04/11/12

موت سے اٹلی تک کا سفر

موت سے اٹلی تک کا سفر
  تحریرمحمود اصغر چودھری 
 
ہجرت انسانی سرشت میں تب سے شامل رہی ہے جب سے انسان اس دنیا میں بھیجا گیا ہے ،بالکل اسی طرح جب کوئی انسان سخت گرمی میں موٹے کپڑے اتارنے اور سخت سردی کی صورت میں موٹے کپڑے یا سویٹر پہننے کی کوشش کرتا ہے یہ چیزبھی اس کی فطرت میں ہے کہ جب اس پرجیناتنگ اور مرنا مشکل ہوجاتا ہے تو وہ ایک شہرکو چھوڑ کر دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر اختیار کرتا ہے ۔ جس طرح انسان نے پانی کی تلاش میں دریاﺅں اور چشموں کے نزدیک شہر آباد کئے ،بالکل اسی طرح جب اس کی زندگی کوافلاس ،غربت ،جنگوں یا دہشت گردی جیسی عفریت کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے فوری طور پر ایک مقام سے دوسرے مقام منتقل ہونے میں کبھی دیر نہ کی اٹلی میں امیگریشن پر جاری بحث نے بہت سے ممالک کے باشندوں کو اس جانب ہجرت پر مجبور کیاہے ،گزشتہ دنو ں اٹلی کے ساحلوں پر افریقہ کے غریب ترین ممالک ایریتریا سے ایک کشتی پہنچی ہے جو وہاں سے روانہ ہوتے ہوئے تو 78افراد پر مشتمل تھی مگر اٹلی پہنچنے تک ان کی تعداد5 رہ گئی،73افراد اپنی آخری منزل یعنی موت کی جانب روانہ ہوگئے موت کا سمندر پار کر کے آنے والے ان پانچ مسافروں کو اٹلی کے حالیہ قانون کے تحت مجرموں کی لسٹ میں شامل کیا گیا ہے ،کیوں کہ ائیر کنڈیشنڈ پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے اور کئی سالوں تک ان ممالک میں کالونیزم کے ذریعے انکو اپنا غلام بنانے والے اب نہیں چاہتے کہ انسان اپنی سرشت اور فطرت کے عین مطابق رونما ہونے والے عمل کا ارتکاب کرے ، ان کے خیال میں گرمی میں کپڑے نہ اتارنا اور سردی میں ٹھٹرتے رہنا غیر فطری تو ہے مگر اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ بھوک افلاس ، سیاسی ابتری اور انہی کے غلاموں اور ان کی آشیر باد سے آنے والے حکمرانوں کے ظلم وستم سے تنگ آکر بھاگنے والے مجبور ، مقہور اور مظلوم افراد کو پناہ دی جائے
زندہ بچ جانے والوںمیں ایک لڑکی کا نام ”ٹیتی ٹازرار“ہے جس کا سفر21دن پہلے نہیں بلکہ ایک سال چار ماہ اور 21دن پہلے شروع ہوا تھا جوپانچ بہنوں اور ایک بھائی کی بہن ہے جس نے اپنی آنکھوں میں اٹلی کے سپنے سجائے ،کیونکہ اس کی سکھیوں نے کہا کہ زندگی ہے تو اٹلی میں،سکول میں فیل ہونے کی صورت میں اس پر لازم ہوگیا کہ وہ فوج میں ٹریننگ لے اسے فوج بالکل پسند نہیں وہ وہاں سے دو ماہ بعد ہی بھاگ جاتی ہے اورسات راتیںبسوں میں اور پیدل سفر کرتے گرتے پڑتے سوڈان پہنچتی ہے وہاں ایک فیملی کے ہاںصفائی کا کام کرتی ہے اور 250پاﺅنڈ ماہانہ تنخواہ جمع کرنا شروع کر دیتی ہے وہ اٹلی لانے والے دلالوں سے اٹلی آنے کی قیمت پوچھتی ہے تو اسے 900ڈالر بتایا جاتاہے یہ رقم جمع کرنے کے لئے اسے ایک سال لگ جاتا ہے یہ سفر لیبیا کے صحرا سے ہوتا ہواساحل سمندرتک پہنچاتا ہے وہاںایجنٹوں کی اپنی بستیاں ہیں جہاں وہ ان عورتوں سے کام کراتے ہیں ، ان کو خوراک وغیرہ دیتے ہیں اور ہر وہ کام کرتے یا کراتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں ہر شام کہتے ہیں کہ بس ابھی روانہ ہوتے ہیں اور اسی طرح کہتے ان کے چار ماہ گزار دیتے ہیں
پھر ایک شام بھگدڑ مچ جاتی ہے اور سب کو ایک کشتی میں سوار ہونے کا کہا جاتاہے کسی کو پتہ نہیں تھا کہ آج روانہ ہونا تھا کسی نے کوئی تیاری نہیں کی ہوئی تھی ، کسی نے کھانے کا سامان نہیں لیا سب کا خیال تھا کہ تھوڑے سے وقت میں وہ اٹلی کے ساحل پہنچ جائیں گے ،اور پھر ان کی جنت ان کے سامنے ، ”سنا ہے وہاں ایک شہر پانی میں ہے “پانی تو ان کے بھی چاروں طرف ہے ، اس کشتی میں دس سے پندرہ آدمی سوار ہوسکتے ہیں مگر اس میں 78افراد ٹھونس دئے جاتے ہیں ،جن میں 25عورتیں بھی شامل ہیں،اور ان عورتوں میں دو حاملہ ہیں، کون کھڑا ہے کون بیٹھا کون پھنسا ہواہے اور کون لٹکا ہوا کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا سب کو ایک ہی جنون ہے کہ جیسے تیسے اٹلی پہنچا جائے ان کا یہ سفر 28جولائی کو شروع ہوا ،سارے خوش ہیں کہ چلو تھوڑا سا تو سفر ہے یہاں کس کو پڑی ہے کہ فرسٹ کلاس کی سیٹ یا برتھ ہونی چاہیے خیالوںاور خوابوں میں گم سفر ہے کانوں میں” ایرس رامسوتی“ کے گانے ہیں، ایک پوری رات گزر جاتی ہے اور منزل نہیں آتی ، دوسرے دن دوپہر کو جب لڑکیوں کا خیال ہے کہ وہ پہنچنے والی ہیں کشتی کی موٹر بند ہوجاتی ہے ،ماجھی بتاتا ہے کہ اس کشتی کا پٹرول ختم ہوگیا ہے ،وہ سرخ بٹن بار بار دباتا ہے جیسا کہ اس کو ایجنٹوں نے بتایا تھا مگر موٹر آن نہیں ہوتی ،موٹر کا کوئی شور نہیںہوتا ، شور ہے توصرف موجوں کا، سمندر کی لہروں کا ،خوف کا ، ڈر کا اور موت کا ، کسی کو کچھ پتہ نہیں کیا کرنا ،کسی کو کشتی آن کرنا نہیں آتی ، مرد بار بار اس بٹن کو دبا کر اس میںجان ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں مگر نتیجہ صفر ، ان کے پاس جو پانی کی بوتلیں تھی ان میں پانی ختم ہورہا ہے ایک دوسرے کو مشورے دئیے جارہے ہیں،ان کے پاس روٹی کے جو ٹکڑے ہیں وہ آپس میں تقسیم کئے جارہے ہیں ، پھر رات آجاتی ہے اور خوف کا اندھیرا پھیلنا شروع ہوجاتا ہے ،کوئی روشنی نہیں ، کوئی بستی کوئی ٹھکانا نہیں ہر طرف پانی ہی پانی ہے کشتی موجوں کے سہارے ادھر سے ادھر خود ہی ہچکولے کھا رہی ہے ٹھنڈ ہوتی ہے تو عورتیں شال لے لیتی ہیں ،پھر اس طرح چار راتیں گزر جاتی ہیں ، ہوش جواب دے گئی ہے پہلے پہل انسانی ضرورت کے وقت شرم آتی تھی اور ایک چادر کا پردہ کر کے سمندر کی جانب منہ کر کے کشتی آہستہ کراکر کر لی جاتی تھی اور اب مایوسی ،بھوک اور خوف کے مارے شرم بھی نہیں آتی حالات خراب ہوگئے ہیں
مگر ساتویں دن صورت حال بدل جاتی ہے اب یہ سارے مسئلے ثانوی حیثیت اختیار کر گئے ہیں ،کیونکہ موت نے ان کے کشتی پر دستک دے دی ہے ان کا ایک بیس سالہ ہمسفر” ہدیش “ گزشتہ چار گھنٹوں سے قے کر رہا تھا ، اس کے دوست اسے لٹاتے ہیں اور وہ بے سدھ ہوگیا ہے کوئی نہیں جانتا کہ بے ہوش ہوا ہے کہ مر گیا ہے ،پھر دوسرے دن ”گینے “ کہتا ہے ” ہم سفر میں ہیں مگر وہ منزل پر پہنچ گیا ہے “ موت نے اس کی مشکل آسان کر دی ہے اس کے ہمسفر اسکے بوٹ اتارتے ہیں اور اس کی لاش کو سمندر کے حوالے کر دیتے ہیں ، ایک مسافر ”یاسف “اپنے ساتھ بائیبل لے کر آیا ہے وہ روز دوسروں کو پڑھ کر سناتا ہے ”اے خدا ہمارے حال پر رحم کر ، ہماری التجاﺅں کو سن لے “مگر خدا تو بے نیاز ہے ، سارے پریشان ہیں ”ٹیٹی“ بھی پریشان ہے کہ شاید یہ سفر کبھی ختم ہی نہیں ہوگا ، دوپہر کو سورج کی حدت انہیں بھوک اور پیاس سے زیادہ تنگ کرتے ہے رات کو سرد ی کی شدت انہیں بے حال کرتی ہے ،پٹرول کی بو اور کشتی میں جمع گندا پانی کی بو سے سب کا سر چکرا رہا ہے ،
ہر رو ز کوئی نہ کوئی مر رہا ہے کبھی ایک کبھی تین کبھی پانچ تو ایک دن پورے پندرہ ،کسی نے کہا کہ وہی مر رہے ہیں جنہوں نے سمندر کا پانی پیا ،ان کے چاروں طرف پانی ہی پانی اور ایک گھونٹ پانی انہیں پینے کے لئے میسر نہیںپھر ایک لڑکے کو انوکھا آئیڈیا آتا ہے کہ ایک خالی ڈرم لیاجائے اور اسے اچھی طرح دھو کر اس میںسب کا پیشاب جمع کیا جائے ، پھر اسے پیا جاتا ہے ،موت سے بچنے کے لئے کچھ بھی کیا جاتا ہے ،سوار عورتوں میں دو حاملہ بھی تھیں ، یہ ان کے ان مالک کی کارستانی ہوگی جس کے سامنے وہ ڈراور اٹلی جانے کی امید میں خاموش رہیں یا خاموش رکھی گئیں ،ایک عورت کا بچہ کشتی میں ہی ضائع ہوا ، ٹیٹی نے اس کی مدد کی مگر عورت کہنے لگی کوئی فائدہ نہیں اس زندگی سے موت اچھی ہے اور پانی میں چھلانگ لگا دی موت نے اس کی بھی مشکل آسان کردی ،” ٹیٹی“ کو رونا نہیں آیا کیوں کہ اس کے پاس رونے کی ہمت موجود نہیں رہی، وہ بائیبل کے وہی فقرے دھرانے کی کوشش کرتی ہے جو وہ کئی دنوں سے سن رہی تھی وہ سوچتی ہے جنگوں میں بھی ایسے ہی ہوتا ہوگا پھر ایک دن کچھ ماہی گیروں کی کشتی دور سے نظر آتی ہے وہ مدد کے لئے چلانا چاہتے ہیں مگر چلا نہیں سکتے ان کے پاس ہمت نہیں، ماہی گیر قریب آتے ہیں مگر جب کشتی میں لاشیں دیکھتے ہیں تو خوف کے مارے واپس کشتی بھگا لیتے ہیں ، جاتے جاتے ایک شاپر پھینکتے ہیں اس میں روٹی ہے اور پانی کی دوبوتلیں ، وہ کھانا کھانا چاہتی ہیں ، مگر اس کا گلہ فورا سب کچھ باہر پھینک دیتا ہے ،اتنے دنوں سے خالی معدہ اور خالی گلے پر وہ روٹی کا ٹکٹرا چھری کی طرح چبھتا ہے ، پانی سے کچھ ہمت ملتی ہے ، اور پھر ایک ہیلی کاپٹر آتا ہے ،شاید ماہی گیروں نے اطلاع کر دی ہوگی ، ہیلی کاپٹر سے لوگ نیچے اترتے ہیں مگر ان کا کوئی ارادہ ان کو ساتھ لے جانے کا نہیں وہ کشتی میں پٹرول ڈالتے ہیں ، موٹر چلاتے ہیںاور انہیں کشتی آن کر کے دیتے ہیں ،اور انہیں سمجھاتے ہیں کہ کیسے چلانا ہے اور پھر واپس چلے جاتے ہیں ایک رات اور ایک پورا دن پھر ایک آخری کشتی آتی ہے اس میں ان کو سوار کر لیتے ہیں ، ٹیٹی کو کوئی ہوش نہیں اسے اٹھا کر سوار کیا جاتا ہے ، اس کے منہ پر پانی پھینکا جاتا ہے ، وہ کئی دنوں سے ہسپتال میں ہے اٹلی میں بحث جاری ہے کہ موت کی وادی پار کر کے آنے والی ٹیتی کو 8اگست 2009ءسے لاگو ہونے والے قانون کے تحت پانچ ہزار یورو کا جرمانہ کیا جائے یا سیاسی پناہ دی جائے
انسانی حقو ق کی تنظیمیں اورعیسائی راہنما جو زندگی کی اہمیت کے لئے دن رات دعویٰ دار بنتے ہیں ان میں بحث چھڑ جاتی ہے سب کا کہنا ہے کہ ٹیٹی اور اس کے باقی چار ساتھیوں کو سیاسی پناہ دی جائے ، مگر میں سوچتا ہوں کہ یہ سمندر نجانے کتنے گھر اجاڑ چکا ہے کتنے یورپ آنے کے شیدائی کی لاشیں اس سمندر کی مچھلیوں کی خوراک بنی ہیں ، مگر نہیں اس میں سمندر کا کیا قصور ، کوئی پوچھے یہ ٹیٹی اور اس کے ہمسفر اس موت کے سفر کا آغاز کیوں کرتے ہیں ؟ ان کے اس قتل کا مجرم کون ہے جن کی لاش کو گورو کفن بھی میسر نہیں ہوا ، ان پر نہ کوئی رویا اور نہ کسی کی آنکھ کے آنسو بہے ، ان کی لاشیں ایک نیوز چینل کی خبر ہی تو ہےں کیا ان کو موت کی وادی میں دھکیلنے والے ایجنٹ مجرم ہیں یا پھر وہ حکمران مجرم جنہوں نے اس طرح کے حالات پیدا کر دئے کہ ان کو فطرت کے اصولوں کے عین مطابق ہجرت کرنا پڑی ، کیا دنیا کو جنگوں کی آگ میں جھونکنے والے مجرم ہیں کیا وہ پالیسی ساز مجرم ہیں جنہوں نے تیسری دنیا کو ہمیشہ محکوم بنا ئے رکھنے کا عہد کر رکھا ہے ، کیاچند کروڑ لوگوں کو تعیش کی زندگی دینے کے لئے ضروری ہے ، باقی اربوں باشندوں کو تعلیم ،حقوق اور جینے کے حق سے محروم رکھا جائے ، کیا تیسری دنیا کو غلام بنا کر رکھنے والے پالیسی سازوں کو موت کی ہچکیاں نہیں لگیں گی ؟ کیا خدا کی کچہری میں ان کی پیشی نہیں ہو گی؟



0 commenti: