شام ڈھلتے ہی میں اسی درخت کے پاس جا بیٹھتا ہوں جس کے تنے میں تم نے کرید کرید کر میرا اور اپنا نام لکھا تھا تمہیں شاید یاد نہیں اس درخت پر میں نے تمھارا نام سراب لکھنا چاہا تھا اور تم غصہ میں پاگل ہوءے ، تمھارا کہنا تھآ کہ تم ہمیشہ کے یے ہو اور سراب نہیں ہوں میں نے مسکرا کر تمہاری بات مان لی تھی اور یقین بھی کر لیا تھا مگر میرے سادگی پہ وہ درخت بڑے ذور سے ہنسا تھآ کہ اسی کے تنے میں جانے کتنے ہی نام لکھنے والوں نے یہی قسم کھاءی تھی کہ ان کا نام ہمیشہ ساتھ رہے گا ، وہ جانے کے لیے نہیں آءے اور ان کا ساتھ ساون اور گھٹا کا سا ہےلیکن وہ ایسے بچھڑے کے دوبارہ
یہ دیکھنے بھی نہیں آءے کہ ان کا نام اس درخت کے تنے پہ ہے بھی یا وہ درخت ہی جاتا رہا
sò gia' che il ''x sempre'' NON ESiSTE,ma per il momento preferisco giocarmelo..
مکمل تحریر »