30/12/12

Appartenenza



Chissà se un giorno, guardando negli occhi di chi ti avrà dopo di me cercherai qualcosa che mi appartiene.

مکمل تحریر  »

کیا تم نے کبھی کوئی بات بھی کی

کیا تم نے کبھی کوئی بات بھی کی
یا یونہی رہے چپ سادھے
کیا کی ہے محبت جی بھر کے
یا عشق ادھورے آدھے
خوشبو کے پیچھے جائے کون
ہوا کا ساتھ نبھائے کون
او مولا عشق عشق بھر دے
وہ لمس تمہارے ہاتھوں میں تحریر ہیں
کتنی باتوں سے
اک چاند کی سلوٹ چادر میں
من اداس ہو جیسے راتوں سے
خوشبو کے پیچھے جائے کون
ہوا کا ساتھ نبھائے کون

مکمل تحریر  »

17/12/12

تمہاری یاد

تمہاری یاد بھی میرے لیے تو اب اس سورج کی طرح ہوتی جارہی ہے جس کے بارے ہر شب مجھے یہ گمان گزرتاہےمیں نے اسے  دور کسی ساحل کنارے  ڈبو دیا ہے لیکن وہ ہر صبح کسی چٹان میں سے دوبارہ سر نکال لیتا ہے  

مکمل تحریر  »

07/12/12

ساڈاحق ۔۔ ایتھے رکھ

عورتوں کی تو بہت سی قسمیں ہوسکتی ہے لیکن مرد صرف دو طرح کے ہی ہوتے ہیں ایک وہ جو بہت خوش و خرم زندگی گزارتے ہیں اور دوسرے وہ جن کی شادی ہوجاتی ہے یا جنہیں کسی عورت سے محبت ہوجاتی ہے کہتے ہیں کسی جنگل میں شیر کی شادی میںایک چوہا اچھل اچھل کر ناچتا اور گاتاجارہا تھا کہ ”آج میرے بھائی کی شادی ہے“سب جانوروں نے کہا کہ کہاں تم اور کہاں جنگل کا راجہ شیر؟چوہے نے جواب دیا کہ”نہیں نہیں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے شادی سے پہلے میں بھی شیر ہی تھا“ایک غمگین شخص نے اپنے ایک دوست سے سرد آہ بھرتے ہوئے پوچھا یار ذرا بتاو ¿ تو خوشی کیا ہوتی ہے.دوست نے حیرت سے کہا ” خوشی ؟؟؟ میں کیا جانوں خوشی کسے کہتے ہیں، میری تو کم عمری میں ہی شادی ہوگئی تھی “کہتے ہیں کہ حسین لڑکیاںکبھی بھی ڈاکٹر یاانجینئر بننے کی کوشش نہیں کرتی ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ کوئی ایک بیوقوف ہے جو اس کی جگہ ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے لئے رات دن محنت کررہا ہے ہمارے ہاں تو ایک عام سی عورت جس کانام وزیر ہواگر وہ اعظم نامی کسی شخص سے شاد ی کر لے توبڑی آسانی سے ” وزیر اعظم “کہلا سکتی ہے کہتے ہیں ایک باپ اپنے بیٹے کو چڑیا گھر سیر کرانے لے گیا تو وہاں دونوں نے ایک گدھا اور گدھی کا جوڑا دیکھا باپ نے بیٹے سے پوچھا ”پاپا وہ گدھے کے ساتھ کون ہے “ تو اسے کے باپ نے جواب دیا “بیٹا وہ اسکی بیوی ہے “بیٹا پوچھنے لگا کہ ”پاپا کیا گدھے بھی شادی کرتے ہیں “ تو اس کے والد نے کہا ”ہاں بیٹاصرف گدھے ہی شادی کرتے ہیں “بقول مشہور شاعر شفیق بٹ
  شادی تو میری ہوئی ہے اے بٹ   یہ شہر کیوں مجھے ”سائیں سائیں “کہتا ہے
 گزشتہ دنوں ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس کا موضوع تھا ”اسٹالکنگ“یعنی تعاقب کا قانون ۔ اصل میں اطالوی گورنمنٹ نے مورخہ 23فروری 2009ءسے اسٹالکنگ کے نام سے ایک قانون بنایا ہے جس کے تحت اگر کوئی بھی شخص کسی بھی دوسرے فرد کو تنگ کرنے کے لیے اس کا پیچھا کرتا ہے اور اس کو نفسیاتی طور پر ٹارچر کرتا ہے تو اُسے اس جرم ِتعاقب کی پاداش میں چھ ماہ سے لیکر چار سال تک کی سزا ہوسکتی ہے دلچسپ بات یہ کہ سرکاری اعداد و شمارکے مطابق اس قانون کی زد میں 55% وہ مرد آتے ہیں جن کی بیوی یا سنگ دل محبوب انہیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور وہ بےچارے اپنے محبوب کو منانے کے لئے یا تو فون کال، ایس ایم ایس اور ای میل کا سہارا لیتے ہیں یا ان کے پیچھا کر کے انہیں منانے کی کوشش کرتے ہیںاس موقع پر شفیق بٹ کہتے ہیں
 وہ تیری بدنصیبی کہ ”اسٹالکنگ“ کا قانون آگیا   دل ِنا سمجھ میری بات مان اسے بھول جا
میرے ایک دوست کا کہنا تھا کہ یہ قانون تو سیدھا سیدھا محبت کے دشمنوں کا بنایا ہوالگتا ہے کیونکہ اگر محبت کے اظہار کے لئے کوئی اپنے محبوب کا تعاقب نہیں کرے گا تو اس سے اپنی محبت کا اظہار کیسے کر سکے گا اسی طرح اگر کسی کا دلبر جانی ناراض ہوجائے تو اگراسے اپنی غلطی کی معافی مانگنے کا موقع بھی نہ دیا جائے تو ”دلبرداشت “ہوجائے گامیں نے اسکا فقرہ ٹھیک کرتے ہوئے کہا کہ دلبر داشت کو ئی لفظ نہیں ہوتا بلکہ ” دلبرداشتہ“صحیح لفظ ہوتا ہے کہنے لگا”داشتہ تو مونث ہوتی ہے ۔او ہو۔ یعنی لفظوں میں بھی مردوں کے ساتھ امتیازی سلوک رکھا گیا ہے “کہنے لگا شکر ہے تعاقب کا ایسا کوئی قانون ہمارے ملکوں میں نہیں بنتا ورنہ ہماری تو ساری پریم کہانیاں نا ممکن ہوجاتی ہمارے ہاںتو اصلی مجنوں ہی اسے سمجھا جاتا ہے جو محبوب کو بدنام کردے اپنے سر پر خاک ڈال کر لیلیٰ لیلیٰ کہتے گلیوں میں گھومتا رہے ہمارے ہاں تو اتنے لیچڑ قسم کے عاشق ہوتے ہیں کہ اگر لڑکی کسی اور سے بھی بیاہی جائے تو اسے کے گھر کے باہر سبزیوں اورخشک میوں کی ریڑھی لگالیتے اور بقول مشہور شاعر شفیق بٹ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں
  تم اگر بھول بھی جاﺅ تو یہ حق ہے تمہیں   میری بات اور ہے میںروز بادام کھاتا ہوں
واقعی اس قانون کی وجہ سے تو ہماری ساری فلمیں بھی فلا پ ہونے کا خطرہ ہے ہمارے تو ہیرو بھی وہی ہیں جو ”کک کک۔۔۔ کرن “کہتے ہوئے ہیروئین کے پیچھے پڑ جائیں یا ”روک اسٹار“ بن کر ایک شادی شدہ عورت کا پیچھا بھی ”پراگ “تک کریںمیرا دوست کہنے لگا اس قانون نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ یورپی معاشرہ مردوں کے خلاف ہے اسی لیے یورپ میں زیادہ تر قوانین عورتوںکے لئے بنائے جاتے ہیںاس کی بات سچ بھی ہے کیونکہ یورپ میں اپنی بیویوں یا محبوباﺅں کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے والے مردوں کی تعدا د میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے بلکہ اب تو باقاعدہ ایسی تنظیمیں بھی بن چکی ہیں جو مردوںپر عورتوں کی جانب سے ہونے والے تشدد کی رپورٹس جمع کر رہی ہیںاٹلی کے سابق وزیر اعظم برلیسکونی پر ایک کیس میں الزام ہے کہ انہوں نے اپنی ایک مراکشی محبوبہ روبی کو ”منہ بند رکھنے “کے لئے پانچ ملین یورو دیئے تھے دیکھ لیں مرد عورت کا منہ کھولنے سے کتنے پریشان ہوتے ہیں ایک دفتر میں جب باس نے دیکھا کہ اس کا ایک ملازم تیس منٹ سے فون کا ریسیور کانوں سے لگائے خاموش بیٹھا ہوا تھا تو اس کے باس نے ڈانٹتے ہوئے کہا ”میں نے کہا نہیں تھا کہ دفتر کا فون بیویوں سے کال کرنے کے لیے نہیں ہے “ بقول مشہور شاعر شفیق بٹ
   او نادان پرندے! گھر آجا  تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا
 میںنے اپنے دوست کو سمجھا یاکہ یورپ ہی نہیں پاکستان میں بھی مردوں کی ذات بڑی مظلوم ہے بلکہ لڑکپن سے ہی اگر وہ گھر میں بیٹھے تواسکے والد اسے ڈانٹنا شروع کردیں گے کہ سارا دن عورتوںکی طرح گھر بیٹھے رہتے ہو شرم نہیں آتی اگر وہ باہر نکل کر گلی کی کسی نکڑ پر کھڑا ہو تو چند ہی لمحوں میں کوئی” ماسی شریفاں“ ٹائپ کی آنٹی لعن طعن شروع کردے گی کہ ”تمہیں شرم نہیں آتی گلی میں کھڑے ہومسٹنڈوں کی طرح! یہاں سے محلہ کی عورتوں نے گزرناہوتا ہے“ اگر وہ باہر جا کر کرکٹ کھیلنا شروع کرے تولوگ کہنا شروع کردیں گے کہ فلاں کا لڑکا بڑا ”کھویڈل “ہے تعلیم کی طرف اس کا کوئی دھیان نہیں اگر وہ مسجد چلا جائے تو مولوی صاحب ڈانٹنا شروع کر دیتے ہیں ”مسجد آگئے ہو ۔۔ضرور امتحان قریب ہوں گے“ فوزیہ وہاب مرحومہ نے حقوق نسواں کے عالمی دن کے موقع پر بیان دیا تھا کہ ”مرد سارے نالائق ہوتے ہیں“ ان کی بات ایک لحاظ سے بالکل ٹھیک بھی تھی کیونکہ پاکستان میں یہ فقرہ تو عام ہے کہ بزرگ کہتے ہیں ”اونالائقا۔۔“‘لیکن یہ کبھی سننے میں نہیں آیا کہ ”اوئے نالائقے ۔۔“ یعنی لفظ نالائق صرف مردوں کے لئے بنا ہے پاکستان میں اگر کوئی لڑکا بس میں چڑھ جائے تو کنڈکٹر آواز لگادیتا ہے لڑکے چھت پرہوجائیں اگر وہ بجلی کا بل جمع کرانے جائے لمبی لائین میںانتظار کرے ، اور اگر باری آجائے توکسی خاتون کے آجانے پر بنک کیشئر اسے پیچھے کر دیتا ہے کہ صبر کروپہلے عورتوںکو جمع کرانے دوپاکستان میں کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ جھگڑنے کا توسوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ قصور کسی کا بھی ہو پورا محلہ اکٹھا ہوکر مرد کوہی برا بھلا کہے گابقول شفیق بٹ صاحب
 کسی نے اہل ستم سے اک حرف بھی نہ کہا   سبھی نے مل کر میری ہی ٹھکائی کی
زندگی کے دیگر معاملات دیکھو توان میں بھی ساری لعن طعن مردوں کے لئے ہے اگر کوئی لڑکی قہقہہ لگائے تو اس ہنسی کو شاعرلوگ” جھرنے“ کی آوازسے مشابہت دیں گے جبکہ اگر کوئی لڑکا ذرا زور سے ہنسے تو اسے ”ڈنگر “کہنا شروع کردیا جاتا ہے اگر لڑکی خاموش رہے تواسے ”سنجیدہ “ خیال کیا جاتا ہے اور اگر کوئی لڑکا خاموش رہنا شروع کردے تو پوچھتے ہیں ”بھئی کہیں شادی تو نہیں کرا لی۔۔۔ “اگر لڑکی اخلاق کا مظاہرہ کرے توکہتے ہیں ”بڑی پیاری باتیں کرتی ہے “ اگر کوئی مرد تھوڑی سی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرے تو کہا جاتا ہے ”ایک نمبر کا فراڈیا ہے۔۔ “اگر کسی کی بیوی اسے دبا کر رکھے تو کہا جاتا ہے کہ ”ان کی بڑی انڈر اسٹینڈگ ہے “ جبکہ مر د کو کہاجاتا ہے کہ ”نیچے لگا ہوا ہے “ ہمارے تو اردو ادب تک میں چاہے محبوبہ کوئی عورت ہی کیوں نہ ہو اسے سنگدل محبوب ،اور ظالم جیسے مذکر جنس سے ہی مخاطب کیا جاتا ہے
 میری ساری تقریر و تشریح سن کر میرا دوست کہنے لگا کہ باقی سب باتیں تو ٹھیک ہیں لیکن یہ شعر شفیق بٹ کے تو نہیں ہیں میں نے کہا میں جانتا ہوںوہ میرا دوست ہے اور بہت اچھا مزاح نگار ہے لیکن کافی عرصہ سے اس نے کوئی مزاحیہ کالم نہیں لکھا میں نے یہ شعر اس لئے اس کے نام سے منسوب کئے ہیں تاکہ وہ دوبارہ مزاحیہ کالم لکھنا شروع کردے کہیں اٹلی کے اردو ادب کا یہ خلا بھی مجھے ہی نہ پرُ کرنا پڑے باقی جہاں تک تعلق ”اسٹالکنگ “ کے قانون کاہے کہ تو اٹلی میںرہنے والے پاکستانیوں کو بھی اس قانون کو سمجھنا چاہیے کہ کسی کے بھی سر پر اگر سوار رہیں یا اسکاتعاقب کرتے ہوئے اس کی زندگی اجیرن کر دیں تو چاہے اسے کوئی جسمانی تشدد نہ بھی پہنچائیں تو بھی اس قانو ن کے تحت وہ آپ کو چھ ماہ سے چار سال تک کی سزا دلوا سکتا ہے اوریاد رہے یہ قانون صرف عورتوں کے لئے نہیں ہے اس قانون کی ذد میں آپ کا پڑوسی ، کام کا کولیگ اور فیملی ممبربھی آسکتا ہے اس لئے ایسے قوانین کی موجودگی میں ہمیں دل کو سمجھانا ہو گا کہ
 دل ِسادا !تجھے یہ باور کرانا   جسے تم یاد کرتے ہو اسے اب بھول جانا
 


مکمل تحریر  »

04/12/12

یہ ہم نہیں


 ” پاکستان ایکسپریس“ پر تبصرہ و تجزیہ محمو د اصغر چودھری....

 جب کسی” چیز “کی ساکھ خراب ہونا شروع ہوتی ہے تو اس کا مول گر جاتاہے لیکن جب کسی قوم یا ملک کی پہچان منفی پراپیگنڈہ کے بہاﺅ میں آجاتی ہے تو اس کا مورال گرنا شروع ہوجاتا ہے برائی چھوٹی سی ہوتی ہے لیکن اچھائی کے مقابلے میںبڑی نظر آتی ہے جیسے دھوپ ہر روزبھی نکلے اسے کوئی اتنی توجہ نہیں دیتا لیکن دھند کی ایک صبح سب کوشاکی کر دیتی ہے سفید چادر پر لگا ہوا اک چھوٹا سا دھبہ اتنی زیادہ توجہ حاصل کرتا ہے کہ چادر کا اصلی حسن زیر بحث ہی نہیں آتا امریکہ میں ہونے والے نائن الیون واقعہ کی سب سے بھاری قیمت جس ملک نے ادا کی وہ پاکستان ہے جس کا ایک بھی باشندہ ان حملوںمیں برائے راست یا بالواسطہ شامل نہیں تھالیکن پاکستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ اسکی کم عمری میںہی دنیا میںہونے والی سپر پاورز کی بڑی جنگوں میں اس کی جیوگرافیائی پوزیشن اور نااہل قیادت کے نا عاقبت اندیش فیصلوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑاہے جہاں ایک طرف اسلام کے نام پرروس کے خلاف لڑی جانے والی مغربی جنگ کا تحفہ پاکستان کے باسیوں کو ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر کی شکل میں ملا اور بھٹی کنارے بیٹھے سفید پوش وطن کے بدن پر جابجا کالک کے دھبے اور سوراخ بنتے رہے وہیں دہشتگردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں فرنٹ لائین اتحادی بننے کی قیمت پاکستان نے دہشت گردوں کے عتاب کا نشانہ بن کرادا کی آج پاکستان نے اس جنگ کے گوشوارہ میں چالیس ہزار جانیں بم دھماکوں میں ضائع کی ہیں لیکن نتیجہ یہ ہے کہ اس کے 24فوجی اسی کے اتحادیوں کے حملے میں مار دئے گئے ہیں یعنی نہ خدا ہی ملااور نہ وصال صنم برائی کو برائی سے ختم کرنے اور خون کو خون سے دھونے کی نادانی میں ریاست کے اندر رویوں اور سوچوں میں متشددانہ روش عروج پکڑگئی چند محدودے لوگوں کی سوچ ہزاروں لاکھوں مثبت ذہن والے پاکستانیوں کے نمائندگی کرنے لگی وارث شاہ ، بابا فرید ، بلھے شاہ ، اشفاق احمد ،محمد علی جناح ، اقبال اور فیض جیسے امن پسند نام منفی رویوں کی سوچ کے دھندلکوں میںغائب ہوتے چلے گئے جذباتی پن سوچوں پر ایسا حاوی ہواکہ خوف کے اس سفر میں اہل قلم بھی مصلحت اندیشی کا سہارا لیکر پاکستان کے اصل چہرہ کو دنیا کے سامنے لانے میں ناکام رہے
   حال ہی میں اٹلی میں ایک مراکشی اطالوی جرنلسٹ اور مصنفہ ”انا مھجرباردچی“ کی پاکستانی کلچر پر ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے جس کانام بھی ”پاکستان ایکسپریس “ ہے اس میں مصنفہ نے بڑی محنت سے دنیابھر کی نظروں میں پاکستان کے بارے منفی تصور کو زائل کرنے کی کوشش کی ہے دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کے دھندلکوں سے پرے اپنے حقوق کی آواز اٹھانے والے شہریوں، پابندیوں سے قطع نظر روک میوزک سننے والے نوجوانوں اور عورت کو غلام بنا کر رکھنے والے تصور سے بہت دور ایک عورت کو مملکت خداداد کا 2دفعہ وزیرا عظم منتخب کرنے والے عوام کا تعارف کرایا ہے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان صرف وہ نہیںہے جو مغربی میڈیا دکھاتا ہے کہ جہاں پر طالبان کا راج ہے جہاں گولیاں چلتی ہیں جہاں گلیوں میں لاشیںگرتی ہیں ،جہاں بچیوں کے سکول گرائے جاتے ہیں بلکہ پاکستان وہ بھی ہے جہاں لوگ دہشت گردی سے نفرت کرتے ہیں جہاں عورتیں اپنے حقو ق کے لیے لڑتی ہیں جہاں میڈیا آزاد ہے جہاں یورپین اسٹائیل میں ایک ڈریگ کوئین ٹی وی پروگرام ہوسٹ کرتی ہے جہاں بیسیوں میوزیکل گروپ ہیںاور کئی انسانی حقوق کی تنظیمات ہیں
 کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ مصنفہ خو دپاکستان میں اس شہر میں کئی سال تک رہی جس کا نام ذہن میں آتے ہی پاکستانیوں کے دلوں میں تو امن سکون اور تفریح کا تصور ابھرتا تھا انیسویں صدی میںبرطانوی راج میں ایک انگریز آفیسر سر جیمز ایبٹ کے رہائشی شہر اوراسی کے نام سے موسوم ہونے والا شہر جس نے اس کے حسن اور سادگی کا نقشہ اس طرح کھینچا ” یہ شہر ایک خواب سا لگتا ہے اور میں اس کے قدرتی حسن کے سامنے اپناسر جھکاتا ہوں “ لیکن ٹھیک ڈیڑھ صدی کے بعد 2مئی 2011ءسے جب اس شہرکو عالمی سطح پرپہچان ملی تو وجہ شہرت دہشت گردوںکے سرغنہ کی پناہ گاہ ٹھہری انا ایبٹ آباد میںرہی اور پاکستان میں تعلیم بھی حاصل کرتی رہیں یہ کتاب بھی اسی شہر کی گلیوںکا تذکرہ کرتی ہے جہاں 2مئی تک امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ میں ہٹ لسٹ پر پہلے نمبر پر موجود شخص اسامہ بن لادن موجود تھا مصنفہ کے مطابق یہ حسن اتفاق ہے کہ وہ اس گھر سے چند سو میٹر کے فاصلہ پرکئی سالوں تک رہائش پذیر رہی اس لیے وہ اس گلی محلہ میں پھرنے والے لوگوںاور اس بازار میں خرید و فرخت کرنے والے دوکانداروں کے مزاج اور اندازکو بخوبی جانتی ہے
  یہ کتاب آپ بیتی طرز میں لکھی گئی ہے لیکن ایک ہی وقت میں سفرنامہ اور افسانوں کا مجموعہ بھی لگتی ہے جس میں لمبے قد ،صاف رنگت ،بچگانہ مسکان اور روشن آنکھوں والی سمیرا کی داستا ن ہے جو کسی سے دوستی کرنے سے پہلے یہ پوچھتی ہے کہ وہ خدا پہ یقین رکھنے والی ہے یا نہیںجو ٹائپ رائٹنگ کی طالبہ ہے جس کی آنکھوں میں فرانس دیکھنے کے سپنے تھے لیکن اسکی داستان کا اختتام اس کزن کے ساتھ شادی پر ہوتا ہے جو اس نے نہیں بلکہ اسے کے والد نے منتخب کیا تھا مصنفہ نے اس معاشرہ پر طنز کے کوڑے بسائے ہیں جہاں ایک مڈل کلاس کی ہونہاربچی کی کہانی کا انجام والدین کی طرف سے طے شدہ شادی پر ہوتاہے لیکن اگر فیملی طاقتور ہو تو اسی ملک کی بچی ملک کی وزیر اعظم بھی بن سکتی ہے وہ لکھتی ہیں کہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں کے سب قاعدے سب قانون اور سب اصول متوسط طبقہ کے لوگوں کے لیے ہیں جب کی ہائی کلاس کے پاس اس رقبہ کے محلات ہیں ، ان کی نائٹ لائف اس قدر رنگین ہے ان کی محافل شراب وشباب اور ناچ وموسیقی سے اس طرح لبریز ہیں کہ یورپین معاشرہ کو بھی مات دیتی ہیںوہ اسی کتاب میں پرانے فوجی سامان بیچنے والے اس بوڑھے محمد کا تذکرہ بھی کرتی ہیں جو اپنی دوکان پر بیٹھے”دل دل پاکستان “کے نغمے گا کر خوش ہوتا رہتا ہے جس کی آنکھوں میں کشمیر کے آزاد ہونے کا خواب بستا تھااور جس کابیٹا اس کا یہ خواب پورا کرنے کے لئے کارگل میں لڑتے ہوئے شہید ہوتا ہے لیکن اس وقت کی سیاسی و فوجی قیادت امریکہ کے ایک ہی اشارے پر کارگل کی جنگ ہارجاتی ہے وہ اسی کتاب میں ترقی پسند جرنلسٹ خالد حسن اورسابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیربھٹو سے ملاقات کا تذکرہ بھی کرتی ہے کہیں وہ لال مسجد کی خود پر پابندیوں کا مطالبہ کرتی عورتوں کا تذکرہ کرتی ہے تو کہیں کراچی میںویمن ایکشن فورم کی صدر فاطمہ سے ملاقات کا تفصیلی واقعہ سناتی ہے جو عورتوں کے حقوق کےلئے دھمکیاں وصول کرتی ہے ایک جانب وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ٹی وی چینل میں بیگم نوازش علی کے شو کی تذکرہ کرتی ہے جو درمیانی جنس کی نمائندگی کرتا ہے تودوسری جانب جنون گروپ کے صوفی میوزک گروپ کو دادو تحسین دئیے بغیر نہیں رہ سکتی اسی ملک میں مارکیٹوں میں کلاشنکوفوں کے سایہ میںشاپنگ کا تذکرہ کرتی ہیں تو کہیںانتہا پسندوں پر کامیڈی لکھنے والے یونس بٹ کو خراج تحسین پیش کرتی ہےں وہ20فیصد لوگوں کے متشدد مذہبی رویہ کو80فیصد صوفی اسلام کے ماننے والوں پر تھوپنے والوںکو موضوع بحث بناتی ہے تو خو دکش حملوں کو جواز بنانے والے کے مقابلے میں مفتی احمد رضانعیمی کی شہادت کا واقعہ بیان کرتی ہے اور تصوف کے پر امن اسلام کی تشریح کرتی ہے مصنفہ کی بحیثیت رائٹر یہ کامیابی ہے کہ اس نے اپنی کتاب کااختتام افسردہ اور غمگین کرنے والا نہیںبلکہ خوف اور دہشت کے اس ماحول میں امید کی کرن پر کیا ہے
 مصنفہ نے ایک ہی کتاب میں پاکستان کی تاریخ ،جغرافیہ ، تفریح ، مذہب ، تصوف ،ادب ، سیاست ، تہذیب اور معاشرہ کا متنجن اس انداز سے پلیٹ میں رکھا ہے کہ پڑھنے والادم بخو د ہوکر رہ جاتا ہے اس نے کتاب کی دلچسپی اس طرح برقراررکھی کہ اس نے اپنی یاداشتوں میں پاکستانی کچن کی ہر ڈش اور ہر مشروب کو محفوظ کر لیاہے اور ہر باب میں بیان کیے گئے مشروبات اورکھانوں کی ترکیب باب کے آخر میں تحریر کردی ہے اٹلی بسنے والی پاکستانیوں کی نئی نسل کے لیے یہ کتاب پاکستان کے بارے بہت سی معلومات کے علاوہ پاکستانی کچن کی ڈشز کی ترکیبات کے لیے بڑی موزوں ہوگی جس میں سیخ کباب سے لیکر چکن بریانی تک ، چائے ،دودھ پتی سے لیکر لسی اور پاکولا تک کی ساری ترکیبیات اور اجزائے ترکیبی کی تفصیل بیان کی گئی اس لیے خوف و دہشت کی داستانوں میںمشکلات کا مقابلہ کرتے پاکستانیوں کے تناول کاتذکرہ قاری کوزیادہ دیر کے لئے افسردہ اور غمگین نہیں رکھے گا جن لوگوں کی توجہ پیٹ کی خوراک سے زیادہ روح کی خوراک میں ہے اور جن کی پیاس مشروبات سے نہیں بجھتی بلکہ وہ علم ودانش اورہوش و خرد کے چشموں کے متلاشی ہوتے ہیںان کے لئے کتاب کے ہر باب کا آغاز پاکستان کے کسی شاعر ادیب یا کسی بڑی ہستی کے فرمان یا قول سے ہوگا، اقبال سے لیکر منیر نیازی تک اور کشور ناہید سے لیکر افتخار چوہدری تک کے فرمان یا اشعار موجود ہیں
 وہ خو د لکھتی ہیں کہ”آج پاکستان طالبان اور دہشت گردوں کی آماجگاہ کے نام سے جانا جاتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں کام، کھیل ، تفریح اور مسائل میںگھرے ہوئے عام لوگ اپنی زندگی کیسے بتا رہے ہیں ، حیران کن بات یہ ہے کہ اسلامی انتہا پسندی اور عام معمولات زندگی ایک ساتھ انہی گلیوں ، انہی پارکوں اور گھروں میں ایک دوسرے کے ساتھ گزارا کر رہے ہیںمیں طلباء، محنت کشوں ، صحافیوں اور مختلف شعبہ ہائے جات کے لوگوں سے ملی طالبان اور دہشت گردوں کے سائے میں رہتے ہوئے بھی ان کی آنکھوں میں ہماری ہی طرح کے خواب اور ہمار ی ہی طرح کے مستقبل کی امیدیں ہیںان کے کھانے ،عربی، ہندوستانی اور ایرانی کچن کا حسین امتزاج ہیں جن کی خوشبو اور ذائقہ ناقابل فراموش ہے “ وہ مزید لکھتی ہیں کہ دہشت گردوں کے کسی ایک سربراہ کو مار دینے سے دہشت گردی کی شکست نہیں ہوسکتی بلکہ اس آئیڈیالوجی کو کمزور کرنا ضروری ہے اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب اس کتاب میں رقم کئے گئے بہت سے کرداروں کو آواز اور مدد بہم پہنچائی جائے جو ایک آزاد معاشرے اور انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں“سچ تو یہ ہے کہ وہ پاکستانیوں کی زبان میںہی پاکستانیوں کے مقبول گانے کو موضوع بنا کر یہ بتانے میں کامیاب ہوئی ہے کہ
یہ ہم نہیں ۔ یہ ہم نہیں ۔ یہ ہم نہیں
جیسے شام آتے ہی کوئی رستہ ہم بھلا بیٹھے
اندھیروں سے ڈرے اتنا کہ ہم گھر ہی جلا بیٹھے
یہ کیا چاروں طرف اڑتی ہوئی رائیگانی ہے
ہمارے نام سے پھیلی ہوئی جھوٹی کہانی ہے
یہ ہم نہیں ۔۔ یہ ہم نہیں ۔۔ یہ ہم نہیں



مکمل تحریر  »