31/07/12

Darr

جانے کیوں لوگ موت سے ڈرتے ہیں حالانکہ ڈرنے والی چیز تو زندگی ہے
اے زندگی میں تیرے پیچھے بہت دور تک گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

مکمل تحریر  »

29/07/12

Laughter therapy

لافٹر تھراپی
تحریر محموداصغر چودھری ایڈیٹر جذبہ اٹلی www.mahmoodch.com
   بیرون ملک رہنے والے پاکستانی دنیا میں جاری کسادبازاری اور اپنے ملک پاکستان میں جمہوریت کی ثمرات دیکھ دیکھ کر اتنے پریشان ہیں کہ کسی سے مسکراہٹ والی بات کرنے سے پہلے یہ ڈر محسوس ہوتاکہ وہ الٹا پھٹ ہی نہ پڑے کہ تمہیں” اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھیں ہیں“ ویب سائٹس پر پہلے کبھی کبھار کوئی مزاحیہ کالم مل جاتا تھا اب عالم یہ ہے کہ محترم دوست شفیق بٹ بھی آجکل یا تو غمگین کالم لکھتے ہیں یا پھر چاقو چھری والے پر تشدد موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیںپتہ نہیں حالات کا قصور ہیں یا ان کا جذبہ چھوٹ گیا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کا کہناہے کہ اداسیاں پھیلانے میںبھی سارا قصور میڈیاکا ہے اور اسی بات کی تائید کالم نگار لیاقت علی شفقت نے بھی اپنے ایک حالیہ کالم میں کی ہے موصوف کہتے ہیں کہ حج میں کرپشن اور حاجیوں کو تنگ تو ہر سال کیا جاتا ہے لیکن اس سال یہ سب کچھ منظر عام پراس لیے آیا ہے کہ میڈیا کی ایک ٹیم حج پر ساتھ گئی تھی یعنی اگر کرپشن بے نقاب ہوتو بھی میڈیا کا قصور ہے حالانکہ یہ الزام غلط ہے میڈیاکی اکثر خبریں اور سیاسی ٹاک شوز سیاسی لطیفوں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں یہ اور بات ہے کہ یہ لطیفے سننے سے زیادہ دیکھنے پڑتے ہیں جہاں تک بیانات کا تعلق ہے تو ہرسیاسی بیان ہی لبوں پہ مسکراہٹیں بکھیرنے والاہوتاہے مثلاوزیراعظم صاحب کے اس بیان کو ہی لے لیںجس میں وہ فرماتے کہ ملک میں چینی کم نہیں ہے وافر مقدار میں موجود ہے صرف حکومت کوبدنام کیا جا رہا ہے یعنی حکومت کی بدنامی میں حکومتی پارلیمنٹرین بھی شامل ہیں کیونکہ اکثر شوگر ملز کے مالکان توحکومتی پارٹی کے لیڈر ہیں۔ اپوزیشن لیڈر میاں نواز شریف فرماتے ہیں کہ حکومت نے کرپشن نہ روکی تو خاموش نہیں بیٹھیں گے میاں صاحب پچھلے تین سال سے ہرحکومتی نااہلی پر یہی صدا لگا دیتے ہیں کہ خاموش نہیں بیٹھیں گے اور اس کے بعد؟؟؟یہ خبر سنیں ”دس ٹرینوںکا تیل راستے میں ختم ہوگیا ٹرینیں رک گئی “بتائیں ایسا دنیا کے کون سے ملک میں ہوسکتا ہے ٹرین والی خبر بھی آپکو لطیفہ نہیں لگتی تو یہ سنیں” جدہ سے لاہور آنے والی فلائٹ کاپٹرول ختم ہوگیا اس لئے اسے کراچی اتارنا پڑگیا“اگر ابھی بھی دل نہیں بھرا تو سناتا چلوںکہ پیپلز پارٹی کی حکومت پچھلے تین سال سے یہی دھرا رہی کہ وہ” اپنی لیڈربے نظیربھٹوکے قاتلوں کو بے نقاب کرکے دم لیں گے“کب ؟؟ آگے چلئے ریفارمڈ جنرل سیلز ٹیکس کی ووٹنگ کے دوران ق لیگ نے اسمبلی سے واک آﺅٹ کرکے غریبوں کی حمایت کی۔ روٹی کپڑا مکان کے دعوی ٰ کرنے والی پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پربنکوں کی جانب سے چودہ فی صد شرح سود کاتحفہ تاکہ کاروبار بالکل ٹھپ ہی ہوجائیں اب چلتے ہیں ویکی لیکس کی خبروں کی جانب تو ان میں سے کیا لیکس ہیں ہمیں تو کوئی سمجھ نہیں آئی صرف وہی کچھ ہے جو روز خبروں میں ہوتا ہے ہاں البتہ یہ پتہ چلا ہے کہ”سر “ کے بارے شاہ عبداللہ اوربعض پاکستانیوں کی سوچ کافی ملتی جلتی ہے
  اسی طرح کی میٹھی خبریں پڑھ پڑھ کر ہمارے ایک دوست صحافی کوتوشوگر ہوگئی ہے اور اس کی شوگرکا جتنا نقصان ہمیں ہوا ہے اتنا اسے بھی نہیں اب ہم اکٹھے کہیں بھی جاتے ہیں تو وہ جاتے ہی میزبان کو آوازلگا دیتے ہیں چائے نہ بنائیں میزبان کہتا ہے تو پھر پیپسی یا سپرائٹ لے آﺅں تو وہ سختی سے منع کردیتے ہیں جوس کا نام بھی نہیں لینے دیتے میزبان پوچھتا ہے پھر کیا لاﺅں تو جواب ملتا ہے صرف سادہ پانی ۔۔شوگر توان کو ہوئی ہے لیکن ان کے ساتھ جا کر اتنا سادہ پانی پیا ہے کہ لگتا ہے کہ سادہ پانی پر تحقیقی مقالہ لکھنا ہے ایک محفل میں باقاعدہ ہمارے ایک ساتھی کو تو میزبان کوکہنا پڑامجھے ایک بسکٹ دے دیں میرا سادہ پانی گلے میں پھنس گیا ہے
یہ شوگر بھی عجیب مرض ہے کہ انسانوں میں بیٹھنے کے قابل نہیں چھوڑتا جس طرح سگریٹ نوشی کا زیادہ نقصان ان لوگوں کو ہوتا ہے جو سگریٹ تو نہیں پیتے لیکن سگریٹ پینے والوں کی سنگت میں بیٹھتے ہیں اسی طرح شوگر کااتنا نقصان اس شخص کو نہیں جسے شوگر ہے بلکہ انہیں ہوتا ہے جو اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔جی نہیں۔ شوگرکوئی چھوت کی بیماری نہیں کہ کسی کی سنگت میں رہنے سے ہوجاتی ہے بلکہ نقصان یہ ہوتا ہے کہ شوگروالے دوست کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے کچھ بھی کھا پی نہیں سکتے کسی بھی دعوت میں چلے جائیں میزبان سے پہلے ہی کہہ دیاجائے گاکہ چاول نہیں بنا نا چاولوں میں شوگر بڑھنے کا خطرہ ہے میزبان چاہے بریانی کی پوری تیاری کر کے بیٹھا ہو،کوئی پیزا منگوانے کا ارادہ ظاہر کرے تو جواب ہوگا نہیں نشاستے والی غذاﺅں کانام نہ لیں شوگر بڑھنے کا احتمال ہے، گوشت تو زہر ہے ،تکہ کباب کا تو نام نہیںلینے دیں گے اورہمارا عالم یہ ہے کہ کباب ”ب “پر ختم ہونے والے باقی لفظوں میں سے واحد لفظ ہے جو ہم برملا پسندکرتے ہیں کوئی چائے پراصرار کرے تواسے کہیں گے بغیر چینی والی چائے بنانااور میزبان کو ایک نئی مصیبت میں ڈال دیں گے وہ دوسروں کے لئے الگ سے چینی اور چمچ اٹھا کرلائے گا اور سب کو کچی چینی والی چائے پینا پڑے گی
شوگر کی بیماری کا سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ اس بیماری والوں کو بہت سے ساتھی مل جاتے ہیں ۔جی نہیں۔ ساتھی سے میری مرادنہ تو جیون ساتھی ہے اور نہ ہی کوئی اور ”ساتھی “بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اب یہ بیماری اتنی پھیل گئی ہے کہ جس محفل میں بھی اس کا اظہار کر دیں دو چار آدمی ایسے ہاتھ کھڑا کردیں گے جیسے کسی قراردادکے حق میں ہوں استفسار پر پتہ چلے گاکہ وہ بھی اس مرض میں مبتلا ہیں بس پھر کیا اگر آپ کسی مذہبی محفل میں بیٹھیں ہیں اور آپ روح کی آسودگی کے بارے کوئی بات سنناچاہتے تھے توآپ کو مایوسی ہوگی تمام موضوعات ختم ہوجائیں گے اور شوگر کے مسائل شروع ہوجائیں گے کوئی کہے گا روزے شوگر والوں پر فرض نہیں ہیں کیونکہ اس نے پانی با ر بار پینا ہوتاہے موضوع چھڑ جائے گا کہ دنیا فانی ہے آخرت کی تیاری کر لیںاور اگر آپ کہیں شاعری اور ادب کی محفل میں شامل ہوں تو آپ محبوب کے لہجے کی مٹھاس کا تذکرہ نہیں کر سکتے کہ کہیں مریضان شوگر کی شوگر نہ بڑھ جائے آپ ہجر کی باتیں بیان نہیں کر سکتے کہ غم کی باتیں بھی دل پر بھی بڑا برا اثر پید اکرتی ہیں اورشوگر میںبڑھوتی کا باعث بنتی ہیںکسی محفل میں ملکی و سیاسی حالات پر گفتگو شروع کریں تو بات گھوم پھر کر ملک میں چینی کے فقدان پر آجائے گی میرے یہ شوگر والے دوست پکے مسلم لیگی ہیں لیکن وزیر خوراک کے اس بیان سے متفق ہیں کہ چینی عیاشی ہے
کہتے ہیں کہ ”غصہ “شوگر والے شخص کی ناک پر ہوتا ہے ویسے میں نے تو اکثر دیکھا ہے کہ شوگر والے شخص کی ناک پر عینک ہوتی ہے شوگر والے مریضوں کوچینی والی عیاشی پر بڑاغصہ آتا ہے جب کبھی کوئی شخص اپنی شادی کی خوشی میں مٹھائی لیکر آئے توکہتے ہیں انتہائی بے وقوف شخص ہے کہ اپنی آزادی کے سلب ہونے پر بھی مٹھائیاںتقسیم کر رہا ہے میرے دوست آمریت کے خلاف ہیں کہتے ہیں کہ شادی کی مٹھائی بھی اس مٹھائی کی طرح ہے جومشرف اور اس جیسے جرنیلوں کی آمد پر تقسیم ہوتی ہے اگر کسی بچے کی خوشی میں کوئی مٹھائی تقسیم کرے تو کہتے ہیں کہ ”جگا جمنے “ کی خوشی میں بھی” پتاسے“ بانٹے گئے تھے لیکن بڑا ہو کر وہ بش کی طرح بدمعاش بن گیا تھا اگر کوئی امتحان میں پاس ہونے کی مٹھائی لیکر آئے توفرماتے ہیں اصل امتحان تو زندگی کا ہے اس تعلیمی امتحان پر کیا مٹھائی کھاناویسے شوگر والے تمام مریضوں میں آپس میں بڑی یکجہتی ہوتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے تمام سگریٹ نوشی کرنے والے ایک دوسرے کو سگریٹ پیش کرتے ہیں اس طرح جب شوگر والے دو شخص کسی جگہ اکٹھے ہوں تو ایک دوسرے کو گولیاں پیش کرتے ہیں کھانا کھانے کے بعد ایک دوسرے کو شوگر چیک کرنے والی مشین عاریتاّ دیتے ہیں
کہتے ہیں شوگر چلنے پھرنے سے کم ہوتی ہے اس لئے جب بھی ہم کسی لانگ مارچ کا اہتمام کرتے ہیں میرے یہی شوگر والے صحافی دوست سب سے پہلے اپنا نام لکھوا دیتے ہیں وہ لانگ مارچ میں اس طرح جاتے ہیں کہ جیسے” جم“ جارہے ہیں اگر کوئی مشورہ دے کہ کوئی کڑوی چیز کھایا کریں تو فورا گھر جا کر بیگم سے جھڑکیاں کھاتے ہیں ویسے میں نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ خوش رہا کریں کہتے ہیں کیسے خوش رہوں میں جاوید چودھری کے کالم پڑھتا ہوں اسے خود تو شوگر ہے لگتا سب کو شوگر کروا کے چھوڑے گا بہرحا ل میں نے انہیں یہی سمجھایا ہے کہ کوئی بھی بیماری یا غم ہو اس کاواحد علاج ہنسی ہے لیکن لگتا ہے پاکستانی ہنسنا ہی بھول گئے ہیں ان کی آنکھوں میں مایوسیوں نے اتنے گہرے اندھیرے پھیلا دئے ہیں کہ انہیں نظر ہی نہیں آتا کہ فطرت آج بھی مخلوق پر اتنی ہی مہربان ہے سورج آج بھی اپنی اسی تمازت کے ساتھ روشنی بکھیرتا ہے پرندے آج بھی اسی طرح پھڑپھڑاہٹ کی موسیقی فضا میں بکھیرتے ہیںپھول آج بھی اس طرح گلشن میں اپنی خوشبوئیں بکھیرتا ہے خاموشی آج بھی اتنی ہی طمانیت بخشتی ہے

مکمل تحریر  »

28/07/12

aaj

اور آج اس نام کو ہٹانا پڑا۔۔۔۔۔
 وقت کی گرد جسے دل سے  مٹا نہ سکی 
 موسموں کا تغیر جس کا احساس تخیل سے ہٹا نہ سکا
بیماری و صحت اورطبیعیت کی کیفیت تک جس کی یاد بھلا نہ سکی
خوشی غمی،ہوشیاری یا بیزاری میں بھی دل جس  کے تصور سے اچاٹ نہ ہوسکا
اپنوں،پرائیوں ،خلوتوں اور جلوتوں میں جس کی یاد سے بے اعتنائ نہ برتی جاسکی ، 
شیخ کی محفل تھی یا ساقی کا مے خانہ اسے ذہن سے کھرچا نہ جاسکا
، آج اس کے نام کو ہٹانا پڑا۔۔۔۔۔۔۔
 بالکل اس لکڑہارے کی طرح جو اپنے کلہاڑے سے اپنا ہی پاءوں زخمی کر لے،
آج اس کے نام کو ہٹانا پڑا۔۔۔۔۔۔۔
 اس مزدور کی طرح جو اپنے ہاتھ پر خود ہی ضرب لگالے،
آج اس کے نام کو ہٹانا پڑا۔۔۔۔۔۔۔
 اس فوجی لڑاکا پائلٹ کی طرح جو اہنے ہی ساتھی کے جہاز پر فائر کھول دے کولیٹرل ڈیمج کر دے 
،آج اس کے نام کو ہٹانا پڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس فٹ بالر کی طرح جو اپنی ہی ڈی میں آکر گول کر دے
 یا سویٹر بناتی اس بڑھیا کی طرح جو اپنے ہی ہاتھ سے اس کا دھاگا الجھا دے

مکمل تحریر  »

15/07/12

Try

مکمل تحریر  »

مکتی


 اس کی عمر بیس سال تھی،آنکھوں میں خواب سجانے اور انہیں پورا کرنے کی عمر،اپنی تقدیر بدلنے اورقسمت میں لکھے اندھیروں میں روشنی کے چراغ جلانے کی عمر ،یہ وہی عمر ہے جب ارادوں کی پختگی پر یقین اور کچھ کر دکھانے کا جنون ہوتا ہے لیکن اسی عمر میں اسے غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزادی کا خواب سجانے کی سزادی گئی اس کے آقاءوں کی جانب سے تیار کئے گئے فردجرم کی فہرست بڑی لمبی تھی اس کی پہلا جرم یہ تھا کہ وہ عورت پیدا ہوئی اس کا دوسرا جرم یہ تھا کہ اس نے پیدا ہونے کے لئے نائجیریا کے بنین سٹی کا انتخاب کیا جو غربت میں اپنا ایک مقام رکھتا تھا اس کا تیسرا جرم یہ تھا کہ اس نے جس خاندان میں آنکھ کھولی وہاں عورت پیدا ہونا خاندان والوں کے لئے کمائی اور اس عورت کے لئے وحشت اور گندگی کے اندھیرے ثابت ہوتے ہیں لیکن وہ بچپن سے یہ سمجھتی تھی کہ یہ سب اس کے جرم نہیں ہیں یہ تو اس کی تقدیر میں لکھے اندھیرے ہیں وہ پڑھ لکھ نہیں سکی لیکن اس نے کہیں سے سنا تھا کہ قسمت میں لکھے دکھ ہمت سے دور کئے جاسکتے ہیں اس نے سنا تھا کہ جن کا عزم پختہ ہو وہ اپنی تقدیر خودبدلتے ہیں وہ ذلت کی زندگی اور غلامی کے اندھیروں سے خود بھی نکل سکتے ہیں اس کا نام” ادنکلے نائیک فیور“ تھا اس کے گھر والوں نے اپنی غریبی دور کرنے کے لیے اسے لڑکپن میں ہی 65ہزار یورو میں جسم فروشوں کے مافیا کے ہاتھ بیچ دیا یوں تو بنین سٹی میں جسموں کی قیمت 60ہزار یورو سے لیکر ایک لاکھ یورو تک بھی لگتی ہے لیکن قیمت کا انحصار لڑکی کے خوبصورت ہونے یا خاندان کی مجبوری پر ہوتا ہے بدلے میں لڑکی کی آزادی بیچی اورروح زخمی کی جاتی ہے اور بنین سٹی سے اٹھا کر اسے یورپ لایا جاتا ہے جہاں وہ آدھی زندگی اس قرض کو اتارنے میں اپناخون پسینہ ایک کرتی ہے لڑکپن کی دہلیز پر ہی اس کے خاندان والوں نے ”ووڈو “ کی رسم کا اہتمام کیا یہ ایک جادوئی سی رسم ہے جس میں لڑکی کے جسم کے مختلف حصوں کے بالوں اور ناخنوں کے ٹکڑے لیکرمرغی کے خون میں بھگویا جاتا ہے اور کالے جادو کی ماہر کو بلا کرایک مذہبی رسم ادا کی جاتی جس کے بعداسے ایک محافظ کے سپردکیا جاتا ہے جو اس کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے یہ محافظہ ایک عورت ہی ہوتی ہے اسے” میڈم“یا پھر آنٹی کہا جا تا ہے یہ آنٹی لڑکی کو خاندان والوں سے خرید لیتی ہے جو اس کی آزادی ہی نہیں بلکہ اس کے دستاویزات ،اس کا نام ،اس کی پہچان اور اس کی خاموشی خرید کر اسے اپناغلام اور دنیا بھر کی لونڈی بنا لیتی ہے اس کے گھر والے رقم لیکر آنٹی سے وفادار رہنے کی قسم اٹھاتے ہیں ، نائیک فیور کوبھی ایک میڈم خرید کر اٹلی لے آئی جہاں پہنچ کر اسے اس قرض کو اتارنے کے لئے اپنے جسم و جوانی کا خراج ادا کرنا تھا جو اس کے گھر والوں نے میڈم سے لیاتھا اس کے گھر والوں نے بھی رقم لیتے ہی یہ ضمانت دی تھی کہ ساری رقم ادا کرنے تک وہ میڈم سے وفادار رہے گی
 نائیک کا سفر نائجیریا سے شروع ہوا اور وہ لیبیا سے ہوتی ہوئی غیرقانونی طریقے سے سمندری راستہ استعمال کرتے ہوئے اٹلی کے شہر پالیرمو پہنچی جہاں ایک بہت بڑا مافیا ہے جو اس سارے سسٹم کو کنٹرول کرتا ہے میڈم تو اس سار ے کاروبار کی ایک ادنیٰ سا ممبر تھی جو اپنی جوانی میں اسی طرح کے کئی خراج ادا کر چکی تھی اور اب ترقی کر کے میڈم کے عہدے پر پہنچی تھی پالیرموکے روڈ ”ویا میسینا“ اور” ویا لنکن ان کے” کام“ کی جگہ تھی اسے پتہ چلا کہ ہر روڈ کی بھی اپنی ایک قیمت ہے جس کے لیے انہیں علیحدہ سے ادائیگی کرنا پڑتی ہے ، اپنا قرضہ اتارنے کے علاوہ اپنی رہائش ، اپنے کھانے پینے ، کپڑوں اور میک اپ کا خرچہ پرداشت کرنے کے لیے بھی محنت انہیں خود ہی کرنا پڑتی ہے اوراس کے بدلے میں انہیں کہیں تنہا جانے کی بھی آزاد ی نصیب نہیں سوائے ان لڑکیوں کے جو میڈم کا بھروسہ جیتنے میں کامیاب ہوجائیں انہیں بھی صرف اتنی آزادی میسر ہے کہ وہ کبھی کبھار اکیلے شاپنگ کر نے جاسکیں یا پھر کسی شام سمندر کنارے ”اپنی مرضی “ سے کوئی ہلکی سی سیر کر سکیں جو لڑکیاں زیادہ نہیں کما سکتی ان پر تشدد کیا جاتا ہے دھمکایا جا تا ہے اور مارا پیٹا جاتا ہے وہ اپنے کام سے بھاگ نہیں سکتیں کیونکہ ان کو کنٹرول کرنے والا مافیابڑا خطرناک ہے جو انہیں اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ کسی قسم کی رپورٹ درج کرائیں 1995ئ سے پالیرمو میں ایک تنظیم کام کررہی ہے جس کانام ”پیلیگرینو دیلا تیرا “ زمین کا حج “ ہے جوانہیں ذلت کے اس اندھے کنویں سے نکالنے میں مددکرتی ہے یہ ایسوسی ایشن ابھی تک 250کے قریب لڑکیوں کو اس مکروہ دھندے سے نکالنے میں کامیاب ہوسکی ہے
 نائیک کے ذہن میں کئی بار اس دوزخ سے بھاگ جانے کا خیال پیداہوا لیکن اس نے سنا تھا کہ اس سے پہلے بھاگنے والوں کا انجام بڑا دردناک ہواتھا پھر ا سکی زندگی میں” سالواتورے “آیا جو یوں تو اسکے حسن کا ایک خریدار ہی تھا لیکن اسے نائیک سے محبت ہوگئی نائیک کومحبت کا لفظ سن کر اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا اس نے میڈم سے سنا تھا کہ وہ محبت بانٹنے کا کاروبار کرتی ہیں کہ وہ جو زمانے بھر سے ٹھکرا دیئے جاتے ہیں اور جنہیں کہیں سے محبت نہیں ملتی وہ ان کو اپنے دامن میں پناہ دیتی ہے۔کہ وہ زمانے بھر کا گند اپنے دامن میں سما کر سوسائٹی کوصاف رکھتی ہے لیکن ”سالواتورے “اسے کہنے لگا کہ محبت ہوس کے پجاریوں کی بھوک کا نام نہیں ہے محبت تو ایک میٹھا جذبہ اور حرص و ہوس سے کوسوں دور احساس کی دنیا ہے۔محبت محبوب سے خوشی وصول کرنے کا نہیں بلکہ اس کے غم بانٹنے کا نام ہے ، محبت زبانی کلامی شاعری نہیں بلکہ محبوب کیلئے کچھ کردکھانے کاجذبہ ہے محبت مضبوط دل اور بہادر لوگوں کا کام ہے محبت تاریکیوں سے روشنی اور پستی سے بلندیوں کی طرف لیکر جاتی ہے ، محبت دلدل سے نکال کر چمنستانوں کی سیر کراتی ہے محبت بیمار سوچوںکی نہیں بلکہ صاف دماغوں اور روشن ذہنوں کی اختراع ہے اسنے نائیک کو سمجھایا کہ وہ جس کام کو اپنی تقدیر سمجھ رہی ہے وہ گندگی و غلامی ہے اور محبت غلامی سے آزادی تک کا سفر ہے نائیک کو اندازہ ہی نہیں تھی کہ کوئی اس سے بھی ایسی محبت کر سکتا ہے جو پستیوں سے بلندیوں تک اور اندھیروں سے اجالوں تک کا سفر کرائے اس نے کبھی نہیں سوچا تھاپنجر سے مَاس نوچنے والی گِدہوں کی اس دنیا میں کسی کی نظر پنجر کے اندر دھڑکنے والے دل کی جانب بھی جا سکتی ہے جس سے احساس ہو کہ اندر حیات کی رمق باقی ہے وہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ اس بازار میں کوئی جذبات کا بھی خریدار تھا اسے یقین ہونے لگا کہ دنیا میں محبت ،احساس و جذبات ابھی مفقود نہیں ہوئے سوچ کی انہی بنیادوں پر اس نے اپنی آزادی کے سپنوں کا محل کھڑا کرنا شروع کیااوراس دلدل سے نکل کر دنیائی حج کا فیصلہ کیا اس نے سوچا انسانیت کو غلام بنانے والی سپر پاوروں کی اس دنیا میں آزادی کی سانس لینے اوراپنی مرضی سے جینے کا حق اسے بھی ہے اسے سالواتورے کی باتوں میں اپنائیت اور لہجے میں مدد کا جذبہ نظر آتا تھا ،اسے پہلے بار احساس ہوا کہ اپنی تقدیر بدلنے او ر اپنی زندگی کی کہانی خود لکھنے کا موقعہ اسے شاید دوبارہ نہ ملے ، سالواتورے نے اس سے شادی کی خواہش ظاہر کی تو اسے لگا کہ بھیڑیوں کی اس بھری دنیااور شہوانے  ریچھوں کے اس گھنے جنگل میں اس کی ملاقات کسی انسان سے ہوگئی ہے
 دونوں نے کونسل سے شادی کے لئے مطلوبہ دستاویزات کی معلومات لی اور نائیجرین ایمبیسی سے اجازت نامہ لینے کے لئے ٹرین کی ٹکٹ خریدی جب انہوں نے روم جانے کی تیاری شروع کی تو نائیک نے قسم اٹھائی کہ وہ ذلت و گندگی کا یہ راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دے گی لیکن مافیا کو اس کے ارادے کی خبر ہوگئی انہوں نے اسے ان باقی 500لڑکیوں کے لیے عبرت بنانے کا منصوبہ بنایاجو اسی کے پیشہ سے وابستہ پالیرموکی گلیوں میں کھڑ ی ہوتی تھیں اور اسے اغوا کرکے پالیرمو کے نزدیک ”میسل میری“ کے کھیتوں میں21دسمبر 2011ئ کو زندہ جلادیا اس کی لا ش جل کر کوئلہ بن گئی ”سالواتورے “ ٹکٹ ہاتھ میں پکڑے اپنی نائیک فیور کے راکھ میں اس کی وہ آنکھیںڈھونڈتا رہا جن میں اس نے آزادی کے خواب بھرے تھے نائیک کے نام میں لفظ فیور آتا ہے لیکن اس سے کسی نے اتنی بھی فیور نہیں کی کہ اسے اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کا موقع دیا جا تا
 اطالوی حکومت نے حال ہی میں یورپین یونین کا قانون سائین کیا ہے کہ اگر کوئی تارک وطن کسی استحصال کا شکار ہوتا ہے تو پولیس کا تعاون کرتے ہوئے اپنے مالک پر کیس کر کے وہ اٹلی کی چھ ماہ کی امیگریشن لے سکتا ہے لیکن اتنے خطرناک مافیا سے کوئی کیا ٹکر لے گاجو پہلے سے زندہ لاش بنے ہوئے جسموں کو بھی آگ لگانے سے باز نہیں آتاجن کا جرم صرف اتنا ہے کہ ان کی پیدائش تیسری دنیا کے ان ممالک میں ہوئی جن کے معدنی ذخائر بھی ان کی قسمت کے اندھیرے دور نہیں کر سکے اٹلی میں غیر قانونی طور پررہنے والے تارکین وطن ستمبر اکتوبر میں نئی کھلنے والی امیگریشن کی خبر کی معلومات لے رہے ہیں بہت سے لوگ یورپ کے دیگر ممالک سے اٹلی آکر امیگریشن لے لیں گے لیکن وہ نہیں جانتے کہ اس امیگریشن کے قانون میں کتنی نائیک فیور کی لاشیں کوئلہ بنی ہیں اور کتنی لاشیں ابھی چل پھر رہی ہیں جن کا کریا کرم ہونا ابھی باقی ہے جنہیں ابھی اس قید حیات سے مکتی نصیب نہیں ہوئی

مکمل تحریر  »