اِنہیں میں جیتے اِنہی بستیوں میں مر رہتے یہ چاہتے تھے مگر کِس کے نام پر رہتے
پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون تھے، کہ اپنے گھررہتے
پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنا
پر اپنے ہم شجروں سے تو باخبر رہتے
بس ایک خاک کا احسان ہے، کہ خیر سے ہیں
وگرنہ صورتِ خاشاک در بدر رہتے
مِرے کریم! جو تیری رضا، مگر اِس بار
برس گزر گئے، شاخوں کو بے ثمر رہتے