتجاجی نیشنل ڈے کی روح رواں ثابت ہوئی اور اٹلی کی جمہوری پارٹی ”پی ڈی“کی جانب سے اس احتجاجی یوم کی ترجمان بھی نامز د کی گئی اس طرح وہ امیگرنٹس کے حقوق کے لئے جدو جہد کرتے کرتے آخر کار 25فروری 2013ءکو ایمیلیا رومانیا میںڈیمو کریٹک پارٹی کے پلیٹ فارم سے اطالوی پارلیمنٹرین منتخب ہوئی ہیںاور اب اٹلی کی حالیہ حکومت نے ان کے ہاتھ میں وزیر برائے انٹی گریشن کا قلم دان تھما دیا ہے
 وزیر منتخب ہونے کے بعد پریس کو دئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ”ان کی پہلی ترجیح اٹلی میں پیدا ہونے والے امیگرنٹس کے بچوں کے لیے اطالوی شہریت دیئے جانے کے قانون پر ہوگی“ ان کا کہنا ہے کہ” اس سلسلے میں انہیںسخت مزاحمت کا سامنا ہوگا لیکن وہ اپنی کوشش جاری رکھیں گی “اپنے انٹرویو میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ اٹلی میں موجود تارکین وطن شہریوں کے حقوق کے لئے ان کے ارادے بہت بڑی تبدیلیوں کے ہیں جن میں سرفہرست غیرقانونی داخل ہونے والے تارکین وطن کے لئے قائم شناختی جیلوں کا خاتمہ ،اٹلی میں غیرقانونی رہائش کو جرم قرار نہ دیے جانے کے لیے قانون سازی ، کام کے ویزہ پر اٹلی انٹر ہونے کے ویزہ میں ایسی تبدیلی کہ تارکین وطن ورکر کا استحصال اور بلیک میلنگ کا خاتمہ ہواور اٹلی میں فیملی منگوانے کو آسان بنانے کے قوانین شامل ہیں اس کے علاوہ ان کے ارادوں میں ایسے قوانین بھی شامل ہیں جو جنس ، رنگ اور نسل کی بنا پر امتیازی سلوک کا راستہ روکےںوہ چونکہ ایک ماں بھی ہیں اس لیے ان کے پروگرام میں یہ بھی شامل ہیں کہ اٹلی میں بچوں کے لیے مزید نرسری سکولوں کا بندوبست کیا جائے اورتمام ہاﺅسنگ سوسائٹیوں میں بچوں کی دیکھ بھال کے لئے مشترکہ نرسری کا قیام بھی لانا ہے تاکہ کام پر جانے والی عورتوں کے لیے آسانی پیدا ہو سکے
  اٹلی کی حالیہ سیاسی صورت حال کا اگر بغور جائزہ لیں تو جہاں تک اپنے انٹرویو میں وہ مزاحمتوں کا تذکرہ کر رہی ہیں تو اس میں واقعی ان کا وزیر برائے انٹی گریشن بن جانے ان کے لئے اور اٹلی میں موجود تمام امیگرنٹس کے لئے خوش آئند اور باعث اعزاز تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ان کے وزیر بن جانے سے اٹلی میں مو جود تارکین وطن شہریوں کو کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہو جانا چاہیے کیونکہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اٹلی میں بننے والی حالیہ حکومت دو ماہ کے طویل اکھاڑ بچھاڑ اور سیاسی بحرانوں کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے یہ حکومت اکثریتی پارٹی اور اپوزیشن کے اشتراک سے بنی ہے جس میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں شامل ہیںان میں ان کی پارٹی بھی ہے اور وہ پارٹیاں بھی ہیں جو گزشتہ سالو ں میں تارکین وطن شہریوں کے لئے سخت ترین قوانین بنواتی رہی ہیں اور اتنی متضاد پروگرام والی پارٹیاں چند باتوں پر تو مشترکہ قانون سازی کر سکتی ہیں لیکن یہ طویل المدت حکومت ثابت نہیں ہوگی کیونکہ یہاں مفاہمت کا مطلب مک مکا نہیں ہے
  اٹلی میں امیگرنٹس کے رہائشی امورسے متعلقہ تمام کام وزارت داخلہ کے زیر انتظام آتے ہیں لیکن اس کرسی پر آکر بیٹھنے والے ”انجیلیو آلفانو“کا تعلق امیگرنٹس مخالف پارٹی پی ڈی ایل سے ہے اور وہ اٹلی کے نائب وزیر اعظم کا عہدہ بھی سنبھالے ہوئے ہیں ان کی وزارت کے نیچے ہی اٹلی کی سوجورنو کی تجدید ، اطالوی زبان کا ٹیسٹ ، فیملی منگوانے کے معاملات اور اطالوی شہریت کے شعبہ جات آتے ہیں اس لیے اٹلی کے تارکین وطن شہریوں کے لئے مستقبل قریب میں کوئی بڑی آسانی پید ا کرنے سے پہلے اس وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالے وزیر کی رضاہی ضروری ہو گی دوسری جانب منسٹری آف لیبر ہے جن کی مرضی کے بغیر کوٹہ امیگریشن اور دوسرے ممالک سے امیگرنٹ ورکر کو لانا اور ایسے قوانین میں کوئی تبدیلی کروانا نا ممکن ہوگا اور اس کے ساتھ ہی وزارت خارجہ کا شعبہ آتاہے جودنیا بھر میں موجود اطالوی سفارت خانوں اور دیگر ممالک سے تعلقات کی ضمانت ہوتی ہے اس کرسی پر براجمان خاتون ایما بونیونو کا تعلق بھی ڈیمو کریٹک پارٹی سے نہیں ہے
ایسی چومکھی لڑائی میں چیچیلے کنگے اکیلی ہیں آنے والے دنوں میں ان کے کام کا تعین ضرور ہوجائے گا اور اٹلی میں رہائش پذیر امیگرنٹس کے حقوق کے حصول کے لیے انہیں بڑی محنت درکارہو گی لیکن بہر حال وہ اٹلی میں موجود تارکین وطن شہریوں کے لیے امید کی ایک کرن ضرور ثابت ہوئی ہیں ان کا وزارت برائے ”ادغام“ کی کرسی پر بیٹھ جانا ،پارلیمنٹ میں اسپیکر قومی اسمبلی لاﺅرا بولدینی کا منتخب ہوجاناجنہوں نے پناہ گزین امیگرنٹس کے حقوق کے لئے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی اور مراقشی نژاد خالد شوکی کاپارلیمنٹرین منتخب ہوجانا جس نے اٹلی میں پیدا ہونے والے تارکین وطن شہریوں کے بچوں کے لیے اطالوی شہریت کا مطالبہ ایک مہم کی صورت میں چلایا تھاان کی اطالوی پارلیمنٹ میں موجودگی تارکین وطن شہریوں کے لئے تازہ ہوا کاجھونکا ثابت ہوگی اور یہ سب باتیں اس بات کی ضمانت بھی ہیں کہ اٹلی کی سیاسی پارٹیوں نے اٹلی میں موجود تارکین وطن شہریوں کو سنجیدگی سے لینا اور انہیں اس معاشرہ کا ایک حصہ سمجھنا شروع کرد یا ہے




مکمل تحریر  »

17/04/13

As you can




مکمل تحریر  »

13/04/13

اسے غلط لڑکی سے پیار ہوگیا تھا

 
کیسا بے موقع، بے محل ، بے سود سا اظہار ہوگیا تھا
اسے غلط لڑکی سے پیار ہوگیا تھا

مکمل تحریر  »

باسٹھ تریسٹھ کا لفڑا



  آئین پاکستان کی شق نمبرباسٹھ اور تریسٹھ ان دنوں سیاستدانوں کے لئے ایک ڈراﺅنا خواب بن گئی ہیں وہ اب اگر اپنے بچوں کو گنتی بھی سکھانا شروع کرتے ہیں تو اکسٹھ کے فوراً بعد تریسٹھ چونسٹھ پڑھانا شروع کر دیتے ہیں ان کا دل ہے کہ سو تک کی گنتی میں سے یہ دو نمبر نکال ہی دئے جائیںجس سیاست دان کی عمر باسٹھ سال ہوگئی ہے وہ خود ہی اپنی عمر سٹھیانے والی بتاتا ہے تا کہ لفظ باسٹھ نہ کہنا پڑھے کرکٹ میچ میں کوئی سکور بتادے کہ باسٹھ ہوگیا ہے تو سیاستدانوں کو پسینہ آجاتا ہے ان سے پوچھیں یہ باسٹھ تریسٹھ شقیں ہے کیا ؟ تو وہ سارا الزام طاہر القادری پر ڈال دیتے ہیں کہ ساری شرارت انہی کی ہے شرارت سے یاد آیا کہ ایک دفعہ سکھوں کے ایک گاﺅں میں مسلمان نماز ادا کر رہے تھے تو سکھوں کا ایک گروہ بڑے دھیان سے ان کی عبادت دیکھ رہا تھا انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کیا ہو رہا ہے آخر جب انہوں نے دیکھا کہ سارے نمازی وہی کر رہے ہیں جو امام کر رہا تھا تو ایک بزرگ سکھ کہنے لگا ”یہ ساری شرارت اس کی ہے جو آگے کھڑا ہے“لیکن خود طاہر القادری کا کہنا ہے کہ باسٹھ تریسٹھ کی ذد میں کرپشن اور بدعنوانی کرنے والے آنے چاہیے دعائیں یاد کرنے والے نہیںان کاکہنا ہے کہ اس طرح کی کاروائی سے فخرو بھائی ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں حالانکہ چیف الیکشن کمیشن فخرو بھائی کی عمر ایسی ہے کہ اس میں ہوائی فائرنگ کی تو آوازبھی خوفناک لگتی ہے لیکن وہ ایک لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ اس عمر کے کسی شخص کو کوئی انکل بھی نہیں کہتا لیکن انہیں پورا پاکستان بھائی کہہ رہا ہے
  الیکشن کمیشن نے صادق اور امین کی جانچ کے لیے جو طریقہ اپنا یا ہے اس کے بعد ان کی امتحانی چھاننی سے صرف وہی سرخرو ہو سکے گا جس کاصرف نام ہی صادق یا امین ہو گا ان کے سوالات ایسے ہیں کہ لگتا ہے کہ سیاستدانوں کو انتخابات کی تیاری نہیں بلکہ آخرت کی تیاری کرنی ہے سیاستدانوں سے دعائے قنوت سننا ایسے ہی ہے جیسے ایک دیہاتی کو ایک ادبی پولیس والے نے روکا ادب اور پولیس کا کوئی تعلق ویسے تو بنتا نہیں ہے لیکن اس پولیس والے کو گاڑھی ار دو بولنے کا شوق تھا اس لیے اس نے دیہاتی کو روک کر کہا کہ” اسم شریف بتائیں “ تو دیہاتی نے معصومیت سے جواب دیا ”سرکار اس وقت اسم شریف تو یاد نہیں اگر آپ کہیں تو میں درود شریف سنا سکتا ہوں “ یہ دعائے قنو ت اور سورة اخلاص سننے کا امتحان اس لیے لیا جا رہاہے کہ ماضی میں ایک وزیر کو تلاوت کرنے کے لیے کہا گیا تو اسے سورة اخلاص بھی دو تین بار دھرانے کے باوجود نہیں آئی تو موصوف نے نہایت” اخلاص “سے کہا کہ وہ وزیر ہیں کوئی مردے نہلانا والا نہیں۔خیر ان کے اس بیان سے مردے نہلانے والی کی توقیر میں اضافہ ہوا کہ وہ کم از کم مردے کو عزت و احترام بخشتے ہیں وہ اس وزیر کی طرح نہیں جن کے عہد میںہزاروں لوگ لا ءاینڈ آرڈر کی خراب صورت حال کے باعث لقمہ اجل بن جاتے ہیں
 بعض سیاستدانوں سے دوسری شادی کے بارے سوال وجواب بھی کئے جارہے ہیںمیرے خیال میں یہ بہت بڑی زیادتی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ بعض سیاستدانوں کو اپنے ووٹ بڑھانے کے لیے اپنی” ووہٹیوں “کی تعداد بڑھانا پڑتی ہے بعض سیاستدان زیادہ شادیاں اس لیے بھی کر لیتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ جوعورتوں کی چالاکیاں سمجھ جاتا ہے اسے سیاست کے داﺅ پیچ سمجھ آجاتے ہیں بعض خواتین سیاستدانوں سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ اگر آپ سیاست میں آگئی تو بچوں کا خیال کون رکھے گا یہ سوال میرے خیال میں خواتین سے امتیازی سلوک کی عکا سی کرتے ہیں کیونکہ سیاست کرنا عورتوں کے لیے ویسے بھی زیادہ آسان ہے کیونکہ الیکشن باتوں اور طعنوں سے لڑا جاتا ہے اور خواتین اس فن میں مردوں سے آگے ہیں کیونکہ مردوں کی لڑائی باتوں سے ہاتھوں لاتوں میں تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتااس لیے وہ اچھے سیاستدان ثابت نہیں ہوسکتے خاتون سیاستدان سے یاد آیا کہ مسرت شاہین نے ثابت کیا کہ الیکشن کمیشن کے بنائے ہوئے پیمانے میں وہ ہی سب سے زیادہ نیک مسلمان ثابت ہوتی ہیں اس طرح بہت سے ایسے انتہا پسندوں کو خاموش ہوجانا چاہیے جو انہیں اچھا مسلمان نہیں سمجھتے تھے ویسے مسرت شاہین اچھی سیاستدان ثابت ہو سکتی ہیں کیونکہ ان کی ذات میں منافقت نہیں انہوں نے عوام سے اپنا” کچھ “نہیں چھپایااکثرلوگ ان کا ”اگلا پچھلا “یعنی ماضی و حال سب جانتے ہیں
 اس بار خواجہ سرا ﺅں نے بھی الیکشن میں حصہ لینے کی ٹھان لی ہے بعض خواجہ سراﺅں کی آمد سے” ک لچر “میں بہتری آنے کے امکان ہوسکتاہے خواجہ سرا بھی بڑے اچھے سیاستدان ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ سیاستدان کو اکثریت تالی اور گالی کے عادی ہوجاتی ہے اور عوام ان سے یہ کہتے بھی نظر آتے ہیں کہ ان سے” کچھ“ نہیں ہوگا 
 نظریہ پاکستان کی بحث میں مشروب ِلطیف کے ذائقہ پر کالم لکھنے والے صحافی بھی دھر لیے گئے اور ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دئے گئے موصوف کا کہنا ہے کہ ان کے کالم انگلش میں تھے اس لیے ترجمان کو سمجھ نہیں آئی ہوگی یہ بات سچ بھی ہے کہ کسی ان پڑھ کومینگو جوس بھی دینے سے پہلے انگریزی میںپوچھیں کہ” ڈرنک “لیں گے تو اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ جاتی ہے جعلی ڈگری کیس میں جمشید دستی کو تین سال جیل کی سزا سنائی گئی تو ان کے آنسو نکل آئے سیاستدان اور وکیل اپنے پیشہ سے توبہ بھی کرلیں تو بعد میں بھی لوگ انہیں اسی نام سے پکارتے ہیں سیاستدان کسی سے دلی ہمدردی بھی کرے تو کہتے ہیں ”بڑا سیاسی ہے“ اگر وہ کسی کی دل سے مدد بھی کر دیں تو کہتے ہیں اس میں بھی اس کی کوئی نہ کوئی سیاست ضرور ہوگی
 الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپر میں ایک خانہ خالی رکھنے کا بھی بندوبست کرلیا ہے یہ خبر سن کر مجھے وہ سردار جی یاد آگئے جنہوں نے نیا گھر تعمیر کروایا تو اپنے دوستوں کوگھر دکھانے کی دعوت دی جس میں انہوں نے تین سوئمنگ پول بنوائے تھے یہ سوئمنگ پول دکھاتے ہوئے کہنے لگے کہ” ایک سوئمنگ پول میں گرم پانی ہے اوردوسرے میں ٹھنڈا جبکہ تیسرامیں نے خالی رکھا ہے “ کسی نے پوچھا ”سردار جی اس خالی سوئمنگ پول کا کیا مقصد ہے “ توبڑے فخر سے کہنے لگے ”اوبادشاہو ! کبھی کبھی انسان کا دل نہانے کو نہیں بھی چاہتا “ اسی طرح بیلٹ پیپر میں اس خالی خانہ کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر آپ کا دل کسی بھی امیدوارکو ووٹ دینے کا نہیں کر رہا تو آپ اس خالی خانہ پر ٹھپہ لگائیں اور سب کومسترد کرد یں
 بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ ملک میں ووٹ ڈالنے والوں کا تناسب پہلے ہی بہت کم ہے کیونکہ لوگوں کا جمہوریت پر اعتبار متزلزل ہے اور اس طرح کا خانہ خالی رکھنے سے غیر جمہوری سوچ کو ترویج ملے گی اوروہ انتہا پسند طبقہ جو جمہوریت کے خلاف ہے وہ اپنے پیروکاروں کا یہی سبق دے گا کہ خالی خانہ پر مہر لگا دیں اور اس طرح ملک میں وہ قوتیں سرگرم ہو جائیں گی جو جمہوریت کی مخالف ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ اگر بہت سارے لوگ اس الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرکے سسٹم کی تبدیلی کی خواہش کا اظہار کریں گے توبھی الیکشن پراسس کی فتح ہے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جو کسی کو ووٹ نہیں دینا چاہتا وہ گھر سے ہی نہ آئے لیکن میرا خیال ہے کہ جو سیاسی لیڈر ووٹ کے لالچ میں اتنا زیادہ خرچ کر رہے ہیں انہیں نقصان پہنچانے کا سب سے زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان کی گاڑیوں میں مزے سے بیٹھ کرپولنگ بوتھ میں جائیں اوران کی دعوتیں بھی اڑائیںلیکن اگراس حلقہ میں الیکشن لڑنے والے کسی بھی امیدوار کو رہبری کے قابل نہیں سمجھتے تو خالی خانہ پر مہر لگا دیں
ایک گھر کی دہلیز پر ایک بھکاری نے صدا لگائی کہ اسے بھیک میں کچھ دیا جائے تو گھر کی نئی نویلی دلہن نے اس سے کہا ”معاف کرو بابا“ وہ بھکاری جانے لگا تو اس نئی نویلی دلہن کی ساس نے بھکاری کو آواز دے کر بلایا اور کہا کیا بات ہے تو وہ کہنے لگا ”مجھے بھیک چاہیے “ وہ عورت کہنے لگی ”معاف کرو بابا “ وہ بھکاری کہنے لگا یہ بات تو آپ کی بہو نے بھی کہہ دی تھی تو وہ عورت کہنے لگی ” اس گھر کی مالکن میں ہوں اسے کس نے یہ حق دیا کہ وہ تم پر حکم چلائے ابھی سارے اختیارات میرے ہاتھ میں ہے “ اس لیے جب تک یہ سیاستدان منتخب نہیں ہوجاتے سارے اختیارات عوام کے ہاتھ میں ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے اختیارات اپنی مرضی سے استعمال کریں ورنہ بعد میں یہی سیاستدان بقول پروین شاکر
میں سچ بولوں گی مگر پھر بھی ہار جاﺅں گی  وہ جھوٹ بولے گا اور مجھے لاجواب کر دے گا

مکمل تحریر  »

06/04/13

Tornano tutti

Chi tornerà per ribadirti semplicemente che se n'è andato dalla tua vita.
Chi tornerà da te per riconsumarti ancora un pò il cuore e poi riandarsene.
Chi tornerà per rubarti un ultimo sorriso o un ultima lacrima.
Chi tornerà per dirti che senza di te sta meglio, per il troppo orgloglio, anche se in realtà muore dentro.
Chi tornerà per dirti che ti ha amato, ma che ora non ti ama più.
Chi tornerà da te per un ultimo abbraccio, perchè ha capito che quel calore che emani lo emani solo tu.
Chi tornerà solo per insultarti, e tu con molta tranquilla e l'indifferenza di sempre incasserai senza problemi.
Chi tornerà da te per chiedere perdono, per chiederti di riaprirgli di nuovo le porte del tuo cuore, perchè ha capito che senza di te non può andare avanti, che senza di te la vita è nuvolosa, e tu, allora, che farai?
 

مکمل تحریر  »

گستاخ

ذرا گستاخ تھا اے شمع ، تو نے جان ہی لے لی ،
پتنگا تھا ، کہاں سے سیکھتا آداب محفل کے ،


مکمل تحریر  »

01/04/13

Jim Morrison

Nessuno ti capisce meglio di te stesso,ma se qualcuno cerca di farlo è perchè ti ama...

Jim Morrison

مکمل تحریر  »

31/03/13

adjustment ایڈجسٹمنٹ

  بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ٹی وی نیوز دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید پاکستانیوں میں برداشت نہیں ہے اور وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑ پڑتے ہوں گے لیکن جب پاکستان جائیں تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ پاکستانی کسی بھی بات پر ناراض نہیں ہوتے اور وہ بڑی بڑی سے بڑی غلطی اور زیادتی کو بھی ایک لفظ” ایڈجسٹ “کر لینے پر ختم کر لیتے ہیں مثلاً اگر ایک موٹر سائیکل پر دو آدمی بیٹھ سکتے ہیں تو اسی موٹر سائیکل پردو میاں بیوی اور پانچ بچے ایڈجسٹ کر لیتے ہیں اور کسی پولیس والے کو ،کسی قانون نافذ کرنے والے کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا پانچ سیٹوں والی سوزکی کار میں بار ہ آدمی بیٹھ جاتے ہیں اور لوگ ایڈجسٹ کر لیتے ہیں لاہو رکے رنگ روڈ پر لوگ پیدل اتنے آرام سے سڑک پار کر رے ہوں گے جیسے انا ر کلی ہوجی ٹی روڈ پرلوگ بھینسیںلیکر روڈ پار کر لیں گے اور چلتے ٹرک سے گنے اتار لیں گے گاڑیوں والے رات کو فل لائٹ آن رکھیں گے ، چار میٹر کی ٹرالی کے باہر بار ہ میٹر تک کی سریا کی تاریں ہوں گی لیکن کسی کو کوئی غصہ نہیں آئے گا کوئی کسی کو روکے گا نہیں لوگ ایڈجسٹ کر لیں گے آ پ گاڑی لیکر روڈ پر نکلےں تو گدھا گاڑی والا سکون سے بیچ سڑک میں سبزی فروخت کر رہا ہوگا آپ کی گاڑی دیکھ کر وہ گاہک کے ساتھ پورا حساب کتاب کرے گا اور آپ کو ہاتھ کے اشارہ سے انتظار کرنے کا کہے گاآپ کو ایڈجسٹ کرنا ہوگا چھوٹے بچوں کے سکول کے باہر جا کر منظر دیکھ لیں تین آدمیوں کے رکشہ میں دس دس بچے ٹھسے ہوئے بلکہ لٹکے ہوئے ہوں گے ، چنگ چی نامی رکشہ پر ڈرائیور دس بچے پیچھے اور تین بچے اپنے موٹر سائیکل پر ایڈجسٹ کرلے گا لیکن کسی والد کسی والدہ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا پبلک مقام پرعورتوں اور بچوں کی موجودگی میں لوگ سگریٹ پینا شروع کردیں گے لیکن کوئی غصہ نہیں کرے گا بلکہ ایڈجسٹ کر لیں گے گاڑیوں کے اندر کوئی سیٹ بیلٹ نہیں مسافر ایڈجسٹ کر لے گا راستہ لینے کے لیے گاڑیوں والے بار بار ہارن بجائیں گے ون وے ٹریفک میں ڈرائیور یو ٹرن لیکر مڑنے کی بجائے دو دو کلومیٹر تک بیک گئیر میں آجائے گا بڑی بڑی گاڑیاں اورموٹر سائیکل اس کے دائیں بائیں سے آسانی سے گزر جائیں گے کوئی اس حرکت پر غصہ نہیں کرے گا اور ایڈجسٹ کر لے گا ٹریفک سنتری اگر دیکھ لے تودو چار سو روپیہ لیکر ایڈجسٹ کر لے گا،کوئی بھی سیاستدان اپنے کارکن کو کسی سرکاری نوکری پر رکھوانا چاہے گا تو چاہے ا س محکمہ میں گنجائش نہ بھی ہوتوسفارش کرتے ہوئے کہے گا ”یار اسے کہیں ایڈجسٹ کرلیں “
   پاکستان جا کر کسی بھی گھر میں داخل ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ گھر کے باسیوں نے بھی پاکستان کے ماحول کو ایڈجسٹ کرلیا ہے انہیں بھی حکمرانوں سے ، سیاستدانوں سے اورسرکاری محکموں سے کوئی شکایت نہیں گھر کے اندر اندھیرے ہیں بجلی بائیس بائیس گھنٹے نہیں آتی ہے لیکن انہوں نے یوپی ایس سے ایڈجسٹ کر لیا ہوا ہے یو پی ایس سے صرف ایک بلب آن ہوسکتا ہے ، ٹی وی نہیں دیکھ سکتے،فون کی بیڑی چارج نہیں کر سکتے تو بعض لوگوں نے اس مسئلہ کو جنریٹر سے ایڈجسٹ کر لیا ہواہے کسی کو شکایت نہیں ہے حکومت نے رینٹل پاور پراجیکٹ سے مسئلہ حل کرنا چاہا تو اس میں کرپشن ہوگئی عدالت نے اس معاملہ کو ایڈجسٹ نہ ہونے دیا تو حکومت نے اسی وزیر برائے بجلی و پانی کووزیر اعظم بنا دیالیکن عوام نے اس کرپشن والے معاملہ کو بھی ایڈجسٹ کرلیا
میں پاکستان پہنچا تو پتہ چلا کہ اب جمہوری حکومت نے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں بھی گیس کا کنکشن پہنچا دیا ہے لیکن ان کنکشنوں کی حالت وہی ہے جیسے کوئی نلکا لگا جائے لیکن اس سے پانی کی بجائے شوں شوں کی آواز آتی رہے گیس یا تو کئی کئی دن آتی نہیں اور اگر آتی ہے تواس کا پریشر پورا نہیں ہے جس کی وجہ سے کمروں میں ہیٹر آن نہیں ہوسکتے ، بڑے بڑے مہنگے گیزر ہیں لیکن ان کا پانی گرم نہیں ہوسکتا،چولہے پرروٹی نہیں پکائی جاسکتی کہ پریشر کم ہے یہ پریشر کیا ہوتا ہے ؟میرا کیمسٹری کا علم بھی اس نئی گیسی اصطلاح کا احاطہ نہیں کر سکتا تھابہرحال لوگوں نے گھریلو گیس کے ساتھ ساتھ گیس سلنڈروں کا بھی انتظام کیا ہوا ہے تاکہ گیس کے پریشر والا معاملہ بھی ایڈجسٹ کر لیا جائے پکوڑے سموسے بیچنے والوں نے ریڑھیوں پرتازہ پکوڑوں کو گرد وغبار اور مٹی کے ساتھ ساتھ تلنے کے لئے ریڑھی کے اوپر ہی جگہ بناکر چھوٹے چھوٹے گیسی سلنڈر وں کوبھی ایڈجسٹ کیا ہوا ہے چولہے کے اتنے نزدیک سلنڈروں کی ایڈجسٹمنٹ موت کو دعوت دینا ہے لیکن کوئی بات نہیں وہاں تو گھروں میں ہیٹر کے ساتھ بھی وہ والے گیس کے پائپ استعمال ہوتے ہیں جو یورپ میں پانی کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں یعنی اگر ہیٹراٹھا کر دوسرے کمروں میںلے جانا پڑے تو دوسرے کمرے کی سردی کو بھی ایڈجسٹ کیا جا سکے
  پاکستان میں لوگوں کے پاس اب بڑی بڑی مہنگی گاڑیاں ہیں لیکن پتہ چلا کہ اگران میں سی این جی گیس ڈلوانی ہو تو ضرور ی ہے کہ آپ کی اولاد زیادہ ہو تاکہ آپ سی این جی لینے کے لیے باریاں لگا لیں ایک بیٹا گاڑی لے جائے اور لائین میں لگ جائے پھر دو گھنٹے بعد دوسرا بیٹا پہنچ جائے اور وہ باری کا انتظار کرے اس طرح چوبیس گھنٹوں کے اندر اندرباریاں بدلتے بدلتے آپ اس قابل ہوجائیں گے کہ آپ کی گاڑی میں گیس بھرنے کی باری آجائے گی اگر باری آبھی گئی توگیس اسٹیشن کا ملازم آپ سے کہے گا کہ پریشر پورا نہیں ہے لیکن آپ ایڈجسٹ کر لیں میں نے اٹلی میں چار سال تک گیس والی گاڑی رکھی ہے لیکن یہ پریشر والی گیس کا علم مجھے نہیں تھا سی این جی اسٹیشن پاکستان میں فیس بک اور ٹوئیٹر سے بھی بڑاسوشل نیٹ ورک ہے یہاں کھڑے کھڑے آپ کی دوستیاں ہوسکتی ہیں آپ دیگر ڈرائیوروں سے پوری دنیا کی سیاست ،مذہب اور ثقافت پر دل کھول کر تبصر ہ وتجزیہ اور حالات حاضرہ پر گفتگو کر سکتے ہیں
 جن دنوں میں پاکستان گیا تھا ملک میں ان دنوں انقلاب کی ہوائیں چل رہی تھیں جنوری کے مہینے میں لانگ مارچ ہورہا تھا حکومت کو کلینڈر تبدیل کرنے کی ایڈجسٹمنٹ بالکل نہ بھائی اس لیے انہوں نے میدان میں وہ مرد مجاہد اتاراجس کے پاس ہر مسئلہ کا ایک ہی حل ہے جو نوکیا موبائل فون کے اشتہار  کونیکٹنگ پیپل کواپنے ایک ہی حکم سے غلط ثابت کرسکتا ہے اس مجاہد کا نام رحمان ملک تھا اس نے ”ڈس کو نیکٹنگ پیپل “کا نعرہ بلند کیا اور موبائل سروس معطل کر دی لوگوں کے ہاتھوں میں مہنگے مہنگے موبائل فون تھے لیکن ان میں سروس سگنل غائب تھے یعنی اب پورے ملک میں کسی کا کسی سے کوئی رابطہ نہیںرہا تھا پاکستانیوں کے پاس جو فون تھے ان کا ایک مصرف تو بہرحال تھا کہ رات کو جب بجلی چلی جاتی تھی تو ان موبائل فونز میںایک لائیٹ تھی جس سے وہ رات کو روشنی کر لیتے تھے اور اقبال کی نظم جگنو کے تحت ایک دوسرے کو رستہ دکھا لیتے تھے لیکن میرے پاس چونکہ اٹلی والا فون تھا اور اس میں اضافی لائٹ نہیں تھے اس لیے مجھے حسرت ہی تھی کہ میں اپنے ہم وطن شہریوں کو روشنی نہیں دے سکتا تھا
یہی ایڈجسٹ کر لینے والا کلچر ہی پاکستان جیسے ملک میں تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے یہ اتنی زیادہ برداشت کر لینے کی سکت ہی ہے جو سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی عوام کو اپنی حالت بدلنے نہیں دیتا یہی کلچر این آر او کراتا ہے میثاق جمہوریت کے نام پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کا موقع دیتا ہے چاہے اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے حکومت پر مشکل وقت آتے ہی اپوزیشن اس کے ساتھ مک مکا کر کے ایڈجسٹ کر لیتی ہے اپنے اپنے مفاد کے لیے اٹھارویں ،انیسویں ، بیسویں اور اکیسویں ترمیم پاس کرا لیتی ہیںلیکن عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم رکھتی ہیں مفاہمت کے نام پر اصولوں کو قربان کر دیا جاتا ہے ، لوٹوں کی ادھر ادھر بولیاں لگ جاتی ہیں، ڈکٹیٹر کی کابینہ کے سارے پرانے چہرے جمہوری پارٹیوں کے ماتھے کا سہر ا بن جاتے ہے بلکہ خود ڈکٹیٹربھی ملک میں آجائے تو اس سے بھی ایڈجسٹ کر لیا جاتا ہے ، جعلی ڈگری کا معاملہ ہویا کسی خاتو ن ٹیچر کو تھپڑ مارنے کی سزا ایڈجسٹ کر کے پرانے قصے بلا دیے جاتے ہیں ، نئی سوچ نئے وژن اور نوجوان نسل کو پس پشت ڈال کر پھر سے پرانے چہروں کوگھسی پٹی سیاسی نظام میں ایڈجسٹ کر لیا جاتا ہے ملک میں روپے کی قیمت روزانہ کی بنیاد پر ڈی ویلیو ہو جائے، لاقانونیت کا راج ہوجائے ، بھتہ مافیا عروج پکڑ جائے، کراچی سے لیکر کوئٹہ تک خون کی ندیاں بہا دی جائیں نہ کوئی ایف آئی آر نہ کوئی کاروائی ، نہ تعلیم ،نہ صحت ، نہ نوکری ،نہ میرٹ ، نہ بجلی، نہ گیس اور نہ ہی انسانی بنیادی سہولتیں لیکن عوام ہیں کہ ایڈجسٹ پہ ایڈجسٹ کیے جاتے ہیں ملک میں نیچے سے لیکر اوپر تک یہ ایڈجسٹ کر لینے والا کلچر پروان چڑھ گیا ہے اب الیکشن آنے کو ہیں لیکن مختلف نظریات رکھنے والی جماعتیں ایک دوسرے سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایک بار پھر عوام” آوے ای آوے ، دیکھو دیکھو کون آیا ، زندہ ہے زندہ ہے اور بدلیں گے پاکستان “کے صرف نعروں پراکتفا کرتے ہوئے ایڈجسٹ کرتے ہیں یا اپنی حالت بدلنے کی سعی کرتے ہیں
 




مکمل تحریر  »

لوٹ آنا

عرصہ ء خواب میں رہنا کہ لوٹ آنا ہے
 
 
فیصلہ کرنے کی اس بار ہے باری اس کی 

مکمل تحریر  »

19/03/13

Risate


مکمل تحریر  »

17/03/13

ہار

باباجی کہنے لگے ۔۔۔محبت ایک ایسا کھیل ہے جس کا انجام ہی ہار ہے تو ایسے کھیل کھیلنے میں کیا دلچسپی لینا جسکا پہلے ہی پتہ ہو کہ ہارنا ہی مقدر بنے گا۔۔۔۔ کہنے لگے محبت کسی کے سامنے اپنے آپ کو سرنڈر کرنے کانام ہے اس لیے انسان کبھی بھی اپنے محبوب سے جیت نہیں سکتا کہ جس کے سامنے اپنی انا کو ذلیل کر لیا اس سے یہ امید رکھنا کہ وہ عزت دے گا یہ خام خیال ہی ہے ۔۔۔۔۔ میں نے کہا بابا جی یہ محبت میں کسی کو بھلانا اتنا مشکل کیوں ہوجا تا ہے وہ مسکرا پڑے کہنے لگے یہ بھی عجیب ہی معمہ ہے کہ جن کو ہم ساری زندگی بے وفا کہتے ہیں اور ان سے دوری کا شکوہ کرتے رہتے ہیں وہی تو ہر پل ہمارے ساتھ رہتے ہیں ہر وقت ہماری یادوں میں اپنی صحبت سے محظوظ کراتے رہتے ہیں 

مکمل تحریر  »

11/03/13

جو خاموش ہے وہ بھی مجرم ہے


 
جرمنی کے ایک عیسائی پروٹسنٹ اسکالر مارٹن نیمولرنے ہٹلر کے نازی ازم کے دور کے بارے چند شہرہ آفاق جملے لکھے جو آج کل کے پاکستان کے ماحول پر بڑی صادق آتے ہیں وہ نازیوں کے بار ے لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ جب وہ یہودیوں کو لینے آئے تو میں خاموش رہا کیونکہ میں یہودی نہیں تھا ۔۔۔جب وہ ہم جنس پرست ہیجڑوں کو لینے آئے تو میں خاموش رہا کہ میں ہم جنس پرست نہیں تھا ۔۔ جب وہ کیمونسٹوں کو لینے آئے تو میں خاموش رہا کہ میں کیمونسٹ نہیں تھا ۔۔۔ جب وہ خانہ بدوشوں کو لینے آئے تو میں خاموش رہا کہ میں خانہ بدوش بھی نہیں تھا ۔۔
  لیکن جب وہ مجھے لینے آئے تو اس وقت کوئی باقی نہیں رہ گیا تھا جو میرا دفاع کرتا۔۔۔۔۔
 گزشتہ سال اٹلی میں ہمارے شہر کی کیتھولک تنظیموں اور چرچ نے پاکستان کے سابق وفاقی وزیر شہباز بھٹی کی یاد میں ایک پروگرام کاانعقاد کیا چرچ کی جانب سے ایک دعوت نامہ ہمیں بھی ملااس پروگرا م کے مہمان خصوصی پاکستان میں اقلیتی امور کے وفاقی وزیر اورمرحوم شہباز بھٹی کے بھائی جناب پال بھٹی صاحب تھے یہ پروگرام ایک جدید نوعیت کے چرچ میں ہورہا تھا اور ہال میں سینکڑوں اطالوی شہری موجود تھے یہ پروگرام دہشت گردوں کے ہاتھوں ”آل پاکستان مائناریٹیز الائنس کے سابق چیئر مین اورسابق وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کے قتل کے موضوع پر تھا پروگرام کا نقیب ایک نوجوان اطالوی کیتھولک تھا وہ شہباز بھٹی کی عظیم قربانی اور ان کی شخصیت پر گفتگوکرنے کی بجائے بات گھما پھرا کر پاکستان میں تحفظ ِناموس رسالت کے قانون کی طرف لے آتااس نے سارے اعدادوشمارجمع کر رکھے تھے جن کے مطابق پاکستان میں اس قانون کی بنا پر وہاں کی عیسائی اقلیت کونشانہ بنایا جاتا ہے اپنی گفتگو میں اس نے اس قانون کے متاثرین میں اٹھارہ سال سے کم عمران بچوں کے واقعات بھی سنائے جواس قانون کی ذد میں جیل چلے گئے لیکن جب پال بھٹی صاحب کو گفتگو کا موقع ملا تو انہوں نے اپنی بھائی کی زندگی ،ان کی سیاسی جدوجہد اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ڈٹ جانے کے واقعات کو موضوع بنایا اور بتایا کہ ان کی آخری رسومات میں ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کرکے ثابت کیا کہ پاکستانیوں کی اکثریت انتہا پسند نہیں ہے
  پال بھٹی صاحب نے اٹلی کی ہی پادوایونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کیا ہوا ہے اور وہ پلاسٹک اینڈ کاسمیٹک سرجری کی ماسٹر ڈگری بھی پادوا سے ہی لے چکے ہیں اور اٹلی میں تریویزو شہر میں بطور ڈاکٹرتاحال سروس بھی کرتے رہے ہیں اسی لیے ان کی تقریرا نتہائی اچھی اطالوی زبان میںتھی انتہا پسندوں کے ہاتھوں اپنا سگا بھائی قتل کروا چکنے کے بعد بھی پاکستان کے بارے ان کی گفتگو پاکستا ن کابارے مثبت تھی ان کی تقریر کے بعد ایک بار پھر پروگرام کے نقیب نے دوبارہ ان سے” بلاسفامی لائ“ کے بارے رائے جاننا چاہی اور پوچھا کہ کیا اسے ختم کرانے میں پوری دنیا کے کو پاکستان پر زور نہیں ڈالنا چاہیے ؟لیکن پال بھٹی صاحب نے بڑے ہی ڈپلومیٹک طریقے سے کہا کہ خرابی قانون میں نہیں ہے مسئلہ لوگوں کی تعلیم وتربیت اور قانون کے غلط استعمال کا ہے کہ اسی قانون کو بہت سے مسلمانوں کے خلاف بھی استعمال کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ وہاں کہ لوگوں میں انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے ہمیں پاکستان میں غربت کے خاتمہ اور تعلیم عام کرنے کے لیے مدد کر نی چاہیے پروگرام میں مجھے بھی گفتگو کرنے کا موقع دیا گیا تو میں نے کہا کہ” بین الاقوامی سیاسی حالات نے پاکستان میں بے چینی اورتفرقانہ تقسیم کو ہوا دی ہے میں نے کہاکہ جب نیٹو کے افواج سلالہ چیک پوسٹ میں جاکر 26پاکستانی فوجیوں کوشہیدکردیتی ہیں جب اس ملک پر ڈرون حملے کیے جاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں انتہاپسندطبقہ کے نقطہ نظر کوتقویت پہنچتی ہے میں نے واضع کیا کہ فرقہ پرستی اور انتہا پسندی کا خمیازہ صرف ملک کی غیر مسلم اقلیتیں ہی نہیں بھگت رہی ہیں بلکہ ان کا نشانہ ملک کی مسلمان اقلیتی فرقے بھی بنتے ہیں
میں ذاتی طور پر پال بھٹی کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا انہوں نے ایک اچھاپاکستانی ہونے کا ثبوت دیا پروگرام کے آخر میں ان سے ملاقات ہوئی تو انہیں ایک سچا پاکستانی پایا جس کے دل میں پاکستان کی محبت رچی ہوئی تھی وہ کہنے لگے کہ انہوں نے قرآن پڑھا ہوا ہے اور وہ ساری دنیا میں یہی پیغام لیکر جاتے ہیں کہ اسلام ایک پر امن دین ہے مسئلہ صرف ان انتہا پسندوں کا ہے جو اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔۔“میری ذاتی رائے میں جناب پال بھٹی جیسے کیتھولک پاکستانیوں کو ایسے ممالک میں پاکستانی سفیر بنا کر بھیجاجانا چاہیے جہاں عیسائی ودیگر مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیںجتنے بہتر طریقے سے یہ پاکستانی اپنے ملک کا کیس لڑ سکتے ہیں شایدہی کوئی دوسرالڑسکے لیکن پاکستان میں اتنے سالوں سے جاری دہشت گردی اور فرقہ پرستی کے واقعات میں سیاستدانوں کی نااہلی شاید بہت زیادہ دیر تک اقلیتوں کے دل میں پاکستان کی محبت کومضبوطی سے جما کر نہ رکھ سکے
  آپ اسی سال کا بائیو ڈاٹا نکال کر دیکھ لیں رواں سال کے ابتدائی دو ماہ میں1350افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اسی سال کے ابتدائی دو ماہ میں فرقہ واریت کے40سے زائد پرتشدد واقعات میں تین سو سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ بھی جاری ہے۔ کوئٹہ میں اہل تشیع کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ لوگ اپنی جیبوں میں شناختی کارڈ لیکر نکلنے میں خائف ہیں اور اب حال ہی میںکراچی میں عباس ٹاﺅن میں رہائشی علاقہ میں دہشت گردی کے واقعہ پر بحث ختم نہیں ہوئی کہ لاہور کے بادامی باغ علاقہ میں عیسائی خاکروبوں کے 178گھروں کا جلا کر بھسم کر دینے والا واقعہ کون سے پاکستان کا امیج دکھا رہا ہے اور کس منہ سے ہم اقلیتوں کو پاکستان سے محبت رکھنے کاخواب دیکھ سکتے ہیں کسی بھی ملک میں تشدد اس وقت آتا ہے جب ملکی کا سیاسی طبقہ نا اہل ، مفاد پرست اور اقتدار کی خاطر حریص ہو جائے جو حکومت اپنے شہریوں کے ایک طبقہ یا اقلیت کو تحفظ نہیں دے سکتی کیا وہ حکومت کہلانے کی حقدار ہے؟ جس ملک کے کونے کونے میں موت کا رقص جاری ہو جہاں ہسپتال کی ایمر جینسی وارڈیںروز بروز کے سانحہ کے نتیجے میں زخمیوں کے لیے نا کافی ہوجائیں جہاں قبرستانوں میں قبروں کے لیے جگہ کم پڑ جائے جہاں لوگ اپنی نوے نوے لاشیں لیکر سڑکوں پر تین تین دن سخت سردی میں انصاف کی بھیک مانگتے ہوں جہاں اقلیتیں پور ے ملک میں ساڑھے سات سو دھرنے دے کر حکومت کو اس کا فرض یاد دلاتی ہوں اور جہاں ان تمام واقعات کے بعدبھی کوئی اپنے عہدے اپنی وزارت سے شرم کے باعث مستعفیٰ نہ ہوجہاں کوئی سیاسی و مذہبی جماعت اس عفریت سے نکلنے کاحل دینے کی بجائے خاموش ہوجائیں وہاں سیاستدانوں اور حکمرانوں سے گلہ کرناتو عبث ہے کہ اگر وہ وفاق میں ہوںتو کسی صوبے پر الزام دھریں گے اور اگر صوبہ میں ہوں تو وفاق کو موردالزام ٹھہرائیں گے
اصل المیہ ملک کی عوام کا ہے جو جرمنی کے مارٹن نیمولرکی طرح اس زعم میں خاموش ہے کہ کوئی بات نہیں ابھی ان کی باری نہیں آئی اگر ملک میں اہل تشیع کو نشانہ بنایا جاتا ہے توعوام کی اکثریت خاموش ہوجاتی ہے کہ ہم کونسا شیعہ ہیں ؟اگر ملک میں عیسائی بستی کو جلا دیا جاتا ہے تو یہ خاموش رہتے ہیں کہ ہم کونسا عیسائی ہیں ؟ کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ پر خاموش رہتے ہیں کہ ہم کونسا کراچی میں رہ رہے ہیں ؟ ڈرون حملوں میں مرنے والے بچوں کی موت پر رنجیدہ نہیں ہوتے کہ کونسا ہمارے بچے ہیں ؟جوکسی ملالہ کے سر پر گولیاں چلانے والوں کو اس لیے تنقید کا نشانہ نہیں بناتے کہ اس کی تعریف بان کی مون نے کر دی ہے جو کسی بھی واقعہ پر ایک نئی بحث چھیڑ دیتے ہیں کہ اس میں کوئی بیرونی ہاتھ ملوث ہے ،جوفرقہ وارانہ قتل وغارت میں یہ سوچ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ چلو ان فسادات کے باعث مخالف فرقہ کمزور ہورہا ہے اس معاشرہ کا کیابنے گا جہاں اقلیتوں کی بچیوں کو بالجبر مسلمان کیا جاتا ہے جہاں محبت رسول ِ امن و آتشی ﷺ کے نام پر بستیاں جلا دی جاتی ہیں وہ جنہوں نے پتھر مارنے والوں کے لیے دعائیں مانگیں ان کی ناموس کا بہانہ بنا کر بے قصور لوگوں کے گھروں میں لوٹ مار کی جاتی ہے اور حکومت مذمتی بیان دے کر سمجھتی ہے کہ اس نے اپنا حق ادا کر دیا
  دنیا میں جہاں بھی انقلابات آئے وہ متوسط طبقہ کے باہمی اتفاق سے ممکن ہوئے اور دنیا میں جہاں بھی تباہی ہوئی انسانی جسم لاشوں میں تبدیل ہوئے گردنیں تہ تیغ ہوئیں بستیاں جلائی گئی وہ مڈل کلاس طبقہ کی آپسی ناچاقی اور تقسیم سے ممکن ہوئی جب معاشروں میں برائی اس مقام تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ کسی اپنے جیسے دوسرے انسان پر ہونے والی زیادتی پر محض اس لیے خاموش ہوجاتا ہے کہ اس دوسرے شخص کا نظریہ، عقیدہ ،مذہبی و سیاسی نقطہ نظر اس سے مختلف ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ ظلم ایک آگ کی طرح ہوتا ہے جس میں پڑوسی کے گھر میں لگنے والی آگ کو اگر نہ روکا جائے تو اپنا گھر بھی جل کربھسم ہوسکتا ہے اور جب اس کے گھر کی آگ بجھانے نہ جائیں تو جب اپنی باری آتی ہے تو بچانے والا کوئی نہیںرہتا 



مکمل تحریر  »

09/03/13

Sunno

سنو
میرا یہ دل تم رکھ لو
 
 
میرے پاس توویسے بھی یہ پریشان رہتا ہے 

مکمل تحریر  »

19/02/13

difficili da amare

Quelli che sono più difficili da amare di solito sono quelli che ne hanno più bisogno.

مکمل تحریر  »

13/02/13

ویلنٹائین

  وہ کہنے لگا ”بابا جی مجھے محبت سے نفرت تھی “ بابا جی کے چہرے پر اچھنبے کی ہلکی سی شکن ابھری اور غائب ہو گئی اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ”اصل میں بچپن سے ہی میں فیوچر کانشس ثابت ہوا تھا مجھے لگتا تھا پیار،محبت ، رشتے یادوستیاںکامیابی کے راستے میں پاﺅں کی بیڑیاں ثابت ہوتے ہیں میرا خیال تھا جب کسی بچے کی ماںکہتی ہے کہ اس کا بیٹا مسلسل محنت سے تھک گیا ہوگا تو وہ اسے کام چور بناتی ہے جب کوئی طالبعلم اپنے دوست کو کہتا ہے کہ آﺅ گھومنے چلیں تو وہ پڑھائی سے اس کی توجہ ہٹاتا ہے“ وہ کہنے لگا” میں مادیت پرست یا دولت کی دوڑ میں شامل ہونے والالا لچی یا بخیل نہیں تھابس میں کامیاب انسان بننا چاہتا تھا اور میرامانناتھا کہ محبتیں انسان کو کمزوراورمستقبل کی فکر سے بے پرواہ کرتی ہیں عشق انسان کو نکما بنا دیتاہے وہ شاعروں کی طرح کاہل اور ادیبوں کی طرح سست ہوجاتا ہے وہ زندگی کی دوڑ میں ناکام نہ بھی ہو تو بہت پیچھے ضرور رہ جاتا ہوگا محبت کے بارے ان نظریات نے مجھے صنف نازک سے بھی کوسوں دور رکھا لیکن پھر وہ آئی ۔۔“اس نے تھوڑا سا توقف کیا اور باباجی کے چہرے کی کیفیت بھانپنا چاہی لیکن وہ کمال بے نیازی اور انہماک سے اس کی داستان سن رہے تھے اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا
 ” اس کی آمد ایسے ہی تھی جیسے جھیل کے ٹھہرے پانیوں میں کوئی کنکر پھینک دے اور لہریں محو رقص ہوجائیں ، جیسے کسی وادی پر ایک دم سے کوئی چشمہ پھوٹ پڑے اور اسکا شور جلترنگ پیدا کر دے ،جیسے کسی تاریخی گنبدکے موت جیسے سکوت میں کوئی سیٹی بجادے اوراس کی باز گشت پوری عمارت کی خاموشی توڑدے، جیسے چھم سے کوئی بدلی برسنا شروع ہوجائے اور رم جھم کا سماں باندھ دے وہ ایک طوفان کی طرح آئی اور میری ذات اور میرے نظریات کے بخیے کر گئی “ وہ کچھ توقف کے بعد بولا ”بابا جی یہ نظریات بھی بڑے ظالم ہوتے ہیں یہ اصول یہ ضابطے اوران کی پابندی بھی ایک قسم کی غلامی ہی ہوتی ہے انسان ساری غلامیوں سے لڑکر آزادی حاصل کر سکتا ہے لیکن اپنے اصولوں کے حصار سے چھٹکارا نہیں پا سکتا “ایک ہلکی سی مسکان نے بابا جی کے چہرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا وہ کہنے لگا ” اس نے مجھے پہلی بار محبت کے لمس سے آشنا کرایا ۔راتوں کی بے خوابی کا مزہ کیا ہوتا ہے ،تخیل کی خلوتوں میں محفل کیسے سجتی ہے ،بیرونی سکوت میں اندرونی شور کتنا پیارا ہوتا ہے ،تنہائیاں کیسے مسکرانا شروع کر دیتی ہیں ۔۔ میں نہیں جانتا تھامیرے لیے یہ سب نیا تھا، یہ سب اچھوتااور دلنشین تجربہ تھا لیکن کیا کرتا کہ میری ذات کے اردگرد میرے اپنے ہی بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کی اتنی موٹی زنجیریں تھیں کہ میں ان سے آزادی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا میں وہ پرندہ تھا جو اپنے پنجرے کاعادی تھا ۔بابا جی !لیکن و ہ آندھی کی طرح آئی تھی اور طوفان کی طرح چلی گئی وہ بھی سیلاب کی طرح ہی ثابت ہوئی جو ٹنڈمنڈ سی حالت چھوڑجاتا ہے لیکن اس کھڑے پانی کی طرح نہیں ہوتا جو بنیادیں ہل جانے تک اور دیوا ر گر جانے تک کا انتظار کرتا ہے ۔۔“بابا جی کہنے لگے”پھر اس کے جانے کا تمہیں کیا گلہ ہے تم اپنے اصولوں کے سنگھاسن پر تو برا جما ن رہے۔۔“
وہ گویا ہوا ”بابا جی! آپ نے نظا م شمسی کی بنیاد کا قصہ تو سائنسدانوں سے سنا ہو گا کہ لاکھوں سال پہلے ایک بہت بڑا سیارہ سورج کے پاس سے گزرا تھا جس کی کشش سے سورج کے کئی ٹکڑے ہوئے اور زمین بھی انہیں ٹکڑوں میں اسے ایک ٹکڑا ہے “بابا جی نے اثبات میں سر ہلایا وہ کہنے لگا ”میرے زندگی میں وہ اسی سیارے کی طرح ثابت ہوئی جو میری ذات کے اتنے قریب سے گزری کہ اپنی مقناطیسی کشش سے میرے ذات کے اتنے ٹکڑے کئے کہ اب چین ، سکون ، ذوق ِتنہائی سب میری ذات سے جد ا ہوکر ہوا میں معلق ہوگئے ہیںیہ سب نظام شمسی کے ٹکڑوں کی طرح میرے ارد گرد اپنے اپنے مداروں میں مسلسل حرکت کرتے رہتے ہیں لیکن میری ذات کا حصہ نہیں بنتے اور اضطراب میرا مقدر ٹھہر گیاہے‘ ‘ باباجی کہنے لگے ”بیٹا ! عورت اور مرد میں یہی فرق ہے عورت میں قدرتی طور پر مشکلات کا مقابلہ کرنے کی زیادہ سکت ہوتی ہے وہ کبھی ٹوٹ کر نہیں بکھرتی کیونکہ اسے سنبھلناآتا ہے وہ جب ایک کواڑبند کرتی ہے تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتی وہ محبت کے معاملہ میں بھی ایسی ہی ہے وہ بڑے مان سے کہ سکتی” میں بدلنے والوں میں سے نہیں“ لیکن جب بدلتی ہے تو پتہ بھی نہیں چلتا “وہ کہنے لگے ”ٹوٹ کر کی جانے والی محبت میں صرف عورتیں ہی کامیاب ہوسکتی ہیں مردوں کااتنا حوصلہ ہی نہیں ہوتاکہ وہ بکھر کر سنبھل سکیں ۔۔کیا تم نے کسی عورت کے دیوداس بننے کی داستان سنی ہے ؟کبھی سنا کہ کوئی عورت مجنوں کی طرح اپنے سر پر خاک ڈالتی رہی کہیں پڑ ھا کہ اس نے رانجھے کی طرح جوگ لے لیا ۔۔“
 اس نے مضطرب نظروں سے بابا جی کی طرف دیکھا اور پوچھنے لگا ”باباجی۔میری ادھوری محبت کی اس پوری کہانی میں میری غلطی کیا تھا؟ میںنے اسے شروع نہیں کیا تو پھر سب سے بڑی سزا مجھے کیوں ملی؟ میں تو مزے سے اپنی بے سرور زندگی میں بھی خوش تھا پھر بے چینی میرا مقدر کیوں بن گئی ہے؟ میری داستا ن میں کوئی ویلنٹائین ہمارے ہاتھوں میں سرخ گلاب پکڑانے کیوں نہیں آیا؟ہمارے ارد گرد سفید کبوتروں کے جوڑے ہوا میں کیوں نہیں اڑے ؟اور کیا میرے دل کواب کبھی سکون میسر نہیں آئے گا ؟ “
 باباجی کے چہرے پر عجیب سی طمانیت تھی جیسے غم جاناں کے بکھیڑوں سے ان کا کوئی لینا دینا نہ ہو وہ مسکرائے اور کہنے لگے” میں تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں “اسے باباجی کی بھول بھلیوں والی یہی عادت عجیب لگتی تھی کہ وہ کبھی کسی بات کا دو ٹوک جواب نہیں دیتے تھے وہ گویا ہوئے
 ”ایک دفعہ ایک صحر ائی گاﺅں کے ایک باسی نے ایک مسئلہ کے لئے حاکم وقت سے ملاقات کے لئے سفر اختیار کیا تو راستہ میں اسے ایک میٹھے پانی کا کنواں ملااس نے اس کنویں سے پانی پیااتنا میٹھا پانی اس نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں پیا تھا وہ سمجھا شاید یہ پانی کی کوئی انمول اورنایاب قسم ہے اس نے سوچا کہ وہ بادشاہ سے ملنے جارہا ہے تو کیوں نہ اس کے لئے بھی تحفے کے طور پریہ پانی لے جائے جب وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا تو اس نے بادشاہ کو اپنی درخواست پیش کی اور وہی پانی تحفے کے طور پر بادشاہ کو یہ کہتے ہوئے دیا کہ”بادشاہ سلامت آپ نے اتنا میٹھا پانی اپنی زندگی میں کبھی نہیں پیا ہوگا“ بادشاہ نے پانی پیا اسے اس پانی میں کوئی خاص بات نظر نہ آئی لیکن اس نے اس کا مسئلہ حل کیا اور انعام وکرام دیکر رخصت کیا لیکن اس پرایک شرط عائد کی کہ وہ اپنا سفر یہیں ختم کرے گا اور یہیں سے واپس اپنی بستی لوٹ جائے گا“ اس نے بادشاہ کے حکم کی تکمیل کی اور انعامات لیکر واپس لوٹ گیا بادشاہ کے وزیروں نے اس سے دریافت کیا کہ ”عالی پناہ!آپ نے اس صحرائی کو یہیں سے واپس لوٹ جانے کا کیوں کہا؟اور اس پانی میں کیاخاص بات تھی؟ “ تو بادشاہ کہنے لگا ” وہ بے چارا اتنا بھولا اور سادہ لوح ہے کہ پانی کی میٹھے ذائقہ سے ہی آشنا نہیں تھا اور ایک عام پانی کو بڑا نایاب سمجھ رہا تھا میں نے اسے یہیں سے واپس اسے لیے بھیج دیاہے کہ وہ اگر میرے دوسرے شہروں میں جاتا تو دیکھتا کہ اس سے بھی بہتر پانی ہمارے ملک میں موجو د ہے وہ اگر پانی کے اصلی ذائقہ سے آشنا ہوجاتا تو اسے نایا ب نہیں سمجھتا اور شاید اسی قسم کے پانی کا مطالبہ سارے علاقے کے لیے کر دیتا“یہ واقعہ سنا کر بابا جی کہنے لگے ”اصل میں اس سے ملنے سے پہلے تم بھی محبت کے اس ذائقہ سے آشنا نہیں تھے اس لیے تمہاری زندگی سکون سے گزر رہی تھی اور تم بھی کڑوے پانی کو ہی میٹھا سمجھ رہے تھے لیکن جب سے اس نے تمہیں میٹھے پانی کی اصلی مٹھاس سے آشنا کراد یاہے تمہاری زندگی سے سکون غائب ہوگیا ہے اور یہ سکون اب کبھی آئے گا بھی نہیں۔۔۔“ اس نے اضطرب بھرے لہجے میں پھر سوال کیا ”تو کیا پھر میں اس بے سکونی و بے چینی کو اپنا مقدر سمجھ لوں“
بابا جی پھر مسکرائے اطمینان نے پھر ان کے چہرے کو اپنی آغوش میں لے لیا کہنے لگے” نہیں۔ بالکل نہیں۔ تم اس محسن کے دئے ہوئے اس انمول ونایاب تحفے کو لوگوں میں بانٹ دو۔۔اس مٹھاس کو اپنے لہجے میں لے آﺅ۔۔محبت چھیننے یا فتح کرنے کا نام نہیں یہ بانٹنے اور تقسیم کرنے والی شے ہے ۔۔۔جس میں انس نہیں وہ انسان نہیں ہے ۔۔جوحب سے نا آشنا ہے اسے محب ، محبوب اور حبیب میں سے کوئی درجہ نصیب نہیں ہوتا ۔۔ محبت کے وجود سے ناآشناشخص کی زندگی پھیکے شربت اورکاغذی پھول جیسی ہے۔ ۔جس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ۔۔۔جو محبت کی حلاوت سے آشنا ہوجاتا ہے اس کے لہجے میں مٹھاس آجاتی ہے لیکن جو ناکام رہ جاتا ہے ۔۔وہ بھی نرم و گدازطبیعت ہوجاتا ہے ۔۔“ با با جی کہنے لگے ” تمہیں کیوں کسی ویلنٹائین کی تلاش ہے تم خود یہ کردار ادا کرنے کی کوشش کیوں نہیںکرتے ۔۔۔میں جانتا ہوں اس مٹھاس کا قحط تمہیں تاریکی میں جلنے والی شمع کی طرح کر دےگا اور لمحہ بہ لمحہ تمہارا وجود اس بے چینی کی آگ میں جل کر کم ہونا شروع جائے گا۔۔ لیکن یاد رکھوکہ شمع خود تو جل کر راکھ ہوجاتی ہے لیکن اس کی روشنی کئی گم راہ مسافروں کو جانب ِمنزل سفر کا موقع دے دیتی ہے۔۔۔“باباجی پھر مسکرائے لیکن ان کی آنکھوں میں نمی سی تیرنا شروع ہوگئی تھی جیسے وہ بھی تاریکی میں جلنے والی کوئی شمع ہوں۔۔۔۔۔۔۔

مکمل تحریر  »

06/02/13

نیاسیل فون

جانتی ہو میں نے نیاسیل فون خریدا ہے
میرا تمہا را اور سیل فون کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے
کہ ناتا ہمار اسدا ہوا میں ہی معلق رہا ہے
اس میں بہت سے فنکشن ہے
جن سے مجھے کچھ خاص لگاﺅ بھی نہیں ہے
لیکن ایک فنکشن ایسا ہے جو مجھے بہت پریشان کرتا ہے
اس میں جو کالیں زیادہ کی جاتی ہیں
ان کو وہ رجسٹر کر لیتا ہے
اور انہیں خا ص اہمیت دیتا ہے
جب بھی کوئی نئی کال کرنے لگتا ہوں
وہ سب سے پہلے سب سے زیادہ کیے جانے والے
ان نمبرز کی لسٹ دکھاتا ہے جو زیادہ بار کیے اور سنے گئے
آج جو بات مجھے سب سے زیادہ تکلیف دیتی ہے
وہ یہ ہے
کی زیادہ بار کئے جانے والی فون کالز لسٹ میں یہ فنکشن
تمہارا نمبر کبھی بھی نہیں دکھاتا
مشین ہی تو ہے یہ کیا جانے
دل کیا ہے اور شماریات کیا ہے

مکمل تحریر  »

پی آئی اے یا پیا کا گھر

 
اطالوی زبان میں پاکستان انٹرنیشنل کی پی آئی اے فلائٹ کو” پیا“ کہا جاتا ہے لیکن شایدانہیں معلوم نہیں کہ پی آئی اے والے مسافروں کے ساتھ سلوک بھی ”پیا “جیسا ہی کرتے ہیں دوسری ائیر لائین کمپنیوںکا عملہ تو مسافروں کے ساتھ بڑے سلیقے سے پیش آتاہے لیکن یہ پاکستانیوں کے ساتھ” صرف“ سلیقے سے پیش آتے ہیںپی آئی اے والوں کی شکایت ہے کہ پاکستانی مسافر بھی جہازکے اندرداخل ہوتے ہی وہی رویہ اپنا لیتے ہیں جو پیا کے گھر میں داخل ہوتے اپنا یا جاتا ہے ایک یورپی نے ایک پاکستانی سے سوال پوچھا کہ جب کسی پاکستانی عورت کا ”پیا “یعنی خاوندفوت ہو جاتا ہے تو وہ اس کے افسوس میں اپنی ساری چوڑیاں توڑ دیتی ہے اور اگر خدانخواستہ کسی پاکستانی مرد کی بیوی فوت ہوجائے تو وہ کیا توڑتا ہے؟تو اس پاکستانی نے جواب دیا کہ ”اس کی عورت مرنے سے پہلے گھر میں کچھ توڑنے کے لئے باقی چھوڑتی ہی نہیں تو وہ کیا توڑے۔۔ ؟ پی آئی اے کی فلائٹ میں داخل ہوں تو یہ احساس بھی فوراً ہو جاتا ہے کہ اس میں توڑپھوڑ کرنے والے اسے بنانے والے یا سنوارنے والوں سے زیادہ ہاتھ دکھا گئے ہیں جو لوگ یہ پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستانی بڑے سست الوجودہیں اور تاش جیسی بیٹھی کھیلوں کے شوقین ہیں انہوں نے شاید پی آئی اے کے اندر پاکستانیوں کونہیں دیکھا کہ جو سیٹیں مل جانے پر بھی اپنے قدموں پر کھڑا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔جہازکا عملہ بار بار یہ آواز لگاتا رہے کہ اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ جائیں تاکہ اندازہ ہو کو ن کس سیٹ پر بیٹھا ہوا ہے لیکن مسافر عملے کو بھی تسلی دیتے رہتے ہیں کہ کوئی مسئلہ نہیں جہاں سیٹ مل جائے گی بیٹھ جائیں گے اپنی ہی فلائیٹ ہے۔۔
گزشتہ دنوں مجھے بذریعہ پی آئی اے پاکستان سفر کرنے کا موقع ملاتمام سیٹیوں کی بورڈنگ نمبر کے لحاظ سے ہوتی ہے لیکن فلائیٹ کے اندر یہ تکلفات ختم ہوجاتے ہیں ایک پاکستانی پچھلی سیٹ سے اٹھ کر آیا اور اپنے دوست سے کہنے لگا ”جگہ ملی آ؟۔۔ پچھے آجا میں جگہ بنائی اے “ ایسے جیسے ”پرالی“ ڈال کر انتظام کیا ہو میلان سے اگر آپ فلائی کریں تو پی آئی اے کی فلائیٹ پہلے پیرس جاتی ہے اس لیے اکثر آپ سنیں گے” او یار!فکر نہ کر پیرس جا کر ساری خالی ہوجائے گی ۔۔“ میلان سے اڑنے والے مسافر پانچ منٹ کے اندر اندر تحقیق کرلیتے ہیں کہ پیرس کتنے اترنے والے ہیں لیکن انہیں اس بات کا اندازہ نہیںہوتا کہ اترنے کے بعد وہاں سے بھی مسافر چڑھیں گے وہ اتنی بے فکری سے تین تین سیٹوں پر بے دھڑک سو جاتے ہیں جیسے اب یہاں کوئی نہیں ۔۔کوئی نہیں آئے گا۔۔ بعض مسافرعملے سے فورا ً کھڑکی کی سیٹ کے لئے ضد کرنا شروع کر دیتے ہیں ایک موصوف تو بحث کر رہے تھے کہ انہیں دمہ ہے اور وہ کھڑکی والی سائیڈ پر اس لئے بیٹھنا چاہتے تھے کہ ہوا لگتی رہے ۔۔۔ایک مسافر کو مطالعہ کا شوق تھا وہ کھڑکی کی طرف اس لئے بضد تھا کہ روشنی آتی رہے۔۔۔ بعض لوگ سیٹ پر بیٹھے ہی اپنے جوتے اور جرابیں اتار دیتے ہیں تاکہ جہاز کے اندر کا موسم گل و گلزارہوجائے ۔۔۔
جہاز میں بیٹھتے ہی مسافروں کی شکایات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ایک مسافرکہہ رہا تھا کہ اپنے ملک کی فلائیٹ سمجھ کر بیٹھ جاتے ہیں باقی جہاں تک عملے کے رویہ کی بات ہی دل ہی نہیں کرتا۔۔آپ ان ائیر ہوسٹس کو دیکھیں ساری کی ساری بوڑھی آنٹیاں ہیں ۔وہ اتنا کہہ رہا تھا کہ فلائیٹ اڑنے سے پہلے ہی ساری آنٹیاں وی آئی پی کلاس میں بھیج دی گئیں اور اس کی تواضع کے لئے داڑھی والے انکل بھیج دئے گئے کہنے لگا ”لو کر لو گل ۔۔۔ “ خواتین ایر ہوسٹس وہ آنٹیاں ثابت ہوتی ہیں جو ہر وقت بچوں کو ڈانٹتی رہتی ہیں اور سیٹ پر بٹھا دیتی ہیں ان کے پاس ایک اضافی دھمکی بھی ہوتی ہے کہ حفاظتی بند باندھ لیں موسم خراب ہورہا ہے ایک مسافر کو جہاز کی انٹریر ڈیکوریشن پر اعتراض تھا کہنے لگا اس کے قالین دیکھیں لگتا ہے کسی ٹینٹ سروس سے لئے گئے ہیں ۔۔۔ایک مسافر کے پیٹ میں گڑبڑ تھی اس نے ائیرہوسٹس سے پوچھا ”اجوائین مل جائے گی ۔۔“ ایک طالبہ اپنے ساتھ اپنا لیپ ٹاپ کمپیوٹر لے آئی تھی اور عملے سے یہ پوچھ رہی تھی کہ اس کو چارج کیسے کروں “اسٹیورڈ انکل کہنے لگے ” بی بی آپکا لیپ ٹاپ ہے آپ کو پتہ ہو گا اس کو کیسے چارج کرنا ہے “ اس نے جھنجھلا کر کہا کہ ”کیا جہاز میں کمپیوٹر چارج کرنے کا کوئی سسٹم نہیں ہے “ جواب انکار میں پا کر اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا ایک مسافر ذرا مذہبی واقع ہوئے تھے انہوں نے جہاز کے واش روم میں وضو کے لیے مناسب انتظام نہ ہونے کی شکایت کی تو عملہ نے کہا جناب آپ مسح کرلیں اور پانی ضائع نہ کریں وہ محترم جواب دینے لگے ”کہ میں نے ٹکٹ کے پیسے پورے دئے ہیں میں وضو کر وں یا اپنی بھینس نہلاﺅں تمہیں کیا تکلیف ہے ۔۔ “
پی آئی اے کی تمام فلائٹ ایک بات میں اقبال کی پوری پوری نقل کرتے ہیں انکا اصول ہے کہ جیسے اقبال لیٹ آتا تھا اسی طرح اقبال کے ملک کے شاہینوںیعنی فلائیٹوں کو بھی ہمیشہ لیٹ آنا چاہیے پی آئی اے جہازوں میں کبھی ایک ہی ٹی وی ہوتا تھا جس پر ایک فلم لگا دیتے تھے اور پورا راستہ وہی چلتی رہتی تھی بلکہ جو رہ جاتی تھی وہ واپسی کی فلائیٹ میں دیکھی جا سکتی تھی لیکن اب انہوں نے ہر سیٹ کے پیچھے ایل سی ڈی ٹی وی لگا دیے ہیں جس پر ویڈیواور آڈیو کے درجنوں چینل ہیں لیکن جس جہاز میں ہم نے سفر کیا اس کی حالت یہ تھی کہ دائیں طرف والی سیٹیوں والوں کے ٹی وی تو چل رہے تھے لیکن بائیں طرف والوں کے سارے ٹی وی سیٹ پر کچھ بھی نہیں آرہا تھا وہ ان اسکرینوں سے آئینے کا کام لیکر اپنے بال سیٹ کر رہے تھے دائیں طرف والے اپنے کانوں میں ہیڈ فون لگا کر سر دھن رہے تھے اور بائیں طرف والے انہیں دیکھ کرپاگل خیال کر رہے تھے جن مسافروں کے رشتہ داریا دوست فلائٹ میں پھیلے ہوئے تھے وہ تو سیٹیں بدل بدل کر کبھی راحت کی قوالی انجوائے کر لیتے تو کبھی مسڑ بین کے سین اکٹھے دیکھ لیتے تھے لیکن جو تنہا سفر کر رہے تھے وہ حسرت کا شکار ہو رہے تھے ایک مسافر نے ایک آنٹی ٹائپ کی ائیر ہوسٹس سے شکایت کی ۔۔۔ تو اس نے کہا اچھا ابھی اس کا حل نکالتی ہوں وہ گئی اور ٹیکنشن سے بات کی” جہاز کی بائیں جانب والے مسافر کچھ نہیں دیکھ پارہے “تو ٹیکنشن کہنے لگا ”اگر وہ دیکھ نہیں سکتے تو اس کے لیے تو ڈاکٹر کو بلاﺅ میں کیا کر سکتا ہوں؟ بہرحال اس نے بٹن گھمایا تو اب مکافات عمل کی طرح بائیں طرف والے سارے ٹی وی سیٹ آن ہوگئے لیکن دائیں طرف والے ساری اسکرینیں آف ہوگئیں ،راحت اب ایک جانب والوں کو میسر آیا تو دوسری جانب والوں کی شکایات بڑھ گئیں آنٹی کو غصہ آگیا اور اس نے جا کر سوئے ہوئے ٹیکنشن کو دوبار ہ جگایا اس نے غصہ میں سارے ٹی وی آف کر دئے اور سب کی اسکرینوں پر ایک ہی ویڈیو چلا دی کہ باقی کا سفر کٹنے میں ابھی پانچ گھنٹے ہیں
پی آئی اے میں بیل سسٹم کام نہیں کرتا یعنی آپ گھنٹی بجا کر ائیر ہوسٹس کو نہیں بلا سکتے ان کا نظریہ ہے کہ اس سے بادشاہی نظام کی بو آتی ہے اس لئے اب انہوں نے شاید اپنی پالیسی بنا لی ہے کہ عملہ کا کوئی بھی بندہ گھنٹی بجانے پر یہ پوچھنے نہیں آتا کہ کیا پرابلم ہے جس مسافر کو کوئی بھی مسئلہ ہوتو وہ خود اٹھے اور کیبن میں جاکر پانی کی بوتل لیکر آئے میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مسافر ایسے لائین میں لگے ہوئے تھے جیسے داتا دربار میں لنگر لینے کے لئے لگتے ہیں ایک عورت نے اپنے بچے کے لیے دودھ کا فیڈر بھرنے کی درخواست ائیر ہوسٹس سے کی تو وہ کہنے لگی کہ آپکو خود جا کر کیبن میں فیڈر دھوکر بھرنا ہو گاایرہوسٹس کا کیبن کسی مچھلی منڈی کا سا منظر پیش کر رہا تھا جس میں ایک مسافر پوچھ رہا تھا ”یار ایک کافی مل سکتی ہے “ تو جواب آیا جی سوری دودھ ختم ہوگیا ہے“ اب کوئی پوچھے کافی میں دودھ کا کیا کام؟کھانے میں سنا تھا کہ اب روایتی بریانی کی بجائے گوشت روٹی بھی دی جاتی ہے لیکن ائیرہوسٹس کسی سے پوچھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتی کہ” آپ کی چوائس کیا ہے “ بس ایسے ہی کھانا تقسیم کیا جاتا ہے جیسے کسی درگاہ پر سب کو ایک ہی حلیم بانٹی جاتی ہے
ایک مسافر کو سردی لگ رہی تھی اس نے اسی آنٹی ائیر ہوسٹس سے کمبل مانگا تو وہ کہنے لگی کہ کمبل ختم ہوگئے ہیں “ختم ہونے والی بات میری سمجھ سے باہر تھی کیا میلان اترنے والے مسافر اپنے ساتھ کمبل اٹھا کر لے گئے تھے کہ ختم ہوگئے؟ خیروہ مسافر بھی بڑا دلیر ثابت ہوا اس نے اپنے لہجے میں کرختگی لائی ہی تھی کہ موصوفہ دوڑتی ہوئی گئی اورتین چارکمبل اٹھا لائی ایسے لگتا تھا کہ کسی سوئے ہوئے مسافر کے اوپرسے اٹھا لائی ہو پی آئی اے کی خواتین ائیر ہوسٹس کا رویہ کسی بھی مسافر سے اتنا روکھا ہوتا ہے کہ وہ شعر یاد آجاتا ہے کہ
اسے اب کسی کی محبت کا اعتبار نہیں رہا
اسے شاید زمانے نے ستا یا بہت ہے
پی آئی اے کے بعض ”بیوڑے“ مسافروں کی ایک شکایت یہ بھی ہے کہ ہر سیٹ کے پیچھے لکھا ہوا ہے کہ پی آئی اے یعنی کہیں باہر سے ہی پی آئیں جہاز کے اندر پینے پلانے کا کوئی انتظا م نہیں ہے جب بھی جہاز ڈولنا شروع ہوتا ہے مسافر یا اللہ خیر کی صدائیں لگا نا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ ہر فلائیٹ کا نمبر ہی ”پی کے “ہوتا ہے جب اس طرح کی باتیں ہوں گی تو خوف آنا ظاہری سی بات ہے اکانومی کلاس کے چارمیں سے 2واش روم صرف تین گھنٹوں میں ہی ناقابل استعما ل ہوچکے تھے سمجھ نہیں آئی کہ قصور عملہ کا تھا یا ان مسافروں کا جو صرف آٹھ گھنٹوں کے سفرمیں ہی پیٹ کے ہلکے ثابت ہوئے اور انہوں نے اپنی ٹکٹ کا پورا پورا استعمال کرنا ضروری سمجھا ۔۔۔سب سے خوبصورت منظر وہ ہوتا ہے جب پی آئی اے کی فلائٹ لینڈ کر تی ہے تو جہاز کے عملہ کے بار بارہدایت کے برخلاف پاکستانی مسافر کھڑے ہوجاتے ہیں اوراپنا اپنا سامان کندھوں پر لٹکا لیتے ہیں پھر چاہے انہیں آدھا گھنٹہ کھڑا رہنا پڑے وہ بیٹھیں گے نہیں دروازہ اوپن ہوتے ہیں ایسی دوڑ لگاتے ہیںجیسے بچے سکول سے بھاگتے ہوئے نکلتے ہیں
پی آئی اے کے مقابلے میں دوسری فلائیٹں سستی ہیں اور سہولیات کے لحاظ سے کافی بہتر بھی ہیں لیکن لاکھ شکایتوں کے باوجود پاکستانی تقریباً 80سے لیکر 100یورو مہنگی ٹکٹ صرف اس لئے خریدتے ہیں کہ انہیں اس قومی ائیر لائین سے محبت ہے اور محبت میں جفا تو برداشت کرنا ہی پڑتی ہے
 

مکمل تحریر  »

07/01/13

انسان

جو خوشی تمہیں رحمان نے نہیں دے اسے کسی انسان سے مانگنے کی غلطی کبھی نہ کرنا کیونکہ وہ تمہاری کوءی مد د تو نہیں کر سکے گا لیکن تم بھیک منگوں میں ضرور شامل ہوجاءو گے 

مکمل تحریر  »

04/01/13

ربا سچیا

ربا سچیا توں تے آکھیا سی
جا اوے بندیا جگ دا شاہ اے توں
ساڈیاں نعمتاں تیریاں دولتاں نیں
ساڈا نیب تے عالیجاہ اے توں
ایس لارے تے ٹور کد پچھیا اے
کی ایس نمانے نال بیتیاں نیں
کدی سار وی لئ او رب سائیاں
ترے شاہ نال جگ کی کیتیاں نیں

مکمل تحریر  »

تذبذب کا شکار لوگ


یورپ میں رہنے والے پاکستانی بہت بڑے کنفیوژن کا شکار ہیں ایک طرف تووہ اپنے میزبانوں سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری جانب وہ چھوٹی چھوٹی باتو ںپر جائز ،نا جائزجیسی بحثوں میں تذبذب کا شکار رہتے ہیں بات اگر صرف صحیح غلط تک ہو تو شاید اتنا مسئلہ نہ بنے لیکن بعض لٹھ بردار اسکالر عام سی باتوں کو بھی کفر اور جہنم سے جوڑ کر انہیں پریشان کردیتے ہیںکہیں نئے سال کی تقریب میں شرکت کو جہنمیوں کا طریقہ کار کہا جاتا ہے تو کہیں”ہالو ان “جیسے نان ایشو کو زیر بحث لایا جاتا ہے کہیں کوکاکولا میں الکحول تلاش کی جاتی ہے تو کہیں آئس کریم تک کی ہلکی سی عیاشی کو تنقید کا نشانہ بنا یا جاتا ہے کبھی سوٹ میں ٹائی کو صلیب سے تشبیہ دی جاتی ہے تو کبھی جینزپہن کر نماز پڑھنے سے روکا جاتا ہے رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے نکال دی ہے جس نے ہر ایک کو اپنی نیم ملائیت جھاڑنے کا بھر پور موقع دیا ہے گزشتہ دنوں پوری دنیا میں کرسمس کا تہوار منا یا گیاجب میں نے فیس بک پر یہ جملہ پڑھا کہ ” کرسمس کی مبارکباد دینا کفر اور حرام ہے“ تو مجھے سات سال پرانا کرسمس یاد آگیا
اٹلی میں کرسمس کے چھٹیوں سے پہلے کم و بیش تمام کمپنیوں کی یہ روایت موجود ہے کہ وہ اپنے اسٹاف کو کرسمس گفٹ پیک دیتے ہیں یا پھرکمپنی کا مالک اپنے تمام ورکرز کو اجتماعی ڈنر دیتا ہے کرسمس گفٹ پیک کوئی بہت قیمتی چیز نہیں ہوتی بلکہ ایک پیکٹ میںکرسمس کیک ،وائن ،چاکلیٹ اور دیگر اشیا ئے خوردو نوش شامل ہوتی ہیں یہ کرسمس گفٹ معمولی قیمت کا بھی ہوسکتا ہے کمپنی مالکان اپنے مسلمان ملازمین کے لئے ایک بات کا خصوصی خیال بھی رکھتے ہیں کہ ان کے پیکٹوں میں وائن کی بجائے جوس یا بغیر الکحول والا کوئی مشروب رکھتے ہیںورکر کے گھر والے خو ش ہوتے ہیں کہ ان کا فیملی ممبر ان کے لئے تحفہ لیکر آیااور ساری فیملی مل کر کیک کھاتی ہے اور خوشیاں مناتی ہے
 دسمبر کا مہینہ تھا اور میں جس کمپنی میں کام کرتا تھا اس میں کثیر تعداد میں اطالوی اورہم پانچ چھ پاکستانی کام کرتے تھے اطالوی ورکروں سمیت میرے تمام کولیگ نے مجھے اپنا یونین لیڈر منتخب کیا ہوا تھا ہماری کمپنی اسی سال ایک اطالوی نوجوان نے خریدی تھی جو مذہب کو ایک دقیانوسی چیز سمجھتا تھا اور مذہب سے وابستہ کسی بھی قسم کے تہوار کو غیر ضروری خیال کرتا تھا اس نے اس سال کرسمس میںگفٹ پیکٹ دینے کی بجائے نوٹس بورڈ پر اشتہار لگا دیا کہ اس کی کمپنی گفٹ پیک کی رقم کسی افریقی ملک کے غربا ءکی مددکے لیے دینا چاہتی ہے اطالوی ورکروں کے منہ اس نوٹس کو دیکھتے ہی لٹک گئے اور وہ سارے مجھ سے شکایت کرنے لگے کہ نیکی کرنے کا یہ کونسا طریقہ ہے چونکہ یونین لیڈر میں تھا اس لئے مالک سے بات کرنے کی ذمہ داری بھی میری ہی بنتی تھی دوسرے ہی دن میں اورکمپنی کا مالک آمنے سامنے تھے
ہماری میٹنگزہمیشہ ہی خوش اخلاقی سے شروع ہوتی تھی اور چہروں کی رنگت لال ہوتے ہوئے پھر خوشگوار موڈ میں ہی ختم ہوتی تھی میٹنگ کے دوران دونوں جانب سے اخلاق کا دامن نہیں چھوڑا جاتا تھا جب وہ بہت غصہ میں آتا تھا تو یہ طنز ضرور کرتا کہ” آئندہ کسی پڑھے لکھے شخص کو فیکٹری میں نہیں رکھوں گا“ لیکن اس کرسمس میٹنگ میں اس نے عجیب منطق پیش کی کہنے لگا کہ ”تم ایک مسلمان ہوتے ہوئے کرسمس گفٹ پیکٹ پر بحث کرنے آئے ہو تمہیں تو خو ش ہونا چاہیے کہ میں اس فضول گفٹ پیک کی رسم ختم کرکے ا س کی مد میں استعمال ہونے والی رقم خیرات کرنا چاہتا ہوں“میں نے اسے کہا کہ ”خوشیوں اور تہواروں کا تعلق صرف مذہب سے نہیںبلکہ ثقافت سے بھی ہوتا ہے اورخیرات لوگوں کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے اس پر انہیں مجبور نہیں کیا جاتا اگر تم کسی کی مدد کرنا چاہتے ہوتوخود کرو اپنے ورکروںکو اس پر مجبور کیوں کرتے اگر ہمیں مدد پرترغیب دلانا چاہتے ہو تو کسی اور وقت ہمیں آواز دو ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن یہ کیا طریقہ ہے کہ ہمارا گفٹ پیک تم کسی کو دھان کر دو ؟ “وہ کہنے لگا کہ” یہاں کرسمس گفٹ پیکٹ کی روایت تو ہے لیکن اٹلی کے قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ مجھے کرسمس کا گفٹ پیک بھی دینا ہوگا“ میں نے اس سے پوچھا کہ ” کیا تم نے کبھی کسی ورکر کو گفٹ پیک ہاتھ میں اٹھائے گھر جاتے دیکھا ہے ؟ تمہیں اندازہ ہے کتنی خوشی ہوتی ہے اس کے چہرے پر؟ تم کیوں ان کے چہروں سے یہ خوشی چھیننا چاہتے ہو ؟“ خیر ایک گھنٹے کی تفصیلی بحث کے بعد اس نے ہار مان لی اپنی سیکرٹری کو بلایا آفس کے نوٹس بورڈ سے وہ اشتہار اتروا دیا اوراسی وقت ایک کمپنی کو فون کرکے سب اسٹاف کے لئے گفٹ پیک کا آرڈردیا
اکثر یورپین اب اپنے مذہب سے دور ہوکر لادینیت کی جانب مائل ہیں اٹلی جو کیتھولک مذہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے یہاں بھی کسی سے اسکا مذہب پوچھیں تو وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو ملحد کہتا ہے اگر کوئی خود کو کیتھولک کہے بھی تو ساتھ ہی واضع کردیتا ہے کہ وہ باعمل عیسائی نہیں ہے لیکن کرسمس کے دنوں میں یا نئے سال کی خوشی میں ہر شخص بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے ، دکانوں پر ہر قسم کی اشیاءسستی ہوجاتی ہیں سیلیں لگ جاتی ہیں تاکہ غریب سے غریب شخص بھی گفٹ خر ید سکے ، فیملیاں ایک مشترکہ کرسمس ڈنر کا اہتمام کرتی ہیں جس میں گھر کے سارے افراد اکٹھا ہوتے ہیں اٹلی میں محاورہ مشہور ہے کہ ” ایسٹر جس کے ساتھ تمہارا دل چاہتا ہے مناﺅ لیکن کرسمس صرف اپنوں کے سنگ ہی مناﺅ “ لوگ اپنے گھروں کے باہرانفرادی طور پر لائٹیں لگاتے ہیںاور انہیںرنگ برنگی روشنیوںسے منور کرتے ہیں جبکہ شہر کے سنٹر کی تمام سڑکیں علاقائی انتظامیہ کی جانب سے برقی قمقموں سے روشن کر دئے جاتے ہیںجن کا رنگ اکثر سفید ہوتا ہے ، سڑک کنارے کھڑے درختوں پر بھی سفید لائٹوں کی لڑیاں ڈال دی جاتی ہیں اور سفید جگمگاتی روشنی برف کا سا تاثر دینے کی کوشش ہوتا ہے گھروں، فیکٹریوں ، دکانوں اور مختلف دفاتر کے اندر کرسمس کا درخت تیار کیاجاتا ہے جس کے ساتھ 25دسمبر سے پہلے چھوٹے چھوٹے گفٹ لٹکائے جاتے ہیں بچوں کے سکولوں کے اندر حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے دور کا ایک ماڈل تیار کیا جاتا ہے سکولوں میں حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے حوالے سے نغمے تیار کئے جاتے ہیںدسمبر کی چھٹیوں سے پہلے ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں والدین کو بلا یا جاتا ہے اور ان کے سامنے وہی نغمے دھرائے جاتے ہیں بچوں کے والدین اساتذہ تالیاں بجا کر انہیں داد دیتے ہیں سکولوں میں بھی استانیاں بچوں سے کرسمس گفٹ تیار کراتی ہیں ایک دوسرے کو تحفے دینے کا جنون سوار ہوجاتا ہے چاہے یہ تحفے ایک کارڈ یا ایک خالی ایس ایم ایس میں نیک تمناﺅں کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو
جن ممالک میں ہم رہتے ہیں وہاں کے لوگوں سے خیرسگالی کی خاطر انہیں کرسمس کی مبارکباد دینا ہم سب پر اخلاقی طور پربھی لازم ہے اور یہ تہذیب کا تقاضہ بھی ہے لیکن جس طرح اس کمپنی کے مالک کو کرسمس پر خیرات کرنے کا خیال آیا بالکل ہمیں بھی اپنی ساری توحید انہی تہواروں پر یاد آتی ہے جن دنوں ہم اپنے میزبانوں کی خوشی میں شامل ہو کر ان کے چہروں پر خوشیاں بکھیر سکتے ہیں ۔۔جس طرح دولت کے لالچ نے اس بزنس مین کی نظر اپنے ورکروں کی خوشی کی جانب نہیں جانے دی بالکل اسی طرح ہمارے علم کا سارا رعب اور ہماری ساری تحقیق صرف کرسمس میں عیسائیوں کو اسلام کی تبلیغ کرنے کا خیال لاتی ہے اس لئے ہمارے ہاں بڑے زور و شور سے یہ بحث جاری ہوجاتی ہے کہ کرسمس منانا دراصل حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا ماننے کے برابر ہے مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آسکی یہ تاویلیں ہم کہاں سے گھڑ کے لاتے ہیں ہماری کونسی ڈکشنریاں ہیں جو صرف اور صرف نفرتیں ہی بانٹتی ہیں یا پھر شاید ہمیں خوشی سے نفرت ہوچکی ہے ہمیں ہر وہ چہرہ برا لگتا ہے جو خوش نظر آتا ہے جس پر مسکراہٹ ہوتی ہے یا شاید ہم حاسد ہو چکے ہیں ہم دوسروں کی خوشیوں سے جلتے ہیںہمارا تعلق اس بستی سے جہاں اگر کوئی خوبصورت گھوڑے پر بیٹھ کر جارہا ہوتو ہم بجائے اسے کوئی دعا دینے کے کہتے کاش اس کے گھوڑے کی ٹانگ ٹوٹ جائے اور وہ زمین پر گر جائے ۔۔۔
 کہتے ہیں ایک صوفی کا گزر ایک بستی کے پاس سے ہوا جہاں لوگ ناچ گا رہے تھے اور خوشیاں منا رہے تھے وہ اللہ کے بزرگ وہیں کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اپنا ہاتھ بلند کر لیا دعا کرنے لگے ”اے اللہ جس طرح اس بستی کے نوجوان اس دنیا میں خوشیاں منا رہے ہیں اسی طرح آخرت میںبھی ان کے لئے خوشیاں لکھ دے “ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اتنی اچھی دعا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا دل حسد سے پاک ہووہ کسی کو خوش دیکھ کر جل بھن نہ جائے وہ انسانوں سے محبت کرنے والا ہواسے انسان اچھے لگتے ہوں وہ کسی کی ہنسی میں اپنی ہنسی شامل کر کے اس کی مسکراہٹوں میں مزید اضافہ کرنے کی خواہش رکھتا ہو



مکمل تحریر  »

محفوظات