31/03/13

adjustment ایڈجسٹمنٹ

  بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ٹی وی نیوز دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید پاکستانیوں میں برداشت نہیں ہے اور وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑ پڑتے ہوں گے لیکن جب پاکستان جائیں تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ پاکستانی کسی بھی بات پر ناراض نہیں ہوتے اور وہ بڑی بڑی سے بڑی غلطی اور زیادتی کو بھی ایک لفظ” ایڈجسٹ “کر لینے پر ختم کر لیتے ہیں مثلاً اگر ایک موٹر سائیکل پر دو آدمی بیٹھ سکتے ہیں تو اسی موٹر سائیکل پردو میاں بیوی اور پانچ بچے ایڈجسٹ کر لیتے ہیں اور کسی پولیس والے کو ،کسی قانون نافذ کرنے والے کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا پانچ سیٹوں والی سوزکی کار میں بار ہ آدمی بیٹھ جاتے ہیں اور لوگ ایڈجسٹ کر لیتے ہیں لاہو رکے رنگ روڈ پر لوگ پیدل اتنے آرام سے سڑک پار کر رے ہوں گے جیسے انا ر کلی ہوجی ٹی روڈ پرلوگ بھینسیںلیکر روڈ پار کر لیں گے اور چلتے ٹرک سے گنے اتار لیں گے گاڑیوں والے رات کو فل لائٹ آن رکھیں گے ، چار میٹر کی ٹرالی کے باہر بار ہ میٹر تک کی سریا کی تاریں ہوں گی لیکن کسی کو کوئی غصہ نہیں آئے گا کوئی کسی کو روکے گا نہیں لوگ ایڈجسٹ کر لیں گے آ پ گاڑی لیکر روڈ پر نکلےں تو گدھا گاڑی والا سکون سے بیچ سڑک میں سبزی فروخت کر رہا ہوگا آپ کی گاڑی دیکھ کر وہ گاہک کے ساتھ پورا حساب کتاب کرے گا اور آپ کو ہاتھ کے اشارہ سے انتظار کرنے کا کہے گاآپ کو ایڈجسٹ کرنا ہوگا چھوٹے بچوں کے سکول کے باہر جا کر منظر دیکھ لیں تین آدمیوں کے رکشہ میں دس دس بچے ٹھسے ہوئے بلکہ لٹکے ہوئے ہوں گے ، چنگ چی نامی رکشہ پر ڈرائیور دس بچے پیچھے اور تین بچے اپنے موٹر سائیکل پر ایڈجسٹ کرلے گا لیکن کسی والد کسی والدہ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا پبلک مقام پرعورتوں اور بچوں کی موجودگی میں لوگ سگریٹ پینا شروع کردیں گے لیکن کوئی غصہ نہیں کرے گا بلکہ ایڈجسٹ کر لیں گے گاڑیوں کے اندر کوئی سیٹ بیلٹ نہیں مسافر ایڈجسٹ کر لے گا راستہ لینے کے لیے گاڑیوں والے بار بار ہارن بجائیں گے ون وے ٹریفک میں ڈرائیور یو ٹرن لیکر مڑنے کی بجائے دو دو کلومیٹر تک بیک گئیر میں آجائے گا بڑی بڑی گاڑیاں اورموٹر سائیکل اس کے دائیں بائیں سے آسانی سے گزر جائیں گے کوئی اس حرکت پر غصہ نہیں کرے گا اور ایڈجسٹ کر لے گا ٹریفک سنتری اگر دیکھ لے تودو چار سو روپیہ لیکر ایڈجسٹ کر لے گا،کوئی بھی سیاستدان اپنے کارکن کو کسی سرکاری نوکری پر رکھوانا چاہے گا تو چاہے ا س محکمہ میں گنجائش نہ بھی ہوتوسفارش کرتے ہوئے کہے گا ”یار اسے کہیں ایڈجسٹ کرلیں “
   پاکستان جا کر کسی بھی گھر میں داخل ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ گھر کے باسیوں نے بھی پاکستان کے ماحول کو ایڈجسٹ کرلیا ہے انہیں بھی حکمرانوں سے ، سیاستدانوں سے اورسرکاری محکموں سے کوئی شکایت نہیں گھر کے اندر اندھیرے ہیں بجلی بائیس بائیس گھنٹے نہیں آتی ہے لیکن انہوں نے یوپی ایس سے ایڈجسٹ کر لیا ہوا ہے یو پی ایس سے صرف ایک بلب آن ہوسکتا ہے ، ٹی وی نہیں دیکھ سکتے،فون کی بیڑی چارج نہیں کر سکتے تو بعض لوگوں نے اس مسئلہ کو جنریٹر سے ایڈجسٹ کر لیا ہواہے کسی کو شکایت نہیں ہے حکومت نے رینٹل پاور پراجیکٹ سے مسئلہ حل کرنا چاہا تو اس میں کرپشن ہوگئی عدالت نے اس معاملہ کو ایڈجسٹ نہ ہونے دیا تو حکومت نے اسی وزیر برائے بجلی و پانی کووزیر اعظم بنا دیالیکن عوام نے اس کرپشن والے معاملہ کو بھی ایڈجسٹ کرلیا
میں پاکستان پہنچا تو پتہ چلا کہ اب جمہوری حکومت نے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں بھی گیس کا کنکشن پہنچا دیا ہے لیکن ان کنکشنوں کی حالت وہی ہے جیسے کوئی نلکا لگا جائے لیکن اس سے پانی کی بجائے شوں شوں کی آواز آتی رہے گیس یا تو کئی کئی دن آتی نہیں اور اگر آتی ہے تواس کا پریشر پورا نہیں ہے جس کی وجہ سے کمروں میں ہیٹر آن نہیں ہوسکتے ، بڑے بڑے مہنگے گیزر ہیں لیکن ان کا پانی گرم نہیں ہوسکتا،چولہے پرروٹی نہیں پکائی جاسکتی کہ پریشر کم ہے یہ پریشر کیا ہوتا ہے ؟میرا کیمسٹری کا علم بھی اس نئی گیسی اصطلاح کا احاطہ نہیں کر سکتا تھابہرحال لوگوں نے گھریلو گیس کے ساتھ ساتھ گیس سلنڈروں کا بھی انتظام کیا ہوا ہے تاکہ گیس کے پریشر والا معاملہ بھی ایڈجسٹ کر لیا جائے پکوڑے سموسے بیچنے والوں نے ریڑھیوں پرتازہ پکوڑوں کو گرد وغبار اور مٹی کے ساتھ ساتھ تلنے کے لئے ریڑھی کے اوپر ہی جگہ بناکر چھوٹے چھوٹے گیسی سلنڈر وں کوبھی ایڈجسٹ کیا ہوا ہے چولہے کے اتنے نزدیک سلنڈروں کی ایڈجسٹمنٹ موت کو دعوت دینا ہے لیکن کوئی بات نہیں وہاں تو گھروں میں ہیٹر کے ساتھ بھی وہ والے گیس کے پائپ استعمال ہوتے ہیں جو یورپ میں پانی کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں یعنی اگر ہیٹراٹھا کر دوسرے کمروں میںلے جانا پڑے تو دوسرے کمرے کی سردی کو بھی ایڈجسٹ کیا جا سکے
  پاکستان میں لوگوں کے پاس اب بڑی بڑی مہنگی گاڑیاں ہیں لیکن پتہ چلا کہ اگران میں سی این جی گیس ڈلوانی ہو تو ضرور ی ہے کہ آپ کی اولاد زیادہ ہو تاکہ آپ سی این جی لینے کے لیے باریاں لگا لیں ایک بیٹا گاڑی لے جائے اور لائین میں لگ جائے پھر دو گھنٹے بعد دوسرا بیٹا پہنچ جائے اور وہ باری کا انتظار کرے اس طرح چوبیس گھنٹوں کے اندر اندرباریاں بدلتے بدلتے آپ اس قابل ہوجائیں گے کہ آپ کی گاڑی میں گیس بھرنے کی باری آجائے گی اگر باری آبھی گئی توگیس اسٹیشن کا ملازم آپ سے کہے گا کہ پریشر پورا نہیں ہے لیکن آپ ایڈجسٹ کر لیں میں نے اٹلی میں چار سال تک گیس والی گاڑی رکھی ہے لیکن یہ پریشر والی گیس کا علم مجھے نہیں تھا سی این جی اسٹیشن پاکستان میں فیس بک اور ٹوئیٹر سے بھی بڑاسوشل نیٹ ورک ہے یہاں کھڑے کھڑے آپ کی دوستیاں ہوسکتی ہیں آپ دیگر ڈرائیوروں سے پوری دنیا کی سیاست ،مذہب اور ثقافت پر دل کھول کر تبصر ہ وتجزیہ اور حالات حاضرہ پر گفتگو کر سکتے ہیں
 جن دنوں میں پاکستان گیا تھا ملک میں ان دنوں انقلاب کی ہوائیں چل رہی تھیں جنوری کے مہینے میں لانگ مارچ ہورہا تھا حکومت کو کلینڈر تبدیل کرنے کی ایڈجسٹمنٹ بالکل نہ بھائی اس لیے انہوں نے میدان میں وہ مرد مجاہد اتاراجس کے پاس ہر مسئلہ کا ایک ہی حل ہے جو نوکیا موبائل فون کے اشتہار  کونیکٹنگ پیپل کواپنے ایک ہی حکم سے غلط ثابت کرسکتا ہے اس مجاہد کا نام رحمان ملک تھا اس نے ”ڈس کو نیکٹنگ پیپل “کا نعرہ بلند کیا اور موبائل سروس معطل کر دی لوگوں کے ہاتھوں میں مہنگے مہنگے موبائل فون تھے لیکن ان میں سروس سگنل غائب تھے یعنی اب پورے ملک میں کسی کا کسی سے کوئی رابطہ نہیںرہا تھا پاکستانیوں کے پاس جو فون تھے ان کا ایک مصرف تو بہرحال تھا کہ رات کو جب بجلی چلی جاتی تھی تو ان موبائل فونز میںایک لائیٹ تھی جس سے وہ رات کو روشنی کر لیتے تھے اور اقبال کی نظم جگنو کے تحت ایک دوسرے کو رستہ دکھا لیتے تھے لیکن میرے پاس چونکہ اٹلی والا فون تھا اور اس میں اضافی لائٹ نہیں تھے اس لیے مجھے حسرت ہی تھی کہ میں اپنے ہم وطن شہریوں کو روشنی نہیں دے سکتا تھا
یہی ایڈجسٹ کر لینے والا کلچر ہی پاکستان جیسے ملک میں تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے یہ اتنی زیادہ برداشت کر لینے کی سکت ہی ہے جو سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی عوام کو اپنی حالت بدلنے نہیں دیتا یہی کلچر این آر او کراتا ہے میثاق جمہوریت کے نام پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کا موقع دیتا ہے چاہے اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے حکومت پر مشکل وقت آتے ہی اپوزیشن اس کے ساتھ مک مکا کر کے ایڈجسٹ کر لیتی ہے اپنے اپنے مفاد کے لیے اٹھارویں ،انیسویں ، بیسویں اور اکیسویں ترمیم پاس کرا لیتی ہیںلیکن عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم رکھتی ہیں مفاہمت کے نام پر اصولوں کو قربان کر دیا جاتا ہے ، لوٹوں کی ادھر ادھر بولیاں لگ جاتی ہیں، ڈکٹیٹر کی کابینہ کے سارے پرانے چہرے جمہوری پارٹیوں کے ماتھے کا سہر ا بن جاتے ہے بلکہ خود ڈکٹیٹربھی ملک میں آجائے تو اس سے بھی ایڈجسٹ کر لیا جاتا ہے ، جعلی ڈگری کا معاملہ ہویا کسی خاتو ن ٹیچر کو تھپڑ مارنے کی سزا ایڈجسٹ کر کے پرانے قصے بلا دیے جاتے ہیں ، نئی سوچ نئے وژن اور نوجوان نسل کو پس پشت ڈال کر پھر سے پرانے چہروں کوگھسی پٹی سیاسی نظام میں ایڈجسٹ کر لیا جاتا ہے ملک میں روپے کی قیمت روزانہ کی بنیاد پر ڈی ویلیو ہو جائے، لاقانونیت کا راج ہوجائے ، بھتہ مافیا عروج پکڑ جائے، کراچی سے لیکر کوئٹہ تک خون کی ندیاں بہا دی جائیں نہ کوئی ایف آئی آر نہ کوئی کاروائی ، نہ تعلیم ،نہ صحت ، نہ نوکری ،نہ میرٹ ، نہ بجلی، نہ گیس اور نہ ہی انسانی بنیادی سہولتیں لیکن عوام ہیں کہ ایڈجسٹ پہ ایڈجسٹ کیے جاتے ہیں ملک میں نیچے سے لیکر اوپر تک یہ ایڈجسٹ کر لینے والا کلچر پروان چڑھ گیا ہے اب الیکشن آنے کو ہیں لیکن مختلف نظریات رکھنے والی جماعتیں ایک دوسرے سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایک بار پھر عوام” آوے ای آوے ، دیکھو دیکھو کون آیا ، زندہ ہے زندہ ہے اور بدلیں گے پاکستان “کے صرف نعروں پراکتفا کرتے ہوئے ایڈجسٹ کرتے ہیں یا اپنی حالت بدلنے کی سعی کرتے ہیں
 




مکمل تحریر  »

لوٹ آنا

عرصہ ء خواب میں رہنا کہ لوٹ آنا ہے
 
 
فیصلہ کرنے کی اس بار ہے باری اس کی 

مکمل تحریر  »

19/03/13

Risate


مکمل تحریر  »

17/03/13

ہار

باباجی کہنے لگے ۔۔۔محبت ایک ایسا کھیل ہے جس کا انجام ہی ہار ہے تو ایسے کھیل کھیلنے میں کیا دلچسپی لینا جسکا پہلے ہی پتہ ہو کہ ہارنا ہی مقدر بنے گا۔۔۔۔ کہنے لگے محبت کسی کے سامنے اپنے آپ کو سرنڈر کرنے کانام ہے اس لیے انسان کبھی بھی اپنے محبوب سے جیت نہیں سکتا کہ جس کے سامنے اپنی انا کو ذلیل کر لیا اس سے یہ امید رکھنا کہ وہ عزت دے گا یہ خام خیال ہی ہے ۔۔۔۔۔ میں نے کہا بابا جی یہ محبت میں کسی کو بھلانا اتنا مشکل کیوں ہوجا تا ہے وہ مسکرا پڑے کہنے لگے یہ بھی عجیب ہی معمہ ہے کہ جن کو ہم ساری زندگی بے وفا کہتے ہیں اور ان سے دوری کا شکوہ کرتے رہتے ہیں وہی تو ہر پل ہمارے ساتھ رہتے ہیں ہر وقت ہماری یادوں میں اپنی صحبت سے محظوظ کراتے رہتے ہیں 

مکمل تحریر  »

11/03/13

جو خاموش ہے وہ بھی مجرم ہے


 
جرمنی کے ایک عیسائی پروٹسنٹ اسکالر مارٹن نیمولرنے ہٹلر کے نازی ازم کے دور کے بارے چند شہرہ آفاق جملے لکھے جو آج کل کے پاکستان کے ماحول پر بڑی صادق آتے ہیں وہ نازیوں کے بار ے لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ جب وہ یہودیوں کو لینے آئے تو میں خاموش رہا کیونکہ میں یہودی نہیں تھا ۔۔۔جب وہ ہم جنس پرست ہیجڑوں کو لینے آئے تو میں خاموش رہا کہ میں ہم جنس پرست نہیں تھا ۔۔ جب وہ کیمونسٹوں کو لینے آئے تو میں خاموش رہا کہ میں کیمونسٹ نہیں تھا ۔۔۔ جب وہ خانہ بدوشوں کو لینے آئے تو میں خاموش رہا کہ میں خانہ بدوش بھی نہیں تھا ۔۔
  لیکن جب وہ مجھے لینے آئے تو اس وقت کوئی باقی نہیں رہ گیا تھا جو میرا دفاع کرتا۔۔۔۔۔
 گزشتہ سال اٹلی میں ہمارے شہر کی کیتھولک تنظیموں اور چرچ نے پاکستان کے سابق وفاقی وزیر شہباز بھٹی کی یاد میں ایک پروگرام کاانعقاد کیا چرچ کی جانب سے ایک دعوت نامہ ہمیں بھی ملااس پروگرا م کے مہمان خصوصی پاکستان میں اقلیتی امور کے وفاقی وزیر اورمرحوم شہباز بھٹی کے بھائی جناب پال بھٹی صاحب تھے یہ پروگرام ایک جدید نوعیت کے چرچ میں ہورہا تھا اور ہال میں سینکڑوں اطالوی شہری موجود تھے یہ پروگرام دہشت گردوں کے ہاتھوں ”آل پاکستان مائناریٹیز الائنس کے سابق چیئر مین اورسابق وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کے قتل کے موضوع پر تھا پروگرام کا نقیب ایک نوجوان اطالوی کیتھولک تھا وہ شہباز بھٹی کی عظیم قربانی اور ان کی شخصیت پر گفتگوکرنے کی بجائے بات گھما پھرا کر پاکستان میں تحفظ ِناموس رسالت کے قانون کی طرف لے آتااس نے سارے اعدادوشمارجمع کر رکھے تھے جن کے مطابق پاکستان میں اس قانون کی بنا پر وہاں کی عیسائی اقلیت کونشانہ بنایا جاتا ہے اپنی گفتگو میں اس نے اس قانون کے متاثرین میں اٹھارہ سال سے کم عمران بچوں کے واقعات بھی سنائے جواس قانون کی ذد میں جیل چلے گئے لیکن جب پال بھٹی صاحب کو گفتگو کا موقع ملا تو انہوں نے اپنی بھائی کی زندگی ،ان کی سیاسی جدوجہد اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ڈٹ جانے کے واقعات کو موضوع بنایا اور بتایا کہ ان کی آخری رسومات میں ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کرکے ثابت کیا کہ پاکستانیوں کی اکثریت انتہا پسند نہیں ہے
  پال بھٹی صاحب نے اٹلی کی ہی پادوایونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کیا ہوا ہے اور وہ پلاسٹک اینڈ کاسمیٹک سرجری کی ماسٹر ڈگری بھی پادوا سے ہی لے چکے ہیں اور اٹلی میں تریویزو شہر میں بطور ڈاکٹرتاحال سروس بھی کرتے رہے ہیں اسی لیے ان کی تقریرا نتہائی اچھی اطالوی زبان میںتھی انتہا پسندوں کے ہاتھوں اپنا سگا بھائی قتل کروا چکنے کے بعد بھی پاکستان کے بارے ان کی گفتگو پاکستا ن کابارے مثبت تھی ان کی تقریر کے بعد ایک بار پھر پروگرام کے نقیب نے دوبارہ ان سے” بلاسفامی لائ“ کے بارے رائے جاننا چاہی اور پوچھا کہ کیا اسے ختم کرانے میں پوری دنیا کے کو پاکستان پر زور نہیں ڈالنا چاہیے ؟لیکن پال بھٹی صاحب نے بڑے ہی ڈپلومیٹک طریقے سے کہا کہ خرابی قانون میں نہیں ہے مسئلہ لوگوں کی تعلیم وتربیت اور قانون کے غلط استعمال کا ہے کہ اسی قانون کو بہت سے مسلمانوں کے خلاف بھی استعمال کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ وہاں کہ لوگوں میں انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے ہمیں پاکستان میں غربت کے خاتمہ اور تعلیم عام کرنے کے لیے مدد کر نی چاہیے پروگرام میں مجھے بھی گفتگو کرنے کا موقع دیا گیا تو میں نے کہا کہ” بین الاقوامی سیاسی حالات نے پاکستان میں بے چینی اورتفرقانہ تقسیم کو ہوا دی ہے میں نے کہاکہ جب نیٹو کے افواج سلالہ چیک پوسٹ میں جاکر 26پاکستانی فوجیوں کوشہیدکردیتی ہیں جب اس ملک پر ڈرون حملے کیے جاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں انتہاپسندطبقہ کے نقطہ نظر کوتقویت پہنچتی ہے میں نے واضع کیا کہ فرقہ پرستی اور انتہا پسندی کا خمیازہ صرف ملک کی غیر مسلم اقلیتیں ہی نہیں بھگت رہی ہیں بلکہ ان کا نشانہ ملک کی مسلمان اقلیتی فرقے بھی بنتے ہیں
میں ذاتی طور پر پال بھٹی کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا انہوں نے ایک اچھاپاکستانی ہونے کا ثبوت دیا پروگرام کے آخر میں ان سے ملاقات ہوئی تو انہیں ایک سچا پاکستانی پایا جس کے دل میں پاکستان کی محبت رچی ہوئی تھی وہ کہنے لگے کہ انہوں نے قرآن پڑھا ہوا ہے اور وہ ساری دنیا میں یہی پیغام لیکر جاتے ہیں کہ اسلام ایک پر امن دین ہے مسئلہ صرف ان انتہا پسندوں کا ہے جو اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔۔“میری ذاتی رائے میں جناب پال بھٹی جیسے کیتھولک پاکستانیوں کو ایسے ممالک میں پاکستانی سفیر بنا کر بھیجاجانا چاہیے جہاں عیسائی ودیگر مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیںجتنے بہتر طریقے سے یہ پاکستانی اپنے ملک کا کیس لڑ سکتے ہیں شایدہی کوئی دوسرالڑسکے لیکن پاکستان میں اتنے سالوں سے جاری دہشت گردی اور فرقہ پرستی کے واقعات میں سیاستدانوں کی نااہلی شاید بہت زیادہ دیر تک اقلیتوں کے دل میں پاکستان کی محبت کومضبوطی سے جما کر نہ رکھ سکے
  آپ اسی سال کا بائیو ڈاٹا نکال کر دیکھ لیں رواں سال کے ابتدائی دو ماہ میں1350افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اسی سال کے ابتدائی دو ماہ میں فرقہ واریت کے40سے زائد پرتشدد واقعات میں تین سو سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ بھی جاری ہے۔ کوئٹہ میں اہل تشیع کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ لوگ اپنی جیبوں میں شناختی کارڈ لیکر نکلنے میں خائف ہیں اور اب حال ہی میںکراچی میں عباس ٹاﺅن میں رہائشی علاقہ میں دہشت گردی کے واقعہ پر بحث ختم نہیں ہوئی کہ لاہور کے بادامی باغ علاقہ میں عیسائی خاکروبوں کے 178گھروں کا جلا کر بھسم کر دینے والا واقعہ کون سے پاکستان کا امیج دکھا رہا ہے اور کس منہ سے ہم اقلیتوں کو پاکستان سے محبت رکھنے کاخواب دیکھ سکتے ہیں کسی بھی ملک میں تشدد اس وقت آتا ہے جب ملکی کا سیاسی طبقہ نا اہل ، مفاد پرست اور اقتدار کی خاطر حریص ہو جائے جو حکومت اپنے شہریوں کے ایک طبقہ یا اقلیت کو تحفظ نہیں دے سکتی کیا وہ حکومت کہلانے کی حقدار ہے؟ جس ملک کے کونے کونے میں موت کا رقص جاری ہو جہاں ہسپتال کی ایمر جینسی وارڈیںروز بروز کے سانحہ کے نتیجے میں زخمیوں کے لیے نا کافی ہوجائیں جہاں قبرستانوں میں قبروں کے لیے جگہ کم پڑ جائے جہاں لوگ اپنی نوے نوے لاشیں لیکر سڑکوں پر تین تین دن سخت سردی میں انصاف کی بھیک مانگتے ہوں جہاں اقلیتیں پور ے ملک میں ساڑھے سات سو دھرنے دے کر حکومت کو اس کا فرض یاد دلاتی ہوں اور جہاں ان تمام واقعات کے بعدبھی کوئی اپنے عہدے اپنی وزارت سے شرم کے باعث مستعفیٰ نہ ہوجہاں کوئی سیاسی و مذہبی جماعت اس عفریت سے نکلنے کاحل دینے کی بجائے خاموش ہوجائیں وہاں سیاستدانوں اور حکمرانوں سے گلہ کرناتو عبث ہے کہ اگر وہ وفاق میں ہوںتو کسی صوبے پر الزام دھریں گے اور اگر صوبہ میں ہوں تو وفاق کو موردالزام ٹھہرائیں گے
اصل المیہ ملک کی عوام کا ہے جو جرمنی کے مارٹن نیمولرکی طرح اس زعم میں خاموش ہے کہ کوئی بات نہیں ابھی ان کی باری نہیں آئی اگر ملک میں اہل تشیع کو نشانہ بنایا جاتا ہے توعوام کی اکثریت خاموش ہوجاتی ہے کہ ہم کونسا شیعہ ہیں ؟اگر ملک میں عیسائی بستی کو جلا دیا جاتا ہے تو یہ خاموش رہتے ہیں کہ ہم کونسا عیسائی ہیں ؟ کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ پر خاموش رہتے ہیں کہ ہم کونسا کراچی میں رہ رہے ہیں ؟ ڈرون حملوں میں مرنے والے بچوں کی موت پر رنجیدہ نہیں ہوتے کہ کونسا ہمارے بچے ہیں ؟جوکسی ملالہ کے سر پر گولیاں چلانے والوں کو اس لیے تنقید کا نشانہ نہیں بناتے کہ اس کی تعریف بان کی مون نے کر دی ہے جو کسی بھی واقعہ پر ایک نئی بحث چھیڑ دیتے ہیں کہ اس میں کوئی بیرونی ہاتھ ملوث ہے ،جوفرقہ وارانہ قتل وغارت میں یہ سوچ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ چلو ان فسادات کے باعث مخالف فرقہ کمزور ہورہا ہے اس معاشرہ کا کیابنے گا جہاں اقلیتوں کی بچیوں کو بالجبر مسلمان کیا جاتا ہے جہاں محبت رسول ِ امن و آتشی ﷺ کے نام پر بستیاں جلا دی جاتی ہیں وہ جنہوں نے پتھر مارنے والوں کے لیے دعائیں مانگیں ان کی ناموس کا بہانہ بنا کر بے قصور لوگوں کے گھروں میں لوٹ مار کی جاتی ہے اور حکومت مذمتی بیان دے کر سمجھتی ہے کہ اس نے اپنا حق ادا کر دیا
  دنیا میں جہاں بھی انقلابات آئے وہ متوسط طبقہ کے باہمی اتفاق سے ممکن ہوئے اور دنیا میں جہاں بھی تباہی ہوئی انسانی جسم لاشوں میں تبدیل ہوئے گردنیں تہ تیغ ہوئیں بستیاں جلائی گئی وہ مڈل کلاس طبقہ کی آپسی ناچاقی اور تقسیم سے ممکن ہوئی جب معاشروں میں برائی اس مقام تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ کسی اپنے جیسے دوسرے انسان پر ہونے والی زیادتی پر محض اس لیے خاموش ہوجاتا ہے کہ اس دوسرے شخص کا نظریہ، عقیدہ ،مذہبی و سیاسی نقطہ نظر اس سے مختلف ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ ظلم ایک آگ کی طرح ہوتا ہے جس میں پڑوسی کے گھر میں لگنے والی آگ کو اگر نہ روکا جائے تو اپنا گھر بھی جل کربھسم ہوسکتا ہے اور جب اس کے گھر کی آگ بجھانے نہ جائیں تو جب اپنی باری آتی ہے تو بچانے والا کوئی نہیںرہتا 



مکمل تحریر  »

09/03/13

Sunno

سنو
میرا یہ دل تم رکھ لو
 
 
میرے پاس توویسے بھی یہ پریشان رہتا ہے 

مکمل تحریر  »