13/01/14

زمینیں وفا نہیں کرتیں

اِنہیں میں جیتے اِنہی بستیوں میں مر رہتے یہ چاہتے تھے مگر کِس کے نام پر رہتے

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون   تھے، کہ اپنے گھررہتے

پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنا
پر اپنے ہم شجروں سے تو باخبر رہتے

بس ایک خاک کا احسان ہے، کہ خیر سے ہیں
وگرنہ صورتِ خاشاک در بدر رہتے

مِرے کریم
! جو تیری رضا، مگر اِس بار
برس گزر گئے، شاخوں کو بے ثمر رہتے

مکمل تحریر  »

امت مسلمہ کے خلاف مقدمہ

اچھا سوال آدھا علم ہوتا ہے اور علم اسی کے دامن میں سما سکتا ہے جو اپنے شعورکے برتن کو خالی سمجھ کر جستجو کرتا ہے ورنہ تکبر علم کوکھا جاتا ہے ہمارے ہاں عمومی طور پر علم امتحان میں زیادہ نمبر ز لینے کو سمجھا جاتا ہے اورسوال کوگستاخی سے تعبیر کیا جاتا ہے مذہب کے حوالے سے جن سوالوں کا جواب مشکل ہوان پر سائل کی نیت پر شک کر کے اسے ملحد قرار دے دیا جاتاہے جس کی وجہ سے اب معاشرہ میں عمومی طور پرڈائیلاگ اور برداشت کا کلچر ختم ہورہاہے دین اسلام جو ایک آفاقی اور بین الاقوامی سسٹم ہے اور جس کاتعارف اللہ جل مجدہ نے اپنی پاک کتا ب میں انسانیت کی ہدایت کہہ کر کرایا اب امت مرحومہ کی جانب سے اسکو مذہب نامی ایک محدود سے سانچے میںڈھالنے کی کوشش کی جارہی ہے اسی لیے اس کی جزیات پر تفرقات کی اس طرح تقسیم کی گئی کہ اب اس کی رسومات پر بات تو ہوسکتی ہے لیکن اسلام بحیثیت ایک نظام اور ایک سسٹم کا تذکرہ خال خال ہی نظر آتا ہے بدنصیبی یہ ہے کہ جوگروہ اس کے نفاذ کے دعویٰ کرتے ہیں وہ اپنے فرقے کوہی مکمل نظام بتا کر کشت وخون کاوہ بازار گرم کرتے ہیں کہ ماڈرن تعلیم سے بہرہ ور طالبعلم کے سامنے اس کا جو نقشہ کھنچتا ہے اس میں یہ دین بھی دوسرے مذاہب کی طرح یا تو کچھ عادات واطوار اپنانے کا نام محسوس ہوتا ہے یا پھرفرقہ پرستوں کا ایک ایسا گروہ ذہن میں آتاہے جو اپنانقطہ نظر دوسروں پر جبراً لاگو کرنے کے لیے لاشوں کے انبار کھڑے کرکے معاشرے میں ا نتشارپیدا کرتے ہیں
اللہ تعالیٰ نے انسانی ذہن کی تخلیق ہی ایسی کی ہے کہ اگر اس میں شعور کی لو موجود ہو تو وہ سوالو ںمیں سر گرداں رہتا ہے اس لیے وہ کفر و الحاد کے فتوی ٰ کے ڈر سے بھلے ہی خاموش رہے لیکن اس کے ذہن میں سوالوں کا جوار بھاٹا ہر وقت موجزن رہتا ہے وہ جاننا چاہتا ہے کہ اگر اللہ کے نزدیک پسندیدہ ترین دین اسلام ہے تواس وقت دنیا بھر میں یہ سسٹم استہزااور تمسخر کانشانہ کیوں ہے ؟اگراللہ تعالی انسان کی تخلیق کا مقصداپنی عبادت بتاتاہے تو کیا عبادت کا مفہوم صرف ارکان اسلام ہی ہیں ؟ اور اگر ایساہے تو ان کی پابندی ایسا سسٹم کیسے وجود میں آسکتا ہے جس سے ساری دنیا کو فلاح اور راحت میسر آئے گی ؟ اسی لیے وہ دیکھتا ہے کہ حاجی صاحب اگر ڈرگ کے دھندے سے منسلک پائے گئے ہیں ، پنج وقتہ نمازی اگر رشوت کو جائز سمجھتا ہے اگر زکواة کا فرض ادا کرنے والا سرمایہ کار اپنے ملازم کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتا ہے ،کعبةاللہ کی سیڑھیوں سے اترنے والا حاکم وقت اپنی حکومتی ذمہ داریوں سے نبرد آزما نہیں ہورہابلکہ کرپشن اور بددیانتی کا مرتکب ہورہا ہے تو اس کے اندر عبادت کے تصور پر ہزاروں شکوک وشبہات جنم لیتے ہیںتوحید کا دعوی ٰ کرنے والا عالم جب امت میں تقسیم و تفریق کی بات کرتا ہے تو وحدت کا تصورذہنوں میں ڈگمگانے لگتا ہے محبت رسول ﷺمیں آبدید ہوجانےوالا اگر اپنے عمل سے محبت کو ثابت نہیں کرتا تو اس کا دعویٰ بناوٹی لگتا ہے
ایک شعور رکھنے والاذہن یہ سوچتا ہے کہ ترقی یافتہ اقوام تو دنیا کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنا پر زندگی کی ساری آسانیاں فراہم کررہی ہیں لیکن مسلم قوم اپنے تمام تر مادی وانسانی وسائل کی کثرت کے باوجود افلا س و پسماندگی کا نمونہ ،آفاقی ضابطہ اخلاق کی حامل ہونے کے باوجود شخصی وملی کردار میں ننگ آدم اور اپنے کردار کی وجہ سے نصوص ایمانی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں وہ سوچتا ہے کہ جس اسلامی انقلاب کا نعرہ یہاں کی مسلم جماعتیں لگاتی ہیں اگر وہ کامیاب بھی ہوگئی تو ان کے اندر کتنے ہیں جو سیاست ، حکومت، معیشت اور معاشرت کے فنون سے آشنا ہیں کہ دنیا کو ایک نمونہ ریاست بنا کر دکھائیںو ہ سوچتا ہے کہ جس دین میں علم کو فرض قرار دیا گیا ہے اس کے ماننے والوں ممالک میں تعلیم کی شرح کیا ہے؟ سیاسیات ، معاشیات ، آرٹ ،فنون لطیفہ ،میڈیکل ،انجنیئرنگ ،سائنس اورٹیکنالوجی جیسے فنون و علوم جو اس وقت دنیا میں ترقی کے ضامن ہیں ان میں مسلمان کہاں کھڑے ہیں؟ وہ سوچتا ہے کہ دنیا میں کامیابی کی ضمانت سمجھاجانے والے نظام تعلیم میں ” موت کا منظر“اور” قبر کا عذاب“ جیسی کتابیں بیسٹ سیلر کا درجہ اختیار کرتی ہیںتو اس کا ذہن تشکیک کے پگڈنڈیوں میں گم ہوجانا شروع ہوجاتاہے کہ مسلمان جس اخلاقی ، معاشرتی ، سیاسی اور معاشی ابتری کا شکار ہیں کہیں اس کا تعلق وہ ضابطہ حیات تو نہیں جس کے یہ دعوی ٰ دار ہیں ؟
حال ہی میں ایک کتاب کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا جو مجھے ہالینڈ سے صاحبزادہ کلیم الرسول نے تحفے میں بھیجی ہے یہ کتاب ان کے والد محترم پروفیسر ڈاکٹر حجۃ اللہ نے تحریر کی ہے جس کا عنوان ہے مقدمہ ۔ یہ چند ان کتابوں میںشامل ہے جسے ایک ہی نشست میں ختم کرنے کو جی چاہتا ہے تاکہ موضوع سے ربط نہ ٹوٹ جائے سب سے پہلے تو اس کا اندازتحریر جس میں مصنف نے روایتی مصلحانہ رویہ اپنانے کی بجائے جدید ترین مکالمہ نگاری کا اسلوب اپنایا ہے جو کسی بھی مذہبی کتابوں کی ذمرے میں میری نظر میں گزرنے والی پہلی کتاب تھی مصنف نے کتاب میں تین چارکرداروں کے ذریعے دین اسلام بحیثیت نظام کی بحث بڑے دلچسپ انداز میں قاری کے سامنے پیش کی ہے انہوں نے افسانوی انداز میں ایک کمرہ عدالت تیار کیا ہے جس میں جج کی کرسی پردین مبین کا پیغام لانے والے ر وح الامین یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بٹھایا ہے اس عدالت میں مجاہد رمزی نامی ایک کرداربحیثیت مدعی امت مسلمہ کے خلاف پیغام دین اسلام کی امانت میں خیانت کو دعویٰ دائر کرتا ہے اور اپنے دعوی ٰ میں دلائل کا انبار لگا دیتا ہے یہ تمام دلائل قرآن مجید اور احادیث کے حوالوںسے دئے گئے ہیںروح الامین علیہ السلام کی عدالت میں مجاہد رمزی نامی کردار کے سامنے وکیل صفائی کے طور پر پیش کیا گیا ہے ایک ملا ظاہری کو جو اس مدعی پر الحاد، کفر، شرک اور فرقہ بازی جیسے الزامات کی بوچھاڑ کر کے اپنی گلو خلاصی کرانا چاہتا ہے اور یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ علمائے امت ترقی و تنزل کے ہر دور میں دین حق کے پرچم کو ہمیشہ بلند رکھے ہوئے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ آج دنیا میں تیز ترین پھیلنے والا مذہب اسلام ہی ہے
کتاب کے شروع میںمصنف کی طرف سے امت مسلمہ پر بظاہر یہ الزامات بڑے بھیانک لگتے ہیں لیکن کتاب کی خوبصورتی یہ ہے کہ مصنف نے پیغام اسلام کے حوالے سے امت کے خلاف تنقیص کی بجائے تنقید کا انداز اپنا یا ہے یعنی ایک کم فہم اور باغی رائٹر کی طرح صرف سوالوں کی بوچھاڑ کرکے خوانخواستہ اسلام کو بدنام نہیں کیا بلکہ ایک ماہر حکیم کی طرح بیماری کی تشخیص کرکے اس کا اعلاج بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو نظام اپنے ابتدائی چالیس سالوں یعنی خلافت راشدہ کے دورمیں اقوام عالم کے لیے نمونہ رہا وہ اگر اس وقت پوری دنیا میںمقہور سمجھا جارہا ہے تو یقینابعد میں آنے والے مسلمانوں نے پچھلی امتوں کی طرح اصول دین میں تحریف کا ارتکاب کیا ہوگا ان کا یہ ایمان ہے کہ قرآن و سنت کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی ٰ نے اپنی کتاب میں لیا ہے لیکن وہ اس کی تشریحات میں امت کی طرف سے کتمان اور تحریفات کا ببانگ دہل الزام عائد کرتے ہیں
انہوں نے اپنی علمی بحث میں عبادت کے تصورکو صرف ارکان اسلام سے نتھی کرنے کی نفی کی ہے ان کا ماننا ہے کہ اگر امت کو خلافت ارضی کے لیے چنا گیا ہے توانفرادی و معاشرتی طور پر وہ تمام اعمال عبادت تصور ہوں گے جوپوری دنیا کو لیڈ کرنے کے لیے لازمی ہیں وہ نماز کو اصل میں اپنے خالق حقیقی کے سامنے جاکر اپنی کارگزاریوں کی رپورٹ بیان کرنا سمجھتے ہیں وہ علم کے تصور کو صرف اخلاقیات سے نتھی کرنے کی نفی کرتے ہیں اور قرآن مجید کی سورة العنکبوت ،سورةالبقرہ ،سورة النحل الغرض بیسیوں مقامات سے یہ ثابت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ علم کا معنی ومفہوم میں سائنس ،ٹیکنالوجی اور کائنات کے بھیدوں کو جاننا اور نئی دنیائیں دریافت کرنا سر فہرست ہیں ، ان کاماننا ہے کہ خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت نے احکام قرآنی کو سریعاً چھپایا ہے اور ایسی تحریفات کی ہیں جو آج اس مقام پر امت کو لے آئی ہیں کہ ذلت و بدنامی اس کا مقدر ٹھہر گئی ہے مثلاًاتباع رسول ﷺ سے مراد محض وضع قطع میں شارعﷺسے مماثلت اورسیرت و کردار اپنانے سے دوری ، معروف ومنکر سے مراد ارکان اسلام کی ادائیگی اور عدام ادائیگی کی تبلیغ لیکن ملی و سماجی امور سے پہلو تہی ، تحصیل علم سے مراد صرف و نحو فقہ و اصول ،کسب ثواب سے مراد چند مروی کلمات کا دہرانا،جہاد سے مراد قتال الکافرون چاہے ایجنڈا عالمی سازشیوں کا ہی کیوں نہ ہو اور جہاد بالنفس کا تصور خارج از بحث۔۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ صالحون سے مراد صرف مخصوص قسم کے عادات واطواریا حلیہ اپنانے والے لوگ نہیں ہے بلکہ صلاحیت والے لوگ ہیںیا وہ لوگ جنہوں نے فطرت کے پوشیدہ قوتوں کو دریافت کر کے ان کو اشرف المخلوقات کی خدمت میں لگا دیا ہے
یورپ میں رہنے والے قاری کے لیے یہ کتاب ایک خزانے سے کم نہیں ہے اگر آپ کے ذہن میں بھی دین اسلام ایک آفاقی نظام کے حوالے سے ایسے ہی سوالات سر اٹھاتے رہتے ہیں جن کا جواب کسی ملاظاہری کے پاس نہیں مل سکا تو میں آپ کو پروفیسر ڈاکٹر حجة اللہ کی یہ کتاب پڑھنے کی دعوت ضرور دو ں گا
تحریر محمود اصغر چوہدری

مکمل تحریر  »