23/11/12

میٹھاپانی

اپنی ادھوری محبت کی پوری داستان سنا چکنے کے بعد اس نے مضطرب نظروں سے بابا جی کی طرف دیکھا اور پوچھنے لگا ”باباجی ۔اس ساری داستان میں میری غلطی کیا تھا؟ سب سے بڑی سزا مجھے کیوں ملی؟ بے چینی میرا مقدر کیوں بن گئی ہے؟ اور کیا میرے دل کواب کبھی سکون میسر نہیں آئے گا ؟“
 باباجی کے چہرے پر عجیب سی طمانیت تھی ایسے جیسے غم جاناں کے ان بکھیڑوں سے ان کا کوئی لینا دینا نہ ہو وہ مسکرائے اور کہنے لگے میں تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں اسے باباجی کی بھول بھلیوں والی یہی عادت عجیب لگتی تھی کہ وہ کبھی بھی کسی بات کا دو ٹوک جواب نہیں دیتے تھے وہ گویا ہوئے ۔۔۔۔۔
”ایک دفعہ صحر ائی گاﺅں کے ایک رہاءشی نے ایک مسئلہ کے لئے حاکم وقت سے ملاقات کے لئے سفر اختیار کیا تو راستہ میں اسے ایک میٹھے پانی کا کنواں ملااس نے اس کنویں سے پانی پیااتنا میٹھا پانی اس نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں پیا تھا وہ سمجھا شاید یہ پانی کی کوئی انمول اورنایاب قسم ہے اس نے سوچا کہ وہ بادشاہ سے ملنے جارہا ہے تو کیوں نہ اس کے لئے بھی تحفے کے طور پر پانی لے جائے جب وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا تو اس نے بادشاہ کو اپنی درخواست پیش کی اور وہی پانی تحفے کے طور پر بادشاہ کہ یہ کہتے ہوئے دیا کہ”بادشاہ سلامت آپ نے اتنا میٹھا پانی اپنی زندگی میں کبھی نہیں پیا ہوگا“ بادشاہ نے پانی پیا اسے اس پانی میں کوئی خاص بات نظر نہ آئی لیکن اس نے اس کا مسئلہ حل کیا اور انعام وکرام دیکر رخصت کیا لیکن اس سے ایک شرط رکھی کہ وہ اپنا سفر یہیں ختم کرے گا اور یہیں سے واپس اپنی بستی لوٹ جائے گا“ اس نے بادشاہ کے حکم کی تکمیل کی اور انعامات لیکر واپس لوٹ گیا بادشاہ کے وزیر نےاس سے دریافت کیا کہ ”آپ نے اس صحرائی کو یہیں سے واپس لوٹ جانے کا کیوں کہا؟“تو بادشاہ کہنے لگا کہ وہ بے چارا اتنا بھولا اور سادہ لوح ہے کہ پانی کی میٹھے ذائقہ سے ہی آشنا نہیں تھا اور ایک عام پانی کو بڑا نایاب سمجھ رہا تھا میں نے اسے یہیں سے واپس اسے لیے بھیج دیاہے کہ وہ اگر میرے دوسرے شہروں میں جاتا تو دیکھتا کہ اس سے بھی بہتر پانی ہمارے ملک میں موجو د ہے وہ اگر پانی کے اصلی ذائقہ سے آشنا ہوجاتا تو اسے نایا ب نہیں سمجھتا اور شاید اسی قسم کے پانی کا مطالبہ سارے علاقے کے لیے کر دیتا“یہ واقعہ سنا کر بابا جی کہنے لگے ”اصل میں اس سے ملنے سے پہلے تم بھی محبت کے اس ذائقہ سے آشنا نہیں تھے اس لیے تمہاری زندگی سکون سے گزر رہی تھی اور تم بھی کڑوے پانی کو ہی میٹھا سمجھ رہے تھے لیکن جب سے اس نے تمہیں میٹھے پانی کی مٹھاس سے آشنا کراد یاہے تمہاری زندگی سے سکون غائب ہوگیا ہے اور یہ سکون اب کبھی آئے گا بھی نہیں ۔۔۔“ اس نے اضطرب بھرے لہجے میں پھر سوال کیا ”تو کیا پھر میں اس بے سکونی و بے چینی کو اپنا مقدر سمجھ لوں“
بابا جی پھر مسکرائے اطمینان نے پھر ان کے چہرے کو اپنی آغوش میں لے لیا کہنے لگے” نہیں۔ بالکل نہیں۔۔۔۔۔ تم اس محسن کے دئے ہوئے اس انمول ونایاب تحفے کو لوگوں میں بانٹ دو۔۔۔۔۔۔ اس مٹھاس کو اپنے لہجے میں لے آﺅ۔۔۔۔۔

میں جانتا ہوں اس مٹھاس کا قحط تمہیں تاریکی میں جلنے والی شمع کی طرح کر دےگا اور لمحہ بہ لمحہ تمہارا وجود اس بے چینی کی آگ میں جل کر کم ہونا شروع جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یاد رکھوکہ شمع خود تو جل کر راکھ ہوجاتی ہے لیکن اس کی روشنی  کئی گم راہ مسافروں کو جانب ِمنزل سفر کا موقع دے دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔“
باباجی پھر مسکرائے لیکن ان کی آنکھوں میں نمی سی تیرنا شروع ہوگئی تھی جیسے وہ بھی تاریکی میں جلنے والی کوئی شمع ہوں


0 commenti: