30/09/13

مذاق رات

ایک سروے کے مطابق پاکستانی اپنے قریبی ہمسایہ ممالک کے شہریوں سے زیادہ ہشاش بشاش اور خوش باش رہنے والی قوم ہیں یہ بات حیران کن ضرور ہے کہ جس ملک میں ہرقت بم دھماکے ، دہشت گردی ، قتل وغارت گری ، چوری، ڈکیتی اور بھتہ مافیا کا بازار سر گرم ہو وہاں کے لوگ خوش وخرم رہنے والوں میں سر فہرست ہیں میرا نائر کی ہالی وڈ کی حالیہ فلم ”ریلکٹنٹ فنڈامنٹلسٹ “میں میشا شافی سے ایک گانا گوایا گیا ہے کہ بجلی آئے نہ آئے ڈھول بجے گا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستانی جن معاملات میں‌ رونا ہے ان میں‌ بھی ناچتے گاتے رہتے ہیں ویسے میرے ایک بہت ہی خوش رہنے والے دانشور دوست کا خیال ہے کہ خوش رہنا کوئی مشکل کام نہیں بس آدمی کو تھوڑا بے وقوف ہونا پڑتا ہے ویسے اس سروے کی حقیقت کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ گزشتہ دنوں ملک میں سیلاب نے تباہی مچائی لوگ بے گھر ہوگئے تو عوام کی اکثریت اس میں پریشان ہونے کی بجائے ایک جم غفیر کی صورت میں موٹر سائیکل اور گاڑیاں لیکردریاﺅں کے پل پر بچوں سمیت پہنچ گئے اور انہیں پل کے نیچے سے گزرنے والا سیلابی ریلہ دکھانا شروع کردیا بلوچستان میں آنے والے حالیہ زلزلہ میں اڑھائی سوافراد لقمہ اجل بن گئے ہیں لیکن پاکستانیوں کے لیے یہ خبراہم نہیں ہے بلکہ ان کے لیے خوشی کی خبر یہ ہے کہ اس زلزلہ کے نتیجے میں گوادر کے نزدیک سمندر میں ایک جزیرہ نمودار ہوگیاہے قوم زلزلہ کی تباہ کاریوں کا افسوس کرنے کی بجائے جزیرہ پرپہنچ کر سجدہ شکر بجا لارہی ہے اور اس کا نظارہ کررہی ہے سوشل میڈیا میں ”پراکسی تھیوری“ کے دانشور وں نے تو یہ شور بھی مچانا شروع کردیا کہ امریکہ اور مغربی ممالک اتنے سالوں سے پاکستان کے پیچھے اسی لیے پڑے ہوئے ہیں کہ یہاں یہ جزیرہ نکلنے والا تھا
عمران خان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے مولانا فضل الرحمان کو یہ مطالبہ جتنا بھی بچگانہ کیوں نہ لگے میرے خیا ل میں قابل غور ہے ہوسکتا ہو کہ خا ن صاحب نے سوچا ہو کہ تحریک طالبان ودیگر دہشت گرد جمعہ کو بھی چھٹی نہیں کرتے اگر انہیں دفتر کھول دیا جائے تو کم از کم وہ اپنی دفتری اوقات کا خیال رکھیں گے اورعوام کو ان دھماکوں سے ریلیف ملے گی کہتے ہیں کہ دفتر ی کام کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جو کام آپ ایک دن میں کر سکتے ہیں وہ داخل دفتر ہوتے ہی کئی کئی مہینے میں بھی نہیں ہوپاتا کیونکہ دفتر میں فائل ورک اور پراجیکٹ بنانے میں کئی کئی مہینے لگ جاتے ہیں اس طرح اگر دہشت گردوں کو دفتر کی عادت پڑگئی تو شاید ان کے خون آشام پنجوں سے عوام کو کچھ دیر کے لیے آرام مل سکے اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آئے دن جوطالبان کے ساتھی بعض طلباءتنظیموں کے ہوسٹل سے ملتے ہیں وہ اپنے دفتر میں ملا کریں گے اگر تو خان صاحب کی نیت یہ ہے تو ا س میں حکومت کو سیخ پا نہیں ہونا چاہیے اور ان کے مطالبہ پر غور ضرور کرنا چاہیے لیکن میرے ایک دانشوردوست کا خیال ہے کہ صرف عمران خان ہی نہیں بلکہ کوئی بھی خا ن جو بیان جوش میں دے وہ اپنے دل کی صفائی سے دیتے ہیں اس لیے ان کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے پٹھان تواپنی بیوی کی تعریف بھی کرنا چاہیں تو جوش محبت میں بغیر سوچے سمجھے یہ کہہ دے گا ” خدا کی قسم اتنا خوبصورت ہے کہ جی چاہتا ہے گولی مار دوں۔۔“
جہاں تک مذاکرات کی بات ہے اس میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو پچاس فیصد کامیابی ہوچکی ہے وہ یہ کہ حکومت” مذاق رات“ کے لیے تیار ہے لیکن دہشت گر د تنظیمیں ابھی تیار نہیں ہیں اسی لیے وہ مسجدوں ، مزاروں ، مارکیٹوں اور چرچ جیسی مذہبی عبادت گاہوں کے بعد اب سرکاری ملازمین کی بسوں تک کو نشانہ بنا رہے ہیں اور حکومت کے جانب سے ان کے قیدی رہا کرنے کے باوجود وہ اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ہر جنگ کا اختتام بھی ڈائیلاگ کی ٹیبل پر ہوتا ہے میری ذاتی خیال میں مذاکرات ہی کسی مسئلہ کا سب سے بہتر حل ہوسکتے ہیں لیکن امن قائم کرنے میں جوبات سب سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ کا مخالف آپکی امن کی خواہش کو آپکی کمزوری سمجھ لے تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جوحالیہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کے ساتھ ہوا نواز شریف تواپنے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کے ساتھ محبت کی پینگیں ڈال کر” ککلی کلیر دی“ کھیلنے کی تیاری میں تھے لیکن ان کے مذاکرات میں پہل کی خواہش کا جواب من موہن سنگھ نے یہ دیا کہ پاکستان کو دہشت گردوں کا مرکز قرار دے دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ خطے کو جن مشکلات کا سا منا ہے اس کی وجہ بھی پاکستان ہے وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم لگتا ہے دیہاتی عورتوں کی طرح میری شکایتیں لگانے گئے تھے ۔۔۔
سکھوں کے عقل و شعو ر کے معاملے میں کسی کو شک وشبہ نہیں ہونا چاہیے کہتے ہیں ایک سکھ کتابوں کی دوکان پر گیا اور کہنے لگا مجھے سکھوں کے بارے لطیفوں والی کتاب چاہیے دوکاندار نے حیران ہوکر کہا کہ وہ لطیفے نہیں سچے واقعات والی کتاب ہے من موہن کو پاکستان کی نیت پر شک اس لیے بھی ہے کہ سکھ عموماًشقی القلب ہونے کے ساتھ ساتھ شکی المزاج بھی ہوتے ہیں کہتے ہی ایک سکھ گھر آیا اور اپنی بھابھی کو پیٹنا شروع کر دیا اس کے بھائی نے پوچھا بھابھی کو کیوں مار رہے ہو کہنے لگا اس کا کریکٹر ٹھیک نہیں اس کے بھائی نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگا میرے جتنے بھی دوست ہیں وہ شادی شدہ ہیں وہ جب بھی فون کر رہے ہوں میں ان سے پوچھوں کہ کس کو فون کر رہے ہو تو وہ ہنس کر کہتے ہیں یار تیری بھابھی کو فون کر رہا ہوں ۔۔
اصل میں میاں صاحب کو سمجھ جانا چاہیے کہ من موہن سنگھ ہمارے پڑوسی ملک کا نحیف سا وزیر اعظم ہے جو اپنے ملک کی سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتا رہتا ہے پڑوسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آپکے گھر کے حالات کو آپ سے بہتر جانتا ہوتا ہے بھارت کا پاکستان بارے جو جارہانہ رویہ گزشتہ کئی دنوں سے جاری ہے اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اسے ہمارے ملک کے اندرونی حالات کا پتہ چل گیا ہے کہ ریاست اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ اس میں پانچ سال تک کی بچیوں کی عزت محفوظ نہیں ہے بچیوں کی عزت تار تار ہونے کے واقعات کا حل تو ہمارے مذہبی طبقہ نے یہ نکالا ہے کہ بعض علماءکے بقول اگر چار گواہ نہ ملیں جنہوں نے اس واقعہ کو دیکھا ہو تو اس خبر کو پھیلایا نہ جائے بعض کا خیال ہے کہ یہ واقعات دین سے دوری کا نتیجہ ہیں اس لیے چار ما ہ کی بچیوں کو بھی پردہ کرایا جائے یعنی ان کے خیال میں دین سے اس دوری میں بھی پانچ سال کی بچیوں کا قصور ہی ہے
حالیہ حکومت کی کار کردگی دیکھ کر ٹیپو سلطان کا مشہور جملہ ذہن میں آتا ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے حالیہ حکومت نے بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شیر کی سو دن کی حکومت دیگر حکومتوں سے بہتر ہے سو دنوں کے اندر پٹرول کی قیمت 98سے 110روپے لیٹر تک پہنچا دی گئی ہے توانائی کے ذرائع کی قیمتوں اور جی ایس ٹی میں اضافہ سے ضروریات زندگی کی قیمتوں میں شیر کی رفتار جیسی تیزی لائی گئی ہے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 10سے 15فیصد تک اضافہ ہواہے ، آٹے کی فی کلو قیمت 37سے یکبار 46 پرپہنچائی گئی ہے حالانکہ شیر تو آٹا کھاتا بھی نہیں ہے ۔۔۔سو دن کی کارکردگی یہ ہے کہ ڈالر 98 روپے سے بڑھا کر 105روپے تک پہنچادیا ہے اس طرح مسلم لیگی دوستوں کا کہناہے کہ یہ الزام غلط ہے کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے کیونکہ ہرچیز مہنگی نہیں ہوئی غیر ملکی کرنسی کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں بے انتہا کمی کر کے مسلم لیگ کی حکومت نے ثابت کیا ہے وہ چیزیں سستی بھی کر سکتی ہے
مسلم لیگ حکومت بچت کی پالیسی پر اس حد تک سختی سے کار بند ہے کہ بلوچستان میں وزیر اعلیٰ تو بنوا دیا ہے لیکن اس کی کابینہ ہی نہیں بن سکی کہتے ہیں ایک شخص سے کسی نے پوچھا تم کیا جاب کرتے ہو وہ کہنے لگا میں ہیڈ ماسٹر ہوں تو پوچھنے والے نے پوچھا تمہارے سکول میں کتنے ماسٹر ہیں وہ کہنے لگا میں اکیلا ہی ہوں ویسے شریف برادارن کا یہ خاصہ ہے کہ یہ بہت ساری عہدے اور وزارتیں اپنے پاس ہی رکھتے ہیں لیکن اب اضافی کام یہ کیا جارہاہے کہ اس میں تبدیلی کر کے پنجاب کے سارے اختیارات اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو دے دیے گئے ہیں صحافیوں کا شور و غوغہ ہے کہ بہت سے حکومتی و سرکاری عہدے اور سیٹیں بھی ابھی خالی ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں عہدے بہت زیادہ ہیں اور شریف بردران کے رشتہ دار کم۔۔ ویسے اگر بہت سے عہدے خالی ہیں توبھی کوئی بات نہیں حکومت کی سو دن کی کارکردگی دیکھ کر مجھے ہمارے کالج کا وہ پروفیسر یاد آگیا جس کی کلاس کے سارے طلباءاس کے مضمون میں فیل ہوگئے پرنسپل نے اسے اپنے آفس میں بلایا اور اسے کہا ”ویسے پروفیسر صاحب اگر آپ سارا سال بھی کلاس میں نہ آتے ۔۔۔تو ایسا رزلٹ پھر بھی آہی جانا تھا “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر محمود اصغر چوہدری اٹلی مورخہ 29ستمبر 2013ء

مکمل تحریر  »

29/09/13

Politeness


مکمل تحریر  »