24/02/14

صبر


مکمل تحریر  »

13/02/14

شہر محبت کی ہوا۔۔

پچھلے کئی دنوں سے اس کی ایک ہی بحث تھی کہ ’’ دل کی الگ سے کوئی دنیانہیں ہوتی سائنس کی تعریف کے مطابق دل کا کام پورے جسم کو سوائے خون پہنچانے کے اور کوئی نہیں ہے اس لیے یہ کہنا کہ دل کسی کو چاہنے لگتا ہے لایعنی سی باتیں ہیں۔۔‘‘
وہ دوسری اطالوی لڑکیوں سے بہت مختلف تھی یعنی اسکی گفتگوشاپنگ،نوکری ، فیشن اورگوسپ کے گرد نہیں گھومتی تھی اس نے چند سال پہلے ہی سائیکالوجی کی ڈگری حاصل کی تھی لیکن اسے ایک زعم ہوگیا تھا کہ اسے زندگی کے ہر پہلو کے بارے مکمل آگہی ہوگئی ہے زندگی کی بارے اس کا نظریہ بڑا حقیقت پسندانہ تھاوہ جذبات واحساسات کو دماغی خلل کہتی تھی چونکہ اسے انتھروپالوجی میں بھی دلچسپی تھی اس لیے مختلف ثقافتوں کے تناظر میں وہ میرے ساتھ شاعری فلسفہ اور مذہب کے بارے اکثر بحث میں پڑ جاتی اپنے دلائل پر زور ڈالنے کے لیے اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پردائیں ہاتھ والی ہتھیلی کھڑی کر لیتی جب کبھی جوابی دلائل سے بحث ہارنے لگتی تو اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے اپنے نیچے والا ہونٹ رگڑنا شروع کردیتی اس کا کہنا تھا ’’ ویلن ٹائین ڈے جیسا فضول دن سرمایہ داروں نے بزنس کرنے یعنی اپنے گلاب ،پرفیوم اور تحائف بیچنے کے لیے لانچ کیاہے ۔۔ ‘‘
شہر میں نیا نیا چینی ریسٹورنٹ کھلا تھا جس کی آفر تھی کہ مختلف انواع واقسام کے کھانے آپ جتنا چاہیں اور جتنی بار چاہیں ایک مخصوص قیمت میں کھاسکتے تھے لنچ ٹائم کو ہم اکثر اسی ریسٹورنٹ میں جاتے کھانے کے دوران اس کے اندر کی محقق بیدار ہوجاتی ایک دن لنچ ٹیبل پر چھری کانٹے کو فضا میں لہراتے ہوئے کہنے لگی ’’میرا مانناہے کہ صرف ویل ٹائین ڈے ہی نہیں بلکہ محبت کا بھی کوئی وجود نہیں ہے۔انسان زیادہ عرصہ تک کسی ایک کی چاہت میں گرفتار نہیں رہ سکتا۔۔۔ ‘‘ میری استعجابی کیفیت بھاپنتے ہوئے اس نے حسب مامول دلائل دینا شروع کر دیے وہ کہنے لگی
’’تم جانتے ہوکہ سائنس کی زبان میں انسان بھی حیوانات کی ایک قسم ہے اور حیوانات کی جبلت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنی ساری زندگی کسی ایک ساتھی کے ساتھ نہیں گزارسکتے تو پھر انسان کے لیے یہ کیسے ممکن ہے وہ ساری زندگی کسی ایک کی ہی محبت میں گرفتار رہے ‘‘اپنی دھن میں مگن ’’اسپگیٹی‘‘ کو کانٹے کے گرد رول کرتے ہوئے پوچھنے لگی ’’اچھا جانوروںیا پرندوں میں سے کسی ایک قسم کا نام بتاؤ جو ایک ہی ساتھی سے محبت کرتا ہے ؟‘‘میں نے اپنے ’’اورنی تھالوجی‘‘ کے علم پر دماغ کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے جواب دیا ’’کبوتر ۔۔۔۔‘‘ جھنجھلا کر کہنے لگی’’ جانوروں کی 8.7ملین اقسام میں سے بمشکل ایک مثال ڈھونڈ سکے ہو‘‘کہنے لگی ’’ اچھا یہ بتاؤ کہ انسانی معاشروں کی کتنی اقسام ہیں‘‘میں نے ابھی دماغ کے کمپیوٹر پر گوگل کرنے کا سوچا ہی تھا کہ گلاس سے پانی پئے بغیر اسے ٹیبل پر رکھتے ہوئے جھٹ سے بولی ’’انسانی معاشروں کی 558اقسام ہیں اور کیا تم جانتے ہواس میں صرف 24فی صد یک زوجیت یعنی مونوگامی پر یقین رکھتے ہیں ‘‘اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’یہ جو تمہارا مذہب چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے میں اسے انسانی جبلت کے بالکل قریب سمجھتی ہوں کیونکہ انسانی نسل کو بچانے کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی ایک ہی کا دیوانہ نہ بنارہے اور۔۔‘‘میں نے اس فوراً ٹوکتے ہوئے کہا ’’ تم اپنے خود ساختہ فلسفہ کوصحیح ثابت کرنے کے لیے میرے مذہب کا سہارا نہ لو کیونکہ اسلام میں پولوگامی کا فلسفہ مختلف ہے اور اس کا مقصد کہیں بھی محبت سے فرارنہیں ہے ۔۔۔‘‘کہنے لگی ’’اگر ایک مرد چار عورتوں سے شادی کرے گا تو اس کی محبت تقسیم نہیں ہوجائے گی۔۔۔‘‘میں نے اشفاق احمد کی سی سنجیدگی اپناتے ہوئے کہا ’’محبت کو تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ اسے ضرب دی جاتی ہے ۔۔‘‘ نیپکن سے اپنا منہ صاف کرتے اس نے ہار مانتے ہوئے کہا’’ میں تمہارے ساتھ مذہب کے بارے کوئی بحث نہیں کروں گی کیونکہ مجھے یاد ہے پچھلی دفعہ جب میں نے تمہارے ساتھ خدا کے وجود کے بارے میں بحث کی تھی تو اسی رات میری ماں کو ہارٹ اٹیک ہوگیا تھا اور وہ بال بال بچی تھی۔لیکن میں یہ ثابت کر سکتی ہوں کہ محبت کا کوئی وجود نہیں ہے۔۔۔اوریہ چند مہینوں میں خود بخودہی کافورہوجاتی ہے ‘‘
میں نے اس سے پوچھا کیا تمہیں اپنی زندگی میں کسی سے محبت نہیں ہوئی؟ اسنے چاکلیٹ کیک کا ٹکڑا منہ میں رکھتے ہوئے انکار میں سر ہلا دیا تو میں نے حیران ہوکرپوچھا پھر وہ تمہارا جیون ساتھی کون ہے جس کے بچے کی تم ماں ہو، جس کے ساتھ ملکر تم نے مکان خریدا ہے اور ایک اچھی فیملی لائف گزار رہی ہو؟۔۔وہ مسکر اکر کہنے لگی’’ وہ میرے دل کا نہیں بلکہ میرے دماغ کا فیصلہ تھاجوانی میں جن لڑکوں نے میرا ہاتھ مانگا ان میں خوبصورت بھی تھے، ذہین بھی اوراسمارٹ بھی لیکن میں نے یہ لڑکا چنا جو ہسپتا ل میں جاب کرتا ہے اس کے والدین کا اٹلی کے تفریحی مقام سپیسیا پر ایک خوبصورت ہوٹل ہے اوروہ دولتمند والدین کا اکلوتا بیٹا ہے اور میرے خیال میں یہ میرا مستقبل محفوظ بنا سکتا ہے‘‘
ایک دن اسی ریسٹورنٹ میں انناس کی سلائس چباتے ،قہقہہ لگاتے ہوئے اس نے بتایا کہ ایک لڑکے نے اس سے اظہار محبت کیا ہے لیکن وہ نہیں جانتاکہ میں ان باتوں پہ یقین نہیں رکھتی‘‘ کہنے لگی’’بڑا مزہ آیا گا اسے بیوقوف بنانے میں ۔۔‘‘
میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ اگر وہ دل کی دنیا پر یقین نہیں رکھتی تو اس کے ساتھ مذاق بھی نہ کرے۔ ۔کسی کے دل سے جس طرح کے چھیڑ خانی کاوہ ارادہ رکھتی ہے اسے مشرق کے شعراء وادیب ’’دل لگی‘‘ کہتے ہیں اور دل لگی کب دل کی لگی بن جائے پتہ بھی نہیں چلتا۔۔ دل اور درد پر اختیار کھونے میں وقت نہیں لگتا۔۔۔محبت مذاق نہیں ہے بلکہ کبھی کبھی روگ بن کر جوگ لینے پر بھی مجبور کرتی ہے۔۔ میں نے اسے کہا کہ’’ اگر محبت کاوجود سے انکاری ہو تو اس شہر الفت کا پتہ بھی نہ کسی سے پوچھو ۔ اگر تم اپنی جا ن و دل عزیز ہیں تو اس عشق نگرکی گلی میں جھانکو بھی نہیں ۔۔کیونکہ جب اس کا جادو چڑھتا ہے توتاویلیں دلیلیں سب دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور طوفانوں بھرے دریا میں چھلانگ لگاتے ہوئے یہ خیال نہیں رہتا کہ گھڑا کچا ہے یا پکا ؟۔۔ ’’محبت کی اوس جب تمہارے دل پر گرے گی تو یہ جو حقیقت کی عینک اپنی آنکھوں پر چڑھائے پھرتی ہو اس کے شیشوں سے تمہیں مطلع ہر وقت ابر آلودہی نظر آنا شروع ہوجائے گا۔۔تمہیں خو د پہ جتنا غرور ہے کہ تمہارا دل تمہای عقل کے قابو میں ہے غلط ہے کیونکہ محبت اور موت کا کوئی وقت مقررنہیں کہ یہ کب اور کہاں سے آجائیں۔۔۔ ‘‘کہنے لگی ’’تم جانتے ہوکہ میں شاعروں ادیبوں کی تخلیقات کو سرے سے علم ہی نہیں سمجھتی تو پھریہ ٹھنڈی آہوں اور پرنم آنکھوں جیسے مشرقی فلسفہ کو کیا اہمیت دوں گی؟ ‘‘میں نے جواب دیا ’’ فلسفہ مشرقی یا مغربی ہوسکتا ہے لیکن انسانی جذبات اور احساسات مشرق یا مغرب کی تمیز نہیں کرتے۔۔۔‘‘
اسی بحث میں دن گزرتے رہے وہ اس لڑکے کو ’’بے وقوف‘‘ بناتی رہی اور پھر یوں ہوا کہ آہستہ آہستہ اس کی بھوک کم ہونا شروع ہوگئی وہ اپنی پلیٹ میں کھاناچھوڑ دیتی ایک دن بیرے نہ آکر کہا’’ میڈم ہم نے اپنی پالیسی تبدیل کر دی ہے اور اب اگر کوئی اپنی پلیٹ خالی نہ کرے تو ہم اسے دو یورو اضا فی چارج کرتے ہیں‘‘ اس دن وہ مجھے خو دکہنے لگی کسی شاعرکی کوئی کتاب ہی تجویز کرو۔کافی کا کپ میرے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا میں نے ’’اسکو بھی لگ ہی گئی شہر محبت کی ہوا ‘‘کہتے ہوئے چھیڑا اور اسے خلیل جبران پڑھنے کامشورہ دیا۔ اگلے دن وہ آئی تو ا سکی سوجھی ہوئی سرخ آنکھوں سے لگتا تھا’’ وہ سوئی بہت ہے یا روئی بہت ہے ۔۔‘‘اپنے بیگ سے’’بروکن ونگز‘‘نکالی اور کہا کہ تم سچ کہتے تھے یہ تمہارے شاعر لوگوں کے پاس جو انسان شناسی کاعلم ہے وہ بھی کسی سائیکالوجی جیسی سائنس سے کم تر درجے کا علم نہیں ہے ۔۔‘‘کچھ دنوں بعد بتانے لگی کہ وہ اپنے چار سالہ بیٹے کو لیکر اپنے جیون ساتھی سے علیحدہ ہوگئی ہے اوراپنی محبت کے ساتھ زندگی گزارنے کا ارادہ رکھتی ہے
میں نے اسے کہا ’’اب تم نے پہلے سے بھی سنگین غلطی کی ہے ذرا اپنی زندگی کا گوشوارہ بنا کر سوچو تم نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے؟ تم ایک ایسے لڑکے کی محبت میں گرفتار ہوئی ہو جس کے پاس کوئی مستقل نوکری نہیں جس کا اپنا ذاتی مکان اوراپنی گاڑی بھی نہیں ہے سوچو جو تمہارے بیٹے کا باپ بھی نہیں ہے وہ اسے کیا محبت دے گا اور بقول تمہارے محبت زیادہ عرصہ تک باقی نہیں رہتی جب دو تین سال بعد وہ تمہیں چھوڑ کر کسی اور کی چاہت میں فریفتہ ہو جائے گا تو تم کہاں کھڑی ہوگی ؟اور ہاں اب زمانہ تمہیں بے وفا کا لقب دیکر تمہیں مجرم قرار دے گا کہ تم ایک اچھی جیون ساتھی ثابت نہیں ہوئی۔‘‘
وہ کہنے لگی’’ تم ٹھیک کہتے ہو لیکن میں تمہیں کیا بتاؤں میں اپنے د ل کے ہاتھوں کتنی مجبور ہوگئی ہوں اس محبت نے مجھے زندگی کا لطف سمجھایا ہے مجھے پہلی بار اندازہ ہوا ہے کہ سردی کی میٹھی دھوپ کتنی سکون آور، ہلکی بارش میں قوس قزح کے رنگ کتنے سحر انگیز ، بغیر چینی کی کافی کی کڑواہٹ کتنی خوش ذائقہ، موٹر وے پر رات کی ڈرائیونگ کتنی دلنشین اور ساحل سمندر پر ڈوبتا ہوئے سورج کانظارہ کتنا دلفریب ہوتا ہے مجھے پہلی بار محسوس ہوا ہے کہ جم موریسن کے روک میوزک میں کونسا جنون ہے ،لچانو لیگا بوئے کی آواز میں کونسا کرب ہے اور خلیل جبران کے الفاظ جسم میں کیوں چیونٹیاں دوڑاتے ہیں ۔۔۔ ‘‘کہنے لگی ’’چاہت کے احساس میں گزرے ہوئے میرے تین ماہ میری تیس سالہ سابقہ زندگی پر بھاری ہوگئے ہیں مجھے لگتا ہے میں اب کسی اور کے ساتھ رہوں گی تواپنے محبت سے بے وفائی کروں گی۔میں زمانے کے طعنوں کے ڈر سے اپنے ضمیر کی مجرم نہیں ہوسکتی یہ ممکن نہیں ہے کہ میں محبت کسی اور سے کروں اور زندگی کسی اور کے ساتھ گزاروں ۔۔۔‘‘اس نے اپنی اشک بار آنکھوں سے کہا ’’دیکھا میری باتوں میں کتنی شاعری آگئی ہے اورتمہیں تو خوش ہونا چاہیے میں تم سے ایک بار پھر بحث میں ہار گئی۔۔۔‘‘ میں نے اسے کہا نہیں ’’اصل میں تم مجھ سے نہیں ہاری بلکہ تمہارے دل نے تمہیں شکست دی ہے یہ دل کی بازی کھیل نہیں ہے جو بھی اس سے شرط لگا تا ہے ہارنا اس کا مقدر بنتا ہے ‘‘
خصوصی تحریر :محمود اصغر چوہدری

مکمل تحریر  »

13/01/14

زمینیں وفا نہیں کرتیں

اِنہیں میں جیتے اِنہی بستیوں میں مر رہتے یہ چاہتے تھے مگر کِس کے نام پر رہتے

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون   تھے، کہ اپنے گھررہتے

پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنا
پر اپنے ہم شجروں سے تو باخبر رہتے

بس ایک خاک کا احسان ہے، کہ خیر سے ہیں
وگرنہ صورتِ خاشاک در بدر رہتے

مِرے کریم
! جو تیری رضا، مگر اِس بار
برس گزر گئے، شاخوں کو بے ثمر رہتے

مکمل تحریر  »

امت مسلمہ کے خلاف مقدمہ

اچھا سوال آدھا علم ہوتا ہے اور علم اسی کے دامن میں سما سکتا ہے جو اپنے شعورکے برتن کو خالی سمجھ کر جستجو کرتا ہے ورنہ تکبر علم کوکھا جاتا ہے ہمارے ہاں عمومی طور پر علم امتحان میں زیادہ نمبر ز لینے کو سمجھا جاتا ہے اورسوال کوگستاخی سے تعبیر کیا جاتا ہے مذہب کے حوالے سے جن سوالوں کا جواب مشکل ہوان پر سائل کی نیت پر شک کر کے اسے ملحد قرار دے دیا جاتاہے جس کی وجہ سے اب معاشرہ میں عمومی طور پرڈائیلاگ اور برداشت کا کلچر ختم ہورہاہے دین اسلام جو ایک آفاقی اور بین الاقوامی سسٹم ہے اور جس کاتعارف اللہ جل مجدہ نے اپنی پاک کتا ب میں انسانیت کی ہدایت کہہ کر کرایا اب امت مرحومہ کی جانب سے اسکو مذہب نامی ایک محدود سے سانچے میںڈھالنے کی کوشش کی جارہی ہے اسی لیے اس کی جزیات پر تفرقات کی اس طرح تقسیم کی گئی کہ اب اس کی رسومات پر بات تو ہوسکتی ہے لیکن اسلام بحیثیت ایک نظام اور ایک سسٹم کا تذکرہ خال خال ہی نظر آتا ہے بدنصیبی یہ ہے کہ جوگروہ اس کے نفاذ کے دعویٰ کرتے ہیں وہ اپنے فرقے کوہی مکمل نظام بتا کر کشت وخون کاوہ بازار گرم کرتے ہیں کہ ماڈرن تعلیم سے بہرہ ور طالبعلم کے سامنے اس کا جو نقشہ کھنچتا ہے اس میں یہ دین بھی دوسرے مذاہب کی طرح یا تو کچھ عادات واطوار اپنانے کا نام محسوس ہوتا ہے یا پھرفرقہ پرستوں کا ایک ایسا گروہ ذہن میں آتاہے جو اپنانقطہ نظر دوسروں پر جبراً لاگو کرنے کے لیے لاشوں کے انبار کھڑے کرکے معاشرے میں ا نتشارپیدا کرتے ہیں
اللہ تعالیٰ نے انسانی ذہن کی تخلیق ہی ایسی کی ہے کہ اگر اس میں شعور کی لو موجود ہو تو وہ سوالو ںمیں سر گرداں رہتا ہے اس لیے وہ کفر و الحاد کے فتوی ٰ کے ڈر سے بھلے ہی خاموش رہے لیکن اس کے ذہن میں سوالوں کا جوار بھاٹا ہر وقت موجزن رہتا ہے وہ جاننا چاہتا ہے کہ اگر اللہ کے نزدیک پسندیدہ ترین دین اسلام ہے تواس وقت دنیا بھر میں یہ سسٹم استہزااور تمسخر کانشانہ کیوں ہے ؟اگراللہ تعالی انسان کی تخلیق کا مقصداپنی عبادت بتاتاہے تو کیا عبادت کا مفہوم صرف ارکان اسلام ہی ہیں ؟ اور اگر ایساہے تو ان کی پابندی ایسا سسٹم کیسے وجود میں آسکتا ہے جس سے ساری دنیا کو فلاح اور راحت میسر آئے گی ؟ اسی لیے وہ دیکھتا ہے کہ حاجی صاحب اگر ڈرگ کے دھندے سے منسلک پائے گئے ہیں ، پنج وقتہ نمازی اگر رشوت کو جائز سمجھتا ہے اگر زکواة کا فرض ادا کرنے والا سرمایہ کار اپنے ملازم کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتا ہے ،کعبةاللہ کی سیڑھیوں سے اترنے والا حاکم وقت اپنی حکومتی ذمہ داریوں سے نبرد آزما نہیں ہورہابلکہ کرپشن اور بددیانتی کا مرتکب ہورہا ہے تو اس کے اندر عبادت کے تصور پر ہزاروں شکوک وشبہات جنم لیتے ہیںتوحید کا دعوی ٰ کرنے والا عالم جب امت میں تقسیم و تفریق کی بات کرتا ہے تو وحدت کا تصورذہنوں میں ڈگمگانے لگتا ہے محبت رسول ﷺمیں آبدید ہوجانےوالا اگر اپنے عمل سے محبت کو ثابت نہیں کرتا تو اس کا دعویٰ بناوٹی لگتا ہے
ایک شعور رکھنے والاذہن یہ سوچتا ہے کہ ترقی یافتہ اقوام تو دنیا کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنا پر زندگی کی ساری آسانیاں فراہم کررہی ہیں لیکن مسلم قوم اپنے تمام تر مادی وانسانی وسائل کی کثرت کے باوجود افلا س و پسماندگی کا نمونہ ،آفاقی ضابطہ اخلاق کی حامل ہونے کے باوجود شخصی وملی کردار میں ننگ آدم اور اپنے کردار کی وجہ سے نصوص ایمانی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں وہ سوچتا ہے کہ جس اسلامی انقلاب کا نعرہ یہاں کی مسلم جماعتیں لگاتی ہیں اگر وہ کامیاب بھی ہوگئی تو ان کے اندر کتنے ہیں جو سیاست ، حکومت، معیشت اور معاشرت کے فنون سے آشنا ہیں کہ دنیا کو ایک نمونہ ریاست بنا کر دکھائیںو ہ سوچتا ہے کہ جس دین میں علم کو فرض قرار دیا گیا ہے اس کے ماننے والوں ممالک میں تعلیم کی شرح کیا ہے؟ سیاسیات ، معاشیات ، آرٹ ،فنون لطیفہ ،میڈیکل ،انجنیئرنگ ،سائنس اورٹیکنالوجی جیسے فنون و علوم جو اس وقت دنیا میں ترقی کے ضامن ہیں ان میں مسلمان کہاں کھڑے ہیں؟ وہ سوچتا ہے کہ دنیا میں کامیابی کی ضمانت سمجھاجانے والے نظام تعلیم میں ” موت کا منظر“اور” قبر کا عذاب“ جیسی کتابیں بیسٹ سیلر کا درجہ اختیار کرتی ہیںتو اس کا ذہن تشکیک کے پگڈنڈیوں میں گم ہوجانا شروع ہوجاتاہے کہ مسلمان جس اخلاقی ، معاشرتی ، سیاسی اور معاشی ابتری کا شکار ہیں کہیں اس کا تعلق وہ ضابطہ حیات تو نہیں جس کے یہ دعوی ٰ دار ہیں ؟
حال ہی میں ایک کتاب کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا جو مجھے ہالینڈ سے صاحبزادہ کلیم الرسول نے تحفے میں بھیجی ہے یہ کتاب ان کے والد محترم پروفیسر ڈاکٹر حجۃ اللہ نے تحریر کی ہے جس کا عنوان ہے مقدمہ ۔ یہ چند ان کتابوں میںشامل ہے جسے ایک ہی نشست میں ختم کرنے کو جی چاہتا ہے تاکہ موضوع سے ربط نہ ٹوٹ جائے سب سے پہلے تو اس کا اندازتحریر جس میں مصنف نے روایتی مصلحانہ رویہ اپنانے کی بجائے جدید ترین مکالمہ نگاری کا اسلوب اپنایا ہے جو کسی بھی مذہبی کتابوں کی ذمرے میں میری نظر میں گزرنے والی پہلی کتاب تھی مصنف نے کتاب میں تین چارکرداروں کے ذریعے دین اسلام بحیثیت نظام کی بحث بڑے دلچسپ انداز میں قاری کے سامنے پیش کی ہے انہوں نے افسانوی انداز میں ایک کمرہ عدالت تیار کیا ہے جس میں جج کی کرسی پردین مبین کا پیغام لانے والے ر وح الامین یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بٹھایا ہے اس عدالت میں مجاہد رمزی نامی ایک کرداربحیثیت مدعی امت مسلمہ کے خلاف پیغام دین اسلام کی امانت میں خیانت کو دعویٰ دائر کرتا ہے اور اپنے دعوی ٰ میں دلائل کا انبار لگا دیتا ہے یہ تمام دلائل قرآن مجید اور احادیث کے حوالوںسے دئے گئے ہیںروح الامین علیہ السلام کی عدالت میں مجاہد رمزی نامی کردار کے سامنے وکیل صفائی کے طور پر پیش کیا گیا ہے ایک ملا ظاہری کو جو اس مدعی پر الحاد، کفر، شرک اور فرقہ بازی جیسے الزامات کی بوچھاڑ کر کے اپنی گلو خلاصی کرانا چاہتا ہے اور یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ علمائے امت ترقی و تنزل کے ہر دور میں دین حق کے پرچم کو ہمیشہ بلند رکھے ہوئے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ آج دنیا میں تیز ترین پھیلنے والا مذہب اسلام ہی ہے
کتاب کے شروع میںمصنف کی طرف سے امت مسلمہ پر بظاہر یہ الزامات بڑے بھیانک لگتے ہیں لیکن کتاب کی خوبصورتی یہ ہے کہ مصنف نے پیغام اسلام کے حوالے سے امت کے خلاف تنقیص کی بجائے تنقید کا انداز اپنا یا ہے یعنی ایک کم فہم اور باغی رائٹر کی طرح صرف سوالوں کی بوچھاڑ کرکے خوانخواستہ اسلام کو بدنام نہیں کیا بلکہ ایک ماہر حکیم کی طرح بیماری کی تشخیص کرکے اس کا اعلاج بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو نظام اپنے ابتدائی چالیس سالوں یعنی خلافت راشدہ کے دورمیں اقوام عالم کے لیے نمونہ رہا وہ اگر اس وقت پوری دنیا میںمقہور سمجھا جارہا ہے تو یقینابعد میں آنے والے مسلمانوں نے پچھلی امتوں کی طرح اصول دین میں تحریف کا ارتکاب کیا ہوگا ان کا یہ ایمان ہے کہ قرآن و سنت کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی ٰ نے اپنی کتاب میں لیا ہے لیکن وہ اس کی تشریحات میں امت کی طرف سے کتمان اور تحریفات کا ببانگ دہل الزام عائد کرتے ہیں
انہوں نے اپنی علمی بحث میں عبادت کے تصورکو صرف ارکان اسلام سے نتھی کرنے کی نفی کی ہے ان کا ماننا ہے کہ اگر امت کو خلافت ارضی کے لیے چنا گیا ہے توانفرادی و معاشرتی طور پر وہ تمام اعمال عبادت تصور ہوں گے جوپوری دنیا کو لیڈ کرنے کے لیے لازمی ہیں وہ نماز کو اصل میں اپنے خالق حقیقی کے سامنے جاکر اپنی کارگزاریوں کی رپورٹ بیان کرنا سمجھتے ہیں وہ علم کے تصور کو صرف اخلاقیات سے نتھی کرنے کی نفی کرتے ہیں اور قرآن مجید کی سورة العنکبوت ،سورةالبقرہ ،سورة النحل الغرض بیسیوں مقامات سے یہ ثابت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ علم کا معنی ومفہوم میں سائنس ،ٹیکنالوجی اور کائنات کے بھیدوں کو جاننا اور نئی دنیائیں دریافت کرنا سر فہرست ہیں ، ان کاماننا ہے کہ خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت نے احکام قرآنی کو سریعاً چھپایا ہے اور ایسی تحریفات کی ہیں جو آج اس مقام پر امت کو لے آئی ہیں کہ ذلت و بدنامی اس کا مقدر ٹھہر گئی ہے مثلاًاتباع رسول ﷺ سے مراد محض وضع قطع میں شارعﷺسے مماثلت اورسیرت و کردار اپنانے سے دوری ، معروف ومنکر سے مراد ارکان اسلام کی ادائیگی اور عدام ادائیگی کی تبلیغ لیکن ملی و سماجی امور سے پہلو تہی ، تحصیل علم سے مراد صرف و نحو فقہ و اصول ،کسب ثواب سے مراد چند مروی کلمات کا دہرانا،جہاد سے مراد قتال الکافرون چاہے ایجنڈا عالمی سازشیوں کا ہی کیوں نہ ہو اور جہاد بالنفس کا تصور خارج از بحث۔۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ صالحون سے مراد صرف مخصوص قسم کے عادات واطواریا حلیہ اپنانے والے لوگ نہیں ہے بلکہ صلاحیت والے لوگ ہیںیا وہ لوگ جنہوں نے فطرت کے پوشیدہ قوتوں کو دریافت کر کے ان کو اشرف المخلوقات کی خدمت میں لگا دیا ہے
یورپ میں رہنے والے قاری کے لیے یہ کتاب ایک خزانے سے کم نہیں ہے اگر آپ کے ذہن میں بھی دین اسلام ایک آفاقی نظام کے حوالے سے ایسے ہی سوالات سر اٹھاتے رہتے ہیں جن کا جواب کسی ملاظاہری کے پاس نہیں مل سکا تو میں آپ کو پروفیسر ڈاکٹر حجة اللہ کی یہ کتاب پڑھنے کی دعوت ضرور دو ں گا
تحریر محمود اصغر چوہدری

مکمل تحریر  »