ترقی یافتہ معاشروں میں معاشرتی برائیوں سے آگاہی اورلوگوں کی تربیت کے لئے تدریس وتبلیغ کے مختلف طریقہ کار اختیار کئے جارہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں محراب ومنبر سے لیکر سیاسی و سماجی محاذوں پرصدیوں سے تربیت کا ایک ہی طریقہ رائج ہے اور وہ ہے ”ون مین شو“والا یعنی کسی بھی مسئلہ پر بات چھیڑنی ہوتو مذہبی ، سیاسی یا سماجی تنظیمات کی جانب سے بڑی تیاری کی ساتھ ایک اسٹیج سجایا جاتا ہے اسکے بعد ایک مہمان بلایا جاتا ہے جو دو دو تین گھنٹے بلاتکان بولتا ہے اور ایسی ایسی سریں لگاتا ہے کہ سننے والا کشمکش میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ بات کرنے والا مبلغ ہے، معلم ہے یا گلوکار ؟ اس ون مین شو میں اس کے سامنے ایک ہجوم اکٹھا کیا جاتا ہے جس میں سے کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ خطاب کے آخر میں کسی قسم کا سوال کرے اور اگر کہیں کوئی سوال کرنے کی جسارت کر بیٹھے تو اس کی ایسی درگت بنائی جاتی ہے کہ آئندہ وہ کسی بھی محفل میں سوال کی کوشش نہ کرسکے سیاسی محفلوں میں میزبان اعلان کر دیتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی سوال نہیں کیا جا سکتا عجیب معمہ بن جاتا ہے کہ سیاسی قائد سے سیاسی سوال نہ کریں تو کیا صرف و نحو پر گفتگو کی جائے سوال کیا جانا برائے راست قائد کی توہین کے مترادف سمجھا جاتا ہے مذہبی محافل میں سوال کر نے والے کے سر پر یہ خوف تلوار کی طرح لٹکتا رہتا ہے کہ اگر مبلغ کوسوال کو جواب نہ آتا ہوا تو وہ سیدھا سیدھا کافر کا فتوی ٰ لگا کر دائرہ اسلام سے خارج ہی نہ کر دے جدید دنیا میں انسان کی تربیت میں فلم اور تھیٹر کا بھی بہت اہم کردار ہے لیکن پاکستان جیسے معاشرے میں فلم اور تھیٹر کو اکثریت تو ویسے ہی گناہ خیال کرتی ہے اور جو لوگ اس کو گناہ نہیں سمجھتے وہ بھی ان کی مدد سے معاشرتی برائیوں کی بجائے فحاشی اور بے ہودگی کو ترویج تو دیتے ہیں لیکن ان کی مدد سے کسی سماجی مسئلہ کو خال خال ہی زیر بحث لاتے ہیں
گزشتہ دنوں ایک سیمینار میں شرکت کرنے کا موقع ملا ،سیمینار کا انعقاد ایک ایسی ایسوسی ایشن کی جانب سے تھا جو یورپین یونین کے ایک پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے یہ پراجیکٹ اٹلی ،فرانس ، بلجیم ، پرتگال اور اسپین کے علاوہ دیگر ممبر ممالک میں بھی مختلف تنظیمات سر انجام دے رہی ہیںیہ تنظیمات نسل پرستی اور مختلف ایسے تاثرات جو معاشرے میں خو ف پیدا کرتے ہیں کے خلاف لوگوں کو آگاہی دینے کے لئے اسٹریٹ تھیٹر کا اہتمام کرتی ہیں لیکن اس تھیٹرکا سب سے دلچسپ پہلو یہ کہ اس کے کردار ایک مخصوص مدت کا” شو“ کرکے مسئلہ عوام کے سامنے رکھتے ہیں اور اس کے بعدعوام میں کھلی بحث چھیڑ دیتے ہیں ،حاضرین میں موجود ہرشخص کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ متعلقہ موضوع پر بات کرے ، اس پر سوال اٹھائے یااپنی تشکیک اوراپنے ابہام کا تذکرہ کرے ، تھیٹر انتظامیہ وہاں موجود ہر شخص کو یہ موقع بھی دیتی ہے کہ کہ وہ خود اٹھ کر اس شوکا حصہ بنے یعنی جو سین اسے پسند نہیں آیااس کو تبدیل کرائے یاخو د بحیثیت اداکار پرفارم کرکے بتائے کہ اگر یہ سین ایسے کیا جائے تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے اس شو کے اختتام پر تھیٹر انتظامیہ متعلقہ مسئلہ کے حل کے لئے عوام سے تجاویز طلب کرتے ہیں اورباہمی مشاورت سے ان کوباقاعدہ تحریر کرتے ہیں جو تجاویز علاقائی انتظامیہ سے وابستہ ہوں وہ ان تک پہنچائی جاتی ہیں جو ملکی سطح پر پارلیمنٹ، عدالت یا حکومت کو پیش کرنے والی ہوں وہ وہاں تک پہنچائی جاتی ہیں اور جوتجاویز یورپین یونین کی انتظامیہ تک پہنچانے والی ہوں وہ ان تک بھجوائی جاتی ہیں اس طرح تھیٹر کی مدد سے متعلقہ مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے عوام کو اپنی خامیوں کو محسوس کرنے اوران پر غور کرتے ہوئے اپنی اصلاح کا موقع بھی ملتا ہے
17نومبر کو ہونے والایہ سمینار اس تنظیم کا پراجیکٹ ختم ہونے پر منعقدکیا گیا تھا،یہ تنظیم مختلف موضوعات پر اٹلی کے مختلف شہروں میں اسٹریٹ تھیٹر کا اہتما م کر چکی تھی اس سیمینار میں مختلف شعبہ وکالت ، صحافت اور سیاست کے ماہرین نے مختلف ایسے موضوعات پر گفتگو کرنا تھی جویورپی معاشرے میں خوف کا باعث بنتے ہیں۔ مجھے یورپ میں موجو د تارکین وطن شہریوں کے مسائل اور انہیں جن نفرتو ں سے واسطہ پڑتا ہے ان پر گفتگو کرنا تھی میں نے مروج طریقے سے تقریر تیار کی اور وہاں پہنچ گیا لیکن وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ اس سیمینار میں بھی وہ مجھے ون مین شو والا موقع فراہم نہیں کرنے والے تھے بلکہ آج بھی انہوں نے حاضرین کو پورا موقع دیا کہ وہ مجھ سے سوالات کر سکتے تھے اور بیان کئے گئے مسائل کا حل اور تجاویز نہ صرف مجھ سے طلب کر سکتے تھے بلکہ اس پر ایک کھلی بحث کا آغاز کر سکتے تھے اور اس موضوع پر اپنی تجاویز دے سکتے تھے بحث شروع کرنے سے پہلے جو چند لمحے مجھے اپنی خطابت کے جوہر دکھانے میں میسر آئے وہ قارئین کے دلچسپی کے لئے پیش کرتا ہوں
”اٹلی میں تارکین وطن شہریوں کی تعداد 50لاکھ سے تجاوز کررہی ہے امیگرنٹس کی دوسری نسل سکولوں سے فارغ التحصیل ہوکر معاشرہ کا حصہ بن رہی ہے اگر اٹلی میں امیگریشن کو ابھی بھی سیکورٹی رسک کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے یا ان کا وجود معاشرہ میں خوف کا باعث ہے تو ظاہری بات ہے کہ اٹلی کا سیاسی و سماجی طبقہ اپنی سوسائٹی کے اتنے اہم حصہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا اور وہ ابھی بھی ایمرجینسی اور سیکورٹی خطرہ جیسی فضول بحثوں میں مبتلا ہے
کسی بھی صحت مند معاشرہ کے قیام میں دو طبقات کا کردار ستون کا سا ہوتا ہے جن میں سر فہرست ایک تو ہےں اس ملک کے سیاستدان اور دوسرا طبقہ ہے اس ملک کا میڈیا یہ دنوں ہی طبقات معاشرہ کو سمت دیتے ہیں
اٹلی کے سیاستدانوں کاحال یہ ہے کہ یہ ووٹ لینے کے لئے تارکین وطن شہریوں کے خلاف نفرت استعمال کرتے ہیں اور اپنے شہریوں کی ہمدردی اور ووٹ لینے کے لئے خوف کا کارڈ استعمال کرتے ہیں آ پ کی شناخت کی دہائی دیتے ہیں اور یہ کبھی نہیں بتاتے کہ یہ پچاس لاکھ شہری کس طرح معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیںاور یہ بھول گئے ہیں کہ اگر معاشرہ کے اس اہم جزو کو نظر انداز کیا گیاتواگلی نسلوں کے درمیان اجنبیت کی کتنی خلیجیں حائل ہوں گی جو کسی بھی صحت مند معاشرے کے لئے نقصان دہ ثابت ہوں گی
دوسرا طبقہ میڈیا یا جرنلزم کا ہے جو رائے عامہ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے حکومتی اداروں کی ریسرچ کے مطابق اطالوی میڈیا امیگرنٹس کے بارے منفی تاثر پیدا کر رہے ہیں ان کی رپورٹ کے مطابق اخبارات کا 52.8فیصد حصہ امیگرنٹس کی جانب سے کئے گئے جرائم اور ان پر ہوئی عدالتی کاروائیوں پر ہوتا ہے 34%حصہ ان کے بارے بنائے گئے سخت قوانین کے بارے 5.3%حصہ غیرقانونی پر اٹلی داخل ہونے والی کھیپ پر اور صرف 7.9% حصہ ان کے کلچر اور مسائل کے بارے ہوتا ہے ۔۔۔
دودن پہلے ہی ایک مراکشی مسلمان کے بارے خبر چھپی ہے کہ اس نے اپنی گیارہ سالہ بچی اور چھ سالہ بیٹے کو اس لئے قتل کر کے خودکشی کی کوشش کی کہ اس کی بیوی اس سے ناراض ہو کر چلی گئی تھی لیکن چونکہ اطالوی میڈیا کو اس خبر میں کوئی مصالحہ نظر نہیں آیا اس لئے اخبارپر سرخی یہ لگائی گئی کہ والد نے اپنی بیٹی کو اس لئے قتل کردیا کہ وہ اسے پردہ کروانا چاہتا تھااور اس طرح اخبار والوں نے دودن کے اند ر ہی فیصلہ بھی سنا دیا اور مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ بھی بنادی کہ مسلمان اتنے ظالم ہیں کہ پردہ کے لئے اپنی معصوم بیٹیوں کو قتل بھی کر دیتے ہیں آپ خود اندازہ لگا لیں کہ اسطرح کے جرنلزم کے بعد معاشرہ میں تارکین وطن شہریوں کے خلاف اور ان کے مذہب کے بارے کیسی رائے عامہ پیدا ہوگی(ہال میں تالیاں اور پبلک کی جانب سے شرمندگی کااظہار )ہمیں ایک صحت مند اطالوی معاشرہ کے قیام کے لئے سیاست اور میڈیا کے کردار کا تعین کرنا ہوگا
جہاں تک بات ہے خوف کی تویاد رکھیں کہ تارکین وطن شہری آپ لوگوں سے زیادہ ہمہ وقت خوف کی حالت میں ہوتا ہے اس کاخوف اس شخص جیسا ہوتا ہے جسکا مکان کسی قدرتی آفت کی زد میں تباہ وبرباد ہوجائے تو اسے اپنا مکان گرنے کا اتنا خوف نہیں ہوتا جتنا بعد میں اس کونئے سرے سے تعمیر کرنے اور گھر کی ایک ایک چیز اکٹھی کرنے کا ہوتا ہے ان کے لئے چونکہ نیاملک ،نئی زبان اور معاشرہ بھی نیا ہوتا اس لئے اس میں رہائش کا اندیشہ ہر پل موجود رہتا ہے آج اطالوی سکولوں میں ان کے بچے پڑھ رہے ہیں انہیں اپنی مذہبی روایات کھو جانے کا خوف ہے،بچوں کی شہریت اطالوی نہ ہونے کے باعث ان کے مستقبل کے خواب سجانے کاخوف اور تنکاتنکا جوڑتے والد کو روزگار کے کھو جانے کا خوف ہمہ وقت پریشان رکھتا ہے
اگر ہم ان اندیشوں کو دور کرنا چاہتے اور ایک ملٹی کلچرل سوسائٹی تخلیق کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان باتوں پر غور کرنا چاہیے
کہ ابھی تک اٹلی والے ”ہم “ اور ”وہ“ یعنی امیگرنٹس کا فرق نہیں مٹا سکے دنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان صرف دو قسم کے ہوتے ”اچھے “یا” برے“ اس کے علاوہ کسی بھی جنس ،قوم ، نسل یا مذہب کی تقسیم یا تفریق کرنا فضول ہے ۔
اٹلی کی آخری مردم شماری کے مطابق حالیہ کساد بازاری کے نتیجے میں یہاں سے آٹھ لاکھ تارکین وطن شہری ہجرت کر کے دوسرے ملکوں میں شفٹ ہوگئے ہیںیہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ وہ اٹلی میں اپنے مستقبل کو محفوظ محسوس نہیں کرتے یاد رکھیں اٹلی کا مستقبل تارکین وطن شہریوںکے بغیر ناممکن ہے ، اعدادوشمار کرنے والے اداروں کے مطابق2050ءتک پینسٹھ سال سے زائد عمر والوںاطالوی شہریوں کی تعداد 22ملین سے تجاوز کر جائے گی ایسی صورت میں سترہ ملین کام کرنے والے ورکرز کی کمی ہوجائے گی،ہمیں اس امیگریشن والے پراسس کے بارے حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی نفرت اور سختی کی پالیسی سے حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتی
گاندھی نے کہا تھا کہ میری نظر میں جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں معاشرے کے کمزورطبقہ کو طاقتور کے برابرمواقع ملیں
چونکہ امیگرنٹس کسی بھی ملک میں کمزور طبقہ ہوتا ہے اس لئے اگر انہیں جمہوری سسٹم کا حصہ نہ بنایا جائے انہیں ووٹ کا حق نہ دیا جائے تو و ہ کبھی بھی طاقتور کے برابر حقوق نہیں لے سکتے اور معاشرہ میں حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہوسکتی ۔۔۔۔ “
سیمینار کے آخر میں تمام تجاویز نوٹ کی گئی اور عوام کی جانب سے اکثریت رائے سے تارکین وطن بچوں کو پیدائش کے وقت ہی اطالوی شہریت کے حصول کے لئے قانون سازی اور میڈیا کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ متعین کرنے کے سفارشات تیار کی گئی تاکہ یورپین یونین کو بھجوائی جاسکیں
گزشتہ دنوں ایک سیمینار میں شرکت کرنے کا موقع ملا ،سیمینار کا انعقاد ایک ایسی ایسوسی ایشن کی جانب سے تھا جو یورپین یونین کے ایک پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے یہ پراجیکٹ اٹلی ،فرانس ، بلجیم ، پرتگال اور اسپین کے علاوہ دیگر ممبر ممالک میں بھی مختلف تنظیمات سر انجام دے رہی ہیںیہ تنظیمات نسل پرستی اور مختلف ایسے تاثرات جو معاشرے میں خو ف پیدا کرتے ہیں کے خلاف لوگوں کو آگاہی دینے کے لئے اسٹریٹ تھیٹر کا اہتمام کرتی ہیں لیکن اس تھیٹرکا سب سے دلچسپ پہلو یہ کہ اس کے کردار ایک مخصوص مدت کا” شو“ کرکے مسئلہ عوام کے سامنے رکھتے ہیں اور اس کے بعدعوام میں کھلی بحث چھیڑ دیتے ہیں ،حاضرین میں موجود ہرشخص کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ متعلقہ موضوع پر بات کرے ، اس پر سوال اٹھائے یااپنی تشکیک اوراپنے ابہام کا تذکرہ کرے ، تھیٹر انتظامیہ وہاں موجود ہر شخص کو یہ موقع بھی دیتی ہے کہ کہ وہ خود اٹھ کر اس شوکا حصہ بنے یعنی جو سین اسے پسند نہیں آیااس کو تبدیل کرائے یاخو د بحیثیت اداکار پرفارم کرکے بتائے کہ اگر یہ سین ایسے کیا جائے تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے اس شو کے اختتام پر تھیٹر انتظامیہ متعلقہ مسئلہ کے حل کے لئے عوام سے تجاویز طلب کرتے ہیں اورباہمی مشاورت سے ان کوباقاعدہ تحریر کرتے ہیں جو تجاویز علاقائی انتظامیہ سے وابستہ ہوں وہ ان تک پہنچائی جاتی ہیں جو ملکی سطح پر پارلیمنٹ، عدالت یا حکومت کو پیش کرنے والی ہوں وہ وہاں تک پہنچائی جاتی ہیں اور جوتجاویز یورپین یونین کی انتظامیہ تک پہنچانے والی ہوں وہ ان تک بھجوائی جاتی ہیں اس طرح تھیٹر کی مدد سے متعلقہ مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے عوام کو اپنی خامیوں کو محسوس کرنے اوران پر غور کرتے ہوئے اپنی اصلاح کا موقع بھی ملتا ہے
17نومبر کو ہونے والایہ سمینار اس تنظیم کا پراجیکٹ ختم ہونے پر منعقدکیا گیا تھا،یہ تنظیم مختلف موضوعات پر اٹلی کے مختلف شہروں میں اسٹریٹ تھیٹر کا اہتما م کر چکی تھی اس سیمینار میں مختلف شعبہ وکالت ، صحافت اور سیاست کے ماہرین نے مختلف ایسے موضوعات پر گفتگو کرنا تھی جویورپی معاشرے میں خوف کا باعث بنتے ہیں۔ مجھے یورپ میں موجو د تارکین وطن شہریوں کے مسائل اور انہیں جن نفرتو ں سے واسطہ پڑتا ہے ان پر گفتگو کرنا تھی میں نے مروج طریقے سے تقریر تیار کی اور وہاں پہنچ گیا لیکن وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ اس سیمینار میں بھی وہ مجھے ون مین شو والا موقع فراہم نہیں کرنے والے تھے بلکہ آج بھی انہوں نے حاضرین کو پورا موقع دیا کہ وہ مجھ سے سوالات کر سکتے تھے اور بیان کئے گئے مسائل کا حل اور تجاویز نہ صرف مجھ سے طلب کر سکتے تھے بلکہ اس پر ایک کھلی بحث کا آغاز کر سکتے تھے اور اس موضوع پر اپنی تجاویز دے سکتے تھے بحث شروع کرنے سے پہلے جو چند لمحے مجھے اپنی خطابت کے جوہر دکھانے میں میسر آئے وہ قارئین کے دلچسپی کے لئے پیش کرتا ہوں
”اٹلی میں تارکین وطن شہریوں کی تعداد 50لاکھ سے تجاوز کررہی ہے امیگرنٹس کی دوسری نسل سکولوں سے فارغ التحصیل ہوکر معاشرہ کا حصہ بن رہی ہے اگر اٹلی میں امیگریشن کو ابھی بھی سیکورٹی رسک کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے یا ان کا وجود معاشرہ میں خوف کا باعث ہے تو ظاہری بات ہے کہ اٹلی کا سیاسی و سماجی طبقہ اپنی سوسائٹی کے اتنے اہم حصہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا اور وہ ابھی بھی ایمرجینسی اور سیکورٹی خطرہ جیسی فضول بحثوں میں مبتلا ہے
کسی بھی صحت مند معاشرہ کے قیام میں دو طبقات کا کردار ستون کا سا ہوتا ہے جن میں سر فہرست ایک تو ہےں اس ملک کے سیاستدان اور دوسرا طبقہ ہے اس ملک کا میڈیا یہ دنوں ہی طبقات معاشرہ کو سمت دیتے ہیں
اٹلی کے سیاستدانوں کاحال یہ ہے کہ یہ ووٹ لینے کے لئے تارکین وطن شہریوں کے خلاف نفرت استعمال کرتے ہیں اور اپنے شہریوں کی ہمدردی اور ووٹ لینے کے لئے خوف کا کارڈ استعمال کرتے ہیں آ پ کی شناخت کی دہائی دیتے ہیں اور یہ کبھی نہیں بتاتے کہ یہ پچاس لاکھ شہری کس طرح معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیںاور یہ بھول گئے ہیں کہ اگر معاشرہ کے اس اہم جزو کو نظر انداز کیا گیاتواگلی نسلوں کے درمیان اجنبیت کی کتنی خلیجیں حائل ہوں گی جو کسی بھی صحت مند معاشرے کے لئے نقصان دہ ثابت ہوں گی
دوسرا طبقہ میڈیا یا جرنلزم کا ہے جو رائے عامہ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے حکومتی اداروں کی ریسرچ کے مطابق اطالوی میڈیا امیگرنٹس کے بارے منفی تاثر پیدا کر رہے ہیں ان کی رپورٹ کے مطابق اخبارات کا 52.8فیصد حصہ امیگرنٹس کی جانب سے کئے گئے جرائم اور ان پر ہوئی عدالتی کاروائیوں پر ہوتا ہے 34%حصہ ان کے بارے بنائے گئے سخت قوانین کے بارے 5.3%حصہ غیرقانونی پر اٹلی داخل ہونے والی کھیپ پر اور صرف 7.9% حصہ ان کے کلچر اور مسائل کے بارے ہوتا ہے ۔۔۔
دودن پہلے ہی ایک مراکشی مسلمان کے بارے خبر چھپی ہے کہ اس نے اپنی گیارہ سالہ بچی اور چھ سالہ بیٹے کو اس لئے قتل کر کے خودکشی کی کوشش کی کہ اس کی بیوی اس سے ناراض ہو کر چلی گئی تھی لیکن چونکہ اطالوی میڈیا کو اس خبر میں کوئی مصالحہ نظر نہیں آیا اس لئے اخبارپر سرخی یہ لگائی گئی کہ والد نے اپنی بیٹی کو اس لئے قتل کردیا کہ وہ اسے پردہ کروانا چاہتا تھااور اس طرح اخبار والوں نے دودن کے اند ر ہی فیصلہ بھی سنا دیا اور مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ بھی بنادی کہ مسلمان اتنے ظالم ہیں کہ پردہ کے لئے اپنی معصوم بیٹیوں کو قتل بھی کر دیتے ہیں آپ خود اندازہ لگا لیں کہ اسطرح کے جرنلزم کے بعد معاشرہ میں تارکین وطن شہریوں کے خلاف اور ان کے مذہب کے بارے کیسی رائے عامہ پیدا ہوگی(ہال میں تالیاں اور پبلک کی جانب سے شرمندگی کااظہار )ہمیں ایک صحت مند اطالوی معاشرہ کے قیام کے لئے سیاست اور میڈیا کے کردار کا تعین کرنا ہوگا
جہاں تک بات ہے خوف کی تویاد رکھیں کہ تارکین وطن شہری آپ لوگوں سے زیادہ ہمہ وقت خوف کی حالت میں ہوتا ہے اس کاخوف اس شخص جیسا ہوتا ہے جسکا مکان کسی قدرتی آفت کی زد میں تباہ وبرباد ہوجائے تو اسے اپنا مکان گرنے کا اتنا خوف نہیں ہوتا جتنا بعد میں اس کونئے سرے سے تعمیر کرنے اور گھر کی ایک ایک چیز اکٹھی کرنے کا ہوتا ہے ان کے لئے چونکہ نیاملک ،نئی زبان اور معاشرہ بھی نیا ہوتا اس لئے اس میں رہائش کا اندیشہ ہر پل موجود رہتا ہے آج اطالوی سکولوں میں ان کے بچے پڑھ رہے ہیں انہیں اپنی مذہبی روایات کھو جانے کا خوف ہے،بچوں کی شہریت اطالوی نہ ہونے کے باعث ان کے مستقبل کے خواب سجانے کاخوف اور تنکاتنکا جوڑتے والد کو روزگار کے کھو جانے کا خوف ہمہ وقت پریشان رکھتا ہے
اگر ہم ان اندیشوں کو دور کرنا چاہتے اور ایک ملٹی کلچرل سوسائٹی تخلیق کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان باتوں پر غور کرنا چاہیے
کہ ابھی تک اٹلی والے ”ہم “ اور ”وہ“ یعنی امیگرنٹس کا فرق نہیں مٹا سکے دنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان صرف دو قسم کے ہوتے ”اچھے “یا” برے“ اس کے علاوہ کسی بھی جنس ،قوم ، نسل یا مذہب کی تقسیم یا تفریق کرنا فضول ہے ۔
اٹلی کی آخری مردم شماری کے مطابق حالیہ کساد بازاری کے نتیجے میں یہاں سے آٹھ لاکھ تارکین وطن شہری ہجرت کر کے دوسرے ملکوں میں شفٹ ہوگئے ہیںیہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ وہ اٹلی میں اپنے مستقبل کو محفوظ محسوس نہیں کرتے یاد رکھیں اٹلی کا مستقبل تارکین وطن شہریوںکے بغیر ناممکن ہے ، اعدادوشمار کرنے والے اداروں کے مطابق2050ءتک پینسٹھ سال سے زائد عمر والوںاطالوی شہریوں کی تعداد 22ملین سے تجاوز کر جائے گی ایسی صورت میں سترہ ملین کام کرنے والے ورکرز کی کمی ہوجائے گی،ہمیں اس امیگریشن والے پراسس کے بارے حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی نفرت اور سختی کی پالیسی سے حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتی
گاندھی نے کہا تھا کہ میری نظر میں جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں معاشرے کے کمزورطبقہ کو طاقتور کے برابرمواقع ملیں
چونکہ امیگرنٹس کسی بھی ملک میں کمزور طبقہ ہوتا ہے اس لئے اگر انہیں جمہوری سسٹم کا حصہ نہ بنایا جائے انہیں ووٹ کا حق نہ دیا جائے تو و ہ کبھی بھی طاقتور کے برابر حقوق نہیں لے سکتے اور معاشرہ میں حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہوسکتی ۔۔۔۔ “
سیمینار کے آخر میں تمام تجاویز نوٹ کی گئی اور عوام کی جانب سے اکثریت رائے سے تارکین وطن بچوں کو پیدائش کے وقت ہی اطالوی شہریت کے حصول کے لئے قانون سازی اور میڈیا کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ متعین کرنے کے سفارشات تیار کی گئی تاکہ یورپین یونین کو بھجوائی جاسکیں
0 commenti:
Posta un commento