16/10/12

daulat

جس کے پاس ہو دولت وہی باکمال ہے
دین ودنیا کے سب عقدے دولت کے دم قدم سے حل ہوجاتے ہیں جو لوگ دولت سے نفرت کرتے ہیں وہ بیوقوف ہیں اور جو کما کر بھی اس کو استعمال میں نہیں لا تے یا اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے وہ بدقسمت ہیں جس طرح زمین کے سب گھڑے پانی سے بھر جاتے ہیں اسی طرح دولت مند کے سارے عیب اور سارے نقص روپے سے ڈھکے جاتے ہیں
اس کے مقاصد پورے ہوجاتے ہیں امیدیں بر لاتی ہیں، کامیابیاں قدم چومتی ہیں ادائیں ا
س کا طواف کرتی ہیں نظریں اس پر مرتکز ہوتی ہیں وہ توجہ و انہماک کے تخت پر بیٹھ کر شہرت والتفات کا تاج پہنتا ہے
 اگرکسی کے پاس دولت نہیں تواس کا فن بے قدری ،اس کا ہنر بے کاری اوراس کا کرداربے توجہی کا شکار ہوجاتا ہے
غریب اگر کسی محفل میں کبھی لب کشائی کرے تو گستاخوں کے زمرے میں آتا ہے ،اگر بالکل ہی خاموش رہے تو جاہل و بیوقوف گردانا جاتا ہے سچی اور کھری باتیں کرنا شروع کر دے توفتنہ انگیز سمجھا جاتا ہے عاجزی کا مظا ہرہ کرے تو خوشامدی مشہور ہوجاتا ہے اگر کسی کی خدمت میں تسلیم وآداب نہ بجا لائے تو بدتہذیب کہلاتا ہے اگر کسی کو عزت دے تو اس کی نیک سیرتی کو چاپلوسی سے تعبیر کیا جاتا ہے
اس کی دانشمندی کی باتیں عام سے سمجھی جاتی ہیں کیونکہ انسان کی قدر علم سے ہے اور علم کی قدر مال سے ہے اب تو عالم یہ ہے کہ دنیا میں جو علم دولت کمانا نہیں سکھاتا اسے علمِ نافع ہی خیال نہیں کیا جاتا مفلس انسان کے پھٹے پرانے کپڑے اسکے سارے عیب ظاہر کر دیتے ہیں دولت مندوں کے بڑے بڑے گناہ ان کی دولت چھپا لیتی ہے دولت ہونے سے انسان دوسروں کو بھول جاتا ہے اور دولت نہ ہونے سے لوگ اسے بھول جاتے ہیں
جس کے پاس دولت نہیں اس کی دنیا تو خراب ہے ہی اس کا دین اور اس کی آخرت کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں اس کی دنیا حسرت و یاس کا نام ہے اور ان کی آخرت روسیاہی ہو سکتی ہے کیونکہ مفلس شخص نہ صرف تنگ حال رہتا ہے بلکہ غالب امکان ہے کہ اس کے اندر خیانت ، بد دیانتی ، بے وفائی ، بے حمیتی و بے حیائی جیسے برے اوصاف پیدا ہوجائیں
کہتے ہیں کہ ایمان سب سے بڑی دولت ہے اور دولت سب سے بڑاا یمان ہے
مفلسی ہمیں فیا ضی سے محروم کر دیتی ہے اور تنگ دستی ہمدردی سے ناتا توڑنے کا سبب بنتی ہے ، بدی کے ساتھ مقابلہ کرنے کی اہلیت مفقود کر دیتی ہیں حق تو یہ ہے کہ مفلس شخص پانچوں ارکان اسلام میں سے کسی ایک رکن پر بھی کماحقہ پورا نہیں اترتا
نماز میں خشوع و خضوع ہونا ضروری ہے لیکن مفلس کے ذہن میں تو ہر وقت غم دوراں کا دور دورا ہوتا ہے وہ کیاحضوری کی کیفیت سے آشنا ہوگا۔ روزہ کے لئے اچھی غذا کا ہونا ضروری ہے اگر روزی نہ ہوگا تو روزے کیسے مکمل ہوں گے اگر کھانے کو کچھ نہیں ہے تو مفلس روز ہ ہی کھا جائے گا۔حج جیسا تکلف تو ویسے ہی وہ غریب شخص کیسے اٹھائے گا جس کے پاس ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کا آسرا نہیں ہے ۔زکواة دینے کی پوزیشن میں وہ کیا آئے گا جو دوسروں پر نظریں جمائے بیٹھا ہے ۔جہاد میں جانے کے لئے بھی اہل و عیال کے لئے سال چھ مہینے کا انتظام کر کے جانا ہوتا ہے

جہاں روپیہ بولنا شروع کرتاہے وہاں باقی سارے خاموش ہوجاتے ہیں جہاں دولتمند محوگفتگو ہوتا ہے وہاں غربت قطع کلامی نہیں کرتی
 کہتے ہیں کہ لفافہ یا تھیلا اگر خالی ہو تو وہ بھی سیدھا کھڑا نہیں ہوتا فوراً زمین پر لیٹ جاتا ہے ارسطو کا قول ہے کہ غربت انقلاب اور جرم کی ماں ہے ابرایم لنکن نے کہا تھا کہ ہر آدمی کی ایک قیمت ہوتی ہے جس سے وہ خریدا جا سکتا ہے نپولین نے کہا تھا کہ جنگ میں خدابھی انہی کے ساتھ ہوتا ہے جن کے پاس توپیںزیادہ ہوتی ہیںبانو قدسیہ نے کہا تھا کہ اب تو افسانوں میں بھی دوشیزائیں اس کے سپنے نہیں دیکھتیں جو سائیکل پر کالج آتے ہیں بلکہ نظریں انہی کو ڈھونڈتی ہیں جن کے پاس گاڑی اچھی ہو
 دولت مند بیوہ کے آنسو جلد خشک ہوجاتے ہیں اس کا نصف سہاگ تو دولت کی بنا پر ہی قائم رہتا ہے ، دولت پری کو شیشے میں اتار لیتی ہے ،دیو کو پنجر ے میں قید کرلیتی ہے قاتل کوسزا سے بچالیتی ہے بلکہ اب تو والدین کو بھی وہی بچہ اچھا لگتا ہے جو دولت کمانے میں کامیاب ہوجائے شاعر نے کہا کہ
اب تو ماں بھی۔۔۔۔
 پردیس سے آنے والے
 بیٹے کے روپے کی خوشی خبری
 پہ کان دھرے
 حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا کی دوڑ میں بھی کامیاب اسے ہی گردانا جاتا ہے جو دولت کمانے کی دوڑ میں کا میاب ہوگیا اسی کی بات کا وزن سمجھاجاتا ہے جس کی جیب کا وزن بھاری ہو بلکہ اب تو ”امیر“( لیڈر) بھی اسی کو مانا جا تا ہے جو روپے کے اعتبار سے بھی امیر (دولتمند )ہو آج امیر ملک غریب ملکوں کو غلام بنا کر رکھتے ہیں بنک امیر ملکوں کی اکانومی کنٹرول کرتے ہیں ، سرمایہ دار سیاستدانوں کی پالیسیاں تبدیل کراتے ہیں ، ٹھیکیدار میڈیا خرید لیتے ہیں ، کالم نگار اینکر پرسن اور ٹی وی مالکان دولت والوں کے در پر سلامی دیتے ہیں ،دولت والے حکومتیں تبدیل کرا لیتے ہیں
دولت اگر رذیل انسانوں کو میسر آجائے تو دوسروں کے لئے زندگی جہنم بنا دے لیکن اگر کسی اچھے انسان کو میسر آجائے تو وہ سب کی زندگیوں میں سکون لے آئے دولت اگر کسی مست شہنشاہ کے ہاتھ میں آجائے تو وہ اسے اپنی بیوی کی قبر پر تاج محل بنا کر لٹا دے اور اگر وہی دولت سر سید احمد خان کے ہاتھ میں آجائے تو وہ ظلم کی چکی میں پسنے والے غریب مسلمان کے بچوں پر تعلیم کے دروازے کھول دے ، دولت اگر فرعون و قارون کے ہاتھ میں آجائے تو وہ خدائی کا دعویٰ کر دے اور یہی دولت اگرحضرت خدیجہ ؓ یا پھر حضرت عثمان غنی ؓ کے ہاتھ میں آجائے تو وہ اسلام کی ترویج اور خلق خدا کی مدد کے لئے سرکار دوعالم  کے قدموں میں لاکر ڈھیر کردیں یہی دولت اگر دنیا کے آمروں اور بادشاہوں کے ہاتھ آجائے تو وہ عیاشی اور مستی میں خرچ کر دیں اور اگر یہی دولت ”بل گیٹ“ جیسے انسان کو میسر آجائے تو وہ مائیکرو سافٹ کی دنیا میں کمال کر کے دنیا کی سینکڑوں خیراتی کمپنیوں کے لئے وقف کر کے کمال کر دے لیکن کمال کرنے کے لئے پہلے شرط یہ ہے کہ آپ کے پاس دولت تو ہو



0 commenti: