19/02/13

difficili da amare

Quelli che sono più difficili da amare di solito sono quelli che ne hanno più bisogno.

مکمل تحریر  »

13/02/13

ویلنٹائین

  وہ کہنے لگا ”بابا جی مجھے محبت سے نفرت تھی “ بابا جی کے چہرے پر اچھنبے کی ہلکی سی شکن ابھری اور غائب ہو گئی اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ”اصل میں بچپن سے ہی میں فیوچر کانشس ثابت ہوا تھا مجھے لگتا تھا پیار،محبت ، رشتے یادوستیاںکامیابی کے راستے میں پاﺅں کی بیڑیاں ثابت ہوتے ہیں میرا خیال تھا جب کسی بچے کی ماںکہتی ہے کہ اس کا بیٹا مسلسل محنت سے تھک گیا ہوگا تو وہ اسے کام چور بناتی ہے جب کوئی طالبعلم اپنے دوست کو کہتا ہے کہ آﺅ گھومنے چلیں تو وہ پڑھائی سے اس کی توجہ ہٹاتا ہے“ وہ کہنے لگا” میں مادیت پرست یا دولت کی دوڑ میں شامل ہونے والالا لچی یا بخیل نہیں تھابس میں کامیاب انسان بننا چاہتا تھا اور میرامانناتھا کہ محبتیں انسان کو کمزوراورمستقبل کی فکر سے بے پرواہ کرتی ہیں عشق انسان کو نکما بنا دیتاہے وہ شاعروں کی طرح کاہل اور ادیبوں کی طرح سست ہوجاتا ہے وہ زندگی کی دوڑ میں ناکام نہ بھی ہو تو بہت پیچھے ضرور رہ جاتا ہوگا محبت کے بارے ان نظریات نے مجھے صنف نازک سے بھی کوسوں دور رکھا لیکن پھر وہ آئی ۔۔“اس نے تھوڑا سا توقف کیا اور باباجی کے چہرے کی کیفیت بھانپنا چاہی لیکن وہ کمال بے نیازی اور انہماک سے اس کی داستان سن رہے تھے اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا
 ” اس کی آمد ایسے ہی تھی جیسے جھیل کے ٹھہرے پانیوں میں کوئی کنکر پھینک دے اور لہریں محو رقص ہوجائیں ، جیسے کسی وادی پر ایک دم سے کوئی چشمہ پھوٹ پڑے اور اسکا شور جلترنگ پیدا کر دے ،جیسے کسی تاریخی گنبدکے موت جیسے سکوت میں کوئی سیٹی بجادے اوراس کی باز گشت پوری عمارت کی خاموشی توڑدے، جیسے چھم سے کوئی بدلی برسنا شروع ہوجائے اور رم جھم کا سماں باندھ دے وہ ایک طوفان کی طرح آئی اور میری ذات اور میرے نظریات کے بخیے کر گئی “ وہ کچھ توقف کے بعد بولا ”بابا جی یہ نظریات بھی بڑے ظالم ہوتے ہیں یہ اصول یہ ضابطے اوران کی پابندی بھی ایک قسم کی غلامی ہی ہوتی ہے انسان ساری غلامیوں سے لڑکر آزادی حاصل کر سکتا ہے لیکن اپنے اصولوں کے حصار سے چھٹکارا نہیں پا سکتا “ایک ہلکی سی مسکان نے بابا جی کے چہرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا وہ کہنے لگا ” اس نے مجھے پہلی بار محبت کے لمس سے آشنا کرایا ۔راتوں کی بے خوابی کا مزہ کیا ہوتا ہے ،تخیل کی خلوتوں میں محفل کیسے سجتی ہے ،بیرونی سکوت میں اندرونی شور کتنا پیارا ہوتا ہے ،تنہائیاں کیسے مسکرانا شروع کر دیتی ہیں ۔۔ میں نہیں جانتا تھامیرے لیے یہ سب نیا تھا، یہ سب اچھوتااور دلنشین تجربہ تھا لیکن کیا کرتا کہ میری ذات کے اردگرد میرے اپنے ہی بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کی اتنی موٹی زنجیریں تھیں کہ میں ان سے آزادی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا میں وہ پرندہ تھا جو اپنے پنجرے کاعادی تھا ۔بابا جی !لیکن و ہ آندھی کی طرح آئی تھی اور طوفان کی طرح چلی گئی وہ بھی سیلاب کی طرح ہی ثابت ہوئی جو ٹنڈمنڈ سی حالت چھوڑجاتا ہے لیکن اس کھڑے پانی کی طرح نہیں ہوتا جو بنیادیں ہل جانے تک اور دیوا ر گر جانے تک کا انتظار کرتا ہے ۔۔“بابا جی کہنے لگے”پھر اس کے جانے کا تمہیں کیا گلہ ہے تم اپنے اصولوں کے سنگھاسن پر تو برا جما ن رہے۔۔“
وہ گویا ہوا ”بابا جی! آپ نے نظا م شمسی کی بنیاد کا قصہ تو سائنسدانوں سے سنا ہو گا کہ لاکھوں سال پہلے ایک بہت بڑا سیارہ سورج کے پاس سے گزرا تھا جس کی کشش سے سورج کے کئی ٹکڑے ہوئے اور زمین بھی انہیں ٹکڑوں میں اسے ایک ٹکڑا ہے “بابا جی نے اثبات میں سر ہلایا وہ کہنے لگا ”میرے زندگی میں وہ اسی سیارے کی طرح ثابت ہوئی جو میری ذات کے اتنے قریب سے گزری کہ اپنی مقناطیسی کشش سے میرے ذات کے اتنے ٹکڑے کئے کہ اب چین ، سکون ، ذوق ِتنہائی سب میری ذات سے جد ا ہوکر ہوا میں معلق ہوگئے ہیںیہ سب نظام شمسی کے ٹکڑوں کی طرح میرے ارد گرد اپنے اپنے مداروں میں مسلسل حرکت کرتے رہتے ہیں لیکن میری ذات کا حصہ نہیں بنتے اور اضطراب میرا مقدر ٹھہر گیاہے‘ ‘ باباجی کہنے لگے ”بیٹا ! عورت اور مرد میں یہی فرق ہے عورت میں قدرتی طور پر مشکلات کا مقابلہ کرنے کی زیادہ سکت ہوتی ہے وہ کبھی ٹوٹ کر نہیں بکھرتی کیونکہ اسے سنبھلناآتا ہے وہ جب ایک کواڑبند کرتی ہے تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتی وہ محبت کے معاملہ میں بھی ایسی ہی ہے وہ بڑے مان سے کہ سکتی” میں بدلنے والوں میں سے نہیں“ لیکن جب بدلتی ہے تو پتہ بھی نہیں چلتا “وہ کہنے لگے ”ٹوٹ کر کی جانے والی محبت میں صرف عورتیں ہی کامیاب ہوسکتی ہیں مردوں کااتنا حوصلہ ہی نہیں ہوتاکہ وہ بکھر کر سنبھل سکیں ۔۔کیا تم نے کسی عورت کے دیوداس بننے کی داستان سنی ہے ؟کبھی سنا کہ کوئی عورت مجنوں کی طرح اپنے سر پر خاک ڈالتی رہی کہیں پڑ ھا کہ اس نے رانجھے کی طرح جوگ لے لیا ۔۔“
 اس نے مضطرب نظروں سے بابا جی کی طرف دیکھا اور پوچھنے لگا ”باباجی۔میری ادھوری محبت کی اس پوری کہانی میں میری غلطی کیا تھا؟ میںنے اسے شروع نہیں کیا تو پھر سب سے بڑی سزا مجھے کیوں ملی؟ میں تو مزے سے اپنی بے سرور زندگی میں بھی خوش تھا پھر بے چینی میرا مقدر کیوں بن گئی ہے؟ میری داستا ن میں کوئی ویلنٹائین ہمارے ہاتھوں میں سرخ گلاب پکڑانے کیوں نہیں آیا؟ہمارے ارد گرد سفید کبوتروں کے جوڑے ہوا میں کیوں نہیں اڑے ؟اور کیا میرے دل کواب کبھی سکون میسر نہیں آئے گا ؟ “
 باباجی کے چہرے پر عجیب سی طمانیت تھی جیسے غم جاناں کے بکھیڑوں سے ان کا کوئی لینا دینا نہ ہو وہ مسکرائے اور کہنے لگے” میں تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں “اسے باباجی کی بھول بھلیوں والی یہی عادت عجیب لگتی تھی کہ وہ کبھی کسی بات کا دو ٹوک جواب نہیں دیتے تھے وہ گویا ہوئے
 ”ایک دفعہ ایک صحر ائی گاﺅں کے ایک باسی نے ایک مسئلہ کے لئے حاکم وقت سے ملاقات کے لئے سفر اختیار کیا تو راستہ میں اسے ایک میٹھے پانی کا کنواں ملااس نے اس کنویں سے پانی پیااتنا میٹھا پانی اس نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں پیا تھا وہ سمجھا شاید یہ پانی کی کوئی انمول اورنایاب قسم ہے اس نے سوچا کہ وہ بادشاہ سے ملنے جارہا ہے تو کیوں نہ اس کے لئے بھی تحفے کے طور پریہ پانی لے جائے جب وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا تو اس نے بادشاہ کو اپنی درخواست پیش کی اور وہی پانی تحفے کے طور پر بادشاہ کو یہ کہتے ہوئے دیا کہ”بادشاہ سلامت آپ نے اتنا میٹھا پانی اپنی زندگی میں کبھی نہیں پیا ہوگا“ بادشاہ نے پانی پیا اسے اس پانی میں کوئی خاص بات نظر نہ آئی لیکن اس نے اس کا مسئلہ حل کیا اور انعام وکرام دیکر رخصت کیا لیکن اس پرایک شرط عائد کی کہ وہ اپنا سفر یہیں ختم کرے گا اور یہیں سے واپس اپنی بستی لوٹ جائے گا“ اس نے بادشاہ کے حکم کی تکمیل کی اور انعامات لیکر واپس لوٹ گیا بادشاہ کے وزیروں نے اس سے دریافت کیا کہ ”عالی پناہ!آپ نے اس صحرائی کو یہیں سے واپس لوٹ جانے کا کیوں کہا؟اور اس پانی میں کیاخاص بات تھی؟ “ تو بادشاہ کہنے لگا ” وہ بے چارا اتنا بھولا اور سادہ لوح ہے کہ پانی کی میٹھے ذائقہ سے ہی آشنا نہیں تھا اور ایک عام پانی کو بڑا نایاب سمجھ رہا تھا میں نے اسے یہیں سے واپس اسے لیے بھیج دیاہے کہ وہ اگر میرے دوسرے شہروں میں جاتا تو دیکھتا کہ اس سے بھی بہتر پانی ہمارے ملک میں موجو د ہے وہ اگر پانی کے اصلی ذائقہ سے آشنا ہوجاتا تو اسے نایا ب نہیں سمجھتا اور شاید اسی قسم کے پانی کا مطالبہ سارے علاقے کے لیے کر دیتا“یہ واقعہ سنا کر بابا جی کہنے لگے ”اصل میں اس سے ملنے سے پہلے تم بھی محبت کے اس ذائقہ سے آشنا نہیں تھے اس لیے تمہاری زندگی سکون سے گزر رہی تھی اور تم بھی کڑوے پانی کو ہی میٹھا سمجھ رہے تھے لیکن جب سے اس نے تمہیں میٹھے پانی کی اصلی مٹھاس سے آشنا کراد یاہے تمہاری زندگی سے سکون غائب ہوگیا ہے اور یہ سکون اب کبھی آئے گا بھی نہیں۔۔۔“ اس نے اضطرب بھرے لہجے میں پھر سوال کیا ”تو کیا پھر میں اس بے سکونی و بے چینی کو اپنا مقدر سمجھ لوں“
بابا جی پھر مسکرائے اطمینان نے پھر ان کے چہرے کو اپنی آغوش میں لے لیا کہنے لگے” نہیں۔ بالکل نہیں۔ تم اس محسن کے دئے ہوئے اس انمول ونایاب تحفے کو لوگوں میں بانٹ دو۔۔اس مٹھاس کو اپنے لہجے میں لے آﺅ۔۔محبت چھیننے یا فتح کرنے کا نام نہیں یہ بانٹنے اور تقسیم کرنے والی شے ہے ۔۔۔جس میں انس نہیں وہ انسان نہیں ہے ۔۔جوحب سے نا آشنا ہے اسے محب ، محبوب اور حبیب میں سے کوئی درجہ نصیب نہیں ہوتا ۔۔ محبت کے وجود سے ناآشناشخص کی زندگی پھیکے شربت اورکاغذی پھول جیسی ہے۔ ۔جس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ۔۔۔جو محبت کی حلاوت سے آشنا ہوجاتا ہے اس کے لہجے میں مٹھاس آجاتی ہے لیکن جو ناکام رہ جاتا ہے ۔۔وہ بھی نرم و گدازطبیعت ہوجاتا ہے ۔۔“ با با جی کہنے لگے ” تمہیں کیوں کسی ویلنٹائین کی تلاش ہے تم خود یہ کردار ادا کرنے کی کوشش کیوں نہیںکرتے ۔۔۔میں جانتا ہوں اس مٹھاس کا قحط تمہیں تاریکی میں جلنے والی شمع کی طرح کر دےگا اور لمحہ بہ لمحہ تمہارا وجود اس بے چینی کی آگ میں جل کر کم ہونا شروع جائے گا۔۔ لیکن یاد رکھوکہ شمع خود تو جل کر راکھ ہوجاتی ہے لیکن اس کی روشنی کئی گم راہ مسافروں کو جانب ِمنزل سفر کا موقع دے دیتی ہے۔۔۔“باباجی پھر مسکرائے لیکن ان کی آنکھوں میں نمی سی تیرنا شروع ہوگئی تھی جیسے وہ بھی تاریکی میں جلنے والی کوئی شمع ہوں۔۔۔۔۔۔۔

مکمل تحریر  »

06/02/13

نیاسیل فون

جانتی ہو میں نے نیاسیل فون خریدا ہے
میرا تمہا را اور سیل فون کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے
کہ ناتا ہمار اسدا ہوا میں ہی معلق رہا ہے
اس میں بہت سے فنکشن ہے
جن سے مجھے کچھ خاص لگاﺅ بھی نہیں ہے
لیکن ایک فنکشن ایسا ہے جو مجھے بہت پریشان کرتا ہے
اس میں جو کالیں زیادہ کی جاتی ہیں
ان کو وہ رجسٹر کر لیتا ہے
اور انہیں خا ص اہمیت دیتا ہے
جب بھی کوئی نئی کال کرنے لگتا ہوں
وہ سب سے پہلے سب سے زیادہ کیے جانے والے
ان نمبرز کی لسٹ دکھاتا ہے جو زیادہ بار کیے اور سنے گئے
آج جو بات مجھے سب سے زیادہ تکلیف دیتی ہے
وہ یہ ہے
کی زیادہ بار کئے جانے والی فون کالز لسٹ میں یہ فنکشن
تمہارا نمبر کبھی بھی نہیں دکھاتا
مشین ہی تو ہے یہ کیا جانے
دل کیا ہے اور شماریات کیا ہے

مکمل تحریر  »

پی آئی اے یا پیا کا گھر

 
اطالوی زبان میں پاکستان انٹرنیشنل کی پی آئی اے فلائٹ کو” پیا“ کہا جاتا ہے لیکن شایدانہیں معلوم نہیں کہ پی آئی اے والے مسافروں کے ساتھ سلوک بھی ”پیا “جیسا ہی کرتے ہیں دوسری ائیر لائین کمپنیوںکا عملہ تو مسافروں کے ساتھ بڑے سلیقے سے پیش آتاہے لیکن یہ پاکستانیوں کے ساتھ” صرف“ سلیقے سے پیش آتے ہیںپی آئی اے والوں کی شکایت ہے کہ پاکستانی مسافر بھی جہازکے اندرداخل ہوتے ہی وہی رویہ اپنا لیتے ہیں جو پیا کے گھر میں داخل ہوتے اپنا یا جاتا ہے ایک یورپی نے ایک پاکستانی سے سوال پوچھا کہ جب کسی پاکستانی عورت کا ”پیا “یعنی خاوندفوت ہو جاتا ہے تو وہ اس کے افسوس میں اپنی ساری چوڑیاں توڑ دیتی ہے اور اگر خدانخواستہ کسی پاکستانی مرد کی بیوی فوت ہوجائے تو وہ کیا توڑتا ہے؟تو اس پاکستانی نے جواب دیا کہ ”اس کی عورت مرنے سے پہلے گھر میں کچھ توڑنے کے لئے باقی چھوڑتی ہی نہیں تو وہ کیا توڑے۔۔ ؟ پی آئی اے کی فلائٹ میں داخل ہوں تو یہ احساس بھی فوراً ہو جاتا ہے کہ اس میں توڑپھوڑ کرنے والے اسے بنانے والے یا سنوارنے والوں سے زیادہ ہاتھ دکھا گئے ہیں جو لوگ یہ پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستانی بڑے سست الوجودہیں اور تاش جیسی بیٹھی کھیلوں کے شوقین ہیں انہوں نے شاید پی آئی اے کے اندر پاکستانیوں کونہیں دیکھا کہ جو سیٹیں مل جانے پر بھی اپنے قدموں پر کھڑا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔جہازکا عملہ بار بار یہ آواز لگاتا رہے کہ اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ جائیں تاکہ اندازہ ہو کو ن کس سیٹ پر بیٹھا ہوا ہے لیکن مسافر عملے کو بھی تسلی دیتے رہتے ہیں کہ کوئی مسئلہ نہیں جہاں سیٹ مل جائے گی بیٹھ جائیں گے اپنی ہی فلائیٹ ہے۔۔
گزشتہ دنوں مجھے بذریعہ پی آئی اے پاکستان سفر کرنے کا موقع ملاتمام سیٹیوں کی بورڈنگ نمبر کے لحاظ سے ہوتی ہے لیکن فلائیٹ کے اندر یہ تکلفات ختم ہوجاتے ہیں ایک پاکستانی پچھلی سیٹ سے اٹھ کر آیا اور اپنے دوست سے کہنے لگا ”جگہ ملی آ؟۔۔ پچھے آجا میں جگہ بنائی اے “ ایسے جیسے ”پرالی“ ڈال کر انتظام کیا ہو میلان سے اگر آپ فلائی کریں تو پی آئی اے کی فلائیٹ پہلے پیرس جاتی ہے اس لیے اکثر آپ سنیں گے” او یار!فکر نہ کر پیرس جا کر ساری خالی ہوجائے گی ۔۔“ میلان سے اڑنے والے مسافر پانچ منٹ کے اندر اندر تحقیق کرلیتے ہیں کہ پیرس کتنے اترنے والے ہیں لیکن انہیں اس بات کا اندازہ نہیںہوتا کہ اترنے کے بعد وہاں سے بھی مسافر چڑھیں گے وہ اتنی بے فکری سے تین تین سیٹوں پر بے دھڑک سو جاتے ہیں جیسے اب یہاں کوئی نہیں ۔۔کوئی نہیں آئے گا۔۔ بعض مسافرعملے سے فورا ً کھڑکی کی سیٹ کے لئے ضد کرنا شروع کر دیتے ہیں ایک موصوف تو بحث کر رہے تھے کہ انہیں دمہ ہے اور وہ کھڑکی والی سائیڈ پر اس لئے بیٹھنا چاہتے تھے کہ ہوا لگتی رہے ۔۔۔ایک مسافر کو مطالعہ کا شوق تھا وہ کھڑکی کی طرف اس لئے بضد تھا کہ روشنی آتی رہے۔۔۔ بعض لوگ سیٹ پر بیٹھے ہی اپنے جوتے اور جرابیں اتار دیتے ہیں تاکہ جہاز کے اندر کا موسم گل و گلزارہوجائے ۔۔۔
جہاز میں بیٹھتے ہی مسافروں کی شکایات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ایک مسافرکہہ رہا تھا کہ اپنے ملک کی فلائیٹ سمجھ کر بیٹھ جاتے ہیں باقی جہاں تک عملے کے رویہ کی بات ہی دل ہی نہیں کرتا۔۔آپ ان ائیر ہوسٹس کو دیکھیں ساری کی ساری بوڑھی آنٹیاں ہیں ۔وہ اتنا کہہ رہا تھا کہ فلائیٹ اڑنے سے پہلے ہی ساری آنٹیاں وی آئی پی کلاس میں بھیج دی گئیں اور اس کی تواضع کے لئے داڑھی والے انکل بھیج دئے گئے کہنے لگا ”لو کر لو گل ۔۔۔ “ خواتین ایر ہوسٹس وہ آنٹیاں ثابت ہوتی ہیں جو ہر وقت بچوں کو ڈانٹتی رہتی ہیں اور سیٹ پر بٹھا دیتی ہیں ان کے پاس ایک اضافی دھمکی بھی ہوتی ہے کہ حفاظتی بند باندھ لیں موسم خراب ہورہا ہے ایک مسافر کو جہاز کی انٹریر ڈیکوریشن پر اعتراض تھا کہنے لگا اس کے قالین دیکھیں لگتا ہے کسی ٹینٹ سروس سے لئے گئے ہیں ۔۔۔ایک مسافر کے پیٹ میں گڑبڑ تھی اس نے ائیرہوسٹس سے پوچھا ”اجوائین مل جائے گی ۔۔“ ایک طالبہ اپنے ساتھ اپنا لیپ ٹاپ کمپیوٹر لے آئی تھی اور عملے سے یہ پوچھ رہی تھی کہ اس کو چارج کیسے کروں “اسٹیورڈ انکل کہنے لگے ” بی بی آپکا لیپ ٹاپ ہے آپ کو پتہ ہو گا اس کو کیسے چارج کرنا ہے “ اس نے جھنجھلا کر کہا کہ ”کیا جہاز میں کمپیوٹر چارج کرنے کا کوئی سسٹم نہیں ہے “ جواب انکار میں پا کر اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا ایک مسافر ذرا مذہبی واقع ہوئے تھے انہوں نے جہاز کے واش روم میں وضو کے لیے مناسب انتظام نہ ہونے کی شکایت کی تو عملہ نے کہا جناب آپ مسح کرلیں اور پانی ضائع نہ کریں وہ محترم جواب دینے لگے ”کہ میں نے ٹکٹ کے پیسے پورے دئے ہیں میں وضو کر وں یا اپنی بھینس نہلاﺅں تمہیں کیا تکلیف ہے ۔۔ “
پی آئی اے کی تمام فلائٹ ایک بات میں اقبال کی پوری پوری نقل کرتے ہیں انکا اصول ہے کہ جیسے اقبال لیٹ آتا تھا اسی طرح اقبال کے ملک کے شاہینوںیعنی فلائیٹوں کو بھی ہمیشہ لیٹ آنا چاہیے پی آئی اے جہازوں میں کبھی ایک ہی ٹی وی ہوتا تھا جس پر ایک فلم لگا دیتے تھے اور پورا راستہ وہی چلتی رہتی تھی بلکہ جو رہ جاتی تھی وہ واپسی کی فلائیٹ میں دیکھی جا سکتی تھی لیکن اب انہوں نے ہر سیٹ کے پیچھے ایل سی ڈی ٹی وی لگا دیے ہیں جس پر ویڈیواور آڈیو کے درجنوں چینل ہیں لیکن جس جہاز میں ہم نے سفر کیا اس کی حالت یہ تھی کہ دائیں طرف والی سیٹیوں والوں کے ٹی وی تو چل رہے تھے لیکن بائیں طرف والوں کے سارے ٹی وی سیٹ پر کچھ بھی نہیں آرہا تھا وہ ان اسکرینوں سے آئینے کا کام لیکر اپنے بال سیٹ کر رہے تھے دائیں طرف والے اپنے کانوں میں ہیڈ فون لگا کر سر دھن رہے تھے اور بائیں طرف والے انہیں دیکھ کرپاگل خیال کر رہے تھے جن مسافروں کے رشتہ داریا دوست فلائٹ میں پھیلے ہوئے تھے وہ تو سیٹیں بدل بدل کر کبھی راحت کی قوالی انجوائے کر لیتے تو کبھی مسڑ بین کے سین اکٹھے دیکھ لیتے تھے لیکن جو تنہا سفر کر رہے تھے وہ حسرت کا شکار ہو رہے تھے ایک مسافر نے ایک آنٹی ٹائپ کی ائیر ہوسٹس سے شکایت کی ۔۔۔ تو اس نے کہا اچھا ابھی اس کا حل نکالتی ہوں وہ گئی اور ٹیکنشن سے بات کی” جہاز کی بائیں جانب والے مسافر کچھ نہیں دیکھ پارہے “تو ٹیکنشن کہنے لگا ”اگر وہ دیکھ نہیں سکتے تو اس کے لیے تو ڈاکٹر کو بلاﺅ میں کیا کر سکتا ہوں؟ بہرحال اس نے بٹن گھمایا تو اب مکافات عمل کی طرح بائیں طرف والے سارے ٹی وی سیٹ آن ہوگئے لیکن دائیں طرف والے ساری اسکرینیں آف ہوگئیں ،راحت اب ایک جانب والوں کو میسر آیا تو دوسری جانب والوں کی شکایات بڑھ گئیں آنٹی کو غصہ آگیا اور اس نے جا کر سوئے ہوئے ٹیکنشن کو دوبار ہ جگایا اس نے غصہ میں سارے ٹی وی آف کر دئے اور سب کی اسکرینوں پر ایک ہی ویڈیو چلا دی کہ باقی کا سفر کٹنے میں ابھی پانچ گھنٹے ہیں
پی آئی اے میں بیل سسٹم کام نہیں کرتا یعنی آپ گھنٹی بجا کر ائیر ہوسٹس کو نہیں بلا سکتے ان کا نظریہ ہے کہ اس سے بادشاہی نظام کی بو آتی ہے اس لئے اب انہوں نے شاید اپنی پالیسی بنا لی ہے کہ عملہ کا کوئی بھی بندہ گھنٹی بجانے پر یہ پوچھنے نہیں آتا کہ کیا پرابلم ہے جس مسافر کو کوئی بھی مسئلہ ہوتو وہ خود اٹھے اور کیبن میں جاکر پانی کی بوتل لیکر آئے میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مسافر ایسے لائین میں لگے ہوئے تھے جیسے داتا دربار میں لنگر لینے کے لئے لگتے ہیں ایک عورت نے اپنے بچے کے لیے دودھ کا فیڈر بھرنے کی درخواست ائیر ہوسٹس سے کی تو وہ کہنے لگی کہ آپکو خود جا کر کیبن میں فیڈر دھوکر بھرنا ہو گاایرہوسٹس کا کیبن کسی مچھلی منڈی کا سا منظر پیش کر رہا تھا جس میں ایک مسافر پوچھ رہا تھا ”یار ایک کافی مل سکتی ہے “ تو جواب آیا جی سوری دودھ ختم ہوگیا ہے“ اب کوئی پوچھے کافی میں دودھ کا کیا کام؟کھانے میں سنا تھا کہ اب روایتی بریانی کی بجائے گوشت روٹی بھی دی جاتی ہے لیکن ائیرہوسٹس کسی سے پوچھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتی کہ” آپ کی چوائس کیا ہے “ بس ایسے ہی کھانا تقسیم کیا جاتا ہے جیسے کسی درگاہ پر سب کو ایک ہی حلیم بانٹی جاتی ہے
ایک مسافر کو سردی لگ رہی تھی اس نے اسی آنٹی ائیر ہوسٹس سے کمبل مانگا تو وہ کہنے لگی کہ کمبل ختم ہوگئے ہیں “ختم ہونے والی بات میری سمجھ سے باہر تھی کیا میلان اترنے والے مسافر اپنے ساتھ کمبل اٹھا کر لے گئے تھے کہ ختم ہوگئے؟ خیروہ مسافر بھی بڑا دلیر ثابت ہوا اس نے اپنے لہجے میں کرختگی لائی ہی تھی کہ موصوفہ دوڑتی ہوئی گئی اورتین چارکمبل اٹھا لائی ایسے لگتا تھا کہ کسی سوئے ہوئے مسافر کے اوپرسے اٹھا لائی ہو پی آئی اے کی خواتین ائیر ہوسٹس کا رویہ کسی بھی مسافر سے اتنا روکھا ہوتا ہے کہ وہ شعر یاد آجاتا ہے کہ
اسے اب کسی کی محبت کا اعتبار نہیں رہا
اسے شاید زمانے نے ستا یا بہت ہے
پی آئی اے کے بعض ”بیوڑے“ مسافروں کی ایک شکایت یہ بھی ہے کہ ہر سیٹ کے پیچھے لکھا ہوا ہے کہ پی آئی اے یعنی کہیں باہر سے ہی پی آئیں جہاز کے اندر پینے پلانے کا کوئی انتظا م نہیں ہے جب بھی جہاز ڈولنا شروع ہوتا ہے مسافر یا اللہ خیر کی صدائیں لگا نا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ ہر فلائیٹ کا نمبر ہی ”پی کے “ہوتا ہے جب اس طرح کی باتیں ہوں گی تو خوف آنا ظاہری سی بات ہے اکانومی کلاس کے چارمیں سے 2واش روم صرف تین گھنٹوں میں ہی ناقابل استعما ل ہوچکے تھے سمجھ نہیں آئی کہ قصور عملہ کا تھا یا ان مسافروں کا جو صرف آٹھ گھنٹوں کے سفرمیں ہی پیٹ کے ہلکے ثابت ہوئے اور انہوں نے اپنی ٹکٹ کا پورا پورا استعمال کرنا ضروری سمجھا ۔۔۔سب سے خوبصورت منظر وہ ہوتا ہے جب پی آئی اے کی فلائٹ لینڈ کر تی ہے تو جہاز کے عملہ کے بار بارہدایت کے برخلاف پاکستانی مسافر کھڑے ہوجاتے ہیں اوراپنا اپنا سامان کندھوں پر لٹکا لیتے ہیں پھر چاہے انہیں آدھا گھنٹہ کھڑا رہنا پڑے وہ بیٹھیں گے نہیں دروازہ اوپن ہوتے ہیں ایسی دوڑ لگاتے ہیںجیسے بچے سکول سے بھاگتے ہوئے نکلتے ہیں
پی آئی اے کے مقابلے میں دوسری فلائیٹں سستی ہیں اور سہولیات کے لحاظ سے کافی بہتر بھی ہیں لیکن لاکھ شکایتوں کے باوجود پاکستانی تقریباً 80سے لیکر 100یورو مہنگی ٹکٹ صرف اس لئے خریدتے ہیں کہ انہیں اس قومی ائیر لائین سے محبت ہے اور محبت میں جفا تو برداشت کرنا ہی پڑتی ہے
 

مکمل تحریر  »