آج اس کے لہجے میں غصے اورمایوسی کے ساتھ گستاخانہ پن کی جھلک بھی شامل تھی وہ کہنے لگا ”بابا جی آپ کی ساری باتیں بھی سچ نہیں ہیں آپ کا سارا فلسفہ بھی حقیقت کے قریب نہیں ہے “باباجی کما ل اطمینان سے مسکر ا دئے اور کہنے لگے ”عزیزم میں نے پیغمبری کا دعویٰ تو کبھی نہیں کیا اور نہ ہی اپنوں باتوں کو وحی کا درجہ دیا ہے البتہ تم بتاﺅ کیا ہوا ہے؟ “ وہ اسی بے چینی سے گویا ہوا جو اس کی طبعیت کا خاصہ تھی ”باباجی آپ نے کہا تھا کہ ، انسان کے اندر بھو ل جانے کی صلاحیت بہت بڑ ی نعمت ہے اور کسی کو بھلانے کے لیے وقت بہت بڑا مرہم ہے آپ نے کہا تھا کہ جسطرح ایک کھیل میں اچھا کھیلنے والا کھلاڑی ،ایک اداکار کی اداکاری اورایک گلوکار کی موسیقی کانوں کو بھلی لگ جائے تو انسان ان پر فریفتہ ہوجاتا ہے لیکن جوں ہی کوئی نیا کھلاڑی ، کوئی نیا اداکار یا کوئی نیا گلوکار ان سے بہتر فن کا مظاہرہ کرے تو انسان پرانوں کو بھول کر نئے آنے والوں کو دل میں بسا لیتا ہے ،اور آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ پرانے چہرے نئے چہروں کی جگہ لے لیتے ہیں ، نئی محبتیں پرانی محبتوں کی یاد بھلا دیتی ہیں زندگی میں نئے آنے والے چھوڑ کے جانے والوں کا نعم البدل بن سکتی ہیں ۔ آپ کی انہی باتوں کو سن کر میں نے نئے تعلقات ، نئی دوستیاں اور نئے رشتے تلاش کرنی کی کوشش کی لیکن کوئی نیا چہرہ اس دلنشین چہرے کو آنکھوں سے ہٹا نہیں سکا کوئی نیا عکس اس پرانے عکس کا نعم البدل نہیں بن سکا“ بابا جی مسکرا دئے کہنے لگے ”دل و جسم کے رشتے اور ہوتے ہیں اور روح کے تعلق اور ہوتے ہیں ۔۔روح کے رشتوں میں کسی پہلے کی حیثیت ثانوی نہیں ہوتی ۔۔۔کوئی نیا جسمانی رشتہ پرانے روحانی رشتہ کانعم البدل نہیں ہوسکتا۔۔تم دیو داس کی طرح اپنی ”پارو“ کو اگر کسی ”چندر مکھی “ کے جسم میں ساری زندگی ڈھونڈتے بھی رہو تو کبھی کامیاب نہیں ہوگے “
0 commenti:
Posta un commento