29/05/11

ایک محبت ایک افسانہ

باباجی نے اسے ہاتھ سے اشارا کیا کہ وہ اپنی داستان سناءے اس کی آنکھین کچھ دیر تو دریچوں کو گھورتی رہیں ایسے جیسے ان دریچوں میں کسی کا عکس رقص کر رہا ہے پھر وہ گویا ہوا۔۔۔۔۔۔۔ باباجی ہر صبح سات بج کر پچپن منٹ پر جب میں اسے چھوڑ کر آتا تھآ تو عمارت سے نکلتے ہوءے صرف ایک ہی دعا اس کے ہونٹّوں پر ہوتی تھی کہ اس کی آنکھوں کا ساون کوءی نہ دیکھے شاید عزتوں کے لجپال رب کو اس کی دعا بھآ جاتی تھی اور وہ اسی لمحے بونداباندی شروع کر دیتا تھآ اس کے گالوں پر گرنے والی نمی سے کوءی اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ یہ نمی آسمان سے گرنے والی بوندوں کی بنا پر ہے یہ دل سے سفر کرتی ہوءی چشم بینا سے نکلی ہے ٹھیک آٹھ بج کر پانچ منٹ پر اس کا فون آجاتا صبح کی بوندا باندی کے بعد یہ دوسرا احسان ہوتا تھا قدرت کی جانب سے اس کے لہجے میں ایسی مٹھاس ہوتی تھی کہ صبح کی ساری کڑواہٹ کو مٹھاس میں بدل دیتی تھی اب دیکھنے والا اندازہ نہین لگا سکتا تھا کہ ابھی ابھی ہمارے پاس سے گزرنے والا شخص جو اپنے چہرے سے مسکان بھی دے کر نہیں گزرا اس کے لہجے میں اتنی حلاوت کیسے آگءی ۔۔۔باباجی مسکرانا شروع ہوگیے وہ کہنے لگے اصل میں یہ حلاوت تمہاری ذاتی نہیں تھی بلکہ میلوں دور بیٹھے تمہارے اس مہربان کی تھی جو ہوا کے دوش پر تمہیں بیجھ دیتا تھا

مکمل تحریر  »

Tapash

تپش کا بوجھ تو سورج بھی پھینک دیتا ہے
اسے اٹھآکر کبھی شام تک نہیں پہنچا

مکمل تحریر  »