30/04/11

Paura

Sai che avevo paura di te perchè eri la cosa più bella che mi sia mai successa............... e lo sanno tutti che le cose più belle, appena ti ci abitui, finiscono.

مکمل تحریر  »

23/04/11

Kalla Main Mansoor

”کلا میں منصور“
تحریر محمود اصغر چوہدری ایڈیٹر جذبہ اٹلی
    
www.mahmoodch.com mahmoodch1@gmail.com  
  انسان دنیا کے بڑے سے بڑے ریستوران میں کھانا کھالے ،بڑے اسٹائل اور مہذبانہ طریقہ سے ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے چھری کو دائیں اور کانٹے کو بائیں ہاتھ سے پکڑنے کا ہنر بھلے ہی سیکھ لے لیکن جو مزہ اسے ماں کی ہاتھ سے بنے ہوئے ”پھلکوں“ میں آتا ہے وہ دنیا کی کسی ڈش میں نہیں آسکتا اور جولطف کسی پنجابی دیہاتی کو ”بینڈے “ پر بیٹھ کر ماں کے چولہے کے ساتھ پڑی ہوئی ”چنگیر “سے” پراٹھا“ چراتے اورماں سے ”چمٹے “کی ما رکھاتے ہوئے آئے گا وہ کسی فائیو اسٹار ریستوران میں ساتھ کھڑے آرڈر لیتے اور ہماری دائیں طرف سے پلیٹیں رکھتے ”جی سرجی سر“ کہتے بیرے کے عزت واحترام کے جملوں میں بھی محسوس نہیں ہوسکتا کیونکہ ان روٹیوں کے آٹے میں ماں اپنی محنت ہی نہیںاپنی محبت بھی گوندھ دیتی ہے ماں سے جڑی ہر شے اور ہریاد سے محبت ہوجانا اک فطری امر ہے یہی وجہ ہے کہ انسان کو دنیا جہاں کی زبانوں پر عبور حاصل ہوجائے اس کے باوجود جو مزہ اسے اپنی مادری زبان بولنے اور سننے میں آتا ہے وہ ا سے کسی بھی زبان میں نہیں آسکتا کسی بھی زبان میں شاعری اور ادب ایک ایسا فن ہوتا ہے جو تخیلات و احساسات کو مادی شکل دے دیتا ہے شاعرکی دی ہوئی سوچ اکثر ہمارے ذہن ودل کے نہاں خانوں میںپہلے سے ہی پنہاں ہوتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اپنے فن کی مددسے ان تخیلات کو تحریک دیتا ہے اورتصویر بنا کر ہماری آنکھوں کے سامنے لے آتاہے
  یورپ میں جہاں انسان مشینوں کے ساتھ مشین بنتا چلا جاتا ہے اور خواہشا ت کے پزل حل کرتے کرتے اس کا تعلق جذبات واحساسات سے ٹوٹتا جاتا ہے وہاں کچھ لوگ ابھی ایسے بھی ہیں جن کی خلوتوں کے آنگن میںجذبات کی ایسی برسات ہوتی ہے جو انہیں کسی مشین کاپیچ بننے کی بجائے انسان ہونے کا کامل یقین دلاتی رہتی ہے اور وہ اپنے فن کی مدد سے اس برسات کی بوندوں کو پھوار بنا کر اپنے اردگرد بسنے والوں کے ذہنوں پر ٹپ ٹپ دستک دیتے رہتے ہیں جو سارا سچ بول کر منصورکی رسم سچائی نبھانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں ذہنوں کو دستک دینے والوں میں رضا شاہ بھی شامل ہے جو اٹلی میں ایک ایسا شاعرثابت ہوئے ہیں جن کی سوچ میں انقلاب اور اپنے وطن کی مٹی سے محبت شامل ہے ان کی کتاب ”اکلا میں منصور“(اکیلا میںمنصور)ظلم وجبر اور ناانصافی کو نامنظور کرتے ہوئے دنیا بھر میں رہنے والے پنجابیوں کو نہ صرف سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی کی مہک سے محظوظ کراتی ہے بلکہ ڈکٹیٹرشپ اور آمریت کو ”دھونا ں توں پھڑنے “ (گردنوں سے پکڑنے )کا عزم دلاتی ہے ، جو ایک طرف تو اپنی دھرتی اپنے ”پنڈ “سے محبت کراتی ہے اور ”زندہ پاکستان رہوے دا “ کا ولولہ دلوں میں جاگزیں کرتی ہے تو دوسری جانب اپنے قاری پر حیرتوں کے دروازے کھولتے جاتی ہے کہ پردیس میں ڈالرز،یوروز ، تنخواہ ، امیگریشن اور نفسا نفسی کے چکر سے نکل کر کیسے کوئی اتنی اچھی سوچ تخلیق کر سکتا ہے رضا شاہ ایسا درد دل رکھنے والاشاعر ہے جو اپنی کتاب میں برملا ”جنگاں تو ں نفرت “کا اعلان کرتا ہے اور ان کی نظم ”ونڈ“ برصغیر پاک وہند میں تقسیم کے موضوع پر لکھی جانی والی نظموں میں اپنا ایک مقام پیدا کرے گی جوایک طرف تو دل کو ہلا دینے والی”راوی تے جھنا دے پانیاں دے وین“کا قصہ سناتی ہے اور ساتھ ہی ان لوگوںکوپیغام بھی دیتی ہے جو محض زبان کے بت کی پوجا کرتے ہیں کہ کیسے ایک ہی بولی بولنے والے بعض دفعہ صرف نظریہ کے اختلاف پرظلم وستم کی وہ داستانیں رقم کرتے ہیں کہ تاریخ شرم سے اپنا منہ چھپاتی ہے اس کتاب کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں الفت و چاہت کے نغمے تو ہیں لیکن یہ نغمے کسی ظالم محبوب کے در پر بھکاری بناکر بٹھانے کی بجائے ”اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا “کے تحت اپنے قاری کو ”اسی تاریخ لکھنے آں “کی نئی انقلابی سوچ پیدا کرتی ہے جابر اور استحصالی طبقے کو ”تیرے ساڈڑ ے کائیں دے رشتے نیں “اور ”میرے ٹھگاں نال مقابلے ، میری چوراں دے نال جنگ “کہتے ہوئے کلمہ حق بیان کرتی ہے
  مورخہ دس اپریل2011ءکومیلان کے ایک ریسٹورنٹ میں اس کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں اٹلی بھر سے شعر وادب کی دنیا سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ دیگر پاکستانیوں نے شرکت کی اس کتاب کی رسم رونمائی برطانیہ میں ہاﺅس آف لارڈ کے ممبر لارڈ نذیر احمدکے ہاتھوں انجام پائی مہمان خصوصی سویڈن میں پہلے ایشیائی جج جسٹس آصف شاہکار اور میلان قونصلیٹ میں ویلفئیر اتاشی جناب سید محمد فاروق تھے اس تقریب کی نقابت کے فرائض انجام دئے میلان کے معروف شاعر چودھری شاہد نذیر صاحب نے جنہوں نے کتاب کی مختلف نظمیں ترنم کے ساتھ پڑھ کرمحفل کا سماں باندھ دیا کتاب کے بارے تعریفی و تنقیدی مقالہ جات میں راقم الحروف کے علاوہ جناب جیم فے غوری،محمد شریف چیمہ ، امتیاز گلیانوی، انوار الحق، لیاقت علی شفقت اور ملک نصیر احمد نے حصہ لیا
 جناب جیم فے غوری نے رضا شاہ کو ایک باغی شاعر قرار دیتے ہوئے کہا ”اس کتاب کی شاعری میں فلسفہ مزاحمت پوشیدہ ہے جس میں امن محبت اور انصاف کا پرچار ملتا ہے اوراس میں روایت پسندی کے ساتھ ساتھ مقصدیت شامل کر دی گئی ہے“ پوٹھوہاری ادیب وشاعر امتیاز گلیانوی نے کہا ”رضا شاہ کی اس کتاب میں روزمرہ کے معاملات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایاگیا ہے جن میں سیاسی ،علاقائی، ملکی و قومی رومانوی و افسانوی مسائل کو شاعر نے بڑے احسن طریقے سے بیان کیا ہے اس کتاب میں غم جاناں کے ساتھ ساتھ غم دوراں کو جوڑ کر کتاب کا لطف دوبالا کیا گیا ہے “اٹلی میں پنجابی شاعر محمد شریف چیمہ نے کہا کہ ”اس کتاب میں رضا شاہ نے مظلوموں ، محکوموں ، مجبوروںاور پسے ہوئے لوگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے استحصالی نظام کو للکارا ہے “حلقہ ادب وثقافت کے صدر ملک نصیر احمد نے کتاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں اٹلی میں پیدا ہونی والی ہماری نئی نسل اگر ان سے کبھی ان کے دیس کے بارے پوچھے گی تو وہ انہیں صرف ایک یہی کتاب پیش کردیں گے جس میں ساراپنجاب اور اسکی روایات بستی ہیں“تحریک منہاج القرآن یورپ کے سابق صدر سید ارشد شاہ صاحب جو صاحب کتاب کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں نے اپنے خطاب میں کہا کہ شاعر نے نہ صرف اپنی تحریرمیں امن کاخوبصورت پیغام دیا ہے بلکہ اپنی جوانی سے ہی عملی طور پر بھی رضا شاہ تشدداور ظلم کی روایات کے مخالف تھے
کتاب پر تنقیدی مقالہ پیش کرتے ہوئے ادیب و شاعر جناب انوار الحق صاحب نے کہا کہ کتاب کا نام ”اک ہور منصور “ہونا چاہیے تھا کہ سچ بولنے کی ریت ڈالنی چاہیے اور ماضی میں سچ بولنے والوں کے کام کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے معروف کالم نگارلیاقت علی شفقت نے کہا کہ ”کتاب میں ترقی پسندوں ، دہریہ اور کمیونزم کے ہامیوں کے فلسفہ کا پرچار بھی ملتا ہے حالانکہ دنیا میں یہ سارے فلسفے اپنی موت آپ مر چکے ہیں انہوں نے کہا کہ رضا شاہ کی کتاب میں رانجھا کا تذکرہ تو بار بار آتا ہے لیکن صاحب کتاب نے گجرات کی سرزمین سے تعلق رکھتے ہوئے بھی کہیں بھی گجرات کی مشہور داستان سوہنی مہینوال کی داستان کو اپنی شاعری کا حصہ نہیں بنایا “واقعی گجرات والوں کے سر اس بات کا سہرا توضرور جاتا ہے کہ جن کا عزم پکا ہوان کا گھڑا چاہے کچا ہی کیوں نہ ہووہ تاریخ کا حصہ ضرور بنتے ہیں
 میلان قونصلیٹ میں ویلفئیر اتاشی جناب سید محمد فارق نے شاعری میں نئے وژن اور نئی سوچ کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں مزاحمتی رویہ کی بجائے مسائل کے حل کافلسفہ بھی اپنی تحریروں میں لانا ہوگا مہمان خصوصی جسٹس آصف شاہکارصاحب نے اپنے تقریر میںپنجابی زبان کے فروغ اور اس کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کا مطالبہ کیا ان کا خیال تھا کہ پنجابی کے ساتھ بڑی زیادتی ہو رہی ہے اور پنجابی بولنے والوں کو غیر مہذب اور ان پڑھ تصور کیا جاتا ہے انہوں نے کلا میں منصور کو پنجابی زبان کے فروغ کے لیے بہترین ذریعہ کہا اور شاعر کو ایک سچااور باکمال انسان قرار دیا لارڈ نذیر احمدصاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستانیوں کو جب بھی ٹیلنٹ استعمال کرنے کا موقع ملا انہوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں کمال کر دکھا یا یہ کتاب اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ ایک پاکستانی پردیس میں فکر معاش کے ساتھ ساتھ دنیا کواتنی اچھی سوچ بھی دے سکتا ہے انہوں نے رضا شاہ کورسم سچائی نبھانے والے منصور کی بجائے ٹیپوسلطان سے تشبیہہ دی کہ ان کی شاعری میں انقلابی سوچ پوشیدہ ہے انہوں نے کہا کہ وہ بہت جلد اس کتاب کی تقریب رونمائی برطانیہ میں ہاﺅ س آف لا رڈ میں کرائیں گے
  ”کلا میں منصور“ پنجابی ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ثابت ہوگی اور یورپ میں رہنے والے پاکستانیوں کے لیے یہ بات باعث فخر ہوگی کہ اس کتاب کا شاعر اٹلی میں رہتا ہے احساس برتری کے مریض لوگ تہذیب کا تعلق مخصوص زبانوں کے ساتھ جوڑتے ہیں حالانکہ تہذیب کا تعلق کسی زبان سے نہیں بلکہ افراد کی تربیت سے ہوتا ہے زبان کوئی بھی ہو اہم بات یہ ہے کہ آپ کی سوچ کتنی عظیم ہے اور آپ کاگفتگو کتنی پاکیزہ ہے آپ دنیا کی کوئی سی بھی زبان بول لیں ایک بات کا اندازہ آپ کے لہجہ سے ہوجائے گا اور وہ ہے محبت ۔۔۔۔ رضا شاہ صاحب اپنی کتاب کلا میں منصور میں لکھتے ہیں
جنہوں اپنی دنیا دا سلطان بنا کے رکھیا اے    اوہنے دل دی نگری نوں ویران بنا کے رکھیا اے
من جدوی کنڈے چبھے نیں اصلی دے کولوں چبھے نیں   ایسے لئی نقلی پھلاں دا گلدان بنا کے رکھیا اے

 

مکمل تحریر  »

06/04/11

Chaudhry--- a tribute to my father

  چوہدری
تحریر محمود اصغر چوہدری ایڈیٹر جذبہ اٹلی
    
www.mahmoodch.com mahmoodch1@gmail.com  
  جب بھی کوئی مصنف ، کوئی پیر ، کوئی مذہبی وسیاسی راہنما اپنی گفتگو یا اپنی تحریر ”میرے ابا جی“کہتے ہوئے شروع کرتا ہے تو وہ ان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے زمین وآسمان کے قلابے اس لئے ملاتا ہے کہ وہ اپنے ابا جی کو ایک انتہائی پارسا شخصیت ثابت کرے اس کے پیچھے اس کامقصد دراصل اپنے والد کو پارسا ثابت کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان کے ذریعے اپنی شخصیت کوانتہائی اہم ثابت کرنا ہوتا ہے لیکن میںاپنی تحریر شروع کرنے سے پہلے ہی کہوں گا کہ میرے ابا جی میرے آئیڈیل نہیں تھے میرے خاندان والوں کے نزدیک زندگی کی دوڑ میں وہ ایک ناکام شخص تھے کیونکہ انہوں نے ایک ایسے خاندان میں آنکھ کھولی جس میں ان کے کزن اور قریبی رشتہ دار وں میں ڈپٹی کمشنر ، کمشنر ، ممبر ریونیوبورڈ پنجاب ، ڈی ایس پی ، ایس پی پولیس ،پی ایچ ڈی ڈاکٹر و پروفیسر ،پولیس انسپکٹر،آرمی کیپٹن ،چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ تحصیلدار،ڈاکٹر ،اینجینئیر، ذیلدار، پٹواری اور ایس ڈی اومیں سے کوئی بھی ایساعہدہ باقی نہیں تھا جو ہمارے خاندان کے حصہ نہیں آیا ایسے میں جب میرے والد صاحب کو لوگ صرف صوبیدا ر صاحب پکارتے تھے تو مجھے غصہ آتاتھا کہ میرے والد صاحب نے کیوں زندگی میںجدوجہدنہ کی اس کی ایک وجہ توان کی کم سنی میں ہی یتیمی تھی ان کی تربیت جس چچا نے کی وہ خوداس زمانہ میں انسپکٹر پولیس تھے خاندان میں اتنے بڑے عہدے تھے اور انگریز سرکار کے زمانہ سے قائم اس افسری کو ایک ہی ٹریننگ دی جاتی تھی کہ پبلک سرونٹ حاکم کے رتبہ پراور عوام الناس سرونٹ کے رتبے پر ہوتی ہیں اس لئے خاندانی روایت کے مطابق ضروری تھا کہ” عام سویلین“ سے فاصلہ رکھا جائے کسی بھی ریڑھی والے سے فری نہ ہوا جائے ، کسی بھی عام آدمی کو گلے لگا کر نہ ملا جائے ، ہاتھ ملانے کی بجا ئے ہاتھ کا اشارہ کافی سمجھا جائے ، محفل میں چہرے پہ عجیب سی خودساختہ سنجیدگی قائم کی جائے اور کسی بھی مزے کی بات پر محض اس لئے نہ ہنسا جائے کہ لطیفہ سنانے والا کوئی عام میراثی ہے ، اگر کوئی ملنا چاہے تو وہ فون کر کے اپوائنٹ منٹ لیکر آئے ، کسی کے گھر جانے سے پہلے اس کے تنخواہ کا سکیل ماپاجائے ، کسی سے تعلقات بناتے وقت اس کا گریڈ دیکھا جائے کسی کی تقریب پر جانے سے پہلے اسکے حیثیت پر توہین آمیز فقرہ کسا جائے اپنے ڈرائیور اور مالی کانام یاد نہ کیا جائے سالوں کی ملازمت کے بعد بھی اسے ڈرائیوراور مالی ہی پکارا جائے ،لیکن ابا جی کویہ ساری دنیا داری آتی نہیں تھی اس لئے وہ دنیا داری کے میدان میں ناکام ہوگئے کیونکہ ان کے تعلقات عام آدمی سے رہتے تھے وہ ٹیکسی ڈرائیور اور گھر میں کام کرنے والے ملازمہ کانام بھی یاد رکھتے تھے اور انہیں ”بیٹا “ کہہ کر مخاطب ہوتے تھے ، سبزی والے سے دوستی کر لیتے تھے اور چائے والے کی پریشانیاں سننے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے
 ان کی دوسری بڑی خامی یہ تھی کہ وہ ایک شریف انسان تھے خامی اس لیے کہ ہمارا تعلق گجرات کی گجر فیملی سے ہے جو چوہدری کہلوانے کی خاطر دشمنیاں پالتے ، اپنا شملہ اونچا کرنے کے لئے بعض دفعہ لوگوں کی گردنیں کاٹتے ہیں ہمارے علاقے میں باعث عزت ایسی شخصیات سمجھی جاتی ہیں جو بدمعاشی میں مشہور ہوں جن کے ”بیر “اور دشمنیاںکئی سالوں سے چل رہی ہوں جن کے آگے پیچھے چلتے گن من اور جن کی مونچھوں کے بل سے لوگوں کو خوف محسوس ہوتا ہو اور جولوگوں کو فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم نے اتنے سال بیراور دشمنی چلائی ہے جہاں ابھی بھی ذات برادری کی تفریق رکھی جاتی ہے اونچے خاندان اور نچلے طبقے کے درمیان فاصلہ رکھا جاتا ہے ،بندے کی شناخت اس کے کام کے حوالہ سے کی جاتی ہیںچوہدری اور” کمیں “کا فرق اخلاقی فرض سمجھاجاتا ہے ، کام کرنے والوں کوگھر آنے پر کرسی یا چارپائی مہیا نہیں کی جاتی ان کے لئے علیحدہ سے ”پیڑھا “موجود ہوتا ہے ان کا نام عزت سے نہیں لیا جاتا بلکہ اگر کوئی خلیل کو” خیلا“ ، شریف کو شریفا اور نواب کو” نبو“ نہ کہے تو اس بڑاچوہدری نہیں سمجھا جاتا جس کے لہجے میں رعونت نہ ہو ، جس کے انداز تکلم میں تکبر اور دوسروں کی جانب توہین آمیز رویہ نہ ہولوگ اس کی بات نہ تو مانتے ہیں اور نہ ہی اسے قابل احترام سمجھتے ہیں لیکن ابا جی ان سب باتوںمیں یقین نہیں رکھتے تھے وہ کسی کو نہ تو توہین آمیزطریقہ سے مخاطب کرتے تھے اور نہ ہی گھر میں کام کے لیے آنے والے کسی شخص کے درمیان فاصلہ رکھتے تھے نہ وہ اپنی مونچھوں کو بل دیتے تھے اور نہ ہی گالی گلوچ کا سہارا لیتے تھے گھریلو کام کرنے والے ”کمیں “کو چارپائی دے دیتے تھے مجھے اس بات کا قلق تھا کہ اس طرح لوگ انہیں چوہدری نہیں مانیں گے احترام انسانیت کا جو سبق وہ دنیا کو دینا چاہتے تھے اس لحاظ سے وہ معاشرہ میں مس فٹ تھے
 ان کی تیسری بڑی خامی یہ تھی کہ وہ صوم وصلوٰةکے پابند ،باقاعدگی سے تہجد گزار ،ہر روز قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے اوردل میں خوف خدا رکھنے والے تھے ہمارے خاندان اور علاقہ میں ایسی تمام عادتیں باعث مذاق بن جاتی ہیں انہوںنے ساٹھ سال کی عمرگزر جانے کے بعد سارا قرآن معروف تلفظ کے ساتھ مسجد جا کر سیکھا مجھے خوشی ہوئی کہ ابا جی مروج روایات کے تحت ایک ”اچھے چوہدری“ ثابت نہیں ہوئے ایک آفیسر بھی نہیں بن سکے تو کم از کم ایک ایسا فیلڈ ضرورہے جس میں وہ اپنی دھاک بٹھا سکتے ہیں ان کی پاس ایک ایسی اہلیت ضرور ہے جس کے تحت وہ باقی دنیا کو اپنے سے حقیراور خود کودوسروں سے افضل ثابت کر سکتے ہیں وہ بڑی رعونت سے دوسروں کو گناہ گار اور بے نمازی کہہ سکتے ہیں وہ بڑی نفرت سے لوگوں پر اپنی نمازوں کا رعب جھاڑ سکتے ہیں وہ دوسروں کو جہنم کا سرٹیفیکیٹ دے کر خود کو متقی ڈیکلئیر کر سکتے ہیں لیکن اباجی نے اس میدان میںبھی اپنی اہلیت کا”فائدہ “نہیں اٹھایا،کبھی پرہیز گاری کالبادہ اوڑھنے کی کوشش نہیں کی انہوں نے کبھی کسی کو حقارت آمیز رویہ میں بے نمازی نہیں کہا کسی کو اس کے اعمال کی وجہ سے گناہگار کا سرٹیفیکیٹ نہیں دیا نہ جانے وہ کونسی مٹی کے بنے تھے کہ کسی بھی بات کا کریڈیٹ لینا نہیں چاہتے تھے وہ صوفیاءکے اس فلسفہ کا بہت پرچار کرتے تھے کہ اپنی ”میں“ کومارنا چاہیے ،کسی کو تکلیف نہیں دینی چاہیے کسی سے سوال نہیں کرنا چاہیے اور کسی سے مدد نہیں مانگنی چاہیے ان کے دوستوں سے پتا چلا کہ وہ ہر شام سورہ ملک اور ہر صبح سورة یٰسین کی تلاوت کرتے تھے جمعہ کے دن وہ ایسے خوش ہوجاتے تھے اور صبح ہی سے نماز کا ایسے اہتمام کرنے لگتے تھے جیسے بچے چھٹی والے دن کھیل پر جانے سے پہلے اہتمام کرتے ہیں وہ ہر جمعہ کو باقاعدگی سے نماز تسبیح پڑھتے تھے اٹلی میں بہت سے مقامات پر وہ میرے ساتھ سیر کو نہیں گئے کہ کہیں اس طرح ان کی نمازیںرہ نہ جائیں وہ اٹلی رہتے ہوئے بھی ہرروز تین کلومیٹر پیدل چل کر نمازمسجد میں پڑھنے جاتے تھے یہ عادت ان کی زندگی کے آخری دن تک جاری تھی انہوں نے اپنا آخری جمعہ بھی پیدل چل کر مسجد میں جا کر ادا کیا
 ان کی چوتھی خامی یہ تھی کہ وہ اپنے اورکم عمر بچوں کے درمیان بھی فاصلہ نہیں رکھتے تھے وہ تمام بچوں کے ساتھ بچہ بن جاتے تھے ان کی جیب میںہر وقت ٹافیاں موجود ہوتی تھیں جو وہ گلی محلہ کے تمام بچوں کو دیتے رہتے تھے مسجد میں ہر گیارھویں کا ختم کراتے اور بچوں میں میٹھا بانٹتے اسی لئے ہمارے محلہ کے سارے بچے انہیں دادا ابو کہتے تھے ان کی تفرقہ پرستی سے بیزار ی کا عالم یہ تھا کہ وہ پیدل چلتے ہوئے نہ صرف پاکستانی مردو خواتین بلکہ سکھوں اور ہندووں کو بھی روک کر ان کا حال احوال پوچھتے اور ان سے دوستی کر لیتے محلہ کی سکھنیاں اور سکھ بھی ان کو احترام سے ”ابو“ کہتے تھے ہماری ٍبلڈنگ میں رہنے والے تمام اطالوی باشندوں کو ”چاﺅ“ ضرور کہتے تھے انہیں اطالوی زبان نہیں آتی تھی لیکن ایک یونیورسل زبان سے کام چلا لیتے تھے جس کی سمجھ سب کو آتی ہے اور وہ ہے” مسکان“ جو ہمیشہ ان کے چہرے پر رہتی تھی سردی میں ٹھٹھرنے والے شخص کواپنی جیکٹ اور کسی کا پرانا سوٹ دیکھ کر اسے اپنے گھر سے جاکر سوٹ دے آتے ہیں اور اس نیکی کو اپنے بیٹے سے بھی چھپاتے ہیں کہ کہیں ریا کاری کے ذمرے میں نہ آجائے ان کی موت کے بعد میں نے ان کی جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس میں ابھی بھی ٹافیاں موجودتھیں جو یقینا انہوں نے محلہ کے بچوں کو دینے کے لیے رکھی ہوئی تھیںوہ گفتگو والے شخص نہیں تھے وہ تکلم سے زیادہ عمل پر یقین رکھتے تھے انہتر سا ل کی عمر میں بھی عاشورہ وشب برات کا روزہ رکھنا نہیں بھولتے تھے
وہ زندگی کی دوڑ میں اپنے خاندان کا مقابلہ شاید نہیں کر سکے کیونکہ انہوں نے زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھا ہی نہیں انہوں نے ساری تیاری موت کا طریقہ سیکھنے میں کی اسی لیے ان کی موت بھی اتنی حیران کن ہوئی جو سب کے لئے ناقابل یقین تھی کہ وہ جوبیمار کی عیادت اورکسی مرحوم کی تعزیت و جنازہ میں جانا فرض عین سمجھتے تھے وہ جو دوسروں کے درد و بخار کے لیے گھر سے دوائی لیکر جاتے تھے جب ان کا آخری وقت آیا تو انہیں کسی دوا کی حاجت نہیں ہوئی جنہوں نے اپنی زندگی میں کسی کی محتاجی قبول کرنا قبول نہیں کیا انہیں اپنے آخری وقت میں کسی سے پانی تک نہیں مانگنا پڑا مزے سے تہجد پڑھی فجر کی نماز ادا کی اور پرسکون حالت میںاپنے بستر پر لیٹ کر اپنے آخری سفر کو روانہ ہوگئے انا للہ وانا علیہ راجعون
 جب میں ہوش و خردکی شمع جلاتا ہوںاور ان کی موت کے بعد پاکستان اور اٹلی میں رہنے والے ان لوگوںکو اشکبار ہوتے دیکھتا ہوں جن کو ان سے ملاقات کا موقع ملاتو مجھے اندازا ہوتا ہے کہ وہ ایک بہت اچھے چوہدری ثابت ہوئے کہ گاﺅں میں کونسا گھر سفید پوش ہے اور کس کو مدد کی ضرورت ہے یہ ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھااور مددبھی اس انداز سے کہ کوئی فوٹو سیشن نہیں کوئی تشہیر نہیں اور کوئی شور وغوغا نہیں وہ ایک بہت اچھے آفیسر ثابت ہوئے کہ آرمی میں ان کے نیچے کام کرنے والے سپاہیوں نے کہا جب ان کی ڈیوٹی ان کے ساتھ ہوتی تو وہ کسی کو ڈانٹتے نہیں تھے کسی کو سزا نہیں دیتے تھے اور دنیا کے سارے اچھے انسان کہتے ہیں کہ کسی انسان کی بڑائی کا انداز اس بات سے نہیں کیا جاتا کہ وہ اپنے برابر والوں کے ساتھ کیسا ہے بلکہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ماتحت کے ساتھ کیسا تھا وہ ایک بہت اچھے صوفی ثابت ہوئے کہ وہ تکبر و غرور سے ناآشنا تھے انہوں نے زندگی میں کبھی کسی کی غیبت نہیںکبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی اس دنیا میں کوئی ایسا شخص ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ اسے انہوں نے گالی دی تھی یا اس کا گریبان پکڑا تھا
  آج جب اٹلی میں ان کے جنازہ کی ستائیس صفیں گنتا ہوں ،پاکستان میں سبزی والے کو روتا دیکھتا ہوں ، مسجد میں ان کے ایصال ثواب کے لئے بیسیوں قرآن ختم ہوتے دیکھتا ہوں، اوسلو کے اسلامک سنٹر سے لیکر ، اٹلی کی مساجد اور پاکستان میں ان کے لئے ہاتھ اٹھتے دیکھتا ہوں، مسجد میںچھوٹے بچوں کو روتے دیکھتا ہوں جن کے لئے وہ مٹھائیاں لیکر آتے تھے ، ان کی جنازہ میں ان کا چہرہ دیکھتے ہوئے لوگوں کے منہ سے بے اختیار سبحان اللہ کہتے سنتا ہوں ، سربجیت کورکی آنکھوں میں ”ابو “ کہتے ہوئے آنسو دیکھتا ہوں ، اپنے علاقہ کے چرچ کا پادری کا فون ریسیو کرتا ہوں جس میں وہ ان کے لئے چرچ میں دعا کراتا ہے ،تو مجھے یقین ہوتاجاتا ہے کہ خاندان والوں نے ان کو زندگی کی دوڑ میں ناکام ہی کہاحالانکہ انہوں نے اپنی ساری اولاد کو زیور تعلیم اور اچھی تربیت سے روشناس کرایا لیکن میرا خیال ہے کہ اپنے آخری سفر میں اتنی اچھی گواہیوں کی موجودگی میں وہ ایک کامیاب چوہدری ثابت ہوئے میراوجدان کہتا ہے کہ جب فرشتے انہیں لینے آئے ہوں گے تو ضرور کہا ہوگا۔۔۔۔ اے مطمئن روح اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔۔۔

مکمل تحریر  »