بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ٹی وی نیوز دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید پاکستانیوں میں برداشت نہیں ہے اور وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑ پڑتے ہوں گے لیکن جب پاکستان جائیں تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ پاکستانی کسی بھی بات پر ناراض نہیں ہوتے اور وہ بڑی بڑی سے بڑی غلطی اور زیادتی کو بھی ایک لفظ” ایڈجسٹ “کر لینے پر ختم کر لیتے ہیں مثلاً اگر ایک موٹر سائیکل پر دو آدمی بیٹھ سکتے ہیں تو اسی موٹر سائیکل پردو میاں بیوی اور پانچ بچے ایڈجسٹ کر لیتے ہیں اور کسی پولیس والے کو ،کسی قانون نافذ کرنے والے کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا پانچ سیٹوں والی سوزکی کار میں بار ہ آدمی بیٹھ جاتے ہیں اور لوگ ایڈجسٹ کر لیتے ہیں لاہو رکے رنگ روڈ پر لوگ پیدل اتنے آرام سے سڑک پار کر رے ہوں گے جیسے انا ر کلی ہوجی ٹی روڈ پرلوگ بھینسیںلیکر روڈ پار کر لیں گے اور چلتے ٹرک سے گنے اتار لیں گے گاڑیوں والے رات کو فل لائٹ آن رکھیں گے ، چار میٹر کی ٹرالی کے باہر بار ہ میٹر تک کی سریا کی تاریں ہوں گی لیکن کسی کو کوئی غصہ نہیں آئے گا کوئی کسی کو روکے گا نہیں لوگ ایڈجسٹ کر لیں گے آ پ گاڑی لیکر روڈ پر نکلےں تو گدھا گاڑی والا سکون سے بیچ سڑک میں سبزی فروخت کر رہا ہوگا آپ کی گاڑی دیکھ کر وہ گاہک کے ساتھ پورا حساب کتاب کرے گا اور آپ کو ہاتھ کے اشارہ سے انتظار کرنے کا کہے گاآپ کو ایڈجسٹ کرنا ہوگا چھوٹے بچوں کے سکول کے باہر جا کر منظر دیکھ لیں تین آدمیوں کے رکشہ میں دس دس بچے ٹھسے ہوئے بلکہ لٹکے ہوئے ہوں گے ، چنگ چی نامی رکشہ پر ڈرائیور دس بچے پیچھے اور تین بچے اپنے موٹر سائیکل پر ایڈجسٹ کرلے گا لیکن کسی والد کسی والدہ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا پبلک مقام پرعورتوں اور بچوں کی موجودگی میں لوگ سگریٹ پینا شروع کردیں گے لیکن کوئی غصہ نہیں کرے گا بلکہ ایڈجسٹ کر لیں گے گاڑیوں کے اندر کوئی سیٹ بیلٹ نہیں مسافر ایڈجسٹ کر لے گا راستہ لینے کے لیے گاڑیوں والے بار بار ہارن بجائیں گے ون وے ٹریفک میں ڈرائیور یو ٹرن لیکر مڑنے کی بجائے دو دو کلومیٹر تک بیک گئیر میں آجائے گا بڑی بڑی گاڑیاں اورموٹر سائیکل اس کے دائیں بائیں سے آسانی سے گزر جائیں گے کوئی اس حرکت پر غصہ نہیں کرے گا اور ایڈجسٹ کر لے گا ٹریفک سنتری اگر دیکھ لے تودو چار سو روپیہ لیکر ایڈجسٹ کر لے گا،کوئی بھی سیاستدان اپنے کارکن کو کسی سرکاری نوکری پر رکھوانا چاہے گا تو چاہے ا س محکمہ میں گنجائش نہ بھی ہوتوسفارش کرتے ہوئے کہے گا ”یار اسے کہیں ایڈجسٹ کرلیں “
پاکستان جا کر کسی بھی گھر میں داخل ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ گھر کے باسیوں نے بھی پاکستان کے ماحول کو ایڈجسٹ کرلیا ہے انہیں بھی حکمرانوں سے ، سیاستدانوں سے اورسرکاری محکموں سے کوئی شکایت نہیں گھر کے اندر اندھیرے ہیں بجلی بائیس بائیس گھنٹے نہیں آتی ہے لیکن انہوں نے یوپی ایس سے ایڈجسٹ کر لیا ہوا ہے یو پی ایس سے صرف ایک بلب آن ہوسکتا ہے ، ٹی وی نہیں دیکھ سکتے،فون کی بیڑی چارج نہیں کر سکتے تو بعض لوگوں نے اس مسئلہ کو جنریٹر سے ایڈجسٹ کر لیا ہواہے کسی کو شکایت نہیں ہے حکومت نے رینٹل پاور پراجیکٹ سے مسئلہ حل کرنا چاہا تو اس میں کرپشن ہوگئی عدالت نے اس معاملہ کو ایڈجسٹ نہ ہونے دیا تو حکومت نے اسی وزیر برائے بجلی و پانی کووزیر اعظم بنا دیالیکن عوام نے اس کرپشن والے معاملہ کو بھی ایڈجسٹ کرلیا
میں پاکستان پہنچا تو پتہ چلا کہ اب جمہوری حکومت نے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں بھی گیس کا کنکشن پہنچا دیا ہے لیکن ان کنکشنوں کی حالت وہی ہے جیسے کوئی نلکا لگا جائے لیکن اس سے پانی کی بجائے شوں شوں کی آواز آتی رہے گیس یا تو کئی کئی دن آتی نہیں اور اگر آتی ہے تواس کا پریشر پورا نہیں ہے جس کی وجہ سے کمروں میں ہیٹر آن نہیں ہوسکتے ، بڑے بڑے مہنگے گیزر ہیں لیکن ان کا پانی گرم نہیں ہوسکتا،چولہے پرروٹی نہیں پکائی جاسکتی کہ پریشر کم ہے یہ پریشر کیا ہوتا ہے ؟میرا کیمسٹری کا علم بھی اس نئی گیسی اصطلاح کا احاطہ نہیں کر سکتا تھابہرحال لوگوں نے گھریلو گیس کے ساتھ ساتھ گیس سلنڈروں کا بھی انتظام کیا ہوا ہے تاکہ گیس کے پریشر والا معاملہ بھی ایڈجسٹ کر لیا جائے پکوڑے سموسے بیچنے والوں نے ریڑھیوں پرتازہ پکوڑوں کو گرد وغبار اور مٹی کے ساتھ ساتھ تلنے کے لئے ریڑھی کے اوپر ہی جگہ بناکر چھوٹے چھوٹے گیسی سلنڈر وں کوبھی ایڈجسٹ کیا ہوا ہے چولہے کے اتنے نزدیک سلنڈروں کی ایڈجسٹمنٹ موت کو دعوت دینا ہے لیکن کوئی بات نہیں وہاں تو گھروں میں ہیٹر کے ساتھ بھی وہ والے گیس کے پائپ استعمال ہوتے ہیں جو یورپ میں پانی کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں یعنی اگر ہیٹراٹھا کر دوسرے کمروں میںلے جانا پڑے تو دوسرے کمرے کی سردی کو بھی ایڈجسٹ کیا جا سکے
پاکستان میں لوگوں کے پاس اب بڑی بڑی مہنگی گاڑیاں ہیں لیکن پتہ چلا کہ اگران میں سی این جی گیس ڈلوانی ہو تو ضرور ی ہے کہ آپ کی اولاد زیادہ ہو تاکہ آپ سی این جی لینے کے لیے باریاں لگا لیں ایک بیٹا گاڑی لے جائے اور لائین میں لگ جائے پھر دو گھنٹے بعد دوسرا بیٹا پہنچ جائے اور وہ باری کا انتظار کرے اس طرح چوبیس گھنٹوں کے اندر اندرباریاں بدلتے بدلتے آپ اس قابل ہوجائیں گے کہ آپ کی گاڑی میں گیس بھرنے کی باری آجائے گی اگر باری آبھی گئی توگیس اسٹیشن کا ملازم آپ سے کہے گا کہ پریشر پورا نہیں ہے لیکن آپ ایڈجسٹ کر لیں میں نے اٹلی میں چار سال تک گیس والی گاڑی رکھی ہے لیکن یہ پریشر والی گیس کا علم مجھے نہیں تھا سی این جی اسٹیشن پاکستان میں فیس بک اور ٹوئیٹر سے بھی بڑاسوشل نیٹ ورک ہے یہاں کھڑے کھڑے آپ کی دوستیاں ہوسکتی ہیں آپ دیگر ڈرائیوروں سے پوری دنیا کی سیاست ،مذہب اور ثقافت پر دل کھول کر تبصر ہ وتجزیہ اور حالات حاضرہ پر گفتگو کر سکتے ہیں
جن دنوں میں پاکستان گیا تھا ملک میں ان دنوں انقلاب کی ہوائیں چل رہی تھیں جنوری کے مہینے میں لانگ مارچ ہورہا تھا حکومت کو کلینڈر تبدیل کرنے کی ایڈجسٹمنٹ بالکل نہ بھائی اس لیے انہوں نے میدان میں وہ مرد مجاہد اتاراجس کے پاس ہر مسئلہ کا ایک ہی حل ہے جو نوکیا موبائل فون کے اشتہار کونیکٹنگ پیپل کواپنے ایک ہی حکم سے غلط ثابت کرسکتا ہے اس مجاہد کا نام رحمان ملک تھا اس نے ”ڈس کو نیکٹنگ پیپل “کا نعرہ بلند کیا اور موبائل سروس معطل کر دی لوگوں کے ہاتھوں میں مہنگے مہنگے موبائل فون تھے لیکن ان میں سروس سگنل غائب تھے یعنی اب پورے ملک میں کسی کا کسی سے کوئی رابطہ نہیںرہا تھا پاکستانیوں کے پاس جو فون تھے ان کا ایک مصرف تو بہرحال تھا کہ رات کو جب بجلی چلی جاتی تھی تو ان موبائل فونز میںایک لائیٹ تھی جس سے وہ رات کو روشنی کر لیتے تھے اور اقبال کی نظم جگنو کے تحت ایک دوسرے کو رستہ دکھا لیتے تھے لیکن میرے پاس چونکہ اٹلی والا فون تھا اور اس میں اضافی لائٹ نہیں تھے اس لیے مجھے حسرت ہی تھی کہ میں اپنے ہم وطن شہریوں کو روشنی نہیں دے سکتا تھا
یہی ایڈجسٹ کر لینے والا کلچر ہی پاکستان جیسے ملک میں تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے یہ اتنی زیادہ برداشت کر لینے کی سکت ہی ہے جو سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی عوام کو اپنی حالت بدلنے نہیں دیتا یہی کلچر این آر او کراتا ہے میثاق جمہوریت کے نام پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کا موقع دیتا ہے چاہے اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے حکومت پر مشکل وقت آتے ہی اپوزیشن اس کے ساتھ مک مکا کر کے ایڈجسٹ کر لیتی ہے اپنے اپنے مفاد کے لیے اٹھارویں ،انیسویں ، بیسویں اور اکیسویں ترمیم پاس کرا لیتی ہیںلیکن عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم رکھتی ہیں مفاہمت کے نام پر اصولوں کو قربان کر دیا جاتا ہے ، لوٹوں کی ادھر ادھر بولیاں لگ جاتی ہیں، ڈکٹیٹر کی کابینہ کے سارے پرانے چہرے جمہوری پارٹیوں کے ماتھے کا سہر ا بن جاتے ہے بلکہ خود ڈکٹیٹربھی ملک میں آجائے تو اس سے بھی ایڈجسٹ کر لیا جاتا ہے ، جعلی ڈگری کا معاملہ ہویا کسی خاتو ن ٹیچر کو تھپڑ مارنے کی سزا ایڈجسٹ کر کے پرانے قصے بلا دیے جاتے ہیں ، نئی سوچ نئے وژن اور نوجوان نسل کو پس پشت ڈال کر پھر سے پرانے چہروں کوگھسی پٹی سیاسی نظام میں ایڈجسٹ کر لیا جاتا ہے ملک میں روپے کی قیمت روزانہ کی بنیاد پر ڈی ویلیو ہو جائے، لاقانونیت کا راج ہوجائے ، بھتہ مافیا عروج پکڑ جائے، کراچی سے لیکر کوئٹہ تک خون کی ندیاں بہا دی جائیں نہ کوئی ایف آئی آر نہ کوئی کاروائی ، نہ تعلیم ،نہ صحت ، نہ نوکری ،نہ میرٹ ، نہ بجلی، نہ گیس اور نہ ہی انسانی بنیادی سہولتیں لیکن عوام ہیں کہ ایڈجسٹ پہ ایڈجسٹ کیے جاتے ہیں ملک میں نیچے سے لیکر اوپر تک یہ ایڈجسٹ کر لینے والا کلچر پروان چڑھ گیا ہے اب الیکشن آنے کو ہیں لیکن مختلف نظریات رکھنے والی جماعتیں ایک دوسرے سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایک بار پھر عوام” آوے ای آوے ، دیکھو دیکھو کون آیا ، زندہ ہے زندہ ہے اور بدلیں گے پاکستان “کے صرف نعروں پراکتفا کرتے ہوئے ایڈجسٹ کرتے ہیں یا اپنی حالت بدلنے کی سعی کرتے ہیں
پاکستان جا کر کسی بھی گھر میں داخل ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ گھر کے باسیوں نے بھی پاکستان کے ماحول کو ایڈجسٹ کرلیا ہے انہیں بھی حکمرانوں سے ، سیاستدانوں سے اورسرکاری محکموں سے کوئی شکایت نہیں گھر کے اندر اندھیرے ہیں بجلی بائیس بائیس گھنٹے نہیں آتی ہے لیکن انہوں نے یوپی ایس سے ایڈجسٹ کر لیا ہوا ہے یو پی ایس سے صرف ایک بلب آن ہوسکتا ہے ، ٹی وی نہیں دیکھ سکتے،فون کی بیڑی چارج نہیں کر سکتے تو بعض لوگوں نے اس مسئلہ کو جنریٹر سے ایڈجسٹ کر لیا ہواہے کسی کو شکایت نہیں ہے حکومت نے رینٹل پاور پراجیکٹ سے مسئلہ حل کرنا چاہا تو اس میں کرپشن ہوگئی عدالت نے اس معاملہ کو ایڈجسٹ نہ ہونے دیا تو حکومت نے اسی وزیر برائے بجلی و پانی کووزیر اعظم بنا دیالیکن عوام نے اس کرپشن والے معاملہ کو بھی ایڈجسٹ کرلیا
میں پاکستان پہنچا تو پتہ چلا کہ اب جمہوری حکومت نے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں بھی گیس کا کنکشن پہنچا دیا ہے لیکن ان کنکشنوں کی حالت وہی ہے جیسے کوئی نلکا لگا جائے لیکن اس سے پانی کی بجائے شوں شوں کی آواز آتی رہے گیس یا تو کئی کئی دن آتی نہیں اور اگر آتی ہے تواس کا پریشر پورا نہیں ہے جس کی وجہ سے کمروں میں ہیٹر آن نہیں ہوسکتے ، بڑے بڑے مہنگے گیزر ہیں لیکن ان کا پانی گرم نہیں ہوسکتا،چولہے پرروٹی نہیں پکائی جاسکتی کہ پریشر کم ہے یہ پریشر کیا ہوتا ہے ؟میرا کیمسٹری کا علم بھی اس نئی گیسی اصطلاح کا احاطہ نہیں کر سکتا تھابہرحال لوگوں نے گھریلو گیس کے ساتھ ساتھ گیس سلنڈروں کا بھی انتظام کیا ہوا ہے تاکہ گیس کے پریشر والا معاملہ بھی ایڈجسٹ کر لیا جائے پکوڑے سموسے بیچنے والوں نے ریڑھیوں پرتازہ پکوڑوں کو گرد وغبار اور مٹی کے ساتھ ساتھ تلنے کے لئے ریڑھی کے اوپر ہی جگہ بناکر چھوٹے چھوٹے گیسی سلنڈر وں کوبھی ایڈجسٹ کیا ہوا ہے چولہے کے اتنے نزدیک سلنڈروں کی ایڈجسٹمنٹ موت کو دعوت دینا ہے لیکن کوئی بات نہیں وہاں تو گھروں میں ہیٹر کے ساتھ بھی وہ والے گیس کے پائپ استعمال ہوتے ہیں جو یورپ میں پانی کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں یعنی اگر ہیٹراٹھا کر دوسرے کمروں میںلے جانا پڑے تو دوسرے کمرے کی سردی کو بھی ایڈجسٹ کیا جا سکے
پاکستان میں لوگوں کے پاس اب بڑی بڑی مہنگی گاڑیاں ہیں لیکن پتہ چلا کہ اگران میں سی این جی گیس ڈلوانی ہو تو ضرور ی ہے کہ آپ کی اولاد زیادہ ہو تاکہ آپ سی این جی لینے کے لیے باریاں لگا لیں ایک بیٹا گاڑی لے جائے اور لائین میں لگ جائے پھر دو گھنٹے بعد دوسرا بیٹا پہنچ جائے اور وہ باری کا انتظار کرے اس طرح چوبیس گھنٹوں کے اندر اندرباریاں بدلتے بدلتے آپ اس قابل ہوجائیں گے کہ آپ کی گاڑی میں گیس بھرنے کی باری آجائے گی اگر باری آبھی گئی توگیس اسٹیشن کا ملازم آپ سے کہے گا کہ پریشر پورا نہیں ہے لیکن آپ ایڈجسٹ کر لیں میں نے اٹلی میں چار سال تک گیس والی گاڑی رکھی ہے لیکن یہ پریشر والی گیس کا علم مجھے نہیں تھا سی این جی اسٹیشن پاکستان میں فیس بک اور ٹوئیٹر سے بھی بڑاسوشل نیٹ ورک ہے یہاں کھڑے کھڑے آپ کی دوستیاں ہوسکتی ہیں آپ دیگر ڈرائیوروں سے پوری دنیا کی سیاست ،مذہب اور ثقافت پر دل کھول کر تبصر ہ وتجزیہ اور حالات حاضرہ پر گفتگو کر سکتے ہیں
جن دنوں میں پاکستان گیا تھا ملک میں ان دنوں انقلاب کی ہوائیں چل رہی تھیں جنوری کے مہینے میں لانگ مارچ ہورہا تھا حکومت کو کلینڈر تبدیل کرنے کی ایڈجسٹمنٹ بالکل نہ بھائی اس لیے انہوں نے میدان میں وہ مرد مجاہد اتاراجس کے پاس ہر مسئلہ کا ایک ہی حل ہے جو نوکیا موبائل فون کے اشتہار کونیکٹنگ پیپل کواپنے ایک ہی حکم سے غلط ثابت کرسکتا ہے اس مجاہد کا نام رحمان ملک تھا اس نے ”ڈس کو نیکٹنگ پیپل “کا نعرہ بلند کیا اور موبائل سروس معطل کر دی لوگوں کے ہاتھوں میں مہنگے مہنگے موبائل فون تھے لیکن ان میں سروس سگنل غائب تھے یعنی اب پورے ملک میں کسی کا کسی سے کوئی رابطہ نہیںرہا تھا پاکستانیوں کے پاس جو فون تھے ان کا ایک مصرف تو بہرحال تھا کہ رات کو جب بجلی چلی جاتی تھی تو ان موبائل فونز میںایک لائیٹ تھی جس سے وہ رات کو روشنی کر لیتے تھے اور اقبال کی نظم جگنو کے تحت ایک دوسرے کو رستہ دکھا لیتے تھے لیکن میرے پاس چونکہ اٹلی والا فون تھا اور اس میں اضافی لائٹ نہیں تھے اس لیے مجھے حسرت ہی تھی کہ میں اپنے ہم وطن شہریوں کو روشنی نہیں دے سکتا تھا
یہی ایڈجسٹ کر لینے والا کلچر ہی پاکستان جیسے ملک میں تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے یہ اتنی زیادہ برداشت کر لینے کی سکت ہی ہے جو سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی عوام کو اپنی حالت بدلنے نہیں دیتا یہی کلچر این آر او کراتا ہے میثاق جمہوریت کے نام پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کا موقع دیتا ہے چاہے اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے حکومت پر مشکل وقت آتے ہی اپوزیشن اس کے ساتھ مک مکا کر کے ایڈجسٹ کر لیتی ہے اپنے اپنے مفاد کے لیے اٹھارویں ،انیسویں ، بیسویں اور اکیسویں ترمیم پاس کرا لیتی ہیںلیکن عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم رکھتی ہیں مفاہمت کے نام پر اصولوں کو قربان کر دیا جاتا ہے ، لوٹوں کی ادھر ادھر بولیاں لگ جاتی ہیں، ڈکٹیٹر کی کابینہ کے سارے پرانے چہرے جمہوری پارٹیوں کے ماتھے کا سہر ا بن جاتے ہے بلکہ خود ڈکٹیٹربھی ملک میں آجائے تو اس سے بھی ایڈجسٹ کر لیا جاتا ہے ، جعلی ڈگری کا معاملہ ہویا کسی خاتو ن ٹیچر کو تھپڑ مارنے کی سزا ایڈجسٹ کر کے پرانے قصے بلا دیے جاتے ہیں ، نئی سوچ نئے وژن اور نوجوان نسل کو پس پشت ڈال کر پھر سے پرانے چہروں کوگھسی پٹی سیاسی نظام میں ایڈجسٹ کر لیا جاتا ہے ملک میں روپے کی قیمت روزانہ کی بنیاد پر ڈی ویلیو ہو جائے، لاقانونیت کا راج ہوجائے ، بھتہ مافیا عروج پکڑ جائے، کراچی سے لیکر کوئٹہ تک خون کی ندیاں بہا دی جائیں نہ کوئی ایف آئی آر نہ کوئی کاروائی ، نہ تعلیم ،نہ صحت ، نہ نوکری ،نہ میرٹ ، نہ بجلی، نہ گیس اور نہ ہی انسانی بنیادی سہولتیں لیکن عوام ہیں کہ ایڈجسٹ پہ ایڈجسٹ کیے جاتے ہیں ملک میں نیچے سے لیکر اوپر تک یہ ایڈجسٹ کر لینے والا کلچر پروان چڑھ گیا ہے اب الیکشن آنے کو ہیں لیکن مختلف نظریات رکھنے والی جماعتیں ایک دوسرے سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایک بار پھر عوام” آوے ای آوے ، دیکھو دیکھو کون آیا ، زندہ ہے زندہ ہے اور بدلیں گے پاکستان “کے صرف نعروں پراکتفا کرتے ہوئے ایڈجسٹ کرتے ہیں یا اپنی حالت بدلنے کی سعی کرتے ہیں