27/05/13

Tutto Passa. . . Tutto Cambia. . . Ma Niente si Dimentica...

Tutto Passa. . . Tutto Cambia. . . Ma Niente si Dimentica...

مکمل تحریر  »

اٹلی کی پہلی سیاہ فام منسٹر




  یہ ہفتہ کی سہ پہر تھی پورے یورپ میں ہفتہ کے دن کو” ویک اینڈ “قرار دیا جاتا ہے اورلوگ سارا ہفتہ کام کی تھکن کے بعد شاپنگ کرتے ہیں یا پھر گھومنے کے لئے باہر نکلتے ہیں وہ بھی اپنی ایک دوست کے ساتھ بلونیا سٹی میں چہل قدمی کر رہی تھی تین بجے کے قریب اس کے فون کی گھنٹی بجی فون کی دوسری جانب اٹلی کے نئے منتخب شدہ وزیر اعظم ”این ریکو لیتا“ تھے انہوں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ حالیہ اطالوی حکومتی کابینہ میں وزیر بننا چاہیں گی وہ ایسی آفرکیسے ٹھکرا سکتی تھی اسے اپنے کانوں ، ٹیلی فون پرسنی جانے والی آوازاور اس کے نتیجے میں کئے گئے سوال پر یقین نہیں آرہا تھا اسے تو یہ سب کچھ خواب سا لگ رہا تھا ابھی دو تین سال بھی نہیں گزرے تھے کہ اطالوی سیاسی پارٹیاں سیاہ فام باشندوں کے لیے بسوں میں علیحدہ سیٹوں کا مطالبہ کر رہی تھیں کہ ان سے بو آتی ہے ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ اٹلی کے سیاستدان سمندری راستہ سے غیرقانونی طور پر اٹلی داخل ہونے والے امیگرنٹس کو توپوں سے اڑانے کی بات کر رہے تھے ابھی کچھ سال پہلے ہی اٹلی میں امیگرنٹس کو ایک بوجھ اور حالیہ معاشی کساد بازاری کی وجہ قرار دیا جا رہا تھا کیا وقت اتنی جلدی بدل سکتا ہے؟ کیا جمہوریت واقعی اس دور کا سب سے بہترین نظام ہے جو نفرت زدہ پسے ہوئے لوگوں کو بھی سرفرا ز کر سکتا ہے ؟کیا یہ ڈیمو کریسی ہے جس کے نتیجہ میں سیاہ فاموں سے اتنی نفرت کے بعد اٹلی اپنی تاریخ بدلنے جا رہا ہے وہ جو انہیں ووٹ کا حق دینے کا روادار بھی نہیںتھا اب اپنی حکومتی کابینہ میںان کے لئے جگہ بنا رہا ہے ابھی چند دن پہلے ہے 25اپریل کو اٹلی والوں نے اپنا یوم جمہوریہ منایا ہے کیا 68سالوں میں ہی یہ قوم اس طرح تیار ہوگئی ہے کہ اس نے جمہور میں ہر اس شخص کو بھی مقام دینا ضروری سمجھ لیا جو اس ملک میں پیدا بھی نہیں ہوا اور جس نے یہاں آکررہائش اختیار کر نے کی درخواست دی تھی اور اب اسے اطالوی حکومت میں وزیربنا لیا گیا ہے جہاں وہ نہ صرف اپنے جیسے سیاہ فام باشندوں کے حقوق کی آواز اٹھائے گی بلکہ اس ملک کے باسیوں کی تقدیر کا فیصلہ بھی کرے گی
  وہ اٹلی کی پہلی سیاہ فام وزیر بنی ہیں لیکن یہ کامیابی اسے اس لیے نہیں ملی کہ کوئی ہما نام کا پرندہ اس کے سر پر آبیٹھا تھا بلکہ اس نے اس کامیابی کے لیے جدد جہد کی تھی ”چیچیلے کنگے“ کا تعلق رپبلک آف کونگو سے ہے ان کی عمر 49سال ہے شادی شدہ ہیں اور وہ دو بچیوں کی ماں ہےں انہوں نے اطالوی شہریت لی ہوئی ہے ان کے پاس آئی اسپیشلائزیشن کی ڈگری ہے اور وہ پیشہ کے اعتبار سے بھی اٹلی میں بطور ڈاکٹر برائے امرا ض چشم کے فرائض سر انجام دے رہی ہیںسن 2004ءمیں وہ اٹلی کے شہر مودنہ کی ایک چھوٹی سے وارڈ سے بائیں بازو کی پارٹی کی جانب سے کونسل کی ممبر منتخب ہوئی تھیں اور اپنی سیاسی جد وجہد کا آغاز کیا تھا اس کے بعد صوبائی سطح پر امیگریشن فورم کی ذمہ دار نامزہ ہوئیں مورخہ 7جون 2009ءکو ڈیمو کریٹک پارٹی کی جانب سے مودنہ صوبائی اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئیں اور پھر 2010ءسے وہ ہر سال منائے جانے والے امیگرنٹس کے یکم مارچ والے احتجاجی نیشنل ڈے کی روح رواں ثابت ہوئی اور اٹلی کی جمہوری پارٹی ”پی ڈی“کی جانب سے اس احتجاجی یوم کی ترجمان بھی نامز د کی گئی اس طرح وہ امیگرنٹس کے حقوق کے لئے جدو جہد کرتے کرتے آخر کار 25فروری 2013ءکو ایمیلیا رومانیا میںڈیمو کریٹک پارٹی کے پلیٹ فارم سے اطالوی پارلیمنٹرین منتخب ہوئی ہیںاور اب اٹلی کی حالیہ حکومت نے ان کے ہاتھ میں وزیر برائے انٹی گریشن کا قلم دان تھما دیا ہے
 وزیر منتخب ہونے کے بعد پریس کو دئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ”ان کی پہلی ترجیح اٹلی میں پیدا ہونے والے امیگرنٹس کے بچوں کے لیے اطالوی شہریت دیئے جانے کے قانون پر ہوگی“ ان کا کہنا ہے کہ” اس سلسلے میں انہیںسخت مزاحمت کا سامنا ہوگا لیکن وہ اپنی کوشش جاری رکھیں گی “اپنے انٹرویو میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ اٹلی میں موجود تارکین وطن شہریوں کے حقوق کے لئے ان کے ارادے بہت بڑی تبدیلیوں کے ہیں جن میں سرفہرست غیرقانونی داخل ہونے والے تارکین وطن کے لئے قائم شناختی جیلوں کا خاتمہ ،اٹلی میں غیرقانونی رہائش کو جرم قرار نہ دیے جانے کے لیے قانون سازی ، کام کے ویزہ پر اٹلی انٹر ہونے کے ویزہ میں ایسی تبدیلی کہ تارکین وطن ورکر کا استحصال اور بلیک میلنگ کا خاتمہ ہواور اٹلی میں فیملی منگوانے کو آسان بنانے کے قوانین شامل ہیں اس کے علاوہ ان کے ارادوں میں ایسے قوانین بھی شامل ہیں جو جنس ، رنگ اور نسل کی بنا پر امتیازی سلوک کا راستہ روکےںوہ چونکہ ایک ماں بھی ہیں اس لیے ان کے پروگرام میں یہ بھی شامل ہیں کہ اٹلی میں بچوں کے لیے مزید نرسری سکولوں کا بندوبست کیا جائے اورتمام ہاﺅسنگ سوسائٹیوں میں بچوں کی دیکھ بھال کے لئے مشترکہ نرسری کا قیام بھی لانا ہے تاکہ کام پر جانے والی عورتوں کے لیے آسانی پیدا ہو سکے
  اٹلی کی حالیہ سیاسی صورت حال کا اگر بغور جائزہ لیں تو جہاں تک اپنے انٹرویو میں وہ مزاحمتوں کا تذکرہ کر رہی ہیں تو اس میں واقعی ان کا وزیر برائے انٹی گریشن بن جانے ان کے لئے اور اٹلی میں موجود تمام امیگرنٹس کے لئے خوش آئند اور باعث اعزاز تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ان کے وزیر بن جانے سے اٹلی میں مو جود تارکین وطن شہریوں کو کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہو جانا چاہیے کیونکہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اٹلی میں بننے والی حالیہ حکومت دو ماہ کے طویل اکھاڑ بچھاڑ اور سیاسی بحرانوں کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے یہ حکومت اکثریتی پارٹی اور اپوزیشن کے اشتراک سے بنی ہے جس میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں شامل ہیںان میں ان کی پارٹی بھی ہے اور وہ پارٹیاں بھی ہیں جو گزشتہ سالو ں میں تارکین وطن شہریوں کے لئے سخت ترین قوانین بنواتی رہی ہیں اور اتنی متضاد پروگرام والی پارٹیاں چند باتوں پر تو مشترکہ قانون سازی کر سکتی ہیں لیکن یہ طویل المدت حکومت ثابت نہیں ہوگی کیونکہ یہاں مفاہمت کا مطلب مک مکا نہیں ہے
  اٹلی میں امیگرنٹس کے رہائشی امورسے متعلقہ تمام کام وزارت داخلہ کے زیر انتظام آتے ہیں لیکن اس کرسی پر آکر بیٹھنے والے ”انجیلیو آلفانو“کا تعلق امیگرنٹس مخالف پارٹی پی ڈی ایل سے ہے اور وہ اٹلی کے نائب وزیر اعظم کا عہدہ بھی سنبھالے ہوئے ہیں ان کی وزارت کے نیچے ہی اٹلی کی سوجورنو کی تجدید ، اطالوی زبان کا ٹیسٹ ، فیملی منگوانے کے معاملات اور اطالوی شہریت کے شعبہ جات آتے ہیں اس لیے اٹلی کے تارکین وطن شہریوں کے لئے مستقبل قریب میں کوئی بڑی آسانی پید ا کرنے سے پہلے اس وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالے وزیر کی رضاہی ضروری ہو گی دوسری جانب منسٹری آف لیبر ہے جن کی مرضی کے بغیر کوٹہ امیگریشن اور دوسرے ممالک سے امیگرنٹ ورکر کو لانا اور ایسے قوانین میں کوئی تبدیلی کروانا نا ممکن ہوگا اور اس کے ساتھ ہی وزارت خارجہ کا شعبہ آتاہے جودنیا بھر میں موجود اطالوی سفارت خانوں اور دیگر ممالک سے تعلقات کی ضمانت ہوتی ہے اس کرسی پر براجمان خاتون ایما بونیونو کا تعلق بھی ڈیمو کریٹک پارٹی سے نہیں ہے
ایسی چومکھی لڑائی میں چیچیلے کنگے اکیلی ہیں آنے والے دنوں میں ان کے کام کا تعین ضرور ہوجائے گا اور اٹلی میں رہائش پذیر امیگرنٹس کے حقوق کے حصول کے لیے انہیں بڑی محنت درکارہو گی لیکن بہر حال وہ اٹلی میں موجود تارکین وطن شہریوں کے لیے امید کی ایک کرن ضرور ثابت ہوئی ہیں ان کا وزارت برائے ”ادغام“ کی کرسی پر بیٹھ جانا ،پارلیمنٹ میں اسپیکر قومی اسمبلی لاﺅرا بولدینی کا منتخب ہوجاناجنہوں نے پناہ گزین امیگرنٹس کے حقوق کے لئے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی اور مراقشی نژاد خالد شوکی کاپارلیمنٹرین منتخب ہوجانا جس نے اٹلی میں پیدا ہونے والے تارکین وطن شہریوں کے بچوں کے لیے اطالوی شہریت کا مطالبہ ایک مہم کی صورت میں چلایا تھاان کی اطالوی پارلیمنٹ میں موجودگی تارکین وطن شہریوں کے لئے تازہ ہوا کاجھونکا ثابت ہوگی اور یہ سب باتیں اس بات کی ضمانت بھی ہیں کہ اٹلی کی سیاسی پارٹیوں نے اٹلی میں موجود تارکین وطن شہریوں کو سنجیدگی سے لینا اور انہیں اس معاشرہ کا ایک حصہ سمجھنا شروع کرد یا ہے




مکمل تحریر  »