لافٹر تھراپی
تحریر محموداصغر چودھری ایڈیٹر جذبہ اٹلی
www.mahmoodch.com
بیرون ملک رہنے والے پاکستانی دنیا میں جاری کسادبازاری اور اپنے ملک پاکستان میں جمہوریت کی ثمرات دیکھ دیکھ کر اتنے پریشان ہیں کہ کسی سے مسکراہٹ والی بات کرنے سے پہلے یہ ڈر محسوس ہوتاکہ وہ الٹا پھٹ ہی نہ پڑے کہ تمہیں” اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھیں ہیں“ ویب سائٹس پر پہلے کبھی کبھار کوئی مزاحیہ کالم مل جاتا تھا اب عالم یہ ہے کہ محترم دوست شفیق بٹ بھی آجکل یا تو غمگین کالم لکھتے ہیں یا پھر چاقو چھری والے پر تشدد موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیںپتہ نہیں حالات کا قصور ہیں یا ان کا جذبہ چھوٹ گیا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کا کہناہے کہ اداسیاں پھیلانے میںبھی سارا قصور میڈیاکا ہے اور اسی بات کی تائید کالم نگار لیاقت علی شفقت نے بھی اپنے ایک حالیہ کالم میں کی ہے موصوف کہتے ہیں کہ حج میں کرپشن اور حاجیوں کو تنگ تو ہر سال کیا جاتا ہے لیکن اس سال یہ سب کچھ منظر عام پراس لیے آیا ہے کہ میڈیا کی ایک ٹیم حج پر ساتھ گئی تھی یعنی اگر کرپشن بے نقاب ہوتو بھی میڈیا کا قصور ہے حالانکہ یہ الزام غلط ہے میڈیاکی اکثر خبریں اور سیاسی ٹاک شوز سیاسی لطیفوں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں یہ اور بات ہے کہ یہ لطیفے سننے سے زیادہ دیکھنے پڑتے ہیں جہاں تک بیانات کا تعلق ہے تو ہرسیاسی بیان ہی لبوں پہ مسکراہٹیں بکھیرنے والاہوتاہے مثلاوزیراعظم صاحب کے اس بیان کو ہی لے لیںجس میں وہ فرماتے کہ ملک میں چینی کم نہیں ہے وافر مقدار میں موجود ہے صرف حکومت کوبدنام کیا جا رہا ہے یعنی حکومت کی بدنامی میں حکومتی پارلیمنٹرین بھی شامل ہیں کیونکہ اکثر شوگر ملز کے مالکان توحکومتی پارٹی کے لیڈر ہیں۔ اپوزیشن لیڈر میاں نواز شریف فرماتے ہیں کہ حکومت نے کرپشن نہ روکی تو خاموش نہیں بیٹھیں گے میاں صاحب پچھلے تین سال سے ہرحکومتی نااہلی پر یہی صدا لگا دیتے ہیں کہ خاموش نہیں بیٹھیں گے اور اس کے بعد؟؟؟یہ خبر سنیں ”دس ٹرینوںکا تیل راستے میں ختم ہوگیا ٹرینیں رک گئی “بتائیں ایسا دنیا کے کون سے ملک میں ہوسکتا ہے ٹرین والی خبر بھی آپکو لطیفہ نہیں لگتی تو یہ سنیں” جدہ سے لاہور آنے والی فلائٹ کاپٹرول ختم ہوگیا اس لئے اسے کراچی اتارنا پڑگیا“اگر ابھی بھی دل نہیں بھرا تو سناتا چلوںکہ پیپلز پارٹی کی حکومت پچھلے تین سال سے یہی دھرا رہی کہ وہ” اپنی لیڈربے نظیربھٹوکے قاتلوں کو بے نقاب کرکے دم لیں گے“کب ؟؟ آگے چلئے ریفارمڈ جنرل سیلز ٹیکس کی ووٹنگ کے دوران ق لیگ نے اسمبلی سے واک آﺅٹ کرکے غریبوں کی حمایت کی۔ روٹی کپڑا مکان کے دعوی ٰ کرنے والی پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پربنکوں کی جانب سے چودہ فی صد شرح سود کاتحفہ تاکہ کاروبار بالکل ٹھپ ہی ہوجائیں اب چلتے ہیں ویکی لیکس کی خبروں کی جانب تو ان میں سے کیا لیکس ہیں ہمیں تو کوئی سمجھ نہیں آئی صرف وہی کچھ ہے جو روز خبروں میں ہوتا ہے ہاں البتہ یہ پتہ چلا ہے کہ”سر “ کے بارے شاہ عبداللہ اوربعض پاکستانیوں کی سوچ کافی ملتی جلتی ہے
اسی طرح کی میٹھی خبریں پڑھ پڑھ کر ہمارے ایک دوست صحافی کوتوشوگر ہوگئی ہے اور اس کی شوگرکا جتنا نقصان ہمیں ہوا ہے اتنا اسے بھی نہیں اب ہم اکٹھے کہیں بھی جاتے ہیں تو وہ جاتے ہی میزبان کو آوازلگا دیتے ہیں چائے نہ بنائیں میزبان کہتا ہے تو پھر پیپسی یا سپرائٹ لے آﺅں تو وہ سختی سے منع کردیتے ہیں جوس کا نام بھی نہیں لینے دیتے میزبان پوچھتا ہے پھر کیا لاﺅں تو جواب ملتا ہے صرف سادہ پانی ۔۔شوگر توان کو ہوئی ہے لیکن ان کے ساتھ جا کر اتنا سادہ پانی پیا ہے کہ لگتا ہے کہ سادہ پانی پر تحقیقی مقالہ لکھنا ہے ایک محفل میں باقاعدہ ہمارے ایک ساتھی کو تو میزبان کوکہنا پڑامجھے ایک بسکٹ دے دیں میرا سادہ پانی گلے میں پھنس گیا ہے
یہ شوگر بھی عجیب مرض ہے کہ انسانوں میں بیٹھنے کے قابل نہیں چھوڑتا جس طرح سگریٹ نوشی کا زیادہ نقصان ان لوگوں کو ہوتا ہے جو سگریٹ تو نہیں پیتے لیکن سگریٹ پینے والوں کی سنگت میں بیٹھتے ہیں اسی طرح شوگر کااتنا نقصان اس شخص کو نہیں جسے شوگر ہے بلکہ انہیں ہوتا ہے جو اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔جی نہیں۔ شوگرکوئی چھوت کی بیماری نہیں کہ کسی کی سنگت میں رہنے سے ہوجاتی ہے بلکہ نقصان یہ ہوتا ہے کہ شوگروالے دوست کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے کچھ بھی کھا پی نہیں سکتے کسی بھی دعوت میں چلے جائیں میزبان سے پہلے ہی کہہ دیاجائے گاکہ چاول نہیں بنا نا چاولوں میں شوگر بڑھنے کا خطرہ ہے میزبان چاہے بریانی کی پوری تیاری کر کے بیٹھا ہو،کوئی پیزا منگوانے کا ارادہ ظاہر کرے تو جواب ہوگا نہیں نشاستے والی غذاﺅں کانام نہ لیں شوگر بڑھنے کا احتمال ہے، گوشت تو زہر ہے ،تکہ کباب کا تو نام نہیںلینے دیں گے اورہمارا عالم یہ ہے کہ کباب ”ب “پر ختم ہونے والے باقی لفظوں میں سے واحد لفظ ہے جو ہم برملا پسندکرتے ہیں کوئی چائے پراصرار کرے تواسے کہیں گے بغیر چینی والی چائے بنانااور میزبان کو ایک نئی مصیبت میں ڈال دیں گے وہ دوسروں کے لئے الگ سے چینی اور چمچ اٹھا کرلائے گا اور سب کو کچی چینی والی چائے پینا پڑے گی
شوگر کی بیماری کا سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ اس بیماری والوں کو بہت سے ساتھی مل جاتے ہیں ۔جی نہیں۔ ساتھی سے میری مرادنہ تو جیون ساتھی ہے اور نہ ہی کوئی اور ”ساتھی “بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اب یہ بیماری اتنی پھیل گئی ہے کہ جس محفل میں بھی اس کا اظہار کر دیں دو چار آدمی ایسے ہاتھ کھڑا کردیں گے جیسے کسی قراردادکے حق میں ہوں استفسار پر پتہ چلے گاکہ وہ بھی اس مرض میں مبتلا ہیں بس پھر کیا اگر آپ کسی مذہبی محفل میں بیٹھیں ہیں اور آپ روح کی آسودگی کے بارے کوئی بات سنناچاہتے تھے توآپ کو مایوسی ہوگی تمام موضوعات ختم ہوجائیں گے اور شوگر کے مسائل شروع ہوجائیں گے کوئی کہے گا روزے شوگر والوں پر فرض نہیں ہیں کیونکہ اس نے پانی با ر بار پینا ہوتاہے موضوع چھڑ جائے گا کہ دنیا فانی ہے آخرت کی تیاری کر لیںاور اگر آپ کہیں شاعری اور ادب کی محفل میں شامل ہوں تو آپ محبوب کے لہجے کی مٹھاس کا تذکرہ نہیں کر سکتے کہ کہیں مریضان شوگر کی شوگر نہ بڑھ جائے آپ ہجر کی باتیں بیان نہیں کر سکتے کہ غم کی باتیں بھی دل پر بھی بڑا برا اثر پید اکرتی ہیں اورشوگر میںبڑھوتی کا باعث بنتی ہیںکسی محفل میں ملکی و سیاسی حالات پر گفتگو شروع کریں تو بات گھوم پھر کر ملک میں چینی کے فقدان پر آجائے گی میرے یہ شوگر والے دوست پکے مسلم لیگی ہیں لیکن وزیر خوراک کے اس بیان سے متفق ہیں کہ چینی عیاشی ہے
کہتے ہیں کہ ”غصہ “شوگر والے شخص کی ناک پر ہوتا ہے ویسے میں نے تو اکثر دیکھا ہے کہ شوگر والے شخص کی ناک پر عینک ہوتی ہے شوگر والے مریضوں کوچینی والی عیاشی پر بڑاغصہ آتا ہے جب کبھی کوئی شخص اپنی شادی کی خوشی میں مٹھائی لیکر آئے توکہتے ہیں انتہائی بے وقوف شخص ہے کہ اپنی آزادی کے سلب ہونے پر بھی مٹھائیاںتقسیم کر رہا ہے میرے دوست آمریت کے خلاف ہیں کہتے ہیں کہ شادی کی مٹھائی بھی اس مٹھائی کی طرح ہے جومشرف اور اس جیسے جرنیلوں کی آمد پر تقسیم ہوتی ہے اگر کسی بچے کی خوشی میں کوئی مٹھائی تقسیم کرے تو کہتے ہیں کہ ”جگا جمنے “ کی خوشی میں بھی” پتاسے“ بانٹے گئے تھے لیکن بڑا ہو کر وہ بش کی طرح بدمعاش بن گیا تھا اگر کوئی امتحان میں پاس ہونے کی مٹھائی لیکر آئے توفرماتے ہیں اصل امتحان تو زندگی کا ہے اس تعلیمی امتحان پر کیا مٹھائی کھاناویسے شوگر والے تمام مریضوں میں آپس میں بڑی یکجہتی ہوتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے تمام سگریٹ نوشی کرنے والے ایک دوسرے کو سگریٹ پیش کرتے ہیں اس طرح جب شوگر والے دو شخص کسی جگہ اکٹھے ہوں تو ایک دوسرے کو گولیاں پیش کرتے ہیں کھانا کھانے کے بعد ایک دوسرے کو شوگر چیک کرنے والی مشین عاریتاّ دیتے ہیں
کہتے ہیں شوگر چلنے پھرنے سے کم ہوتی ہے اس لئے جب بھی ہم کسی لانگ مارچ کا اہتمام کرتے ہیں میرے یہی شوگر والے صحافی دوست سب سے پہلے اپنا نام لکھوا دیتے ہیں وہ لانگ مارچ میں اس طرح جاتے ہیں کہ جیسے” جم“ جارہے ہیں اگر کوئی مشورہ دے کہ کوئی کڑوی چیز کھایا کریں تو فورا گھر جا کر بیگم سے جھڑکیاں کھاتے ہیں ویسے میں نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ خوش رہا کریں کہتے ہیں کیسے خوش رہوں میں جاوید چودھری کے کالم پڑھتا ہوں اسے خود تو شوگر ہے لگتا سب کو شوگر کروا کے چھوڑے گا بہرحا ل میں نے انہیں یہی سمجھایا ہے کہ کوئی بھی بیماری یا غم ہو اس کاواحد علاج ہنسی ہے لیکن لگتا ہے پاکستانی ہنسنا ہی بھول گئے ہیں ان کی آنکھوں میں مایوسیوں نے اتنے گہرے اندھیرے پھیلا دئے ہیں کہ انہیں نظر ہی نہیں آتا کہ فطرت آج بھی مخلوق پر اتنی ہی مہربان ہے سورج آج بھی اپنی اسی تمازت کے ساتھ روشنی بکھیرتا ہے پرندے آج بھی اسی طرح پھڑپھڑاہٹ کی موسیقی فضا میں بکھیرتے ہیںپھول آج بھی اس طرح گلشن میں اپنی خوشبوئیں بکھیرتا ہے خاموشی آج بھی اتنی ہی طمانیت بخشتی ہے
مکمل تحریر »