30/11/12

عشق مجازی

"اپنی انا اور نفس کو ایک انسان کے سامنے پامال کرنے کا نام عشق مجازی ہے اور اپنی انا اور نفس کو سب کے سامنے پامال کرنے کا نام عشق حقیقی ہے، اصل میں دونوں ایک ہیں۔ عشق حقیقی ایک درخت ہے اور عشق مجازی اسکی شاخ ہے۔
جب انسان کا عشق لاحاصل رہتا ہے تو وہ دریا کو چھوڑ کر سمندر کا پیاسا بن جاتا ہے، چھوٹے راستے سے ہٹ کر بڑے مدار کا مسافر بن جاتا ہے۔۔۔ تب، اس کی طلب، اس کی ترجیحات بدل جاتیں ہیں۔"
زاویہ سوئم، باب :محبت کی حقیقت سے اقتباس

مکمل تحریر  »

چوٹ

 جس طرح غیر مرئی چیز ،مرئی چیزوں سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے اسی طرح بیرونی اور ظاہری چوٹیں اتنی خطرناک نہیں ہوتیں جتنی اندورنی اور ظاہراً نہ نظر آنے والی ہوتی ہیں کوئی دکھ انسان کو جتنی جلدی گھن کی طرح کھاتا ہے اور جتنا دیر تک قائم رہتا ہے اتنی دیر تک جسمانی چوٹ کا درد نہیں رہتا اگر اس سے بھی ذرا آگے جائیں تو جسم پر لگنے والی چوٹ اتنی تکلیف نہیں دیتی جتنی دل پر لگنے والی دیتی ہے دل سے بھی آگے ایک مقام ہے اور وہ ہے روح کاتوروح پر لگے ہوئے زخم دل یا جسم پر لگنے والی چوٹوں سے بھی زیاد ہ کرب ناک اور اذیت ناک ہوتے ہیں 

مکمل تحریر  »

28/11/12

تربیت

 

ترقی یافتہ معاشروں میں معاشرتی برائیوں سے آگاہی اورلوگوں کی تربیت کے لئے تدریس وتبلیغ کے مختلف طریقہ کار اختیار کئے جارہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں محراب ومنبر سے لیکر سیاسی و سماجی محاذوں پرصدیوں سے تربیت کا ایک ہی طریقہ رائج ہے اور وہ ہے ”ون مین شو“والا یعنی کسی بھی مسئلہ پر بات چھیڑنی ہوتو مذہبی ، سیاسی یا سماجی تنظیمات کی جانب سے بڑی تیاری کی ساتھ ایک اسٹیج سجایا جاتا ہے اسکے بعد ایک مہمان بلایا جاتا ہے جو دو دو تین گھنٹے بلاتکان بولتا ہے اور ایسی ایسی سریں لگاتا ہے کہ سننے والا کشمکش میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ بات کرنے والا مبلغ ہے، معلم ہے یا گلوکار ؟ اس ون مین شو میں اس کے سامنے ایک ہجوم اکٹھا کیا جاتا ہے جس میں سے کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ خطاب کے آخر میں کسی قسم کا سوال کرے اور اگر کہیں کوئی سوال کرنے کی جسارت کر بیٹھے تو اس کی ایسی درگت بنائی جاتی ہے کہ آئندہ وہ کسی بھی محفل میں سوال کی کوشش نہ کرسکے سیاسی محفلوں میں میزبان اعلان کر دیتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی سوال نہیں کیا جا سکتا عجیب معمہ بن جاتا ہے کہ سیاسی قائد سے سیاسی سوال نہ کریں تو کیا صرف و نحو پر گفتگو کی جائے سوال کیا جانا برائے راست قائد کی توہین کے مترادف سمجھا جاتا ہے مذہبی محافل میں سوال کر نے والے کے سر پر یہ خوف تلوار کی طرح لٹکتا رہتا ہے کہ اگر مبلغ کوسوال کو جواب نہ آتا ہوا تو وہ سیدھا سیدھا کافر کا فتوی ٰ لگا کر دائرہ اسلام سے خارج ہی نہ کر دے جدید دنیا میں انسان کی تربیت میں فلم اور تھیٹر کا بھی بہت اہم کردار ہے لیکن پاکستان جیسے معاشرے میں فلم اور تھیٹر کو اکثریت تو ویسے ہی گناہ خیال کرتی ہے اور جو لوگ اس کو گناہ نہیں سمجھتے وہ بھی ان کی مدد سے معاشرتی برائیوں کی بجائے فحاشی اور بے ہودگی کو ترویج تو دیتے ہیں لیکن ان کی مدد سے کسی سماجی مسئلہ کو خال خال ہی زیر بحث لاتے ہیں
 گزشتہ دنوں ایک سیمینار میں شرکت کرنے کا موقع ملا ،سیمینار کا انعقاد ایک ایسی ایسوسی ایشن کی جانب سے تھا جو یورپین یونین کے ایک پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے یہ پراجیکٹ اٹلی ،فرانس ، بلجیم ، پرتگال اور اسپین کے علاوہ دیگر ممبر ممالک میں بھی مختلف تنظیمات سر انجام دے رہی ہیںیہ تنظیمات نسل پرستی اور مختلف ایسے تاثرات جو معاشرے میں خو ف پیدا کرتے ہیں کے خلاف لوگوں کو آگاہی دینے کے لئے اسٹریٹ تھیٹر کا اہتمام کرتی ہیں لیکن اس تھیٹرکا سب سے دلچسپ پہلو یہ کہ اس کے کردار ایک مخصوص مدت کا” شو“ کرکے مسئلہ عوام کے سامنے رکھتے ہیں اور اس کے بعدعوام میں کھلی بحث چھیڑ دیتے ہیں ،حاضرین میں موجود ہرشخص کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ متعلقہ موضوع پر بات کرے ، اس پر سوال اٹھائے یااپنی تشکیک اوراپنے ابہام کا تذکرہ کرے ، تھیٹر انتظامیہ وہاں موجود ہر شخص کو یہ موقع بھی دیتی ہے کہ کہ وہ خود اٹھ کر اس شوکا حصہ بنے یعنی جو سین اسے پسند نہیں آیااس کو تبدیل کرائے یاخو د بحیثیت اداکار پرفارم کرکے بتائے کہ اگر یہ سین ایسے کیا جائے تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے اس شو کے اختتام پر تھیٹر انتظامیہ متعلقہ مسئلہ کے حل کے لئے عوام سے تجاویز طلب کرتے ہیں اورباہمی مشاورت سے ان کوباقاعدہ تحریر کرتے ہیں جو تجاویز علاقائی انتظامیہ سے وابستہ ہوں وہ ان تک پہنچائی جاتی ہیں جو ملکی سطح پر پارلیمنٹ، عدالت یا حکومت کو پیش کرنے والی ہوں وہ وہاں تک پہنچائی جاتی ہیں اور جوتجاویز یورپین یونین کی انتظامیہ تک پہنچانے والی ہوں وہ ان تک بھجوائی جاتی ہیں اس طرح تھیٹر کی مدد سے متعلقہ مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے عوام کو اپنی خامیوں کو محسوس کرنے اوران پر غور کرتے ہوئے اپنی اصلاح کا موقع بھی ملتا ہے
17نومبر کو ہونے والایہ سمینار اس تنظیم کا پراجیکٹ ختم ہونے پر منعقدکیا گیا تھا،یہ تنظیم مختلف موضوعات پر اٹلی کے مختلف شہروں میں اسٹریٹ تھیٹر کا اہتما م کر چکی تھی اس سیمینار میں مختلف شعبہ وکالت ، صحافت اور سیاست کے ماہرین نے مختلف ایسے موضوعات پر گفتگو کرنا تھی جویورپی معاشرے میں خوف کا باعث بنتے ہیں۔ مجھے یورپ میں موجو د تارکین وطن شہریوں کے مسائل اور انہیں جن نفرتو ں سے واسطہ پڑتا ہے ان پر گفتگو کرنا تھی میں نے مروج طریقے سے تقریر تیار کی اور وہاں پہنچ گیا لیکن وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ اس سیمینار میں بھی وہ مجھے ون مین شو والا موقع فراہم نہیں کرنے والے تھے بلکہ آج بھی انہوں نے حاضرین کو پورا موقع دیا کہ وہ مجھ سے سوالات کر سکتے تھے اور بیان کئے گئے مسائل کا حل اور تجاویز نہ صرف مجھ سے طلب کر سکتے تھے بلکہ اس پر ایک کھلی بحث کا آغاز کر سکتے تھے اور اس موضوع پر اپنی تجاویز دے سکتے تھے بحث شروع کرنے سے پہلے جو چند لمحے مجھے اپنی خطابت کے جوہر دکھانے میں میسر آئے وہ قارئین کے دلچسپی کے لئے پیش کرتا ہوں
”اٹلی میں تارکین وطن شہریوں کی تعداد 50لاکھ سے تجاوز کررہی ہے امیگرنٹس کی دوسری نسل سکولوں سے فارغ التحصیل ہوکر معاشرہ کا حصہ بن رہی ہے اگر اٹلی میں امیگریشن کو ابھی بھی سیکورٹی رسک کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے یا ان کا وجود معاشرہ میں خوف کا باعث ہے تو ظاہری بات ہے کہ اٹلی کا سیاسی و سماجی طبقہ اپنی سوسائٹی کے اتنے اہم حصہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا اور وہ ابھی بھی ایمرجینسی اور سیکورٹی خطرہ جیسی فضول بحثوں میں مبتلا ہے
کسی بھی صحت مند معاشرہ کے قیام میں دو طبقات کا کردار ستون کا سا ہوتا ہے جن میں سر فہرست ایک تو ہےں اس ملک کے سیاستدان اور دوسرا طبقہ ہے اس ملک کا میڈیا یہ دنوں ہی طبقات معاشرہ کو سمت دیتے ہیں
اٹلی کے سیاستدانوں کاحال یہ ہے کہ یہ ووٹ لینے کے لئے تارکین وطن شہریوں کے خلاف نفرت استعمال کرتے ہیں اور اپنے شہریوں کی ہمدردی اور ووٹ لینے کے لئے خوف کا کارڈ استعمال کرتے ہیں آ پ کی شناخت کی دہائی دیتے ہیں اور یہ کبھی نہیں بتاتے کہ یہ پچاس لاکھ شہری کس طرح معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیںاور یہ بھول گئے ہیں کہ اگر معاشرہ کے اس اہم جزو کو نظر انداز کیا گیاتواگلی نسلوں کے درمیان اجنبیت کی کتنی خلیجیں حائل ہوں گی جو کسی بھی صحت مند معاشرے کے لئے نقصان دہ ثابت ہوں گی
دوسرا طبقہ میڈیا یا جرنلزم کا ہے جو رائے عامہ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے حکومتی اداروں کی ریسرچ کے مطابق اطالوی میڈیا امیگرنٹس کے بارے منفی تاثر پیدا کر رہے ہیں ان کی رپورٹ کے مطابق اخبارات کا 52.8فیصد حصہ امیگرنٹس کی جانب سے کئے گئے جرائم اور ان پر ہوئی عدالتی کاروائیوں پر ہوتا ہے 34%حصہ ان کے بارے بنائے گئے سخت قوانین کے بارے 5.3%حصہ غیرقانونی پر اٹلی داخل ہونے والی کھیپ پر اور صرف 7.9% حصہ ان کے کلچر اور مسائل کے بارے ہوتا ہے ۔۔۔
دودن پہلے ہی ایک مراکشی مسلمان کے بارے خبر چھپی ہے کہ اس نے اپنی گیارہ سالہ بچی اور چھ سالہ بیٹے کو اس لئے قتل کر کے خودکشی کی کوشش کی کہ اس کی بیوی اس سے ناراض ہو کر چلی گئی تھی لیکن چونکہ اطالوی میڈیا کو اس خبر میں کوئی مصالحہ نظر نہیں آیا اس لئے اخبارپر سرخی یہ لگائی گئی کہ والد نے اپنی بیٹی کو اس لئے قتل کردیا کہ وہ اسے پردہ کروانا چاہتا تھااور اس طرح اخبار والوں نے دودن کے اند ر ہی فیصلہ بھی سنا دیا اور مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ بھی بنادی کہ مسلمان اتنے ظالم ہیں کہ پردہ کے لئے اپنی معصوم بیٹیوں کو قتل بھی کر دیتے ہیں آپ خود اندازہ لگا لیں کہ اسطرح کے جرنلزم کے بعد معاشرہ میں تارکین وطن شہریوں کے خلاف اور ان کے مذہب کے بارے کیسی رائے عامہ پیدا ہوگی(ہال میں تالیاں اور پبلک کی جانب سے شرمندگی کااظہار )ہمیں ایک صحت مند اطالوی معاشرہ کے قیام کے لئے سیاست اور میڈیا کے کردار کا تعین کرنا ہوگا
 جہاں تک بات ہے خوف کی تویاد رکھیں کہ تارکین وطن شہری آپ لوگوں سے زیادہ ہمہ وقت خوف کی حالت میں ہوتا ہے اس کاخوف اس شخص جیسا ہوتا ہے جسکا مکان کسی قدرتی آفت کی زد میں تباہ وبرباد ہوجائے تو اسے اپنا مکان گرنے کا اتنا خوف نہیں ہوتا جتنا بعد میں اس کونئے سرے سے تعمیر کرنے اور گھر کی ایک ایک چیز اکٹھی کرنے کا ہوتا ہے ان کے لئے چونکہ نیاملک ،نئی زبان اور معاشرہ بھی نیا ہوتا اس لئے اس میں رہائش کا اندیشہ ہر پل موجود رہتا ہے آج اطالوی سکولوں میں ان کے بچے پڑھ رہے ہیں انہیں اپنی مذہبی روایات کھو جانے کا خوف ہے،بچوں کی شہریت اطالوی نہ ہونے کے باعث ان کے مستقبل کے خواب سجانے کاخوف اور تنکاتنکا جوڑتے والد کو روزگار کے کھو جانے کا خوف ہمہ وقت پریشان رکھتا ہے
اگر ہم ان اندیشوں کو دور کرنا چاہتے اور ایک ملٹی کلچرل سوسائٹی تخلیق کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان باتوں پر غور کرنا چاہیے
کہ ابھی تک اٹلی والے ”ہم “ اور ”وہ“ یعنی امیگرنٹس کا فرق نہیں مٹا سکے دنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان صرف دو قسم کے ہوتے ”اچھے “یا” برے“ اس کے علاوہ کسی بھی جنس ،قوم ، نسل یا مذہب کی تقسیم یا تفریق کرنا فضول ہے ۔
اٹلی کی آخری مردم شماری کے مطابق حالیہ کساد بازاری کے نتیجے میں یہاں سے آٹھ لاکھ تارکین وطن شہری ہجرت کر کے دوسرے ملکوں میں شفٹ ہوگئے ہیںیہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ وہ اٹلی میں اپنے مستقبل کو محفوظ محسوس نہیں کرتے یاد رکھیں اٹلی کا مستقبل تارکین وطن شہریوںکے بغیر ناممکن ہے ، اعدادوشمار کرنے والے اداروں کے مطابق2050ءتک پینسٹھ سال سے زائد عمر والوںاطالوی شہریوں کی تعداد 22ملین سے تجاوز کر جائے گی ایسی صورت میں سترہ ملین کام کرنے والے ورکرز کی کمی ہوجائے گی،ہمیں اس امیگریشن والے پراسس کے بارے حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی نفرت اور سختی کی پالیسی سے حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتی
گاندھی نے کہا تھا کہ میری نظر میں جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں معاشرے کے کمزورطبقہ کو طاقتور کے برابرمواقع ملیں
چونکہ امیگرنٹس کسی بھی ملک میں کمزور طبقہ ہوتا ہے اس لئے اگر انہیں جمہوری سسٹم کا حصہ نہ بنایا جائے انہیں ووٹ کا حق نہ دیا جائے تو و ہ کبھی بھی طاقتور کے برابر حقوق نہیں لے سکتے اور معاشرہ میں حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہوسکتی ۔۔۔۔ “
سیمینار کے آخر میں تمام تجاویز نوٹ کی گئی اور عوام کی جانب سے اکثریت رائے سے تارکین وطن بچوں کو پیدائش کے وقت ہی اطالوی شہریت کے حصول کے لئے قانون سازی اور میڈیا کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ متعین کرنے کے سفارشات تیار کی گئی تاکہ یورپین یونین کو بھجوائی جاسکیں





مکمل تحریر  »

23/11/12

میٹھاپانی

اپنی ادھوری محبت کی پوری داستان سنا چکنے کے بعد اس نے مضطرب نظروں سے بابا جی کی طرف دیکھا اور پوچھنے لگا ”باباجی ۔اس ساری داستان میں میری غلطی کیا تھا؟ سب سے بڑی سزا مجھے کیوں ملی؟ بے چینی میرا مقدر کیوں بن گئی ہے؟ اور کیا میرے دل کواب کبھی سکون میسر نہیں آئے گا ؟“
 باباجی کے چہرے پر عجیب سی طمانیت تھی ایسے جیسے غم جاناں کے ان بکھیڑوں سے ان کا کوئی لینا دینا نہ ہو وہ مسکرائے اور کہنے لگے میں تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں اسے باباجی کی بھول بھلیوں والی یہی عادت عجیب لگتی تھی کہ وہ کبھی بھی کسی بات کا دو ٹوک جواب نہیں دیتے تھے وہ گویا ہوئے ۔۔۔۔۔
”ایک دفعہ صحر ائی گاﺅں کے ایک رہاءشی نے ایک مسئلہ کے لئے حاکم وقت سے ملاقات کے لئے سفر اختیار کیا تو راستہ میں اسے ایک میٹھے پانی کا کنواں ملااس نے اس کنویں سے پانی پیااتنا میٹھا پانی اس نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں پیا تھا وہ سمجھا شاید یہ پانی کی کوئی انمول اورنایاب قسم ہے اس نے سوچا کہ وہ بادشاہ سے ملنے جارہا ہے تو کیوں نہ اس کے لئے بھی تحفے کے طور پر پانی لے جائے جب وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا تو اس نے بادشاہ کو اپنی درخواست پیش کی اور وہی پانی تحفے کے طور پر بادشاہ کہ یہ کہتے ہوئے دیا کہ”بادشاہ سلامت آپ نے اتنا میٹھا پانی اپنی زندگی میں کبھی نہیں پیا ہوگا“ بادشاہ نے پانی پیا اسے اس پانی میں کوئی خاص بات نظر نہ آئی لیکن اس نے اس کا مسئلہ حل کیا اور انعام وکرام دیکر رخصت کیا لیکن اس سے ایک شرط رکھی کہ وہ اپنا سفر یہیں ختم کرے گا اور یہیں سے واپس اپنی بستی لوٹ جائے گا“ اس نے بادشاہ کے حکم کی تکمیل کی اور انعامات لیکر واپس لوٹ گیا بادشاہ کے وزیر نےاس سے دریافت کیا کہ ”آپ نے اس صحرائی کو یہیں سے واپس لوٹ جانے کا کیوں کہا؟“تو بادشاہ کہنے لگا کہ وہ بے چارا اتنا بھولا اور سادہ لوح ہے کہ پانی کی میٹھے ذائقہ سے ہی آشنا نہیں تھا اور ایک عام پانی کو بڑا نایاب سمجھ رہا تھا میں نے اسے یہیں سے واپس اسے لیے بھیج دیاہے کہ وہ اگر میرے دوسرے شہروں میں جاتا تو دیکھتا کہ اس سے بھی بہتر پانی ہمارے ملک میں موجو د ہے وہ اگر پانی کے اصلی ذائقہ سے آشنا ہوجاتا تو اسے نایا ب نہیں سمجھتا اور شاید اسی قسم کے پانی کا مطالبہ سارے علاقے کے لیے کر دیتا“یہ واقعہ سنا کر بابا جی کہنے لگے ”اصل میں اس سے ملنے سے پہلے تم بھی محبت کے اس ذائقہ سے آشنا نہیں تھے اس لیے تمہاری زندگی سکون سے گزر رہی تھی اور تم بھی کڑوے پانی کو ہی میٹھا سمجھ رہے تھے لیکن جب سے اس نے تمہیں میٹھے پانی کی مٹھاس سے آشنا کراد یاہے تمہاری زندگی سے سکون غائب ہوگیا ہے اور یہ سکون اب کبھی آئے گا بھی نہیں ۔۔۔“ اس نے اضطرب بھرے لہجے میں پھر سوال کیا ”تو کیا پھر میں اس بے سکونی و بے چینی کو اپنا مقدر سمجھ لوں“
بابا جی پھر مسکرائے اطمینان نے پھر ان کے چہرے کو اپنی آغوش میں لے لیا کہنے لگے” نہیں۔ بالکل نہیں۔۔۔۔۔ تم اس محسن کے دئے ہوئے اس انمول ونایاب تحفے کو لوگوں میں بانٹ دو۔۔۔۔۔۔ اس مٹھاس کو اپنے لہجے میں لے آﺅ۔۔۔۔۔

میں جانتا ہوں اس مٹھاس کا قحط تمہیں تاریکی میں جلنے والی شمع کی طرح کر دےگا اور لمحہ بہ لمحہ تمہارا وجود اس بے چینی کی آگ میں جل کر کم ہونا شروع جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یاد رکھوکہ شمع خود تو جل کر راکھ ہوجاتی ہے لیکن اس کی روشنی  کئی گم راہ مسافروں کو جانب ِمنزل سفر کا موقع دے دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔“
باباجی پھر مسکرائے لیکن ان کی آنکھوں میں نمی سی تیرنا شروع ہوگئی تھی جیسے وہ بھی تاریکی میں جلنے والی کوئی شمع ہوں


مکمل تحریر  »

20/11/12

نعم البدل

آج اس کے لہجے میں غصے اورمایوسی کے ساتھ گستاخانہ پن کی جھلک بھی شامل تھی وہ کہنے لگا ”بابا جی آپ کی ساری باتیں بھی سچ نہیں ہیں آپ کا سارا فلسفہ بھی حقیقت کے قریب نہیں ہے “باباجی کما ل اطمینان سے مسکر ا دئے اور کہنے لگے ”عزیزم میں نے پیغمبری کا دعویٰ تو کبھی نہیں کیا اور نہ ہی اپنوں باتوں کو وحی کا درجہ دیا ہے البتہ تم بتاﺅ کیا ہوا ہے؟ “ وہ اسی بے چینی سے گویا ہوا جو اس کی طبعیت کا خاصہ تھی ”باباجی آپ نے کہا تھا کہ ، انسان کے اندر بھو ل جانے کی صلاحیت بہت بڑ ی نعمت ہے اور کسی کو بھلانے کے لیے وقت بہت بڑا مرہم ہے  آپ نے کہا تھا کہ جسطرح ایک کھیل میں اچھا کھیلنے والا کھلاڑی ،ایک اداکار کی اداکاری اورایک گلوکار کی موسیقی کانوں کو بھلی لگ جائے تو انسان ان پر فریفتہ ہوجاتا ہے لیکن جوں ہی کوئی نیا کھلاڑی ، کوئی نیا اداکار یا کوئی نیا گلوکار ان سے بہتر فن کا مظاہرہ کرے تو انسان پرانوں کو بھول کر نئے آنے والوں کو دل میں بسا لیتا ہے ،اور آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ پرانے چہرے نئے چہروں کی جگہ لے لیتے ہیں ، نئی محبتیں پرانی محبتوں کی یاد بھلا دیتی ہیں زندگی میں نئے آنے والے چھوڑ کے جانے والوں کا نعم البدل بن سکتی ہیں ۔ آپ کی انہی باتوں کو سن کر میں نے نئے تعلقات ، نئی دوستیاں اور نئے رشتے تلاش کرنی کی کوشش کی لیکن کوئی نیا چہرہ اس دلنشین چہرے کو آنکھوں سے ہٹا نہیں سکا کوئی نیا عکس اس پرانے عکس کا نعم البدل نہیں بن سکا“ بابا جی مسکرا دئے کہنے لگے ”دل و جسم کے رشتے اور ہوتے ہیں اور روح کے تعلق اور ہوتے ہیں ۔۔روح کے رشتوں میں کسی پہلے کی حیثیت ثانوی نہیں ہوتی ۔۔۔کوئی نیا جسمانی رشتہ پرانے روحانی رشتہ کانعم البدل نہیں ہوسکتا۔۔تم دیو داس کی طرح اپنی ”پارو“ کو اگر کسی ”چندر مکھی “ کے جسم میں ساری زندگی ڈھونڈتے بھی رہو تو کبھی کامیاب نہیں ہوگے “ 

مکمل تحریر  »

18/11/12

سانچہ

اس کے گاﺅں میں ایک بہت ہی خوبصورت درخت تھا جس کے بارے عجیب عجیب قصے بھی مشہور تھے کسی نے اسے کہا کہ اس درخت میں ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ جب کسی کو کوئی دکھ پہنچے تو اگروہ اس درخت کو آکر گلے لگالے اور اپنے دل کا حال سنالے تویہ درخت اس کا غم جذب کر لیتا تھا وہ ایک پڑھا لکھا سمجھ بوجھ والا شخص تھا ان باتوں کو توہمات سمجھتا تھا لیکن ایک دن اس نے یوں ہی آزمانے کے لئے درخت کو گلے لگایا اور اپنے دل کا حال سنانا شروع کر دیاباتیں ختم ہوئیں تو اسے محسوس ہوا کہ اس کے غموں کا بوجھ واقعی ہلکا ہوگیا ہے وہ ہنستا مسکراتاواپس لوٹا
اس کے بعد اس نے اپنی عادت ہی بنا لی کہ اسے جب بھی کوئی چوٹ پہنچتی کوئی دردملتا جب بھی کسی غم سے اس کا ناتا جڑتا اوراس کادل غمگین ہوتاتو وہ اس درخت کو گلے لگالیتا اور چیخیں مارمار کر اسے اپنے دل کا حال سنانا شروع کر دیتا جب وہ واپس لوٹتا تو اپنے آپ کو ہلکا محسوس کرتا عقل اور شعور کی ساری بحثیں اس احساس اطمینان کے سامنے مات کھاجاتیں جو اسے بعد میں نصیب آتا تھا اسے آہستہ آہستہ محسوس ہوا کہ وہ اس شجر کا اسیر ہونا شروع ہوگیا تھا اسنے اس درخت سے دوستی کر لی تھی اسنے سنا تھآ کہ دوست وہی ہوتا ہے جس کو سارے غم سنادیں تو غموں کو بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے چاہے وہ غموں کو کم کرنے میں کچح بھی نہ کر سکتا ہو
گاﺅں کے کچھ لوگوں کو جب پتہ چلا کہ ایک شخص ایک شجر سے باتیں کرتا ہے تو انہوں نے مختلف چہ مہ گوئیاں شروع کر دیں اور اسے پاگل کہنا شروع کردیا گاﺅں کے مولوی کوخبر ہوئی تو اسنے اس پر شرک کا فتوی ٰ داغ دیا کہ یہ ایک شجر کی پوجا کرنا شروع ہوگیا ہے مولوی نے گاﺅں کے لوگوں کو بھڑکانا شروع کر دیا اور اس بات پر اکسایا کہ فساد کی جڑ اس درخت کو ہی کا ٹ دیا جائے
 وہ درخت اس کا دوست تھآ اس کا  آخری سہارا تھا جس کی بنا پر اسے غموں سے نجات ملتی تھی وہ مولوی صاحب کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا اور عرض گزار ہوا کہ اس درخت کو نہ کاٹاجاے کہ یہ فطرت کی نشانی ہے اور وعدہ کیا کہ وہ کبھی اس درخت کوگلے نہیں لگائے گا اس کے اس وعدہ کے بعد گاﺅں والوں نے درخت کا ٹنے کا ارادہ ترک کر دیا معاشرہ جیت گیا، ریت رواج جیت گئے اور دوستی کا رشتہ ہار گیا اس نے درخت کے پاس جانا بھی چھوڑ دیا اور اسے اپنا حال سنانابھی چھوڑ دیا لیکن آج بھی جب غم کی گھٹا ٹوپ راتوں میں اس کا دل کسی کو گلے لگاکر اپنے حال سنانے کو کرتا ہے تو اسے وہ درخت بہت یاد آتا ہے
لیکن کیا کریں کہ رسم ورواج کی اس دنیامیں ہم نے ہر رشتہ ہر ناتا اور ہر تعلق کو ایک نام کے سانچے میں ڈالا ہوا ہے اسی لئے ہمیں ہر اس تعلق ہراس ناتے اور ہر اس رشتہ کی سمجھ نہیں آتی جو ہمارے بنائے ہوئے رسم ورواج کے سانچے میں نہ سمائے جب تک کسی بھی تعلق کو کوئی نام نہ دیا جائے وہ غیر فطری سمجھا جاتا ہے حالانکہ اتنی خوبصورت دنیا میں قدرت کی سب نشانیوں میں سے کسی سے بھی محبت ہوجانا عین فطرت کا ہی مظاہرہ ہے 

مکمل تحریر  »

07/11/12

راحت

جو چیزیں انسا ن کوراحت کا احساس دلاتی ہیںان کا انحصار اس بات پرہے کہ وہ انسان کی طبیعت کوکتنی بھلی محسوس ہوں جیسے خوبصورت رنگ اور سبزہ آنکھوں کوسکون دیتا ہے اسی طرح قدرتی مناظراور بہتا پانی ذہن کو ، عقل و شعور کی باتیں دماغ کو، خو شبوناک اور سونگھنے کی حس کو ، لذیذ کھانے قوت ذائقہ کواور دلکش و سریلی آوازیں کانوں کو راحت پہنچاتی ہیںلیکن راحت اور مسرت کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسا عمل ہو جو انسانی احساسات میں ارتعاش پیدا کرے اور مسرت سے آگاہی ممکن بنائے خوشی کا احساس اس آگ کی طرح ہوتا ہے جو پتھر میں پوشیدہ تو ہوتی ہے لیکن عام حالات میں نظر نہیں آتی لیکن جوں ہی اس پتھر پر ضرب لگائی جائی تو اس کے اندر ارتعاش پیدا ہوتے ہی وہ اپنے اندر چھپی آگ کو باہر نکال دیتا ہے پرندوں کی چہچہاہٹ ، عصر کی اذان ، صبح کی تلاوت اور نعت کے میٹھے بول یہ سب ایسے سریلے احساسات ہیں جن کے سننے سے انسان کی اندورنی دنیا میں راحت و فرحت پیدا ہوتی ہے انسانی طبیعت میں یہ فرحت یہ خوشی پہلے سے موجود ہوتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ انسان کے پتھر دل پر ضرب لگانے کے لئے کسی آرٹسٹ کی ضرورت ہوتی ہے جو اس احساس کو باہر نکالنے کا سبب بنے انسان کی خوشی اس بات میں بھی مضمر ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو پہچان لے کہ کونسی ضرب اس کے پتھر دل میں ارتعاش پیدا کرنے اور اس کے اندر ونی حرارت باہر نکالنے کا سبب بن سکتی ہے
انسان کی طبیعت شاد ہو تو فطری سے بات ہے کہ وہ کچھ گنگناتا شروع کر دیتا ہے زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب انسانی معاشرہ میںمادیت پرستی نے عروج نہیں پکڑ اتھا اور انسان نے خواہشات کے گودام بھرنے کا مشغلہ نہیں اپنا یا تھاتو شام ڈھلتے ہی دیہات کے پر سکون ماحول میں ایک طرف فضاﺅں میں قطار در قطار پنچھی اپنے ٹھکانوں کو لوٹتے تھے تو دوسری جانب کہیں دن بھر کھیتوں میں مشقت کرنے والا کسان اپنے ڈھور ڈنگر کے ساتھ” ماہیے “گنگناتا واپس گاﺅں کولوٹتا تھاتو کہیں شہر کا فیکٹری ورکر اپنی سائیکل پر شاداں وفرحاں اپنے راہ تکتے گھروالوں کے پاس لوٹنے کے لئے اپنے ہونٹوں پرہلکی سی سیٹی سجاتا تھا یوں تو ”سیٹی گم ہونا “کامحاورہ کسی مشکل میں پھنس جانے کی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن پاکستانی بالخصوص خوش ہونا اور خوشی سے محظوظ ہونا بھول گئے ہیں اس بات کا اندازہ مجھے گزشتہ دنوں اٹلی کے شہر میلان میں پاکستان کی دنیائے موسیقی کے شہنشاہ راحت فتح علی خان کا کنسرٹ دیکھنے سے ہوا راحت ان دنوں ورلڈ ٹور پر تھے اور ان کے ٹور کا آخری پروگرام فیشن کی دنیا میں اپنا بلندمقام رکھنے والے شہر میلان میں تھا
راحت فتح علی خان کو کون نہیں جانتا اس وقت انڈین، پاکستانی اور بنگلہ دیشیوں کے علاوہ شایدہی کوئی ایسا اردو سمجھنے والا ہو جو اس کی شہرہ آفاق موسیقی سے بے خبر ہو ،راحت فتح علی خان کے تعارف کراتے ہوئے انہیں نصرت فتح علی خان کا بھتیجا بتا نا ان کے فن کے ساتھ ناانصافی ہے کیونکہ جب اتنا بڑا نام ان کے ساتھ جڑتا ہے تو ان کا قد چھوٹا لگنا شروع ہوجاتا ہے جیسے کسی چوٹی کا مقابلہ کسی بلند پہا ڑسے نہیں کرنا چاہیے اسی طرح ان کے تعارف میں نصرت فتح علی کا حوالہ نہیں دیا جانا چاہیے اگرکچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قسمت کی دیوی راحت فتح علی خان پر مہربان ہے تو انہیں شاید راحت کو سننے کا موقع نہیں ملا کیونکہ وہ اگر انہیں سن لیں تو انہیں اندازہ ہوکہ راحت کی کامیابی میں قسمت کی بجائے اس کی ذاتی محنت کا کتنا بڑا عمل دخل ہے
پاکستانیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں اپنے ہیرے کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کسی غیر کے ماتھے پر چمکنا شروع ہوتا ہے راحت فتح علی خان کی عالمی سطح پر کامیابیوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب وہ پڑوسی ملک کے فلم سازوں کے ہاتھ آیااورانڈیامیں کامیاب ہونے والی فلمیں اس کے ہر دلعزیز گیتوں کی مرہون منت ہونے لگیں فلم" دبنگ " کے ایک گیت پر انہیں چار ایوارڈ ملے جن میں آئیفا ایوارڈ سرفہرست ہے 2010ءمیں شاہ رخ خان کی فلم " مائی نیم از خان" کے لئے راحت کے میوزک نے وہ مقام بنایا کہ اٹلی میں اس کی جب اطالوی ڈبنگ ریلیز ہوئی تو وہ اطالوی بھی اس پر سر دھنتے پائے گئے جنہیں اردو کی سمجھ ہی نہیںہے بالی وڈ فلموں میں اسکے گیت سال کے سب سے زیادہ سنے جانے والے گانوں کا ٹائیٹل بھی لینا شروع ہوگئے اور آخر راحت فتح علی خان کے گانے " تیری میری ، میری تیری پریم کہانی"کی دنیا بھر میں مچی دھوم کی بدولت انڈیا کی معمولی نوعیت کی فلم بھی ڈیڑھ ارب روپے کا ریکارڈ بزنس کرگئی گزشتہ دنوں انہیں اسی گیت کی بنا پر لندن میں اس عشرے کا بیسٹ ایشیائی سنگر کے ایوارڈسے بھی نواز ا گیا
راحت نے 2003ءمیں بھارتی فلموں سے گیتوں کا سفر شروع کیا توہٹ گانوں کی لائین لگادی اخبارات میں یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ راحت فتح علی خان بیرون ممالک میں ایک پروگرام کا معاوضہ ایک لاکھ امریکی ڈالر لینے والے پہلے پاکستانی گلوکار بھی بن گئے ہیںایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق وہ پہلے پاکستانی گلوکار ہیں جنہیں امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپ سمیت دیگر ممالک میں پرفارم کرنے کے فی شو ایک لاکھ امریکی ڈالر ادا کئے جارہے ہیں جبکہ وہ پاکستان میں ایک شو میں پرفارم کرنے کا معاوضہ بیس سے پچیس لاکھ روپے وصول کرتے رہے ہیں راحت فتح علی خان کے منیجرکے مطابق ایک لاکھ امریکی ڈالر صرف راحت فتح علی خان کی پرفارمنس فیس ہے جبکہ بیرون ملک جانے کے لئے بیس سے زائد افراد پر مشتمل ٹیم کی ائیر ٹکٹنگ، فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام اور دیگر مراعات کے اخراجات پروموٹرز کے ذمے ہوتے ہیںڈیڑھ ارب کے باسیوںکا ملک انڈیا جن کا اوڑھنا بچھونا موسیقی ہے اور جو موسیقی کو اپنی دیوی ”سرس وتی “ کی دَین سمجھتے ہیں ان کے ملک میں جاکرہمارے سنجیدہ گائیک اپنے فن کا لوہا منوارہے ہیں اور ان سے اپنے گھٹنوں کو ہاتھ لگوا رہے ہیں اور دوسرے جانب ہمارے ملک کی حالت یہ ہے کہ ہم بازاری گانوں اور گھٹیا شاعری کو عروج دے رہے ہیں تاکہ اس ملک سے آرٹ و فن کا دیوالیہ نکل جائے
 میلان میں ہونے والے شو میں اٹلی میں پاکستانی قونصلیٹ سے قونصل جنرل زاہد علی خان کے علاوہ پاکستانیوں کی قلیل تعداد موجود تھی لیکن انڈیا اور بنگلہ دیش کے شہری اپنی اپنی فیملیوں کے ہمراہ بڑے پر جوش طریقے سے اس کنسرٹ میں شامل ہوئے اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم پاکستان سے آنے والے سیاسی کلاکاروں کے جھانسے میں آکر تو ہزاروں یورو خرچ کر سکتے ہیںلیکن ہم نہ تو فن کے قدر دان ہیں اور نہ ہی ہم آرٹ شناس ہیں چھ سات سو شائقین ِموسیقی میں فخر پاکستان راحت فتح علی خان کے اپنے دیس سے شامل ہونے والے اوورسیز پاکستانیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی لیکن راحت فتح علی خان بڑے فخر سے اپنا اور اپنے گروپ کا تعارف بحیثیت پاکستانی ہی کراتے رہے
اگرکوئی شخص کسی بھی فن ،کھیل یا آرٹ میں اپنا لوہا منوا لے تواس کے چاہنے والوں میں سرحدوں کی بندش ختم ہوجاتی ہے جب لوگ کسی کی عزت اسکے فن کی بنا پر کرنے لگیں تووہ سب کے دلوں پر راج کرنا شروع ہوجاتا ہے کسی بھی صحت مند معاشرے کی ترویج میں فن اور آرٹ مثبت کردار ادا کرتے ہیں بین الاقوامی سطح پر امن کی کاوشوں میں سب سے اہم کردارکسی بھی ملک کے آرٹسٹ ، کھلاڑی ، فنکار اور گلوکار ہی بہتر طریقے سے ادا کرسکتے ہیں کیونکہ ان کے فن کے مظاہرہ میں کسی ہتھیار ، کسی بندوق اور کسی بارود کی ضرور ت نہیں ہوتی اور نہ ہی فن وآرٹ کی دنیا کسی ملک ،کسی علاقہ یا کسی سرحد کی جاگیر ہوتی ہے جب کوئی آرٹسٹ سب میں ہر دلعزیز ہوجاتا ہے تو پھر ہر ملک کے شہری کو وہ اپنا لگتا ہے میلان کنسرٹ میں بھی راحت کی موسیقی نے پاکستانی، انڈین ، بنگلہ دیشی ، افغانی اور اطالوی باشندوں کو ایک لڑی میں پرو دیا تھاان کی درمیان دوریوں کی دیواریں ہٹ گئی تھیں اور وہ اسی کے رنگ میں رنگے گئے ان کے چہرے پر ابھرنے والی شادمانیوں سے اندازہ ہوتاتھا کہ راحت فتح علی خان کو پتھر دلوں پر ضرب لگا کر خوشی کی حرارت باہر نکالنے کا فن آتا ہے وہ گا تو بیٹھ کر رہے تھے لیکن ان کے فن میں اتنی طاقت تھی کہ سامنے کرسیوں پر بیٹھنے والے بار بار پاﺅں پر کھڑے ہوجانے پر مجبورہوجاتے تھے راحت نے کنسرٹ ہال کی انتظامیہ اور موسیقی سننے آنے والے اطالوی باشندیوں کے سامنے یہ ثابت کر دیا کہ اگر انسان کے فن میں کمال ہو تووہ اچھل کود کئے بغیر ”اللہ ہو اللہ ہو “کی ضرب لگا کر لوگوں کو دلوں پر دستک دے سکتا ہے اور ان پر وجدکی کیفیت طاری کر سکتا ہے

مکمل تحریر  »

04/11/12

موت سے اٹلی تک کا سفر

موت سے اٹلی تک کا سفر
  تحریرمحمود اصغر چودھری 
 
ہجرت انسانی سرشت میں تب سے شامل رہی ہے جب سے انسان اس دنیا میں بھیجا گیا ہے ،بالکل اسی طرح جب کوئی انسان سخت گرمی میں موٹے کپڑے اتارنے اور سخت سردی کی صورت میں موٹے کپڑے یا سویٹر پہننے کی کوشش کرتا ہے یہ چیزبھی اس کی فطرت میں ہے کہ جب اس پرجیناتنگ اور مرنا مشکل ہوجاتا ہے تو وہ ایک شہرکو چھوڑ کر دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر اختیار کرتا ہے ۔ جس طرح انسان نے پانی کی تلاش میں دریاﺅں اور چشموں کے نزدیک شہر آباد کئے ،بالکل اسی طرح جب اس کی زندگی کوافلاس ،غربت ،جنگوں یا دہشت گردی جیسی عفریت کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے فوری طور پر ایک مقام سے دوسرے مقام منتقل ہونے میں کبھی دیر نہ کی اٹلی میں امیگریشن پر جاری بحث نے بہت سے ممالک کے باشندوں کو اس جانب ہجرت پر مجبور کیاہے ،گزشتہ دنو ں اٹلی کے ساحلوں پر افریقہ کے غریب ترین ممالک ایریتریا سے ایک کشتی پہنچی ہے جو وہاں سے روانہ ہوتے ہوئے تو 78افراد پر مشتمل تھی مگر اٹلی پہنچنے تک ان کی تعداد5 رہ گئی،73افراد اپنی آخری منزل یعنی موت کی جانب روانہ ہوگئے موت کا سمندر پار کر کے آنے والے ان پانچ مسافروں کو اٹلی کے حالیہ قانون کے تحت مجرموں کی لسٹ میں شامل کیا گیا ہے ،کیوں کہ ائیر کنڈیشنڈ پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے اور کئی سالوں تک ان ممالک میں کالونیزم کے ذریعے انکو اپنا غلام بنانے والے اب نہیں چاہتے کہ انسان اپنی سرشت اور فطرت کے عین مطابق رونما ہونے والے عمل کا ارتکاب کرے ، ان کے خیال میں گرمی میں کپڑے نہ اتارنا اور سردی میں ٹھٹرتے رہنا غیر فطری تو ہے مگر اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ بھوک افلاس ، سیاسی ابتری اور انہی کے غلاموں اور ان کی آشیر باد سے آنے والے حکمرانوں کے ظلم وستم سے تنگ آکر بھاگنے والے مجبور ، مقہور اور مظلوم افراد کو پناہ دی جائے
زندہ بچ جانے والوںمیں ایک لڑکی کا نام ”ٹیتی ٹازرار“ہے جس کا سفر21دن پہلے نہیں بلکہ ایک سال چار ماہ اور 21دن پہلے شروع ہوا تھا جوپانچ بہنوں اور ایک بھائی کی بہن ہے جس نے اپنی آنکھوں میں اٹلی کے سپنے سجائے ،کیونکہ اس کی سکھیوں نے کہا کہ زندگی ہے تو اٹلی میں،سکول میں فیل ہونے کی صورت میں اس پر لازم ہوگیا کہ وہ فوج میں ٹریننگ لے اسے فوج بالکل پسند نہیں وہ وہاں سے دو ماہ بعد ہی بھاگ جاتی ہے اورسات راتیںبسوں میں اور پیدل سفر کرتے گرتے پڑتے سوڈان پہنچتی ہے وہاں ایک فیملی کے ہاںصفائی کا کام کرتی ہے اور 250پاﺅنڈ ماہانہ تنخواہ جمع کرنا شروع کر دیتی ہے وہ اٹلی لانے والے دلالوں سے اٹلی آنے کی قیمت پوچھتی ہے تو اسے 900ڈالر بتایا جاتاہے یہ رقم جمع کرنے کے لئے اسے ایک سال لگ جاتا ہے یہ سفر لیبیا کے صحرا سے ہوتا ہواساحل سمندرتک پہنچاتا ہے وہاںایجنٹوں کی اپنی بستیاں ہیں جہاں وہ ان عورتوں سے کام کراتے ہیں ، ان کو خوراک وغیرہ دیتے ہیں اور ہر وہ کام کرتے یا کراتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں ہر شام کہتے ہیں کہ بس ابھی روانہ ہوتے ہیں اور اسی طرح کہتے ان کے چار ماہ گزار دیتے ہیں
پھر ایک شام بھگدڑ مچ جاتی ہے اور سب کو ایک کشتی میں سوار ہونے کا کہا جاتاہے کسی کو پتہ نہیں تھا کہ آج روانہ ہونا تھا کسی نے کوئی تیاری نہیں کی ہوئی تھی ، کسی نے کھانے کا سامان نہیں لیا سب کا خیال تھا کہ تھوڑے سے وقت میں وہ اٹلی کے ساحل پہنچ جائیں گے ،اور پھر ان کی جنت ان کے سامنے ، ”سنا ہے وہاں ایک شہر پانی میں ہے “پانی تو ان کے بھی چاروں طرف ہے ، اس کشتی میں دس سے پندرہ آدمی سوار ہوسکتے ہیں مگر اس میں 78افراد ٹھونس دئے جاتے ہیں ،جن میں 25عورتیں بھی شامل ہیں،اور ان عورتوں میں دو حاملہ ہیں، کون کھڑا ہے کون بیٹھا کون پھنسا ہواہے اور کون لٹکا ہوا کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا سب کو ایک ہی جنون ہے کہ جیسے تیسے اٹلی پہنچا جائے ان کا یہ سفر 28جولائی کو شروع ہوا ،سارے خوش ہیں کہ چلو تھوڑا سا تو سفر ہے یہاں کس کو پڑی ہے کہ فرسٹ کلاس کی سیٹ یا برتھ ہونی چاہیے خیالوںاور خوابوں میں گم سفر ہے کانوں میں” ایرس رامسوتی“ کے گانے ہیں، ایک پوری رات گزر جاتی ہے اور منزل نہیں آتی ، دوسرے دن دوپہر کو جب لڑکیوں کا خیال ہے کہ وہ پہنچنے والی ہیں کشتی کی موٹر بند ہوجاتی ہے ،ماجھی بتاتا ہے کہ اس کشتی کا پٹرول ختم ہوگیا ہے ،وہ سرخ بٹن بار بار دباتا ہے جیسا کہ اس کو ایجنٹوں نے بتایا تھا مگر موٹر آن نہیں ہوتی ،موٹر کا کوئی شور نہیںہوتا ، شور ہے توصرف موجوں کا، سمندر کی لہروں کا ،خوف کا ، ڈر کا اور موت کا ، کسی کو کچھ پتہ نہیں کیا کرنا ،کسی کو کشتی آن کرنا نہیں آتی ، مرد بار بار اس بٹن کو دبا کر اس میںجان ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں مگر نتیجہ صفر ، ان کے پاس جو پانی کی بوتلیں تھی ان میں پانی ختم ہورہا ہے ایک دوسرے کو مشورے دئیے جارہے ہیں،ان کے پاس روٹی کے جو ٹکڑے ہیں وہ آپس میں تقسیم کئے جارہے ہیں ، پھر رات آجاتی ہے اور خوف کا اندھیرا پھیلنا شروع ہوجاتا ہے ،کوئی روشنی نہیں ، کوئی بستی کوئی ٹھکانا نہیں ہر طرف پانی ہی پانی ہے کشتی موجوں کے سہارے ادھر سے ادھر خود ہی ہچکولے کھا رہی ہے ٹھنڈ ہوتی ہے تو عورتیں شال لے لیتی ہیں ،پھر اس طرح چار راتیں گزر جاتی ہیں ، ہوش جواب دے گئی ہے پہلے پہل انسانی ضرورت کے وقت شرم آتی تھی اور ایک چادر کا پردہ کر کے سمندر کی جانب منہ کر کے کشتی آہستہ کراکر کر لی جاتی تھی اور اب مایوسی ،بھوک اور خوف کے مارے شرم بھی نہیں آتی حالات خراب ہوگئے ہیں
مگر ساتویں دن صورت حال بدل جاتی ہے اب یہ سارے مسئلے ثانوی حیثیت اختیار کر گئے ہیں ،کیونکہ موت نے ان کے کشتی پر دستک دے دی ہے ان کا ایک بیس سالہ ہمسفر” ہدیش “ گزشتہ چار گھنٹوں سے قے کر رہا تھا ، اس کے دوست اسے لٹاتے ہیں اور وہ بے سدھ ہوگیا ہے کوئی نہیں جانتا کہ بے ہوش ہوا ہے کہ مر گیا ہے ،پھر دوسرے دن ”گینے “ کہتا ہے ” ہم سفر میں ہیں مگر وہ منزل پر پہنچ گیا ہے “ موت نے اس کی مشکل آسان کر دی ہے اس کے ہمسفر اسکے بوٹ اتارتے ہیں اور اس کی لاش کو سمندر کے حوالے کر دیتے ہیں ، ایک مسافر ”یاسف “اپنے ساتھ بائیبل لے کر آیا ہے وہ روز دوسروں کو پڑھ کر سناتا ہے ”اے خدا ہمارے حال پر رحم کر ، ہماری التجاﺅں کو سن لے “مگر خدا تو بے نیاز ہے ، سارے پریشان ہیں ”ٹیٹی“ بھی پریشان ہے کہ شاید یہ سفر کبھی ختم ہی نہیں ہوگا ، دوپہر کو سورج کی حدت انہیں بھوک اور پیاس سے زیادہ تنگ کرتے ہے رات کو سرد ی کی شدت انہیں بے حال کرتی ہے ،پٹرول کی بو اور کشتی میں جمع گندا پانی کی بو سے سب کا سر چکرا رہا ہے ،
ہر رو ز کوئی نہ کوئی مر رہا ہے کبھی ایک کبھی تین کبھی پانچ تو ایک دن پورے پندرہ ،کسی نے کہا کہ وہی مر رہے ہیں جنہوں نے سمندر کا پانی پیا ،ان کے چاروں طرف پانی ہی پانی اور ایک گھونٹ پانی انہیں پینے کے لئے میسر نہیںپھر ایک لڑکے کو انوکھا آئیڈیا آتا ہے کہ ایک خالی ڈرم لیاجائے اور اسے اچھی طرح دھو کر اس میںسب کا پیشاب جمع کیا جائے ، پھر اسے پیا جاتا ہے ،موت سے بچنے کے لئے کچھ بھی کیا جاتا ہے ،سوار عورتوں میں دو حاملہ بھی تھیں ، یہ ان کے ان مالک کی کارستانی ہوگی جس کے سامنے وہ ڈراور اٹلی جانے کی امید میں خاموش رہیں یا خاموش رکھی گئیں ،ایک عورت کا بچہ کشتی میں ہی ضائع ہوا ، ٹیٹی نے اس کی مدد کی مگر عورت کہنے لگی کوئی فائدہ نہیں اس زندگی سے موت اچھی ہے اور پانی میں چھلانگ لگا دی موت نے اس کی بھی مشکل آسان کردی ،” ٹیٹی“ کو رونا نہیں آیا کیوں کہ اس کے پاس رونے کی ہمت موجود نہیں رہی، وہ بائیبل کے وہی فقرے دھرانے کی کوشش کرتی ہے جو وہ کئی دنوں سے سن رہی تھی وہ سوچتی ہے جنگوں میں بھی ایسے ہی ہوتا ہوگا پھر ایک دن کچھ ماہی گیروں کی کشتی دور سے نظر آتی ہے وہ مدد کے لئے چلانا چاہتے ہیں مگر چلا نہیں سکتے ان کے پاس ہمت نہیں، ماہی گیر قریب آتے ہیں مگر جب کشتی میں لاشیں دیکھتے ہیں تو خوف کے مارے واپس کشتی بھگا لیتے ہیں ، جاتے جاتے ایک شاپر پھینکتے ہیں اس میں روٹی ہے اور پانی کی دوبوتلیں ، وہ کھانا کھانا چاہتی ہیں ، مگر اس کا گلہ فورا سب کچھ باہر پھینک دیتا ہے ،اتنے دنوں سے خالی معدہ اور خالی گلے پر وہ روٹی کا ٹکٹرا چھری کی طرح چبھتا ہے ، پانی سے کچھ ہمت ملتی ہے ، اور پھر ایک ہیلی کاپٹر آتا ہے ،شاید ماہی گیروں نے اطلاع کر دی ہوگی ، ہیلی کاپٹر سے لوگ نیچے اترتے ہیں مگر ان کا کوئی ارادہ ان کو ساتھ لے جانے کا نہیں وہ کشتی میں پٹرول ڈالتے ہیں ، موٹر چلاتے ہیںاور انہیں کشتی آن کر کے دیتے ہیں ،اور انہیں سمجھاتے ہیں کہ کیسے چلانا ہے اور پھر واپس چلے جاتے ہیں ایک رات اور ایک پورا دن پھر ایک آخری کشتی آتی ہے اس میں ان کو سوار کر لیتے ہیں ، ٹیٹی کو کوئی ہوش نہیں اسے اٹھا کر سوار کیا جاتا ہے ، اس کے منہ پر پانی پھینکا جاتا ہے ، وہ کئی دنوں سے ہسپتال میں ہے اٹلی میں بحث جاری ہے کہ موت کی وادی پار کر کے آنے والی ٹیتی کو 8اگست 2009ءسے لاگو ہونے والے قانون کے تحت پانچ ہزار یورو کا جرمانہ کیا جائے یا سیاسی پناہ دی جائے
انسانی حقو ق کی تنظیمیں اورعیسائی راہنما جو زندگی کی اہمیت کے لئے دن رات دعویٰ دار بنتے ہیں ان میں بحث چھڑ جاتی ہے سب کا کہنا ہے کہ ٹیٹی اور اس کے باقی چار ساتھیوں کو سیاسی پناہ دی جائے ، مگر میں سوچتا ہوں کہ یہ سمندر نجانے کتنے گھر اجاڑ چکا ہے کتنے یورپ آنے کے شیدائی کی لاشیں اس سمندر کی مچھلیوں کی خوراک بنی ہیں ، مگر نہیں اس میں سمندر کا کیا قصور ، کوئی پوچھے یہ ٹیٹی اور اس کے ہمسفر اس موت کے سفر کا آغاز کیوں کرتے ہیں ؟ ان کے اس قتل کا مجرم کون ہے جن کی لاش کو گورو کفن بھی میسر نہیں ہوا ، ان پر نہ کوئی رویا اور نہ کسی کی آنکھ کے آنسو بہے ، ان کی لاشیں ایک نیوز چینل کی خبر ہی تو ہےں کیا ان کو موت کی وادی میں دھکیلنے والے ایجنٹ مجرم ہیں یا پھر وہ حکمران مجرم جنہوں نے اس طرح کے حالات پیدا کر دئے کہ ان کو فطرت کے اصولوں کے عین مطابق ہجرت کرنا پڑی ، کیا دنیا کو جنگوں کی آگ میں جھونکنے والے مجرم ہیں کیا وہ پالیسی ساز مجرم ہیں جنہوں نے تیسری دنیا کو ہمیشہ محکوم بنا ئے رکھنے کا عہد کر رکھا ہے ، کیاچند کروڑ لوگوں کو تعیش کی زندگی دینے کے لئے ضروری ہے ، باقی اربوں باشندوں کو تعلیم ،حقوق اور جینے کے حق سے محروم رکھا جائے ، کیا تیسری دنیا کو غلام بنا کر رکھنے والے پالیسی سازوں کو موت کی ہچکیاں نہیں لگیں گی ؟ کیا خدا کی کچہری میں ان کی پیشی نہیں ہو گی؟



مکمل تحریر  »

مقابلہ

مقابلہ
 محمود اصغر چوہدری ایڈیٹر جذبہ اٹلی www.mahmoodch.com, mahmoodch1@gmail.com
کیا مقابلہ ان قوموں کا جو ہر افتاد کی توجیہہ تلاش کرنے اور اس کا تدارک کرنا قومی فریضہ سمجھیں اس قوم سے جو ہر مصیبت اور کٹھن لمحہ میں صرف اور صرف تقدیر کو مورد الزام ٹھہر ا کر اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرے کیا مقابلہ اس قوم کا جو کسی سانحہ پر تدبر ، تجزیہ اور سوچ کی راہ اختیار کرے اس قوم کے ساتھ جو ہر بات کو غیروں کی سازش قرار دے کر ساری ذمہ داری دوسروں پر ڈال دے اٹلی کی عدالت نے ایک قدرتی آفت پر تاریخی فیصلہ دیکر پوری دنیا کوسوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اٹلی والوں کے لئے ان کے شہریوں کی جان کی کیا قیمت ہے اٹلی کے شہر لا قولہ میں سال 2009ءکے ایک زلزلہ کے نتیجہ میں ہلاک ہونے والے چند شہریوں کے جانب سے حکومت کے خلاف کئے گئے ایک کیس میں عدالت نے ساڑھے تین سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے ملک کے قدرتی خطرات کے سب سے بڑے کمیشن کے سات اعلی ٰ عہدہ داران اور ملک کے نامی گرامی سائنسدانوں کو 6چھ سال قید کی سز ا سنادی ہے اور ملک کی وزارت عظمی ٰ کو مجرم قرار دیتے ہوئے متاثرین کو7.8ملین یورو ہرجانہ ادا کرنے کاحکم جاری کیاہے
واقعہ کچھ یوں ہے کہ اٹلی کے لاقولہ شہر میں دسمبر 2008ءمیں زلزلوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں وقفہ وقفہ سے ہلکے زلزلے آرہے تھے لوگ خوف اور ڈر کی کیفیت میں گھروں کے اندر سونہیں رہے تھے حکومتی سطح پر قدرتی آفات کے خطرہ کے لئے ایک کمیشن قائم ہے جس نے مورخہ 31مارچ 2009ءکو ایک اہم اجلاس بلایا جس میں ماہرین نے ان زلزلوںکی صورت حال اور مستقبل کی پشین گوئی کرناتھی صرف 45منٹ کے اجلاس کے بعد کمیشن نے اپنے علم و تجربات کی بنیا دپر اعلان کیا کہ شہر میں مزید کسی بڑے زلزلہ کا کوئی خطرہ نہیں ہے لوگوں نے حکومت کی جانب سے قائم کردہ اس اہم کمیشن کے اعلان پر بھروسہ کر لیا اور اپنے گھروں میں سکون کی نیند لینا شروع کر دی لیکن اس اعلان کے ٹھیک 5دن بعد مورخہ 6 اپریل 2009ءکو لاقولہ میں ہی 6.3درجہ سکیل کا زلزلہ آیا اورسارا شہر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں 309لوگ ہلاک اور 1500افراد زخمی ہوگئے
 اٹلی کی عدالت نے31مارچ 2009ءکی میٹنگ میں خطرہ نہ ہونے کااعلان کرنے والے اس وقت کے کمیشن کے صدرفرانکو باربیری اور کمیشن کے دیگراہم ممبران یعنی نائب صدرسول پروٹیکشن ، صدر برائے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ،صدر زلزلہ ڈیپارٹمنٹ اور جینوا یونیورسٹی کے فزکس کے ایک پروفیسرکو 29افراد کے قتل اور چار آدمیوں کے زخمی ہونے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 6سال قید کی سز ا سنائی ہے اور ملک کی وزارت عظمی ٰ کو بھی اس فیصلہ میں ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اسے حکم دیاہے کہ وہ متاثرہ علاقہ کو 7ملین یورو کا ہرجانہ ادا کرے
 سزاﺅں کی تاریخ میں یہ انوکھی اور بھاری سز اہے کیونکہ متاثرین کے وکلاءنے ماہرین کے لئے صرف 4سال قید کی سز ا کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن جج نے چھ چھ سال کی قید کی سزا سنائی ہے عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ ماہرین کی جانب سے ”پیشہ وارانہ تجاہل “ سے کام لیا گیا ہے جو ”خطرہ کی ناقص پشین گوئی“ کا سبب بنا اورجس کے نتیجہ میں جو معلومات دی گئی وہ ”نامکمل ، غلط، اور خطرہ کی نشاندہی کے حوالہ سے متضاد تھیں “
 اس فیصلہ کے بعداٹلی میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کیونکہ زلزلہ جیسی قدرتی آفات کے بارے میں وقت سے پہلے سو فیصدصحیح پشین گوئی نہیں کی جا سکتی حکومت کا موقف ہے کہ اس فیصلہ کے بعد ملک کے ماہر ین و سائنسدان اس اہم شعبہ میں کام کرنے سے کنی کترائیں گے اور مستقبل میں کسی ممکنہ سز ا کے خطرہ کے باعث یہ نوکری اختیار نہیں کریں گے لیکن میرے خیال میں اس قسم کے فیصلہ قوموں کی تقدیر بدلنے اور انہیں خدا کی کائنات میں پوشیدہ رازوں سے آشکار کرنے کے لئے مدد گار ثابت ہوتے ہیں
 آپ اپنے ملک پاکستان کا مقابلہ اس واقعہ سے کریں تو صرف 2005ءمیں آنے والا زلزلہ 82ہزار لوگوں کی ہلاکت کا سبب بنا اور حکومتی اداروں اور انتظامیہ کی معلومات کا عالم یہ تھا کہ ابتدائی لمحات میں انہیں پتہ ہی نہیں چل سکا تھا کہ کتنی بڑی تباہی ہوئی تھی حکومتی ترجمان بی بی سی کو ایک ہزار متاثرین کی اطلاعات دے رہی تھیں ، سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے اس وقت کے وزیر اطلاعات شیخ رشید نے راولپنڈی میں صرف ایک بچی کے مرنے کی اطلاع دی جو سکول سے واپس گھر آرہی تھی ملک کے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اسلام آباد میں ایک بلڈنگ کے نیچے ایک درجن افراد کے مرنے کی اطلاع دنیا کو دی چلیں یہ تو ابتدائی اطلاعات تھیں لیکن زلزلہ کے بعد حکومت نے کیا اقدامات کئے؟ کون سے شعبہ نے مستقبل کی کیا پالیسی مرتب کی ؟اس کے بارے کوئی نہیں جانتا صدر مشرف نے ماہرین پر نہیںبلکہ فوجیوں پر مشتمل جو ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا شعبہ بنایا اس کی کیا رپورٹ تھی؟
 چلیں خیر قدرتی آفات کی تو ذمہ داری پاکستان میں کون لے گا ہمارے ہاں تو عید کے دن ٹی وی پر خبر آتی ہے کہ ایک باپ عید قربان پراپنے پانچ بچے موٹر سائیکل پر بٹھا کر دوسرے شہر قربانی دکھانے لے جا رہا تھا اور انہیں شالیمار ایکسپریس نے اڑا دیا گھر میں صف ماتم بچھ گئی اس پر بھی ذمہ دار تقدیر کو ہی ٹھہرایا گیا ہوگااس قسم کے موٹر سائیکل سواروں کو کہاں سے ایسا لائسنس جاری ہوتا ہے جس کے تحت اتنی چھوٹی سی سواری پر پانچ بچے بٹھائے جا سکتے ہیں
ابھی ڈیڑھ ماہ پہلے لاہور کی ایک جوتا فیکٹری میں 29لوگ جل کر مر گئے بتایا گیا کہ فیکٹری کا جنریٹر ناقص تھا جس کی وجہ سے آگ لگ گئی اسی روز کراچی میں ایک اور فیکٹر ی میں 9آدمی جل کر مر گئے اس میں بھی خراب جنریٹر کو موردالزام ٹھہرایا گیا ان جنریٹر وں کا سرٹیفیکیٹ کون جاری کرتا ہے؟اور کیا کسی الیکٹریشن یا کسی جنریٹر کمپنی کوقیمتی جانوں کے ضیائع پر سزا ملتی ہے ستمبر کے ہی مہینے میں کراچی کی ایک ٹیکسٹائیل فیکٹری میں 300سے زیادہ لوگ جل کر راکھ ہوگئے اور ان پر انحصار کرنے والے ہزاروں افراد بے یارو مدد گار ہوگئے ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا کہ فیکٹری کا گزشتہ نو سال سے الیکٹریکل معائنہ نہیں ہواتھا فائر برگیڈ کے ذمہ داران کا کہنا تھا کہ فیکٹری کے اندر آگ بجھانے کا کوئی بندوبست نہیں تھا ، الیکٹرک فٹنگ ناقص اورخطرناک تھیں فیکٹری سے نکلنے کے سارے دروازے بنداور ایمرجینسی دروازہ پر تالاتھا اوپر والی منزلوں میں جو کھڑکیاں تھیں ان میں لوہے کی مضبوط سلاخیں تھیں جنہیں توڑنااور وہاں سے چھلانگ لگانا ناممکن تھا ہمارے ملک میں ان واقعات پر ہر دفعہ یہی خبر آتی ہے کہ صدر نے نوٹس لے لیے لیکن اس نوٹس کا کیا بنتا ہے اس کی کوئی خبر نہیں ملتی
حکومت پاکستان نے 1953ءسے بین الاقوامی کنونشن بھی سائین کیا ہوا ہے جس کے تحت فیکٹریوں اور کام کے دیگر شعبہ جات میں ورکروں کی سیکورٹی کے لئے انسپکشن حکومتی ماہرین پر لازم ہے ،پاکستان کے آئین کے تحت مزدوروں کے جان اور صحت میں خطرہ کی صورت میں حفاظت پاکستانی قوانین میں لازمی ہے لیکن حالت یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے دئے گئے آخری اعداد وشمار کے مطابق صرف سال 2008ءمیں 419ایسے حادثات ہوئے ہیں جن کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ کام کے سیکورٹی سے متعلق قوانین کی پابندی نہیں کی گئی تھی اس عید کی بھی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ کراچی ہی میں شیرشاہ میں گلبائی چوک کے قریب واقع کیمیکل فیکٹری میں اچانک لگنے والی آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری فیکٹری کو لپیٹ میں لے لیا، شہربھرکے فائربرگیڈرات بھرامدادی کام میں مصروف رہے کیمیکل کے ڈرم پھٹنے سے فیکٹری میں کئی دھماکے ہوچکے ہیں آگ نے فیکٹری کےساتھ اناج کے گوادم کو بھی لپیٹ میں لے لیا
ہمارے ملک میں ہر سال سیلاب ہماری فصلوں اور میویشیوں کو تباہ کر کے چلا جاتا ہے ، ٹریفک حادثات ہزاروں زندگیوں کو خاک کے طرح اڑا دیتے ہیں ،دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا اژدھاہزاروں انسانی جسموں کو نگل گیاہے ، ملاوٹ شدہ ادویات کئی زندگیوں کا چراغ گل کر گئی ہیں ،ہماری سڑکیں ریت کے طرح اڑجاتی ہیں ،پل کاغذ کی طرح بہہ جاتے ہیں ، بلڈنگیں زمین بوس ہوجاتی ہیں ، بچوں تک کے سکولوں کی چھتیں گر جاتی ہیں ، بسوں کو آگ لگ جاتی ہیں، ٹرینیں حادثوں کا شکار ہوجاتی ہیں ،بچے گٹروں کے ڈھکنوں کی عدم موجودگی میں گر کر ہلاک ہوجاتے ہیں ، ریلوے پھاٹک غائب ہوجاتے ہیں ، واپڈا کی تاریں ننگی ملتی ہیں لیکن کبھی کسی عدالتی قانون میں کبھی کسی انجینئر کو سز ا نہیں ہوتی ، کسی ٹھیکیدار کو عدالت کے سامنے نہیں لایا جاتا ،کسی میڈیکل کمپنی کسی ڈاکٹرکو سزا نہیں سنائی جاتی ، ایفی ڈرین تک کے کیس کو سیاسی سازش قرار دیا جاتا ہے ، ڈینگی مچھر کے تدارک نہ کرسکنے والی ماہرین کی کسی ٹیم کو سزا نہیں سنائی جاتی ٹریفک حادثہ میں کبھی کسی ایسی انسپکشن ٹیم کو قانون کے کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا جاتا جس نے ناقص گاڑیوں کو لائسنس جاری کیاکبھی کوئی ایسا سروے نہیں کیا جاتا کہ کتنی فیکٹریاںانسانی جان کی حفاظت کے قوانین پر پوری اترتی ہیں کتنے سکول بچوں کی تعداد کے لحاظ سے مناسب سیکورٹی انتظامات رکھتے ہیں کیونکہ انفرادی و اجتماعی طور پر ہم نے ہر سانحہ اور حادثہ کی ساری ذمہ داری تقدیر پر ڈالنا ہوتی ہے تدبیر سے ہمارا کوئی سرو کار نہیں اسی لیے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے کبھی اپنی اونٹنی کا گھٹنا باندھنا ضروری نہیں سمجھتے

مکمل تحریر  »