24/02/14

صبر


مکمل تحریر  »

13/02/14

شہر محبت کی ہوا۔۔

پچھلے کئی دنوں سے اس کی ایک ہی بحث تھی کہ ’’ دل کی الگ سے کوئی دنیانہیں ہوتی سائنس کی تعریف کے مطابق دل کا کام پورے جسم کو سوائے خون پہنچانے کے اور کوئی نہیں ہے اس لیے یہ کہنا کہ دل کسی کو چاہنے لگتا ہے لایعنی سی باتیں ہیں۔۔‘‘
وہ دوسری اطالوی لڑکیوں سے بہت مختلف تھی یعنی اسکی گفتگوشاپنگ،نوکری ، فیشن اورگوسپ کے گرد نہیں گھومتی تھی اس نے چند سال پہلے ہی سائیکالوجی کی ڈگری حاصل کی تھی لیکن اسے ایک زعم ہوگیا تھا کہ اسے زندگی کے ہر پہلو کے بارے مکمل آگہی ہوگئی ہے زندگی کی بارے اس کا نظریہ بڑا حقیقت پسندانہ تھاوہ جذبات واحساسات کو دماغی خلل کہتی تھی چونکہ اسے انتھروپالوجی میں بھی دلچسپی تھی اس لیے مختلف ثقافتوں کے تناظر میں وہ میرے ساتھ شاعری فلسفہ اور مذہب کے بارے اکثر بحث میں پڑ جاتی اپنے دلائل پر زور ڈالنے کے لیے اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پردائیں ہاتھ والی ہتھیلی کھڑی کر لیتی جب کبھی جوابی دلائل سے بحث ہارنے لگتی تو اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے اپنے نیچے والا ہونٹ رگڑنا شروع کردیتی اس کا کہنا تھا ’’ ویلن ٹائین ڈے جیسا فضول دن سرمایہ داروں نے بزنس کرنے یعنی اپنے گلاب ،پرفیوم اور تحائف بیچنے کے لیے لانچ کیاہے ۔۔ ‘‘
شہر میں نیا نیا چینی ریسٹورنٹ کھلا تھا جس کی آفر تھی کہ مختلف انواع واقسام کے کھانے آپ جتنا چاہیں اور جتنی بار چاہیں ایک مخصوص قیمت میں کھاسکتے تھے لنچ ٹائم کو ہم اکثر اسی ریسٹورنٹ میں جاتے کھانے کے دوران اس کے اندر کی محقق بیدار ہوجاتی ایک دن لنچ ٹیبل پر چھری کانٹے کو فضا میں لہراتے ہوئے کہنے لگی ’’میرا مانناہے کہ صرف ویل ٹائین ڈے ہی نہیں بلکہ محبت کا بھی کوئی وجود نہیں ہے۔انسان زیادہ عرصہ تک کسی ایک کی چاہت میں گرفتار نہیں رہ سکتا۔۔۔ ‘‘ میری استعجابی کیفیت بھاپنتے ہوئے اس نے حسب مامول دلائل دینا شروع کر دیے وہ کہنے لگی
’’تم جانتے ہوکہ سائنس کی زبان میں انسان بھی حیوانات کی ایک قسم ہے اور حیوانات کی جبلت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنی ساری زندگی کسی ایک ساتھی کے ساتھ نہیں گزارسکتے تو پھر انسان کے لیے یہ کیسے ممکن ہے وہ ساری زندگی کسی ایک کی ہی محبت میں گرفتار رہے ‘‘اپنی دھن میں مگن ’’اسپگیٹی‘‘ کو کانٹے کے گرد رول کرتے ہوئے پوچھنے لگی ’’اچھا جانوروںیا پرندوں میں سے کسی ایک قسم کا نام بتاؤ جو ایک ہی ساتھی سے محبت کرتا ہے ؟‘‘میں نے اپنے ’’اورنی تھالوجی‘‘ کے علم پر دماغ کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے جواب دیا ’’کبوتر ۔۔۔۔‘‘ جھنجھلا کر کہنے لگی’’ جانوروں کی 8.7ملین اقسام میں سے بمشکل ایک مثال ڈھونڈ سکے ہو‘‘کہنے لگی ’’ اچھا یہ بتاؤ کہ انسانی معاشروں کی کتنی اقسام ہیں‘‘میں نے ابھی دماغ کے کمپیوٹر پر گوگل کرنے کا سوچا ہی تھا کہ گلاس سے پانی پئے بغیر اسے ٹیبل پر رکھتے ہوئے جھٹ سے بولی ’’انسانی معاشروں کی 558اقسام ہیں اور کیا تم جانتے ہواس میں صرف 24فی صد یک زوجیت یعنی مونوگامی پر یقین رکھتے ہیں ‘‘اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’یہ جو تمہارا مذہب چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے میں اسے انسانی جبلت کے بالکل قریب سمجھتی ہوں کیونکہ انسانی نسل کو بچانے کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی ایک ہی کا دیوانہ نہ بنارہے اور۔۔‘‘میں نے اس فوراً ٹوکتے ہوئے کہا ’’ تم اپنے خود ساختہ فلسفہ کوصحیح ثابت کرنے کے لیے میرے مذہب کا سہارا نہ لو کیونکہ اسلام میں پولوگامی کا فلسفہ مختلف ہے اور اس کا مقصد کہیں بھی محبت سے فرارنہیں ہے ۔۔۔‘‘کہنے لگی ’’اگر ایک مرد چار عورتوں سے شادی کرے گا تو اس کی محبت تقسیم نہیں ہوجائے گی۔۔۔‘‘میں نے اشفاق احمد کی سی سنجیدگی اپناتے ہوئے کہا ’’محبت کو تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ اسے ضرب دی جاتی ہے ۔۔‘‘ نیپکن سے اپنا منہ صاف کرتے اس نے ہار مانتے ہوئے کہا’’ میں تمہارے ساتھ مذہب کے بارے کوئی بحث نہیں کروں گی کیونکہ مجھے یاد ہے پچھلی دفعہ جب میں نے تمہارے ساتھ خدا کے وجود کے بارے میں بحث کی تھی تو اسی رات میری ماں کو ہارٹ اٹیک ہوگیا تھا اور وہ بال بال بچی تھی۔لیکن میں یہ ثابت کر سکتی ہوں کہ محبت کا کوئی وجود نہیں ہے۔۔۔اوریہ چند مہینوں میں خود بخودہی کافورہوجاتی ہے ‘‘
میں نے اس سے پوچھا کیا تمہیں اپنی زندگی میں کسی سے محبت نہیں ہوئی؟ اسنے چاکلیٹ کیک کا ٹکڑا منہ میں رکھتے ہوئے انکار میں سر ہلا دیا تو میں نے حیران ہوکرپوچھا پھر وہ تمہارا جیون ساتھی کون ہے جس کے بچے کی تم ماں ہو، جس کے ساتھ ملکر تم نے مکان خریدا ہے اور ایک اچھی فیملی لائف گزار رہی ہو؟۔۔وہ مسکر اکر کہنے لگی’’ وہ میرے دل کا نہیں بلکہ میرے دماغ کا فیصلہ تھاجوانی میں جن لڑکوں نے میرا ہاتھ مانگا ان میں خوبصورت بھی تھے، ذہین بھی اوراسمارٹ بھی لیکن میں نے یہ لڑکا چنا جو ہسپتا ل میں جاب کرتا ہے اس کے والدین کا اٹلی کے تفریحی مقام سپیسیا پر ایک خوبصورت ہوٹل ہے اوروہ دولتمند والدین کا اکلوتا بیٹا ہے اور میرے خیال میں یہ میرا مستقبل محفوظ بنا سکتا ہے‘‘
ایک دن اسی ریسٹورنٹ میں انناس کی سلائس چباتے ،قہقہہ لگاتے ہوئے اس نے بتایا کہ ایک لڑکے نے اس سے اظہار محبت کیا ہے لیکن وہ نہیں جانتاکہ میں ان باتوں پہ یقین نہیں رکھتی‘‘ کہنے لگی’’بڑا مزہ آیا گا اسے بیوقوف بنانے میں ۔۔‘‘
میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ اگر وہ دل کی دنیا پر یقین نہیں رکھتی تو اس کے ساتھ مذاق بھی نہ کرے۔ ۔کسی کے دل سے جس طرح کے چھیڑ خانی کاوہ ارادہ رکھتی ہے اسے مشرق کے شعراء وادیب ’’دل لگی‘‘ کہتے ہیں اور دل لگی کب دل کی لگی بن جائے پتہ بھی نہیں چلتا۔۔ دل اور درد پر اختیار کھونے میں وقت نہیں لگتا۔۔۔محبت مذاق نہیں ہے بلکہ کبھی کبھی روگ بن کر جوگ لینے پر بھی مجبور کرتی ہے۔۔ میں نے اسے کہا کہ’’ اگر محبت کاوجود سے انکاری ہو تو اس شہر الفت کا پتہ بھی نہ کسی سے پوچھو ۔ اگر تم اپنی جا ن و دل عزیز ہیں تو اس عشق نگرکی گلی میں جھانکو بھی نہیں ۔۔کیونکہ جب اس کا جادو چڑھتا ہے توتاویلیں دلیلیں سب دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور طوفانوں بھرے دریا میں چھلانگ لگاتے ہوئے یہ خیال نہیں رہتا کہ گھڑا کچا ہے یا پکا ؟۔۔ ’’محبت کی اوس جب تمہارے دل پر گرے گی تو یہ جو حقیقت کی عینک اپنی آنکھوں پر چڑھائے پھرتی ہو اس کے شیشوں سے تمہیں مطلع ہر وقت ابر آلودہی نظر آنا شروع ہوجائے گا۔۔تمہیں خو د پہ جتنا غرور ہے کہ تمہارا دل تمہای عقل کے قابو میں ہے غلط ہے کیونکہ محبت اور موت کا کوئی وقت مقررنہیں کہ یہ کب اور کہاں سے آجائیں۔۔۔ ‘‘کہنے لگی ’’تم جانتے ہوکہ میں شاعروں ادیبوں کی تخلیقات کو سرے سے علم ہی نہیں سمجھتی تو پھریہ ٹھنڈی آہوں اور پرنم آنکھوں جیسے مشرقی فلسفہ کو کیا اہمیت دوں گی؟ ‘‘میں نے جواب دیا ’’ فلسفہ مشرقی یا مغربی ہوسکتا ہے لیکن انسانی جذبات اور احساسات مشرق یا مغرب کی تمیز نہیں کرتے۔۔۔‘‘
اسی بحث میں دن گزرتے رہے وہ اس لڑکے کو ’’بے وقوف‘‘ بناتی رہی اور پھر یوں ہوا کہ آہستہ آہستہ اس کی بھوک کم ہونا شروع ہوگئی وہ اپنی پلیٹ میں کھاناچھوڑ دیتی ایک دن بیرے نہ آکر کہا’’ میڈم ہم نے اپنی پالیسی تبدیل کر دی ہے اور اب اگر کوئی اپنی پلیٹ خالی نہ کرے تو ہم اسے دو یورو اضا فی چارج کرتے ہیں‘‘ اس دن وہ مجھے خو دکہنے لگی کسی شاعرکی کوئی کتاب ہی تجویز کرو۔کافی کا کپ میرے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا میں نے ’’اسکو بھی لگ ہی گئی شہر محبت کی ہوا ‘‘کہتے ہوئے چھیڑا اور اسے خلیل جبران پڑھنے کامشورہ دیا۔ اگلے دن وہ آئی تو ا سکی سوجھی ہوئی سرخ آنکھوں سے لگتا تھا’’ وہ سوئی بہت ہے یا روئی بہت ہے ۔۔‘‘اپنے بیگ سے’’بروکن ونگز‘‘نکالی اور کہا کہ تم سچ کہتے تھے یہ تمہارے شاعر لوگوں کے پاس جو انسان شناسی کاعلم ہے وہ بھی کسی سائیکالوجی جیسی سائنس سے کم تر درجے کا علم نہیں ہے ۔۔‘‘کچھ دنوں بعد بتانے لگی کہ وہ اپنے چار سالہ بیٹے کو لیکر اپنے جیون ساتھی سے علیحدہ ہوگئی ہے اوراپنی محبت کے ساتھ زندگی گزارنے کا ارادہ رکھتی ہے
میں نے اسے کہا ’’اب تم نے پہلے سے بھی سنگین غلطی کی ہے ذرا اپنی زندگی کا گوشوارہ بنا کر سوچو تم نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے؟ تم ایک ایسے لڑکے کی محبت میں گرفتار ہوئی ہو جس کے پاس کوئی مستقل نوکری نہیں جس کا اپنا ذاتی مکان اوراپنی گاڑی بھی نہیں ہے سوچو جو تمہارے بیٹے کا باپ بھی نہیں ہے وہ اسے کیا محبت دے گا اور بقول تمہارے محبت زیادہ عرصہ تک باقی نہیں رہتی جب دو تین سال بعد وہ تمہیں چھوڑ کر کسی اور کی چاہت میں فریفتہ ہو جائے گا تو تم کہاں کھڑی ہوگی ؟اور ہاں اب زمانہ تمہیں بے وفا کا لقب دیکر تمہیں مجرم قرار دے گا کہ تم ایک اچھی جیون ساتھی ثابت نہیں ہوئی۔‘‘
وہ کہنے لگی’’ تم ٹھیک کہتے ہو لیکن میں تمہیں کیا بتاؤں میں اپنے د ل کے ہاتھوں کتنی مجبور ہوگئی ہوں اس محبت نے مجھے زندگی کا لطف سمجھایا ہے مجھے پہلی بار اندازہ ہوا ہے کہ سردی کی میٹھی دھوپ کتنی سکون آور، ہلکی بارش میں قوس قزح کے رنگ کتنے سحر انگیز ، بغیر چینی کی کافی کی کڑواہٹ کتنی خوش ذائقہ، موٹر وے پر رات کی ڈرائیونگ کتنی دلنشین اور ساحل سمندر پر ڈوبتا ہوئے سورج کانظارہ کتنا دلفریب ہوتا ہے مجھے پہلی بار محسوس ہوا ہے کہ جم موریسن کے روک میوزک میں کونسا جنون ہے ،لچانو لیگا بوئے کی آواز میں کونسا کرب ہے اور خلیل جبران کے الفاظ جسم میں کیوں چیونٹیاں دوڑاتے ہیں ۔۔۔ ‘‘کہنے لگی ’’چاہت کے احساس میں گزرے ہوئے میرے تین ماہ میری تیس سالہ سابقہ زندگی پر بھاری ہوگئے ہیں مجھے لگتا ہے میں اب کسی اور کے ساتھ رہوں گی تواپنے محبت سے بے وفائی کروں گی۔میں زمانے کے طعنوں کے ڈر سے اپنے ضمیر کی مجرم نہیں ہوسکتی یہ ممکن نہیں ہے کہ میں محبت کسی اور سے کروں اور زندگی کسی اور کے ساتھ گزاروں ۔۔۔‘‘اس نے اپنی اشک بار آنکھوں سے کہا ’’دیکھا میری باتوں میں کتنی شاعری آگئی ہے اورتمہیں تو خوش ہونا چاہیے میں تم سے ایک بار پھر بحث میں ہار گئی۔۔۔‘‘ میں نے اسے کہا نہیں ’’اصل میں تم مجھ سے نہیں ہاری بلکہ تمہارے دل نے تمہیں شکست دی ہے یہ دل کی بازی کھیل نہیں ہے جو بھی اس سے شرط لگا تا ہے ہارنا اس کا مقدر بنتا ہے ‘‘
خصوصی تحریر :محمود اصغر چوہدری

مکمل تحریر  »