28/07/12

aaj

اور آج اس نام کو ہٹانا پڑا۔۔۔۔۔
 وقت کی گرد جسے دل سے  مٹا نہ سکی 
 موسموں کا تغیر جس کا احساس تخیل سے ہٹا نہ سکا
بیماری و صحت اورطبیعیت کی کیفیت تک جس کی یاد بھلا نہ سکی
خوشی غمی،ہوشیاری یا بیزاری میں بھی دل جس  کے تصور سے اچاٹ نہ ہوسکا
اپنوں،پرائیوں ،خلوتوں اور جلوتوں میں جس کی یاد سے بے اعتنائ نہ برتی جاسکی ، 
شیخ کی محفل تھی یا ساقی کا مے خانہ اسے ذہن سے کھرچا نہ جاسکا
، آج اس کے نام کو ہٹانا پڑا۔۔۔۔۔۔۔
 بالکل اس لکڑہارے کی طرح جو اپنے کلہاڑے سے اپنا ہی پاءوں زخمی کر لے،
آج اس کے نام کو ہٹانا پڑا۔۔۔۔۔۔۔
 اس مزدور کی طرح جو اپنے ہاتھ پر خود ہی ضرب لگالے،
آج اس کے نام کو ہٹانا پڑا۔۔۔۔۔۔۔
 اس فوجی لڑاکا پائلٹ کی طرح جو اہنے ہی ساتھی کے جہاز پر فائر کھول دے کولیٹرل ڈیمج کر دے 
،آج اس کے نام کو ہٹانا پڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس فٹ بالر کی طرح جو اپنی ہی ڈی میں آکر گول کر دے
 یا سویٹر بناتی اس بڑھیا کی طرح جو اپنے ہی ہاتھ سے اس کا دھاگا الجھا دے

0 commenti: