28/08/12

Mitti

اطالوی پریس میں ایک خبر چھپی ہے کہ بولونیا کے نزدیک ایمولا میں عبدالعزیز نامی ایک بیس سالہ مراقشی نوجوان نے گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کر لی ہے خبر کے مطابق وہ گزشتہ پندرہ سال سے اٹلی میںرہائش پذیر تھا لیکن اس کے علاقہ کی پولیس اسٹیشن نے اس کے کاغذات کی تجدیدصرف اس لیے روک لی کہ عبدالعزیز کے پاس گزشتہ کئی سالوں سے روزگار نہیں تھا اسے ملک چھوڑنے کا نوٹس دے دیاگیا وہ پانچ سال کی عمر میں اٹلی آیا تھا اس کے پاس چھوٹی عمر کی بنیاد پر ملنی والی امیگریشن تھی گزشتہ پندرہ سالوں سے اُس نے اٹلی کی زبان بولتے بولتے اسی کی گلیوں کوچوں کو اپنی گلیاں تصور کیا تھا اس نے اسکی مٹی کو اپنی مٹی سمجھ لیا تھا لڑکپن کی صبح پھوٹنے سے لیکر جوانی کی دوپہر کے آغاز تک اگر اس کے ذہن میں ”ملک “کی کوئی تعریف آتی تھی تو اس تعریف میں اسے اٹلی ہی اپنا ملک اور وطن لگتا تھا اس لئے جب اس مٹی کو چھوڑنے کا نوٹس ملا جسے وہ اپنی سمجھتا تھا تو اس سے یہ صدمہ برداشت نہ ہوا اور اس نے خود کشی کرلی خبر میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ اس کی لاش کو اس مٹی میں دفنایا جائے گا یا اسے بھی ملک بدر کر دیا جائے گا ۔۔۔۔۔ 

مکمل تحریر  »

23/08/12

Tazleel

ایک عقلمندفرد ایک ہی شخص یا ایک ہی جگہ سے دو دفعہ دھوکہ نہیں کھا تا لیکن کسی فرد ، کسی کام ، کس لگن یا کسی جذبہ سے سچی محبت کرنے والاایک ہی مقام سے یا اس محبت کی وجہ سے ہزاروں دفعہ تذلیل اٹھا سکتا ہے اگر اس فارمولا کو ریاضی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہزار بار تذلیل کا شکار ہونے والا عقل وخرد سے باہر ہوجاتا ہے چونکہ یہ شخص اپنے محبت کے جذبہ کی وجہ سے ذلت اٹھا رہا ہوتا ہے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ بنیادی طور پر وہ پاگل نہیں ہے لیکن ایک ایسا موضوع ہے جسمیں وہ اپنی ہوش یا دانش کو خدا حافظ کہہ دیتا ہے

مکمل تحریر  »

21/08/12

DOST دوست

آپ کسی بازار میں چلے جائیں جہاں ہزاروں لوگ گھوم پھر رہے ہوں آپ کسی تفریحی مقام پر چلے جائیںجہاں افراد کا جم غفیر ہوآپ کسی تقریب میں چلے جائیں جہاںتل دھرنے کی جگہ نہ ہو لیکن اگر آپ کے ساتھ آپ کا دوست موجود نہیں تو ہزاروں لوگوںکا ہجوم بھی آپ کی تنہائی دور نہیں کر سکے گا آپ افراد کے جم غفیر میں بھی تنہااور کھوے سے کھوا چلنے والے افراد کے ہجوم میںبھی خود کو اکیلا محسوس کریں گے

مکمل تحریر  »

18/08/12

scherzo

مکمل تحریر  »

kis ko munsaf banain?

 

کس کو منصف بنائیں ؟
تحریر محمود اصغر چوہدری ایڈیٹر جذبہ اٹلی
 www.mahmoodch.com       mahmoodch1@gmail.com
گزشتہ ماہ سے اٹلی میں قانونی طور پر مقیم تارکین وطن پاکستانیوں کو ایک ایسا مسئلہ درپیش آیا ہے جس نے ساری پاکستانی کمیونٹی میں نہ صرف تشویش کی لہر دوڑا دی بلکہ ان کی حقیقت میں بھی دوڑیں لگوا دیں پاکستانی ایف آئی اے حکام نے ائرپورٹوں پر اٹلی واپس آنے والے ایسے تمام پاکستانیوں کو روکنا شروع کر دیا جوچھ ماہ سے زیادہ عرصہ پاکستان میں رہائش پذیر رہے روکے جانے والے پاکستانیوں کواس امر کی کوئی قانونی وجہ نہیں بتائی گئی اور نہ ہی انہیں کوئی تحریری لیٹر جاری کیا گیا اس لئے ہر پاکستانی اس بندش کو اپنے انداز سے بیان کرنے لگا کوئی کہنے لگا کہ ائرپورٹ پر ”گورا “بیٹھا ہوا تھا جس نے کہاہے کہ اوورسٹے کی وجہ سے آپ اٹلی نہیں جا سکتے یعنی گورا نہ ہوا اکبر بادشاہ ہوگیا جو کسی بھی پاکستانی ائر پورٹ پر آکر کرسی رکھ کر بیٹھ سکتاہے اور وہیں پر اپنے ملک کا امیگریشن لاءاپلائی کر سکتا ہے کسی نے کہا کہ ائر پورٹ انتظامیہ کو اوپر سے آرڈر آئیں ہیں اوپر سے کہاں سے ؟ اس کی وضاحت کوئی نہیں کر سکا اور کوئی حسب سابق کہنے لگا کہ ائرپورٹ حکام نے پچاس ہزار روپے کی رشوت کا مطالبہ کیا یعنی ایسا گھناﺅنا الزام کیا کوئی پاکستانی آفیسر ایسا بھی ہے جو رشوت لے ؟یقین نہیں آتا تھا الغرض جتنے منہ اتنی باتیںبہرحال وجہ کوئی بھی تھی ایف آئی اے حکام نے اس غیر ملکی رٹ کو اپنے ملک میں قائم کرنے میں اتنی مستعدی دکھائی جتنی واپڈا والے لوڈشیڈنگ کرنے میں بھی نہیں کرتے ایک ہی فلائٹ میں 80اسی پاکستانیوں کو اٹلی آنے سے روک دیا گیا رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا تھا اس لئے مساوات کا عملی مظاہر ہ کیا گیا اور بغیر کسی اضافی تحقیق کے ہر قسم کی سوجورنو والے کو روک لیا گیاچاہے ان کے پاس اٹلی کافار ایور کا کارڈکیوں نہ تھاان بچوں کو بھی روک لیا گیا جن کی پیدائش اٹلی میں ہوئی تھی اور ان بوڑھوں کو بھی روک لیا گیا جوگزشتہ دو دہائیوں سے اٹلی رہ رہے تھے اور وہ کبھی کبھار اٹلی صرف اپنی پنشن لینے آتے تھے ایک واقعہ تو ایسا بھی پیش آیا جس میں ایک پاکستانی اپنی فیملی کو پہلی بار پاکستان لینے گیا اطالوی ایمبیسی سے ویزہ وغیر ہ لگوانے میں اسے چھ ماہ کا عرصہ لگ گیا لیکن جب وہ اپنی بیوی کو لیکر اسلام آباد ائر پورٹ پہنچا تو اس کی بیوی کو فلائی کرنے کی اجازت دے دی گئی لیکن اس کے شوہر کو یہ کہہ کر روک لیا گیا کہ اسے چھ ماہ سے زیادہ عرصہ پاکستان میں ہو چکا تھا یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ایک غیر ملک میں پہلی بار یہ پاکستانی خاتون اپنے شوہر کے بغیر کیسے ڈاکومنٹس بنوائے گی؟
کون کہتا ہے کہ پاکستان میں قانون پر عمل درآمد نہیں ہوتا ؟یہ واقعات تو بتاتے ہیں کہ جب ملکی معیشت کو زرمبادلہ کی صورت میں آکسیجن مہیا کرنے والے تارکین وطن پاکستانیوں کو تنگ کرنے کا معاملہ ہو تو سارے آفیسران شیر ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان تارکین وطن شہریوں کی کوئی آواز تو ہے نہیں۔ اکثریت کا تعلق گجرات ،سیالکوٹ ، گوجرانوالہ ، منڈی بہاﺅالدین اور پنجاب کے دیگر شہروں سے ہے جبکہ ان کی وزارت برائے اوور سیز کبھی پنڈی میں خوار کی جاتی تو کبھی کراچی پہنچا دی جاتی ہے تاکہ یہ اپنے وزیر سے رابطہ تک بھی نہ کر سکیں اور ویسے بھی یہ کیوں سکون کی روٹی کما کر کھائیں کیوں نہ ان کو بھی لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں اور گرمی میں ڈینگی مچھروں کا نظارہ کرایا جائے کون پوچھنے والا ہے ؟ ان پاکستانیوں نے اطالوی ایمبیسی سے رابطہ کیا تو انہیںایک لیٹر جاری کر دیاگیا کہ سفارت خانہ کو کوئی اعتراض نہیں اس لیٹر پر بعض پاکستانیوں کو تو فلائی کرنے کا موقعہ دے دیا گیا لیکن اکثریت کو اس کے باوجود روک لیا گیا
 سب سے پہلے اس مسئلہ کا نوٹس جذبہ ڈاٹ کام نے لیا او ر چیف ایڈیٹر جذبہ اعجاز پیارا نے اٹلی میں موجودپاکستانی ایمبیسی و قونصلیٹ کو اس سلسلہ میں تحریری درخواست دی اس کے بعد میں نے سی جی آئی ایل کی جانب سے تحریری درخواست بھیجی ، سفیر محترمہ بیگم تہمنیہ جنجوعہ ،قونصل جنرل طارق ضمیر صاحب اورہیڈ آف چانسلری شہباز کھوکھر صاحب نے فوری ایکشن لیتے ہوئے پاکستانی وزارت داخلہ اور اسلام آباد میں اطالوی ایمبیسی سے رابطہ کیا اور اس مسئلہ کو حل کروانے کی لئے روزانہ کی بنیاد پر کوششیں تیز کردیں،جذبہ کے صحافی اعجاز وڑائچ ،سجاد کھٹانہ اور محمد انور نے خبروں کے ذریعہ اس مسئلہ کو اجاگر رکھا اس سلسلہ میں پاکستان سے شکیل احمد ذکاءاور چوہدری شبیر ککرالی نے پاکستانی ایف آئی اے حکام سے ملاقات کی اورپاکستانیوں کو روکے جانے کی وجوہات دریافت کی تو ایف آئی اے حکام نے انہیں فرانس ایمبسی کاوہ لیٹر دکھا یا جس میں ایسے تمام تارکین وطن کو روکنے کے احکامات جاری کئے گئے تھے جو اٹلی سپین یا فرانس کے دستاویزات پر گزشتہ چھ ماہ سے زائد مدت سے پاکستان رہ رہے تھے اس لیٹر کا ملنا تھا کہ اٹلی میں موجود بہت سے لیڈروں نے ایسا پراپیگنڈ ہ شروع کر دیا کہ یہ قانون اٹلی کی طرف سے جاری کیا گیا تھا بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے کمیونٹی کو درخواست بھی کی گئی کہ وہ فی الفور اٹلی واپس آجائیں کیونکہ قانون تبدیل ہوگیا ہے اس کے بر عکس اطالوی ایمبیسی تک کا موقف یہ تھا کہ ایسا کوئی قانون اٹلی میں تبدیل نہیں ہوا خیر سفارتخانہ روم وقونصل جنرل میلان کی تگ و دو کام آئی اور اس سوموار سے شکیل ذکاءکو اطالوی ایمبیسی اسلام آباد نے اس لیٹر کی کاپی دے دی جس کے تحت ایسے پاکستانیوں کو نہ روکنے کا آر ڈرپاکستانی ائیر پورٹ کو جاری کیا گیا ہے جن کے پاس اٹلی کی ویلڈ سوجورنوہے
 یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی ایف آئی اے کے لیے یورپ کی کسی ایک ایمبیسی کا لیٹر اتنی زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ وہ اس کی بنا پر دیگریورپی ممالک کے باشندوں کو بھی روک سکتی ہے؟کیا پاکستان میں تارکین وطن کی کوئی آواز نہیں؟ کیا اس مسئلہ کو حل کروانے کے لیے بھی اٹلی میں موجود پاکستانی سفارتخانوں کا ہی خالی فرض بنتا تھا ؟کیا اٹلی میں موجود ہزاروں سیاسی جماعتوں کا اپنے قائدین سے کوئی سوال نہیں بنتا ؟یا پھر وہ یورپ کی ٹھنڈی ہواﺅں میں چھٹیا ں منا کر چلے جاتے ہیں اور ایسا کوئی ایجنڈا اپنے سیاسی منشور میں شامل نہیں کرتے جس میں اوورسیز کے مسائل پر بات ہو ۔کیا ان اسی ہزار پاکستانیوں کا کوئی والی وارث نہیں؟ کیا ہماری دوڑ صرف اپنے ملک کے سفارتخانوں کو بدنام کرنے تک ہے؟ اٹلی میں موجود حکومتی پارٹی کے بعض ممبران نے تو ایف آئی اے کا دفاع کرنا شروع کردیاتھاکہ انہیں خواہ مخواہ بدنام کیا جارہا ہے کیاان کا یہ عمل قابل دفاع تھا؟ کیا ان کو یہ احساس نہیں ہوا کہ اتنی کثیر تعداد میں جو لو گ روکے جارہے تھے ان میں کوئی ایسا بھی ہوسکتا تھا جسکے کاغذات ختم ہونے والے تھے ؟کسی کے بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہوسکتا تھا کیا ان کا فرض نہیں بنتا تھا کہ ایسے کسی سرکلر کی قانونی وضاحت فرانس ایمبیسی سے طلب کرتے یاپھر کسی بھی یورپین ملک کے لیٹر کی حیثیت ہمارے امیگریشن آفیسران کے لئے شاہی فرمان کا درجہ رکھتی ہے ؟اس وقت اٹلی میں مختلف ممالک سے پچاس لاکھ غیرملکی شہری مقیم ہیں اور دنیا کے کسی بھی ائر پورٹ سے انہیں اٹلی فلائی کرنے سے نہیں روکا گیاایسا امتیازی سلوک صرف پاکستانیوں کے ساتھ کیوں ؟جن لوگوں نے ٹکٹوں کی مد میں لاکھوں روپے برباد کئے ان کا ہرجانہ کون ادا کرے گا ؟وہ کن سے منصفی چاہیں کس سے اپنے نقصان کا ازالہ طلب کریں ؟
 اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کہ اٹلی میں قانونی طور پر رہائش پذیر تارکین وطن شہریوں کو دنیا کے کسی بھی ائر پورٹ سے نہیں روکا جا سکتا اور نہ ہی اٹلی کے کسی ائیر پورٹ سے انہیں ڈی پورٹ کیا جا سکتا ہے جن کے پاس اٹلی کی ویلڈ سوجورنو ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اٹلی کی سوجورنو لیکر سالوں اٹلی سے باہر رہیں کیونکہ اٹلی کے امیگریشن قانون DPR394/1999کے آرٹیکل 13کے تحت ایسے تارکین وطن شہریوں کی سوجورنوکی تجدید نہیں ہوگی جو عام سوجورنو پر چھ ماہ سے زیادہ یا 2دو سا ل مدت کی سوجورنو پرایک سال سے زیادہ اٹلی سے باہر رہیںان دنوں اٹلی کے بہت سے پولیس اسٹیشن ایسے لوگوں کی سوجورنوکینسل کر رہے ہیں جو لمبی مدت تک اٹلی سے باہر رہے ہاں البتہ اگرکوئی اپنے ملک میں لازمی فوجی ٹریننگ کے سلسلہ میں یا کسی بیماری یا حادثہ کی صورت میںرہاہے تو اس صورت میں متعلقہ کستورا(پولیس اسٹیشن ) اس کی سوجورنو کی تجدید کرنے یا نہ کرنے کااختیار رکھتا ہے فوجی ٹریننگ پاکستان میں قانونی طور پر سب پاکستانیوں کے لئے لازمی نہیں ہے اس لیے یہ بہانہ تو سوجورنو نئی کرانے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہاں البتہ بیماری یا حادثہ کی صورت میں تمام دستاویزات اطالوی ایمبیسی سے تصدیق و ترجمہ کرا کے لا ئے جا سکتے ہیں اگر دوران سفر کسی کی سوجورنو ختم ہوجائے تو اس صورت میں اسے اٹالین ایمبیسی سے اٹلی آنے کے لیے ویزہ حاصل کرنا ہوگا لیکن اس صورت میں پرمیسو دی سوجورنو کو ختم ہوئے 60 دن سے زیادہ کی مدت نہیں گزرنی چاہئے۔ وہ غیر ملکی جو کہ بیمار ہونے کیوجہ سے اپنے ملک میں رہتے ہوئے سوجورنو ختم کر بیٹھتے ہیں ان کے لیے 60 دنوں کی بجائے سوجورنو ختم ہونے کے بعد 1 سال کا وقت ہوتا ہے اٹالین ایمبیسی متعلقہ اٹالین تھانے سے تصدیق کرے گی اور انٹری ویزہ جاری کرے گی یاد رہے کہ امیگریشن قانون testo unico 286/98کے آرٹیکل 9کوما 7dکے مطابق کارتا دی سوجورنو (لا محدود مدت کی سوجورنو )کے ساتھ اگر آپ 12ماہ کے عرصہ سے زیادہ یورپی یونین کے ایریا سے باہر رہتے ہیں تو آپ کا کارتا دی سوجورنو واپس لیا جا سکتا ہے جس کے دوبارہ حصول کے لیے آپ کو نئے سرے سے تمام شرائط پوری کرنی ہوں گی
 

مکمل تحریر  »

Eid

راستہ کاٹ کے     ہربار گزرجاتا ہے
جیسے پردیس میں تہوار گزرجاتا ہے
زندگی عشق میں یوں گزری ہے اپنی
جیسے بازار سے  نادار گزر جاتا ہے

مکمل تحریر  »

13/08/12

l'amore dura tre anni

 

« Amare qualcuno che vi ricambia è narcisismo. Amare qualcuno che non vi ama, questo è amore. »

 

(L'amore dura tre anni)

مکمل تحریر  »

سلام پاکستان
یوم آزادی پر خصوصی تحریر
 محمود اصغر چوہدری ایڈیٹر جذبہ اٹلی
www.mahmoodch.com mahmoodch1@gmail.com
 آج پینسٹھ سال بعد دوتاریخوں نے اپنا چکر پوراکرلیا ہے اور یہ دونوں قمری وشمسی کیلنڈر میں ایک دن یکجا ہونے کو ہیں پاکستان جیسا معجزہ ستائیس رمضان المبارک اور 14اگست کی اسلامی اور عیسوی کیلنڈر کے سنگم پرہی اس دنیا میں معرض وجود میں آیا او ر اس سال2012ءمیں پھر انہی تواریخ کو اس مملکت خداداد کا یوم آزادی آنے کو ہے لیکن تاریخ کے اس چکر کے باوجود قوم کا ابھی تک کا سفر کئی لحاظ سے شرمناک اور اشک انگیز ہے پینسٹھ سال پورے ہونے کے بعد حالت یہ کہ اس کا وہ نقشہ بھی پورا سلامت نہیں جواس وقت کے بانیوں نے اس قوم کو دیا تھاملک کے جس حصہ میں اس کی بنیاد کا مطالبہ کرنے والی جماعت نے جنم لیا تھا وہ اب پاکستان نہیں بلکہ بنگلہ دیش کہلاتا ہے روحانی طور پر اس ملک کی مماثلت بہت سے مذہبی نسبتوں سے کی جاتی ہے لیکن حقیقی طور پر اس کی مماثلت اب ترقی پذید ممالک سے بھی کرنا مشکل ہوگیا ہے مثلااس کی مماثلت ریاست مدینہ سے کی جاتی ہے وہ ریاست بھی دو قومی نظریہ کی بنا پر قائم ہوئی تھی جس میںروم کا صہیب ؓ، فارس کا سلمان ؓ، حبش کا بلا لؓ اور عرب کے قریش ایک خاندان تھے اور ایک ہی زبان بولنے والے اور ایک ہی خون و برادری سے تعلق رکھنے والے دوسری جانب ہوگئے تھے بالکل اسی طرح قیام پاکستان میں بھی ظاہری وضع قطع اور کلچر رکھنے والے صرف ایک نظریہ کی بنیاد پر ایک دوسرے سے الگ ہوگئے اوروہ نظریہ تھالا الہ الا اللہ،مماثلت دینے والوں نے قیاس اچھا کیالیکن وقت کی گرد اور عوام اور حکمرانوں کی نالائقیوں نے واضع فرق ڈال دیا کہ ریاست مدینہ تو وہ تھی کہ جس کے قیام کے بعد اس ماڈل ریاست نے دنیا کے تیس لاکھ مربع میل تک اپنا پیغام امن و سلامتی ایک نمونہ کے طور پر پیش کیا جبکہ پاکستان کی حالت یہ ہے کہ آج مصر میں ہیلری کلنٹن کے دورہ پر ایک مصری نوجوان اپنے ایک ہاتھ میں جوتا لیکر سینے پر ایک پلے کارڈ سجاتا ہے جس پر لکھا ہوا ہے کہ مصرکبھی پاکستان نہیں بنے گامماثلتوں میں اس کے بانی کی مثال دی جاتی ہے کہ اس کے قائداعظم کانام محمد علی تھا اور اس ملک پر محمد ﷺاور علی ؑ کے نام کی برکتیں موجزن ہیں لیکن اس قائد کا کردار یہ تھا کہ اس نے برہمن ، انگریز اور اس وقت کے کم فہم ملاﺅںاور دیگر دینی وسیاسی جماعتوں سے بیک وقت محاذجنگ کھول کر کمال کر دیا لیکن آج پینسٹھ سالوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس جیسی عظیم لیڈر شپ کے بعد اس ملک کی قیادت جاگیردار ، تاجر،بنکراور گدی نشین سے ہوتی ہوئی اب پراپرٹی ڈیلراور سینما کی ٹکٹ بلیک کرنے والے تک پہنچ گئی ہے قوموں کا سفر نیچے سے اوپر کی جانب ہوتا ہے اس قوم کا سفر اوپر سے نیچے کی جانب جاری ہے جس ملک کی بنیاد کا خمیر جمہوریت کے اصولوں سے اٹھایا گیا اس کی ترقی کے سفر میں چار جرنیل بغیر کسی عوامی مینڈیٹ کے صرف بندوق کے نوک پر اس کے تینتیس سال کھا گئے
قائد اعظم کاکردار یہ تھا کہ انہوں نے اپنی سیاسی جد وجہد میں دوسروں پر کیچڑ اچھالنے اور اسے گالی گلوچ دینے کی بجائے ایک ماہر وکیل کی طرح دلیل کی میز پر اس کا مقدمہ لڑا اور جیت کے دکھایا آج عالم یہ ہے کہ سیاست نام ہی ایک دوسرے کے اوپر گند اچھالنے کا رہ گیا ہے اگر ایک جانب سے رمضان کے مہینے میں دوسرے سیاسی حریف پر زکوٰة کی کرپشن کاالزام لگایاجاتا ہے تو دوسری جانب سے کرپشن کا سوالنامہ تیار کیا جاتا ہے اس ملک کی آزادی کا کیس ایک وکیل نے لڑا اسکے عوام نے اس کی عدلیہ کی خودمختاری کی طویل جدو جہد کی اور جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں تو آج حکومت اسی عدلیہ کی ناموس تار تار کرنے کو اپنا نصب العین بناکرملک میں انارکی کی صورت حال پیدا کر چکی ہے
لیڈروں کے علاوہ عوام نے جو اخلاقیات کا سفر طے کیا وہ بھی کم حیرت انگیز نہیں ہے پاکستان کے آغاز سے ہی دنیا بھر کے محققین نے کہنا شروع کر دیاکہ دنیا کی تاریخ میں اتنی بڑی ہجرت ، وسائل کی کمی،خزانہ کے خالی ہونے اور انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی ایک نوزائیدہ مملکت کے لیے اتنا بڑا چیلنج تھا کہ اسکے وجود تک کو خطرہ تھا لیکن اس وقت کے قائدین کی قیادت میں قوم کے اندر ایک نظریہ پر اتنا گہرا ایمان اور انکے دلوں میں اخوت ، ایثار وقربانی کا وہ جذبہ تھاکہ انہوں نے خطرہ کی ہر بازگشت کا خاتمہ کرتے ہوئے چند ہی سالوں میں ان چیلنجوں کا مقابلہ کر کے مورخین کے اندیشے غلط ثابت کر دیئے صالح قیادت کے ہٹنے کی دیر تھی کہ خود اعتمادی کے جذبہ سے سرشار قوم نے بھی ترقی کے سفر میںاپنا رخ پیچھے کی جانب کر لیا ،وہ جو کئی لاکھ مہاجرین کو ایک نظریہ پر خوش آمدید کہتے رہے آج اسی ملک کے بعض علاقوں میں اس کا پرچم بلند کرنا نا ممکن ہے ،سندھی پنچابی ، بلوچی پٹھان کی تقسیم تو قصہ پارینہ ہے اب کسی جماعت سے وابستگی کے دعویٰ پر بھی بوری بند لاشیں ملتی ہیں برادشت کا لیول یہ ہے کہ کسی کے نقطہ نظر سے اختلاف اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرنا ہے جس قوم نے اس ملک کو ایٹمی طاقت بنا یااس کی سستی کا عالم یہ ہے کہ سوئی تک تیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی لیڈروں کی ساٹھ ساٹھ ملین ڈالر کی کرپشن اور اس کو تحفظ دینے کی پالیسی کااتنا گہر اثر لیا گیا ہے کہ شیر خوار بچوں کے لیے دودھ تک خالص نہیں مل سکتا،لیڈروں کی ایفی ڈرین جیسی نشہ آور کیمیکل میں دولت کمانے کے طمع نے قوم کا کردار ایسا بنا دیا ہے کہ وہ زندگی بچانے والی ادویات تک میں موت بانٹنے والی ملاوٹ شامل کرنے سے باز نہیں آتے رمضا ن کے مہینے میں مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی تو ماضی کی بات ہے تکبیر کہہ کر حلال کرنے والے گوشت میں غلیظ پانی انجیکٹ کرنے اور مردہ جانوروںکا گوشت فروخت کرنے میں بھی کوئی شرمندگی نہیں محسوس کرتے اخلاقی پستی کا عالم یہ ہے کہ کم عمر بچوں سے زیادتی ، مرُدوں کی قبر کشائی کے بعد بے حرمتی اورکراچی جیسے شہر میں مخالفین کا سر کاٹنے کے بعد فٹ بال کھیلنے کی خبریں عام ہیں تعلیمی قحط شرمناک سطح تک پہنچ چکا ہے جہاںایک طرف تو حکمرانوں کے جانشین لندن کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کررہے ہوں اور انہیں اس عوام کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے ابھی سے چن لیا جائے جن کے بچے قبرستانوں میں درس وتدریس لے رہے ہوں
جو نوجوان تعلیم حاصل کرگئے ہیں ان کی تربیت اور اخلاق کا نمونہ دیکھنا ہو تو سوشل میڈیا کھول کر دیکھ لو اس قماش کی گندی زبان کا استعمال ملے گاکہ اخلاق بھی پناہ مانگے گا اپنے حریف سیاسی و مذہبی لیڈر کی تصاویرکو جانوروں کے ساتھ متشابہہ کیا گیا ہوگا جب ڈائیلاگ سے ہارنے لگیں تو ایک دوسرے کی ماﺅں بہنوں کی ذاتی زندگی کو زیر بحث لے آئیں گے ، کوئی جرنلسٹ کوئی شاعر کوئی ادیب کوئی آرٹسٹ اگر ایسی بات لکھ دے جو ان کی دانست میں غلط ہو تو اتنی توہین اوراخلاق باختگی کا مظاہرہ کریں گے کہ یہ سوچ کر شرم آئے گی کہ یہ پڑھے لکھے ہیں سرکاری اداروں میں کرپشن کا یہ عالم ہے کہ رمضان کے مہینے میں ان اوورسیزپاکستانیوں کو واپس آنے پرائرپورٹوں پر روک لیاگیا جن کا زر مبادلہ پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوتی ہے کھیل کی سرگرمیوں کا عالم یہ ہے کہ جو ملک کرکٹ ، ہاکی ، سکوائش اور سنوکر کا ورلڈ چمپئن بنا ہو،جس ملک نے ہاکی میں طلائی تمغوں کا ڈیر لگایا ہواور جس نے دوسرے ممالک کے کھلاڑیوں کوٹریننگ دی ہوآج اٹھارہ کروڑ کے اس ملک میںاٹھارہ کھلاڑی بھی ایسے نہیں ملیں گے جو اولمپکس کے مقابلوں میں اسکے عوام کو ایک طلائی تمغہ ہی لا دیں
آج پورے ملک میں افراتفری اور نفسا نفسی کا عالم یہ ہے کہ پارلیمنٹ جمہوری روایات سے نابلدہے جمہوریت کی قبا ءمیں آمریت کا راج پوشیدہ ہے سیاسی جماعتوں میں مفادات کا عروج اصولوں کا جنازہ نکال چکا ہے، سرکاری اداروں میں کرپشن اس حد تک سرایت کرگئی ہے کہ ٹرینوں کے انجن بند ، پی آئی اے کے طیارے زمین پر، اربوں کا خسارے ،بجلی گیس کی عدم موجودگی میں ملکی ترقی ستر سا ل پیچھے جانے کی قریب ،دفاعی حالت کمزور ترین سطح پر، نیٹو سپلائی لائین ،ڈرون حملے، دہشت گردی ، لاقانونیت ، دریا خشک اور ڈیم ٹوٹ پھوٹ کا شکارایسے میں واقعی اس ملک کی آزادی کی تاریخوں کو کسی مذہبی مناسبت میں ڈھونڈنے اور اس کی نسبت سے خدا سے مددمانگنے کو دل کرتا ہے کہ اس کا قرآن بھی رمضان میں اترا اور اس مملکت خدادا د کا تحفہ بھی شب قدر میں ملاجس طرح اس کی حفاظت اس نے خود کی اس کی بھی حفاظت وہ خود کرے جس کے ترانے میں ”پاک سر زمین“ کا لفظ قرآنی تصور ”ارض مقدسہ “سے نسبت رکھتا ہے جس کے پرچم کے سبز رنگ کو گنبد خضراسے نسبت ہے جس کے ابلاغی کوڈ 92کو اسم محمد ﷺ کے عددی شمار (۲۹)سے معنوی نسبت ہے بقول اشفاق احمداس پاکستان جیسے معجزے کی مثال حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی جیسی ہے جو اللہ نے پہاڑ سے پیدا کی اور جس کا احترام کرنے کا حکم انہوں نے اپنی قوم کو دیا لیکن ان کی قوم نے اللہ کی اس نشانی کی قدر نہ کی اور اسے تڑپا تڑپا کر مار دیا پھر اس قوم پر اللہ کا عذاب آیا آج ہمارے لیے وقت ہے کہ ہم اللہ کی اس نشانی کی قدر کریںاس یوم آزادی اسے سلام پیش کریں اور اس کی سلامتی وحفاظت کا وعدہ کریں
بکھر جائیں گے ہم جب تماشہ ختم ہوگا
 مرے معبود آخر کب تماشہ ختم ہوگا

کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
 یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشہ ختم ہوگا
 

مکمل تحریر  »

11/08/12

Kho Gaye

مسکراہٹ ، تبسم ، ہنسی ، قہقہے
سب کے سب کھو گیے ، ہم بڑے ہو گیے

مکمل تحریر  »

09/08/12

salam Mahe Siam

سلام ماہ صیام
تحریر محمود اصغر چوہدری ایڈیٹر جذبہ اٹلی
www.mahmoodch.com mahmoodch1@gmail.com
   جس طرح موسموں کا اثر زمینی کھیتی پر ہوتا ہے اس طرح بعض اسلامی مہینوں کا گہرااثر مسلمانوں کے دل کی کھیتیوں پر بھی ہوتاہے جس میں سر فہرست رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے جس طرح بہار آتے ہی ٹنڈ منڈ بنے درختوں کے تنے اور سال بھر پانی سے محروم رہ جانے والے سوکھے پودوں کی ڈالیوں پر سبزشگوفے پھوٹنے لگتے ہیں اور جو پودے پہلے سے ہی تناور ہوتے ہیں ان کی شگفتگی میں حسن جھلکنا شروع ہوجا تا ہے اسی طرح رمضان کی آمد سے اہل ایمان کے چہروں کی رونق بڑھ جاتی ہے اور جن مسلمانوں کے ایمان کاپودا بے ایقانی کے باعث مرجھانا شروع ہوجاتا ہے ان پربھی اس مہینے کی سعادتیں ضرور اثر انداز ہوتی ہیں اگر ان کے اندر ایمان کی تھوڑی سی رمق بھی ٹم ٹما رہی ہوتو اس مہینے میں وہ ایک بار ضرورچنگاری بنتی ہے اور ان کا وہ تعلق جو اپنے مرکز سے کمزور ہونا شروع ہوگیاہوتا ہے پھر سے مضبوط ہونے لگتا ہے
 اگر احساس زندہ ہوتو باہر کی دنیا کا اثر انسان کی اندر کی دنیا پر ضرور رونما ہوتا ہے جیسے بعض آوازیں ہماری دھڑکنوں میں تغیر پیدا کر دیتی ہیں ، جیسے ساون کی پہلی بوندیں ہمیں بے خودی سے متعارف کراتی ہیں ، جیسے پورا چاند ہماری نظریں صرف اپنی طرف ہی جمائے رکھتا ہے ، جیسے خوشبو ہمارے دماغ کی نسوں تک کو تازگی مہیا کرتی ہے اور جیسے رات کا سناٹا ہماری روح تک کو سکون بخشتا ہے بالکل اسی طرح اگر ایمان کا کچھ حصہ ہمارے اندر موجود ہے تو رمضان اس پر اپنا اثر ضرور ڈالتا ہے اگر کسی کو رمضان کے روزو شب سال کے عام دنوں جیسے ہی محسوس ہوتے ہیں اور اس کی طبیعت میں ایقان کی لذت سے کوئی سرشاری یا پھراپنے یقین کے بنجر پن پر شرمساری پیدا نہیں ہوتی تو اسے اپنے ایمان کا معائنہ کسی روحانی معالج سے ضرور کر الینا چاہیے ، سرشاری اور شرمساری سے مراد صرف یہ بھی نہیں ہے کہ وہ ہرصورت میں روزے ہی رکھے تو ہی اس کاایمان سلامت سمجھا جائے گا اللہ تعالی ٰ اپنے کلام میں فرماتا ہے کہ ” تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوںمیں اللہ تم پر آسانی چاہتاہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا “ا س لئے اگر کوئی بیماری یا کسی بھی مجبوری کی بنا ءپر روزہ نہیں رکھا سکا تو بھی کم از کم اسکا احترام ضرور نظر آنا چاہئے
  بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ رمضان کے آتے ہی مسلمانوں کی اکثریت عبادات میں مصروف ہوجاتی ہے اور حتی الوسع کوشش بھی کرتی ہے کہ آداب رمضان بجا لائیں لیکن اس کے باوجود ہماری طبیعت اور کردار میں تبدیلی نہیں آتی ہم جھوٹ سے باز نہیں آتے رشوت کا بازار ہمارے ممالک میں اسی طرح سر گرم رہتا ، بہتان اسی طرح عروج پر رہتا ہے، حرام کی کمائی اسی طرح چلتی رہتی ہے احساس پیداہونے کی بجائے اشیاءکی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں ، ذخیرہ اندوزی پہلے سے کہیں زیادہ ہوجاتی ہے ہمارے ملکوں میں قتل وغارت گری اور ڈکیتی جیسی وارداتیں بھی جاری رہتی ہیں اس پر ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ شیاطین جکڑے گئے ہیں اس کے باوجود بدی کا بازار انہی معاشروں میںاکثر و بیشتر سر گرم رہتا ہے جہاں اس کا سب سے زیادہ اہتمام ہوتا ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہم سب کو ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟
   اصل میں ہمارے ہاںعبادت کی تبلیغ میںایک تکنیکی خرابی یہ ہے کہ ہم ہر عبادت کا تعلق ثواب سے جوڑ دیتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ثواب کا بھی کوئی پرسنل کرنٹ اکاﺅنٹ ہوتاہے جس میں آپ اپنا ثواب جمع کراتے رہیںاور ہر ماہ اس کی بڑھوتی دیکھ کر خوش ہوتے رہیں شاید اسی لیے بہت سے لوگ بھری محفل میں بڑے تکبر سے کہتے ہیں میرا کوئی روزہ اتنے سالوں سے مس نہیں ہوا یاپھر میں پانچوں نمازیں ادا کرتا ہوںلیکن اس روز ہ کی عبادت کے پیچھے جو فلسفہ کار فرما ہے اس کی جانب کسی کی نظر نہیں جاتی اس لیے سرکاری اہل کار روزے بھی پورے رکھتا ہے اور عیدی کے نام پر رشوت بھی پوری لیتا ہے ، ایک تاجر روزے بھی پورے رکھتا ہے لیکن ذخیرہ اندوزی سے بھی باز نہیں آتا ، سرمایہ کار لاکھوں روپے کی افطار پارٹی بھی دیتا ہے لیکن مزدور کواس کے خون پسینے کی تنخواہ بھی بروقت نہیں ادا کرتا ، سیاستدانوں میں ڈنر کا سب سے زیادہ فیشن افطار کے دنوں میں ہی نظر آتا ہے لیکن وہ ایک دوسرے پر بہتانوں کی بارش کرنے اور عہد کی پاسداری نہ کرنے،عوام کی جانب سے دی ہوئی اختیار کی امانت میں خیانت کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں ایسا لگتا ہے ہے جیسے ہم سب اپنے اکاﺅنٹ میں ثواب جمع کرا کے اس کا حساب برابر کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں 
   رمضان کا لفظ رمض سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے جلا دینے والا یعنی یہ ہمارے گناہوں کو جلا دیتا ہے مزہ تو تب ہے کہ یہ ہمارے دل کے گرد چڑھ جانے والی حرص وہوس اور لالچ وطمع کی کائی کو جلادے ہماری روح کے پودے کے گرد پروان چڑھ جانی والی جھوٹ مکر اور دجل فریب کی جڑی بوٹیوں کو جلا کر خاکستر کردے قرآن مجید میںرب کائنات نے اس کی فرضیت کو تقویٰ کے ساتھ منسلک کیا ہے یعنی رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے لیے اس لئے مخصوص کیا کہ انہیں تقوی ٰ و پرہیزگاری نصیب ہوجائے ، روزہ میں انسان اپنے خالق حقیقی کے حکم کی پابندی کرتے ہوئے صرف اور صرف اسی کا رضا کی خاطر اسی کی جانب سے حلال کی ہوئی تمام اشیاءسے اپنے آپ کو کئی گھنٹوں تک روک لیتاہے روزہ کا تعلق سراسر محبت الہی سے ہے اور صرف محبت ہی وہ جذبہ ہے جو انسان کو کسی کی خاطر بھوکا پیاسا رہنے اور راتوں کے جگرتوں میں قیام کو ہنستے ہنستے سہنے کی ہمت دیتا ہے اسی لیے اللہ تعالی ٰ فرماتا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا یعنی یہ وہ واحد عبادت ہے جس میں ریا کاری نہیں ہوتی جس میں دکھلاوے کی ضرورت نہیں یہ واحد معاملہ جو اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہے وہ ہمارا راتوں کا جاگنا دیکھ رہا ہے وہ ہمارے دن کو تکلیف کا برداشت کرنا دیکھ رہا ہے
آج یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ کو ہمارے بھوکے پیاسے رہنے سے کیا سروکار ہے یہ ساری محنت تو وہ ہمیں اسی لیے کراتا ہے کہ ہمیں سیلف کنٹرول کی نعمت حاصل ہوجائے ہمیں خواہشات کی بے ہنگم دنیا اور لالچ وطمع کے اس گہرے سمندر میں رکنا آجائے ہمیں خود احتسابی کا موقع میسر آجائے آج اگر ہم حلال چیزوں کی فراوانی کی موجودگی میں اپنے آپ کو روکنا سیکھ لیں توسارا سال اگر ہمیں ہزارہا موقع بھی پرواز میں کوتاہی کرنے کے آئیںتو ہم ان کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں اگر ہم ایک مہینہ تک بد اخلاقی ، فحش گوئی اور بدکلامی سے بچ جائیں گے تو اخلاق ہمارا وطیرہ بن جائے گا خوش اسلوبی اور خوش خلقی ہمارے کردار کا حصہ بن جائے گی اگر اس ماہ ہم خدا کے قوانین پر عمل کرنا سیکھ لیں گے تو ہماری ہر جنبش اس قانون اس حد کے اندر ہوگی جس کو خدا نے مقرر کیا ہے اگر آج روزہ ہمیں غیبت اور دروغ گوئی سے بچنا سکھا گیا تو سارا سال ہم کوشش کریں گے جھوٹ ، بدگوئی اور کسی کی دل آزاری سے بچتے رہیں ، اور خدا کی رضا کی خاطر حق بات کے لیے ڈٹ جانے کی کوشش کریں گے اگر آج کی تراویح ہمیں قیام کرنا سکھا دے گی اور کسی امام کے اشارے پر اٹھک بیٹھک سکھا دے گی تو ہم ایسا معاشرہ بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے جہاں قانون کی حکمرانی ہوگی اور عادل کا احترام ہوگا
  یورپ میں رہنے والے مسلمانوں پر لازمی ہے کہ وہ اس ماہ کے احترام کا خاص خیال رکھیں کہ یہی وہ مہینہ جس پر دوسرے مذاہب والے بڑی گہری نظر رکھتے ہیں اگر آپ کسی مجبوری کی بنا پر روزہ نہیں بھی رکھ رہے تو بھی اس کا احترام ضرور کریںاگر روزہ رکھ رہے ہیں تو کام پر یہ کسی بھی جگہ ریاکاری سے بچنے کے لیے ہشاش بشاش اور چاق وچوبند نظر آئیں اپنے انداز و اطوار سے روزے کی کمزوری اور سستی کا اظہار نہ کریں کہ کہیں کسی کوآپ پر ترس آئے اور اسے روزہ فرض قرار دینے والے پرحرف اٹھانے کا موقع ملے ، اگر آپ کا پڑوسی کوئی غیر مسلم ہے تو اس کے آرام کا خیال رکھیں سحری کے وقت کوشش کریں کہ اسے تکلیف نہ پہنچے اور وہ بیدار نہ ہوجائے ،اگر سخت کام کی وجہ سے روزہ میں مشکل پیش آتی ہے تو رمضان میں جعلی میڈیکل سرٹیفیکیٹ بھیج کر روزہ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیںکیونکہ روزہ جھوٹ سے ہی تو روکتاہے اس سے بہتر ہے کہ کام سے چھٹی لے لیں اور روزے مکمل کر لیں ، عید کی نماز ادا کرنے کے لئے وقت سے پہلے ہی چھٹی لے لینی چاہیے کیونکہ جھوٹ بول کر کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی ، روزہ میں بھوک کی وجہ سے چڑ چڑا پن آجاتا ہے یہی امتحان ہے اس میں اپنے اخلاق پر ضبط رکھنا یہی روزہ کی اصل روح ہے ۔روزہ کو ہمارے دین نے ڈھال قرار دیا ہے اس ڈھال سے فائدہ اٹھانا چاہئے اورنہایت اہتمام کے ساتھ ہر برائی سے دور رہنے کی بھرپور کوشش کرنا اور زندگی کو پاکیزہ بنانا ہی اس کا حقیقی مقصد ہے اس مہینے میں ایک رات ایسی آئے گی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے سو کوشش کرے کہ اگر آپ سے کوئی ناراض ہے تو اسے منا لیں اگر کسی کا دل دکھایا ہے تو اس سے معذرت کر لیں روزے کی تکلیفوں کو ہنسی خوشی برداشت کرکے بھوک اور پیاس کی شدت یا کمزوری کی شکایت کر کر کے روزے کی ناقدری نہ کریں
جفا جو عشق میںہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں   ستم نہ ہوتو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں


مکمل تحریر  »

07/08/12

Toheen

انسان  اپنی توہین معاف کر سکتا ہے لیکن بھول نہیں سکتا
حضرت علی

مکمل تحریر  »

02/08/12

kal ho na ho

ہمارے ماضی کی یادیں اور ہمارے مستقبل کی فکر ہمارا آج برباد کرتی رہتی ہیں اور ہم اپنے آج سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے ،اس لیے چاہیے یہ کہ ہم آج جی بھر کے جی لیں کیونکہ جب ہمارا کل آئے گا ہمارا آج ہمارا ماضی ہوگا اور اگر ہم نے اپنا آج خوبصورت کر لیاتو مستقبل جیسا بھی ہوگا ہمارے ماضی کی یادیں اتنی خوبصورت ہوں گی کہ ہمیں اس دن کا دکھ بھول جائے گا ، چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو اگر دبا دیں تو وہ حسرت بن جاتی ہیں اور حسرتیں بڑی قیامت خیز ہوتی ہیں اس لئے جو چیز آج آپ کو ابھی لگ رہی ہے اگر وہ آسانی سے دستیاب ہے تو اسے ہاتھ بڑھا کر حاصل کرلیں آج اگر آپ کو آئس کریم کی طلب ہے تو موسم کی فکر نہ کریں اسے آج ہی لے لیں ، اگر آج آپ کو کوئی اچھا لگا ہے تو اسے آج ہی کہہ دیں ، اگر آج کسی کی آواز آپ کی دھڑکنوں میں تغیر پیدا کر دیتی ہے تو اسے بتا دیں کل شاید اسی کی آواز آپ کو اچھی نہ لگے اگر آج کسی کی مسکراہٹ سحرآفرین لگتی ہے تو اسے بتا دیں شاید کل اسکی تقدیر کے دکھ اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ چھین لین اگر آج کوئی آنکھوں سے ہنستا ہے اور اس کی آنکھیں آپ کو مدہوش کرتی ہیں اگر آج کسی کی گالوں میں ہنستے ہنستے ہلکے سے گھڑے پڑ جاتے ہیں اور وہ آپ کو گھائل کرتے ہیں تو اسے بتا دیں اگر آج ہسپتال میں کوئی نرس آپ کو سہارا دیتا ہے اور اس کے انداز میں آپکو ہمدردی نظر آتی ہے تو اس کا شکریہ ادا کردیں اگر آج کسی کی بات آپ کو ڈھارس دیتی ہے اگر آپ کا مخاطب بات کرتے کرتے آپ سے التفات کا اظہار کرتا ہے تو آج اس کا شکریہ ادا کردیں اگر آج رستہ بھول گئے ہیں اور کوئی آپ کو راستے پہ ڈال گیا ہے تو اس کا احسان مان لے ہوسکتا ہے کل کسی کی آنکھوں میں وہ مسکان نہ رہے ، کسی کے گالوں میں رہ ہلکے سے گھڑے نہ رہیں ، آج جس کے بالو ں کا کلر آپ کو پسند آگیا ہے ہوسکتا ہے کل وہ اپنی جاذبیت کھو دیں ، آج جس کی آنکھوں کی چمک آپ کو خیرہ کر دیتی ہے قسمت کے اندھیرے اس کی آنکھوں میں اداسی کی تاریکیاں پھیلا دیں اگر آج خدا نے آپ پر طاقت ،حسن اور شباب کے دروازے کھولے ہوئے تو اس کا شکر بھی آج ہی ادا کرلیں کہ بڑھاپے میں کمزوری و ناتوانی میں اس کے آگے جھکنے میں شکرانہ نہیں مجبوری ہوگی سو جو کرنا ہے وہ آج کردیں کل کا کیا بھروسہ کل ہونہ ہو اور آپ کی خواہشیں حسرت بن کر ساری زندگی آپ کو بے چین کرتی رہیں اور آپ خود سے کہتے رہیں کاش میں اسے روک لیتا ، کاش میں اسے کہہ لیتا

مکمل تحریر  »