18/11/12

سانچہ

اس کے گاﺅں میں ایک بہت ہی خوبصورت درخت تھا جس کے بارے عجیب عجیب قصے بھی مشہور تھے کسی نے اسے کہا کہ اس درخت میں ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ جب کسی کو کوئی دکھ پہنچے تو اگروہ اس درخت کو آکر گلے لگالے اور اپنے دل کا حال سنالے تویہ درخت اس کا غم جذب کر لیتا تھا وہ ایک پڑھا لکھا سمجھ بوجھ والا شخص تھا ان باتوں کو توہمات سمجھتا تھا لیکن ایک دن اس نے یوں ہی آزمانے کے لئے درخت کو گلے لگایا اور اپنے دل کا حال سنانا شروع کر دیاباتیں ختم ہوئیں تو اسے محسوس ہوا کہ اس کے غموں کا بوجھ واقعی ہلکا ہوگیا ہے وہ ہنستا مسکراتاواپس لوٹا
اس کے بعد اس نے اپنی عادت ہی بنا لی کہ اسے جب بھی کوئی چوٹ پہنچتی کوئی دردملتا جب بھی کسی غم سے اس کا ناتا جڑتا اوراس کادل غمگین ہوتاتو وہ اس درخت کو گلے لگالیتا اور چیخیں مارمار کر اسے اپنے دل کا حال سنانا شروع کر دیتا جب وہ واپس لوٹتا تو اپنے آپ کو ہلکا محسوس کرتا عقل اور شعور کی ساری بحثیں اس احساس اطمینان کے سامنے مات کھاجاتیں جو اسے بعد میں نصیب آتا تھا اسے آہستہ آہستہ محسوس ہوا کہ وہ اس شجر کا اسیر ہونا شروع ہوگیا تھا اسنے اس درخت سے دوستی کر لی تھی اسنے سنا تھآ کہ دوست وہی ہوتا ہے جس کو سارے غم سنادیں تو غموں کو بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے چاہے وہ غموں کو کم کرنے میں کچح بھی نہ کر سکتا ہو
گاﺅں کے کچھ لوگوں کو جب پتہ چلا کہ ایک شخص ایک شجر سے باتیں کرتا ہے تو انہوں نے مختلف چہ مہ گوئیاں شروع کر دیں اور اسے پاگل کہنا شروع کردیا گاﺅں کے مولوی کوخبر ہوئی تو اسنے اس پر شرک کا فتوی ٰ داغ دیا کہ یہ ایک شجر کی پوجا کرنا شروع ہوگیا ہے مولوی نے گاﺅں کے لوگوں کو بھڑکانا شروع کر دیا اور اس بات پر اکسایا کہ فساد کی جڑ اس درخت کو ہی کا ٹ دیا جائے
 وہ درخت اس کا دوست تھآ اس کا  آخری سہارا تھا جس کی بنا پر اسے غموں سے نجات ملتی تھی وہ مولوی صاحب کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا اور عرض گزار ہوا کہ اس درخت کو نہ کاٹاجاے کہ یہ فطرت کی نشانی ہے اور وعدہ کیا کہ وہ کبھی اس درخت کوگلے نہیں لگائے گا اس کے اس وعدہ کے بعد گاﺅں والوں نے درخت کا ٹنے کا ارادہ ترک کر دیا معاشرہ جیت گیا، ریت رواج جیت گئے اور دوستی کا رشتہ ہار گیا اس نے درخت کے پاس جانا بھی چھوڑ دیا اور اسے اپنا حال سنانابھی چھوڑ دیا لیکن آج بھی جب غم کی گھٹا ٹوپ راتوں میں اس کا دل کسی کو گلے لگاکر اپنے حال سنانے کو کرتا ہے تو اسے وہ درخت بہت یاد آتا ہے
لیکن کیا کریں کہ رسم ورواج کی اس دنیامیں ہم نے ہر رشتہ ہر ناتا اور ہر تعلق کو ایک نام کے سانچے میں ڈالا ہوا ہے اسی لئے ہمیں ہر اس تعلق ہراس ناتے اور ہر اس رشتہ کی سمجھ نہیں آتی جو ہمارے بنائے ہوئے رسم ورواج کے سانچے میں نہ سمائے جب تک کسی بھی تعلق کو کوئی نام نہ دیا جائے وہ غیر فطری سمجھا جاتا ہے حالانکہ اتنی خوبصورت دنیا میں قدرت کی سب نشانیوں میں سے کسی سے بھی محبت ہوجانا عین فطرت کا ہی مظاہرہ ہے 

0 commenti: