07/01/13

انسان

جو خوشی تمہیں رحمان نے نہیں دے اسے کسی انسان سے مانگنے کی غلطی کبھی نہ کرنا کیونکہ وہ تمہاری کوءی مد د تو نہیں کر سکے گا لیکن تم بھیک منگوں میں ضرور شامل ہوجاءو گے 

مکمل تحریر  »

04/01/13

ربا سچیا

ربا سچیا توں تے آکھیا سی
جا اوے بندیا جگ دا شاہ اے توں
ساڈیاں نعمتاں تیریاں دولتاں نیں
ساڈا نیب تے عالیجاہ اے توں
ایس لارے تے ٹور کد پچھیا اے
کی ایس نمانے نال بیتیاں نیں
کدی سار وی لئ او رب سائیاں
ترے شاہ نال جگ کی کیتیاں نیں

مکمل تحریر  »

تذبذب کا شکار لوگ


یورپ میں رہنے والے پاکستانی بہت بڑے کنفیوژن کا شکار ہیں ایک طرف تووہ اپنے میزبانوں سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری جانب وہ چھوٹی چھوٹی باتو ںپر جائز ،نا جائزجیسی بحثوں میں تذبذب کا شکار رہتے ہیں بات اگر صرف صحیح غلط تک ہو تو شاید اتنا مسئلہ نہ بنے لیکن بعض لٹھ بردار اسکالر عام سی باتوں کو بھی کفر اور جہنم سے جوڑ کر انہیں پریشان کردیتے ہیںکہیں نئے سال کی تقریب میں شرکت کو جہنمیوں کا طریقہ کار کہا جاتا ہے تو کہیں”ہالو ان “جیسے نان ایشو کو زیر بحث لایا جاتا ہے کہیں کوکاکولا میں الکحول تلاش کی جاتی ہے تو کہیں آئس کریم تک کی ہلکی سی عیاشی کو تنقید کا نشانہ بنا یا جاتا ہے کبھی سوٹ میں ٹائی کو صلیب سے تشبیہ دی جاتی ہے تو کبھی جینزپہن کر نماز پڑھنے سے روکا جاتا ہے رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے نکال دی ہے جس نے ہر ایک کو اپنی نیم ملائیت جھاڑنے کا بھر پور موقع دیا ہے گزشتہ دنوں پوری دنیا میں کرسمس کا تہوار منا یا گیاجب میں نے فیس بک پر یہ جملہ پڑھا کہ ” کرسمس کی مبارکباد دینا کفر اور حرام ہے“ تو مجھے سات سال پرانا کرسمس یاد آگیا
اٹلی میں کرسمس کے چھٹیوں سے پہلے کم و بیش تمام کمپنیوں کی یہ روایت موجود ہے کہ وہ اپنے اسٹاف کو کرسمس گفٹ پیک دیتے ہیں یا پھرکمپنی کا مالک اپنے تمام ورکرز کو اجتماعی ڈنر دیتا ہے کرسمس گفٹ پیک کوئی بہت قیمتی چیز نہیں ہوتی بلکہ ایک پیکٹ میںکرسمس کیک ،وائن ،چاکلیٹ اور دیگر اشیا ئے خوردو نوش شامل ہوتی ہیں یہ کرسمس گفٹ معمولی قیمت کا بھی ہوسکتا ہے کمپنی مالکان اپنے مسلمان ملازمین کے لئے ایک بات کا خصوصی خیال بھی رکھتے ہیں کہ ان کے پیکٹوں میں وائن کی بجائے جوس یا بغیر الکحول والا کوئی مشروب رکھتے ہیںورکر کے گھر والے خو ش ہوتے ہیں کہ ان کا فیملی ممبر ان کے لئے تحفہ لیکر آیااور ساری فیملی مل کر کیک کھاتی ہے اور خوشیاں مناتی ہے
 دسمبر کا مہینہ تھا اور میں جس کمپنی میں کام کرتا تھا اس میں کثیر تعداد میں اطالوی اورہم پانچ چھ پاکستانی کام کرتے تھے اطالوی ورکروں سمیت میرے تمام کولیگ نے مجھے اپنا یونین لیڈر منتخب کیا ہوا تھا ہماری کمپنی اسی سال ایک اطالوی نوجوان نے خریدی تھی جو مذہب کو ایک دقیانوسی چیز سمجھتا تھا اور مذہب سے وابستہ کسی بھی قسم کے تہوار کو غیر ضروری خیال کرتا تھا اس نے اس سال کرسمس میںگفٹ پیکٹ دینے کی بجائے نوٹس بورڈ پر اشتہار لگا دیا کہ اس کی کمپنی گفٹ پیک کی رقم کسی افریقی ملک کے غربا ءکی مددکے لیے دینا چاہتی ہے اطالوی ورکروں کے منہ اس نوٹس کو دیکھتے ہی لٹک گئے اور وہ سارے مجھ سے شکایت کرنے لگے کہ نیکی کرنے کا یہ کونسا طریقہ ہے چونکہ یونین لیڈر میں تھا اس لئے مالک سے بات کرنے کی ذمہ داری بھی میری ہی بنتی تھی دوسرے ہی دن میں اورکمپنی کا مالک آمنے سامنے تھے
ہماری میٹنگزہمیشہ ہی خوش اخلاقی سے شروع ہوتی تھی اور چہروں کی رنگت لال ہوتے ہوئے پھر خوشگوار موڈ میں ہی ختم ہوتی تھی میٹنگ کے دوران دونوں جانب سے اخلاق کا دامن نہیں چھوڑا جاتا تھا جب وہ بہت غصہ میں آتا تھا تو یہ طنز ضرور کرتا کہ” آئندہ کسی پڑھے لکھے شخص کو فیکٹری میں نہیں رکھوں گا“ لیکن اس کرسمس میٹنگ میں اس نے عجیب منطق پیش کی کہنے لگا کہ ”تم ایک مسلمان ہوتے ہوئے کرسمس گفٹ پیکٹ پر بحث کرنے آئے ہو تمہیں تو خو ش ہونا چاہیے کہ میں اس فضول گفٹ پیک کی رسم ختم کرکے ا س کی مد میں استعمال ہونے والی رقم خیرات کرنا چاہتا ہوں“میں نے اسے کہا کہ ”خوشیوں اور تہواروں کا تعلق صرف مذہب سے نہیںبلکہ ثقافت سے بھی ہوتا ہے اورخیرات لوگوں کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے اس پر انہیں مجبور نہیں کیا جاتا اگر تم کسی کی مدد کرنا چاہتے ہوتوخود کرو اپنے ورکروںکو اس پر مجبور کیوں کرتے اگر ہمیں مدد پرترغیب دلانا چاہتے ہو تو کسی اور وقت ہمیں آواز دو ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن یہ کیا طریقہ ہے کہ ہمارا گفٹ پیک تم کسی کو دھان کر دو ؟ “وہ کہنے لگا کہ” یہاں کرسمس گفٹ پیکٹ کی روایت تو ہے لیکن اٹلی کے قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ مجھے کرسمس کا گفٹ پیک بھی دینا ہوگا“ میں نے اس سے پوچھا کہ ” کیا تم نے کبھی کسی ورکر کو گفٹ پیک ہاتھ میں اٹھائے گھر جاتے دیکھا ہے ؟ تمہیں اندازہ ہے کتنی خوشی ہوتی ہے اس کے چہرے پر؟ تم کیوں ان کے چہروں سے یہ خوشی چھیننا چاہتے ہو ؟“ خیر ایک گھنٹے کی تفصیلی بحث کے بعد اس نے ہار مان لی اپنی سیکرٹری کو بلایا آفس کے نوٹس بورڈ سے وہ اشتہار اتروا دیا اوراسی وقت ایک کمپنی کو فون کرکے سب اسٹاف کے لئے گفٹ پیک کا آرڈردیا
اکثر یورپین اب اپنے مذہب سے دور ہوکر لادینیت کی جانب مائل ہیں اٹلی جو کیتھولک مذہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے یہاں بھی کسی سے اسکا مذہب پوچھیں تو وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو ملحد کہتا ہے اگر کوئی خود کو کیتھولک کہے بھی تو ساتھ ہی واضع کردیتا ہے کہ وہ باعمل عیسائی نہیں ہے لیکن کرسمس کے دنوں میں یا نئے سال کی خوشی میں ہر شخص بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے ، دکانوں پر ہر قسم کی اشیاءسستی ہوجاتی ہیں سیلیں لگ جاتی ہیں تاکہ غریب سے غریب شخص بھی گفٹ خر ید سکے ، فیملیاں ایک مشترکہ کرسمس ڈنر کا اہتمام کرتی ہیں جس میں گھر کے سارے افراد اکٹھا ہوتے ہیں اٹلی میں محاورہ مشہور ہے کہ ” ایسٹر جس کے ساتھ تمہارا دل چاہتا ہے مناﺅ لیکن کرسمس صرف اپنوں کے سنگ ہی مناﺅ “ لوگ اپنے گھروں کے باہرانفرادی طور پر لائٹیں لگاتے ہیںاور انہیںرنگ برنگی روشنیوںسے منور کرتے ہیں جبکہ شہر کے سنٹر کی تمام سڑکیں علاقائی انتظامیہ کی جانب سے برقی قمقموں سے روشن کر دئے جاتے ہیںجن کا رنگ اکثر سفید ہوتا ہے ، سڑک کنارے کھڑے درختوں پر بھی سفید لائٹوں کی لڑیاں ڈال دی جاتی ہیں اور سفید جگمگاتی روشنی برف کا سا تاثر دینے کی کوشش ہوتا ہے گھروں، فیکٹریوں ، دکانوں اور مختلف دفاتر کے اندر کرسمس کا درخت تیار کیاجاتا ہے جس کے ساتھ 25دسمبر سے پہلے چھوٹے چھوٹے گفٹ لٹکائے جاتے ہیں بچوں کے سکولوں کے اندر حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے دور کا ایک ماڈل تیار کیا جاتا ہے سکولوں میں حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے حوالے سے نغمے تیار کئے جاتے ہیںدسمبر کی چھٹیوں سے پہلے ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں والدین کو بلا یا جاتا ہے اور ان کے سامنے وہی نغمے دھرائے جاتے ہیں بچوں کے والدین اساتذہ تالیاں بجا کر انہیں داد دیتے ہیں سکولوں میں بھی استانیاں بچوں سے کرسمس گفٹ تیار کراتی ہیں ایک دوسرے کو تحفے دینے کا جنون سوار ہوجاتا ہے چاہے یہ تحفے ایک کارڈ یا ایک خالی ایس ایم ایس میں نیک تمناﺅں کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو
جن ممالک میں ہم رہتے ہیں وہاں کے لوگوں سے خیرسگالی کی خاطر انہیں کرسمس کی مبارکباد دینا ہم سب پر اخلاقی طور پربھی لازم ہے اور یہ تہذیب کا تقاضہ بھی ہے لیکن جس طرح اس کمپنی کے مالک کو کرسمس پر خیرات کرنے کا خیال آیا بالکل ہمیں بھی اپنی ساری توحید انہی تہواروں پر یاد آتی ہے جن دنوں ہم اپنے میزبانوں کی خوشی میں شامل ہو کر ان کے چہروں پر خوشیاں بکھیر سکتے ہیں ۔۔جس طرح دولت کے لالچ نے اس بزنس مین کی نظر اپنے ورکروں کی خوشی کی جانب نہیں جانے دی بالکل اسی طرح ہمارے علم کا سارا رعب اور ہماری ساری تحقیق صرف کرسمس میں عیسائیوں کو اسلام کی تبلیغ کرنے کا خیال لاتی ہے اس لئے ہمارے ہاں بڑے زور و شور سے یہ بحث جاری ہوجاتی ہے کہ کرسمس منانا دراصل حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا ماننے کے برابر ہے مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آسکی یہ تاویلیں ہم کہاں سے گھڑ کے لاتے ہیں ہماری کونسی ڈکشنریاں ہیں جو صرف اور صرف نفرتیں ہی بانٹتی ہیں یا پھر شاید ہمیں خوشی سے نفرت ہوچکی ہے ہمیں ہر وہ چہرہ برا لگتا ہے جو خوش نظر آتا ہے جس پر مسکراہٹ ہوتی ہے یا شاید ہم حاسد ہو چکے ہیں ہم دوسروں کی خوشیوں سے جلتے ہیںہمارا تعلق اس بستی سے جہاں اگر کوئی خوبصورت گھوڑے پر بیٹھ کر جارہا ہوتو ہم بجائے اسے کوئی دعا دینے کے کہتے کاش اس کے گھوڑے کی ٹانگ ٹوٹ جائے اور وہ زمین پر گر جائے ۔۔۔
 کہتے ہیں ایک صوفی کا گزر ایک بستی کے پاس سے ہوا جہاں لوگ ناچ گا رہے تھے اور خوشیاں منا رہے تھے وہ اللہ کے بزرگ وہیں کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اپنا ہاتھ بلند کر لیا دعا کرنے لگے ”اے اللہ جس طرح اس بستی کے نوجوان اس دنیا میں خوشیاں منا رہے ہیں اسی طرح آخرت میںبھی ان کے لئے خوشیاں لکھ دے “ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اتنی اچھی دعا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا دل حسد سے پاک ہووہ کسی کو خوش دیکھ کر جل بھن نہ جائے وہ انسانوں سے محبت کرنے والا ہواسے انسان اچھے لگتے ہوں وہ کسی کی ہنسی میں اپنی ہنسی شامل کر کے اس کی مسکراہٹوں میں مزید اضافہ کرنے کی خواہش رکھتا ہو



مکمل تحریر  »