15/03/12

masroof

مکمل تحریر  »

04/03/12

kitnay oscar


خواتین کے عالمی دن پر خصوصی تحریر
 
  کہتے ہیں دنیا میں اس سے بڑا بہر ہ کوئی نہیں ہوتا جو سننا نہیں چاہتا آٹھ مارچ یعنی حقوق نسواں کا عالمی دن قریب آرہاتھا اور پروفیسر پلاسی میرے ساتھ مغربی اور اسلامی ثقافت میں خواتین کے حقوق پر بحث کر رہے تھے پروفیسر صاحب کے سر کے سارے بال سفید ہوگئے ہیں اور وہ عمر کی اس دہلیز پر ہیں کہ ان کو دیکھتے ہی ان کا احترام ذہن پر چھا جاتا ہے میری ان سے ملاقات ایک سکول میں ہوئی تھی وہ سکولوں کے ایجوکیشن آفیسر تھے میں ان دنوں مختلف سکولوں میں ثقافتی ترجمان کی حیثیت سے جاتا تھا وہ مجھے کہنے لگا کہ میں اپنی پرائیوٹ کمپنی کیوں نہیں کھول لیتا ان کا کہنا تھا کہ جتنے پیسے سکول والے مجھے دیتے ہیں اس کا چار گنا تو وہ کواپریٹو ایجنسی والے لے لیتے ہیں جو مجھے ترجمان کی حیثیت سے سکولوں میں بھیجتے ہیں میں نے کہا کہ میرا ارادہ تعلیم کوبزنس بنا نا نہیںوہ بہت متاثر ہوئے اور میری ڈگری لیکر مختلف یونیورسٹیوں میں مزید تعلیم اور جاب کی معلومات حاصل کرنے لگے ہمارا تعلق دوستی میں تبدیل ہوگیا وہ پروفیسر ہیں اس لئے ہم مختلف موضوعات پر ڈس کس کرتے رہتے ہیں اس دفعہ موضوع ایسا تھا جو یورپ میں ہمارے خلاف منفی پراپیگنڈہ کا باعث ہے وطن سے دورہوںتو وطن کی محبت بڑھ جاتی ہے جس سے محبت ہوتی ہے اس کی کوئی خامی نظر نہیںاور نہ ہی اس کے خلاف کوئی بات سنی نہیں جاتی اس لئے ہم نہ صرف اس کی خامیوں کو نظر انداز کرتے ہیںبلکہ ان خامیوں کا دفاع بھی کرنا شروع کردیتے ہیںمجھے موقع ملا تھاتو میں نے سوچاکہ پروفیسر صاحب کو بحث میں خوب پچھاڑا جائے
 میرا موقف یہ تھا کہ مغرب نے عورت کو ایک کمرشل ابجیکٹ کے طور پر پیش کر کے اس کی عظمت اورعزت و احترام کو داﺅ پر لگایا ہے مغرب نے عورت کو ایک شے کے طور پر پیش کرتے ہوئے پانی کی بوتل سے لیکر شیونگ کریم تک کے اشتہار میں برہنہ کر کے اس کی توہین کی ہے ہماری تہذیب نے عورت کو ماں کے رتبہ پر فائز کرکے گھر میں اعلیٰ مقام دیا ہے اسے شمع محفل نہیں بنایاگھر میں بیوی کی حیثیت میں اسے مستقبل کی نسلوں کی تربیت دینے کا موقع فراہم کیا ہے اسے فیکٹریوں میں مزدوری کے لیے نہیں بھیجا پروفیسر صاحب بحث میں کبھی سرعت اورجوش کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ ان کی گفتگو میں اتنا تحمل اور ٹھہراﺅ ہوتا ہے کہ ان کے الفاظ گنے جاسکتے ہیں اور جب کوئی بات دلیل سے کی جائے تو وہ اپنی ہار بھی مان لیتے ہیں انہوں نے باقی باتوں کو تو اہمیت نہ دی لیکن کیپٹل ازم کے نام پر اس کی توہین والی دلیل مان لیکن انہوں نے میرے علم میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ مغرب میں اب بہت سی ایسی خواتین کی تنظیمات ہیں جو عورت کوکمرشل ابجیکٹ کے طور پر استعمال ہونے والے کیلنڈر زاور اشتہارات کے خلاف تحریک بھی چلا رہی ہیں
 میں یہ بحث جیت کر تو من ہی من میں بہت خو ش تھاکہ جیسے میں نے کوئی بڑا معرکہ سر کرلیا ہو لیکن ایک دن انہوں نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور پوچھنے لگا کہ اسلامی تہذیب میں کوئی خاتون تعلیم حاصل کر سکتی ہے میں نے جوش میں آکر کہا کہ ”کرسکتی “کاکیا مطلب ہے اسلام تو مرد وعورت دونوں پر تعلیم کو فرض قرار دیتا ہے اس نے میرے سامنے ایک پاکستانی طالبہ کی فائل رکھی جس کی عمر سولہ سال تھی اور اس کا مڈل سکول مکمل ہوچکا تھا اٹلی میں سولہ سترہ سال کی تعلیم قانونی طور پرلازمی ہے اس کے بعد طالبعلم یا طالبہ آزاد ہے کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھے یا چھوڑ دے اکثر پاکستانی اپنی بچیوں کولازمی تعلیم کے بعد گھربٹھا لیتے ہیں اس فائل میں بچی کی پراگرس رپورٹ تھی جو بہت شاندار تھی اطالوی زبان کے علاوہ دیگر مضامین میںبھی اس کا نتیجہ حیران کن تھاپروفیسر صاحب کہنے لگے کہ مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے کہ بچی کے گھر والے اسے مزید تعلیم نہیں دلانا چاہتے جبکہ ان کا خیال تھا کہ اتنی زبردست پراگرس رپورٹ رکھنے والی بچی اگر تعلیم جاری رکھے تو کسی بھی شعبہ میں کمال کرے گی میں نے مدد کی حامی بھری ہی تھی کہ انہوں نے مجھے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور بچی کے والدین کے گھر پہنچ گئے گھرمیں بچی کے والد کے علاوہ اس کے چچا اور بھائی بھی موجود تھے جو میرے ساتھ پروفیسر صاحب کو دیکھتے ہی آنے کا مدعا سمجھ گئے وہ مجھے پنجابی میں کہنے لگے کہ یہ ماسٹر بضد ہے کہ ہم اپنی بچی کومزید پڑھائیں لیکن ہم نے فیصلہ کرلیا ہوا ہے کہ ہم کافروں کے سکولوں میں اپنی بچی کو مزید تعلیم نہیں دیں گے ماحول کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے میں نے پروفیسر صاحب کو وہیں چھوڑا اور بچی کے والد سے تنہائی میں بات کرنا مناسب سمجھی اس سے پہلے ہی کہ میں دلائل کا انبار لگاتا کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال بھی انہی کافروں کے سکولوں میں پڑھ کر قوم کا درد لیکر گئے تھے اور انہیں سمجھاتا کہ تعلیم اس بچی کے لیے کتنی ضروری ہے جو ہر مضمون میں اول پوزیشن حاصل کر چکی تھی وہ آنکھوں میں نمی لیکر کہنے لگا کہ میں ان پڑھ ضرور ہوں لیکن میں اپنی اولاد کا اچھا برا سمجھتا ہوں میں جانتا ہوں کہ تعلیم بہت بڑی دولت ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میری بچی بڑی لائق ہے لیکن میں مجبور ہوں میں یہاں اکیلا نہیں ہوں میری پوری برادری یہاں موجود ہے ہمارا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے میرے راشتہ دارمجھے اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ میں اسے کسی کالج یا یونیورسٹی میں بھیجوںمیں ایک مجبور شخص کو مزید مجبور کیسے کر سکتاتھا مجھے اس دن پتہ چلا کہ مذہب اور مذہبی گھرانے میںکتنا گہرا فرق ہوتا ہے جو مذہب ہمیں پڑھایا جاتا ہے اس میں اور اس کی تشریح میں کتنا بڑا فرق ہے مذہب ہمیں علم حاصل کرنے کے لیے چین تک جانے کا حکم دیتا ہے لیکن مذہبی گھرانہ اٹلی میں رہتے ہوئے بھی اٹلی کی تعلیم سے منع کرتا ہے اور اس ساری بحث میں اس سے تو کسی نے پوچھا ہی نہیں وہ کیا چاہتی ہے جس نے ہر مضمون میں اول پوزیشن حاصل کی تھی
 ایک دن مجھے ایک ہسپتال سے فون آیا میں نے روٹین کا معاملہ سمجھا کہ کسی مریض کی ٹرانسلیشن کرناہوگی لیکن جب میں ہسپتال پہنچا تو دو تین ڈاکٹروں کا گروپ بیٹھا ہوا تھا جس میںسرجن ڈاکٹر بھی موجود تھا لگتا تھا کہ معاملہ سنگین ہے اٹلی میں ہسپتالوں میں طریقہ علاج بہت محتاط ہے جب تک بیماری کی مکمل تشخیص نہ ہوجائے علاج شروع نہیں کیا جاتاہے کسی بھی قسم کے ٹیسٹ کروانے سے پہلے والدین کی اجازت لازمی ہوتی ہے ڈاکٹر مجھے بتا نے لگے ایک سترہ سالہ پاکستانی لڑکی کئی مہینوں سے بیمارتھی علاج تولگاتارجاری تھا لیکن ڈاکٹروںسے اسکی بیماری کی صحیح تشخیص نہیں ہورہی تھی سارے ٹیسٹ نارمل تھے ڈاکٹروں نے باہمی مشورہ سے فیصلہ کیا کہ اس کی پیٹ میں دو انچ کا کٹ لگا کر اس کے گوشت کاٹشو لیا جائے اور اس کے ذریعے تفصیلی تشخیص کا مرحلہ مکمل کیا جائے لیکن لڑکی کا والد یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھا ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ لڑکی درد کی شدت سے بے حال ہے لیکن اسکا والدایسی کسی بھی تشخیص کی اجازت نہیں دے رہا تھا میں نے اس کے والد کوقائل کرنے کی کوشش کی کہ اس کی بیٹی کی زندگی کے لیے یہ ٹیسٹ بہت ضروری تھا وہ مجھے کہنے لگا”جناب کیاآپ کو اندازہ ہے کہ آپ مجھے کس بات پر مجبور کر رہے ہیں میری بیٹی کہ جسم پر لگے ہوئے کسی بھی کٹ کا مطلب پاکستان میں کیا لیا جائے گا ؟کیا اس سے کبھی کوئی شادی کرے گا ؟اور اگر کر بھی لے توشادی کے بعد یہ تشخیص زندگی بھرمیری بیٹی کےلئے عذاب نہیں بن جائے گی ؟“وہ جتنی بھی باتیں کر رہا تھاسچی تھیں لیکن میں ان اطالوی ڈاکٹروں کوکیسے سمجھا تا سرجن ڈاکٹر کہنے لگا کہ اگر خدانخواستہ کسی پاکستانی بچی کو اپنڈکس ہوگیا کہ جس میں اگر آپریشن نہ کریں تو مریض کی جان جاسکتی ہے اس صورت میںپاکستانی باپ کیا فیصلہ کرتے ہیں ؟ اس دن مجھے پتہ چلا کہ جس شرم وحیا کے کلچر پر ہم فخر کرتے ہیں وہ کسی کی جان لینے کی بھی پرواہ نہیں کرتا ،کسی کا علاج نہ کروانابھی اس کا قتل ہی ہے اور ہم اس قتل میں بڑے فخر سے شا مل ہوجاتے ہیں حالانکہ ایسا نوجوان تو کسی ایسی لڑکی کا شوہر بننے کا حق دار ہی نہیں جس کی نظر میں عورت کی ناموس کا معیار جسم پردو انچ کا کٹ کے ہونے یا نہ ہونے پر انحصار کرتا ہے
 پتہ نہیں پاکستانی خواتین کے حقوق کی آواز اٹھانے اور ان مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے کتنی ”شرمین عبید چنائے “کی ضرورت ہوگی اور ہمیںان مسائل پر گفتگو چھیڑنے کے لئے کتنے مزید آسکر ملک میں لانے ہوں گے کہ کسی ایسے مسئلہ پر گفتگو کرنا ہی یورپین پراپیگنڈہ کی حمایت اورلا دینیت کے مترادف لیا جاتا ہے پاکستان میں پنچایت کے فیصلوں میں مردوں کی گناہوں کی سز ااس صنف نازک کودے دی جائے جو شریک جرم ہی نہیںہوتی ،کوئی سیاسی لیڈر کسی خاتون ٹیچر کے منہ پر تھپڑ آمارے ، کوئی عاشق نامراد کسی لڑکی کے منہ پر تیزاب دے مارے ، کوئی دیور جائیدادکے مسئلہ پر اپنی بھابھی کی ناک اور گال کاٹ ڈالے ، کوئی برادری کسی خاتون کو کاروکاری کے بھینٹ چڑھادے ، کوئی خاونداپنی بیوی کو نئے کپڑوں کے مطالبے پر آگ لگادے ، کوئی چچا یا ماموں کسی عورت کو پسند کی شادی پر قتل کردے ، دو گرہوں میں دشمنی کا بدلہ لینے کے لئے ایک دوسرے کی عورتوں کے لباس تار تار کر دئے جائیںاورجس ملک میں گالیوں میں بھی مخالف کی عورتوں کا ہی تذکرہ ہوتا ہو وہاں تو کوئی گفتگویا کوئی بحث نہیں چھیڑی جا سکتی کیونکہ یہ سب غیرملکی لابی کا پراپیگنڈہ خیال کیا جاتا ہے لیکن ان ترقی یافتہ ممالک میںخواتین کو ہسپتالوں ، سکولوں ، پولیس ،سیاسی پارٹیوں ،سرکاری اداروں اور مختلف پرائیویٹ کمپنیوں میں اعلی ٰ عہدوں پر کام کرتے دیکھتے ہوئے بھی ہماری ذہنیت اگرصدیوں پرانے کلچر پر اٹکی ہوئی ہے تو یہ بات ہمارے لیے لمحہ فکریہ ضرور ہونی چاہئے
 آج اطالوی سکولوں کے اساتذہ کو پاکستانی بچیوںسے شکایت ہے کہ وہ سخت سردی کے موسم میں پاکستانی گرمیوں کی شلوار قمیض پہننے پر بضد ہیں وہ اپنی ہم جماعت طلباءکے ساتھ کسی میوزیم یا کسی یا تاریخی مقام کی سیر پر نہیں جا سکتیں کہ ان کے والد کی اجازت نہیں ، وہ میوزک کی کلاس نہیں لے سکتی ،وہ کسی فزیکل ایجوکیشن میں حصہ نہیں لے سکتی کیونکہ ہم نے ان سب باتوں کو مذہب کے ساتھ نتھی کیا ہوا ہے پتا نہیں علماءہمیں وہ واقعات کیوں سناتے ہیں جن پر ہم عمل ہی نہیں کر سکتے کہ ایک دفعہ محسن کائنات حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے اپنی بیوی ام المونین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے ساتھ ملکر دوڑکا مقابلہ کیا شادی کے شروع کے دن تھے حضرت عائشہ ؓ جوان تھیں اور وہ اس ریس میں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے آگے نکل گئی پھر انہیں اسلامی کتابوں میں آتا ہے کہ بہت دنوں بعد دنیا کی اکمل واعلی ٰاور مقدس ومطہر ترین جوڑی نے دوبارہ ریس لگائی اس دفعہ حضرت عائشہ ؓ پیچھے رہ گئی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  آگے نکل گئے اس واقعہ کی تشریح میں آج تک نہیں سمجھ سکا۔۔یا شاید ہم سب اس واقعہ کو سمجھنا نہیں چاہتے؟

مکمل تحریر  »