24/09/12

Yaad

 
 
 
کوءی بھی وقت ہو غم اس کا مجھے  ڈھونڈ لیتا ہے
یہ  ایسا تیر ہے جس  کو   نشانہ    یاد     رہتا ہے 

مکمل تحریر  »

21/09/12

Udassi


مکمل تحریر  »

10/09/12

غم

بعض غم گناہوں کے اس بوجھ کی طرح ہوتے ہیں جن کی کبھی معافی نہیں آتی
 عمر قید کے نتیجے میں ملنے والی اس  جیل کی چکی کی طرح ہوتے ہیں جسے  چلاتے چلاتے ہاتھ شل ہوجائیں لیکن ان سے رہائی موت سے پہلے ممکن نہیں ہوتی
جو جوتے میں چبھے ہوئے اس کانٹے کی طرح ہوتے ہیں جو سارا رستہ آ پ کے پاءوں کو زخمی کرتے رہتے ہیں اور اس جوتے کو اتارنے یا بدلنے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا
وہ خون میں سرایت اس سرطان کی طرح ہوتے کہ جس پر ہر طبیب نے بھی اپنے ہاتھ کھڑے کر دئے ہوں کہ وہ بے بس ہے
 جوہاتھوں سے سرکنے والی ریت کے ان ذروں کی طرح ہوتے ہیں جنہیں جتنا زیادہ مٹھی میں دبایا جاءے دنیا سے چھپایا جاءے کہ کسی کو نظر نہ آئیں  اتنا ہی زیادہ پھسلتے ہیں کہ سب کو نظر آجاتے ہیں
بعض غم لاعلاج ہوتے اس عشق کی طرح جس میں وصال نہ ہوسکا اور ہجر قسمت ٹھہر گئی  

مکمل تحریر  »

07/09/12

certe persone


Ad un certo punto devi renderti conto che certe persone possono stare nel tuo cuore ma non nella tua vita.

مکمل تحریر  »

Inteha Pasandi

  اس کے لہجے سے محسوس ہورہا تھااس بار معاملہ ذرا سنجیدہ تھاوہ ایک اطالوی تنظیم کا صدرہے اور جب بھی ہمارے علاقہ میں موجود پاکستانیوں کے حوالے سے کوئی معاملہ ہوتا ہے تو وہ میرے ساتھ رابطہ کرتا ہے اس نے کہا کہ بات فون پر نہیں ہوسکتی مجھے ان سے ملنا پڑے گا میرا خیال تھا کہ پھر کسی پاکستانی نے اپنی بیوی کو پیٹا ہوگا اور پولیس کیس بن گیا ہوگا، کسی پاکستانی باپ نے اپنی بیٹی کو سکول جانے سے روک دیا ہوگا یاپھر کسی محلے کے اطالوی باشندوں سے کسی پاکستانی کا جھگڑا ہوگیا ہوگالیکن ملاقات کے بعد راز کھلا کہ بات واقعی سنجیدہ تھی ان کے شہر کے پادری نے اس تنظیم کی مدد مانگی تھی معاملہ ایک پاکستانی نوجوان کا تھا جو کچھ دنوں سے لگاتار ان کے چرچ میں جارہا تھا اور اس کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ وہ عیسائیت قبول کرنا چاہتا تھا چرچ کے پادری نے شروع میں اس معاملہ کو سنجیدگی سے نہ لیا اور اس لڑکے کے بارے تحقیق کرنا شروع کرد ی چند ہی دنوںکی چھان بین سے اسے پتہ چلاکہ دراصل لڑکے کو کسی اطالوی ہم جماعت لڑکی سے عشق ہوگیا تھا اور وہ اس کی بے پناہ محبت کی اسیری میں اپنا مذہب چھوڑنا چاہتا تھا لڑکی کے والدین نے اپنی بیٹی سے اس بارے پوچھا تو لڑکی کا کہنا تھا کہ اس نے اسے کبھی بھی ایک دوست سے بڑھ کر نہیں سوچا لڑکی کے گھر والے مذہبی تھے اس لئے پاکستانی لڑکے کے ذہن میں یہ ترکیب آئی کہ اگر وہ اپنا مذہب تبدیل کرلے تو پھرشاید وہ لڑکی کی ہمدردی یا محبت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے اس شہر کے پادری کا ہم سے یہ مطالبہ تھا کہ اس لڑکے کو سمجھایا جائے کہ ہم کسی بھی ایسے شخص کو اپنے مذہب میں خوش آمدید نہیں کہہ سکتے جو اس کی تعلیمات سے متاثر ہو کر نہیں بلکہ کسی لالچ یا کسی مفاد کے لئے آئے مجھے بہرحا ل حیرانی بھی ہوئی کہ اگرایسا ہی کوئی معاملہ کسی مولوی صاحب کے سامنے پیش آتا تو وہ شاید ایسی کوئی ارچن نہ ڈالتے بلکہ بڑے فخر سے لوگوں کو بتاتے کہ ان کی تعلیمات کی وجہ سے لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں آئے دنوں یورپ میں یہ خبریں گردش کرتی رہتی ہیں کہ فلاں جگہ پہ ایک عورت نے اسلام قبول کر لیا لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اسلام قبول کرتے ہی ان کی شادی بھی کسی مسلمان کے ساتھ ہوگئی مذہب کی تبدیلی کے ساتھ ہی شادی والا اتفاق عجیب ہے
جہاں تک تعلیمات اور اصول کا معاملہ ہے تو اسلام میں اس معاملہ میں بڑی چھان بین کا حکم ہے کہ اسلام قبول کرنے والا کسی لالچ ، دباﺅ یا خوف کی وجہ سے تو اسلام قبول نہیں کر رہااوراگر وہ کسی مفادیا ڈر کی وجہ سے اسلام میں آناچاہے تو علاقہ کے حکمران یا بااثر مسلمانوں پر واجب ہے کہ اسکی مدد کریں اور اسے یہ سمجھائیں کہ وہ اسلام کے آفاقی پیغام کو سمجھے اور پھر یہ مذہب اختیار کرے لیکن ہمارے ہاں چونکہ کریڈٹ لینے کی جلدی ہوتی ہے اس لئے اکثر اس بحث میں نہیں پڑتے یورپ میں ایک جگہ ایسی ہی کسی شادی سے پہلے اسلام قبول کرنے کے لئے مولوی صاحب کو بلایا گیا جب لڑکی کو کہا گیا کہ اپنے گلے میں لٹکی صلیب اتار دو تو وہ کہنے لگی اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟اسے گلے میں ہی رہنے دیں ۔۔تو اس کا پاکستانی شوہر بھی کہنے لگا اس کی خیر ہے آپ کلمہ پڑھائیں بعد میں پتہ چلا کہ موصوف کو شادی کی جلدی تھی کہ ان کی دوست حاملہ تھی لیکن اس ساری بحث کا مطلب یہ بھی نہیںکہ اکثریت ایسا ہی کرتی ہے کچھ لوگ خود بھی اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر مسلمان ہورہے ہیںشادی کی بنا پر اسلام قبول کرنے والوں میں ابھی تک کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی صرف یورپین خواتین کو مسلمان کرنے میں ہی کامیاب ہوئے ہیںجبکہ ان کے مقابلے میں مراکش اور تیونس کی عورتیں کافی زیادہ یورپین مردوں کو شادی کی بنیاد پر مسلمان کررہی ہیں یورپین معاشرہ سے نکل کر اگر ہم پاکستان جائیں تو ان دنوں وہاں بھی ہندو عورتوں کوزیادہ سے زیادہ مسلمان کیا جارہا ہے حیرت یہی ہے کہ سولہ سترہ سالہ بچیوں کو مسلمان کر کے ان کی شادی بھی فوراًکسی مسلمان مرد سے کر دی جاتی ہے جبکہ کسی کی توجہ ہندو مردوں پر نہیں جارہی ہے کہ انہیں بھی اسلام کی روشنی سے منور کیا جائے یا پھر پاکستان میں بھی ہم نے صرف عورتیں ہی مسلمان کرنی ہیں کہ وہ کمزور ہیں اللہ تعالی ٰ سورہ یونس میں ارشاد فرماتا ہے کہ ”تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے کہ وہ مومن ہوجائیں“ پاکستانی میڈیا میں یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ سینکڑوںہندو خاندان پاکستان چھوڑ کر ہندوستان جارہے ہیں کیونکہ وہ پاکستان میں اپنی جان ،مال ،عزت اور مذہب محفوظ نہیں سمجھتے ہمارے دانشوروں کا خیال ہے کہ یہ سب بھارتی لابی کا پراپیگنڈہ ہے جو پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے کیا جارہا ہے کہ ہمارے ملک میں اقلیتیں بڑی محفوظ ہیں
 ان سارے معاملات میں حکومت یا ریاست نام کی کوئی چیزنظر نہیں آرہی پاکستان بنانے کا مقصد تو یہی تھا کہ اس وقت کی مسلمان اقلیت کا خیال یہ تھا کہ متحدہ ہندوستان میں ان کے مذہبی حقوق کی ضمانت نہیں تھی اور و ہ ایک ایسا دیس بنانا چاہتے تھے جہاں سب کو مذہبی آزاد ی ہوگی بانی پاکستانی کے خطابات اور پاکستانی پرچم میں سفید رنگ اسی بات کی ضمانت تھی کہ یہاں اقلیتیں امن اور سلامتی سے رہیں گی تو اگر کہیں بھی اقلیتوں کے حقوق پر کوئی قدغن لگ رہی ہے تو یہ بات نہ صرف بحیثیت پاکستانی سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے بلکہ بحیثیت مسلمان بھی ایک سوالیہ نشان ضرور ہے کیونکہ اسلامی ریاست میں ایک غیرمسلم کے جان مال اور عزت کے حقوق مسلمانوں کے مساوی ہیں ایک غیر مسلم کا قصاص و دیت ایک مسلمان کے برابر ہے غیر مسلم کی عبادتگاہوں کا تحفظ مسلم ریاست کی ذمہ داری ہے امیر المونین حضرت عمر ؓاپنے دورخلافت میں غیر مسلم شہریوں میں سے ایک بوڑھے شخص کے پاس سے گزرے جو بھیک مانگ رہا تھاآپ نے فرمایا ”ہم نے تمہارے ساتھ انصاف نہیں کیا کہ ہم نے تمہاری جوانی میں تم سے ٹیکس وصول کیا پھر تمہارے بڑھاپے میں تمہیں بے یارو مدد گار چھوڑ دیا “اس کے بعد اس کی ضروریات کے مطابق بیت المال سے وظیفہ جاری کردیا حضرت عمر فاروقؓ کو اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی اقلیتوں کے حقو ق کااتنا خیا ل تھا کہ اپنی وصیت میں بھی ان کی حفاظت کا حکم دیا یورپین مورخین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ عرب مسلم حکمرانوں کے دور اقتدار میں عیسائی خود کواپنے ہم مذہب حکمرانوں سے بھی زیادہ محفوظ سمجھتے تھے دراصل یہ تعلیمات تھیں اس آفاقی پیغام کی جس میں خود اللہ تبارک و تعالی ٰ اپنے پاک کلام میں لااکرہ فی الدین”دین میں کوئی جبر نہیں “ کا سبق دیتا ہے اور یہ اثر تھا اس نبی رحمت ﷺ کی تربیت کاجنہوں نے جنگ کے بھی اصول وضع کئے جس میں غیر مسلموں کے بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں ، تاجروں ،کسانوں مزدوروں اورمذہبی راہنماﺅں یا پادریوںکے علاوہ بھی ہر اس شخص کا قتل منع کیا جو دوران جنگ غیر متحارب کا کردار ادا کر رہا ہواور تعلیمات تھیں اس کریم نبی ﷺ کی جس نے جنگ جیسے نفرت آمیز لمحات میں بھی درختوں اور پودوںکو کاٹنے یا جلانے مویشیوں ، چوپایوںکو ذبح کرنے یا لوٹنے اورگرجاگھر ودیگر عبادتگاہوں کو گرانے یا نقصان کرنے سے منع کیا
 آج کے مسلمان اور اسلام کے نام پر بننے والے ریاست کے پاکستانی کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایک چودہ سالہ لڑکی کوتوہین مذہب کے کیس میں پھنسانے کے لئے اس کے جلائے جانے والے کاغذات میں خود قرآن کے صفحے ڈال دیتا ہے اور اگر اس بچی کا جرم ثابت بھی ہو جائے تو کیا ہم مذہب کے نام پر اتنے جنونی ہیں کہ اس کے گھر والوں کو شہر چھوڑ کر بھاگ جانے پر مجبور کر دیں؟ اس کی ساری کمونٹی کی عزت غیر محفوظ بنا دیں؟ سینکڑوں لوگوںنے اس کے گھر کا محاصرہ کرکے پوری دنیا کو اسلام کا کو نساچہرہ دکھا یا ہے اللہ تبارک و تعالی ٰ تو سورہ المائدہ آیت نمبر ۸میں فرما رہے ہیں ”اے ایمان والو ۔اللہ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہوجاﺅ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔عدل کیا کرو وہ پرہیز گاری سے نزدیک تر ہے اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے “عدل کیا ہے ؟کہ ایک شخص کے جرم کی سز ا اس کی ساری قوم کو دی جائے پاکستانی میں اقلیتوں کی تعداد اتنی کم ہے اور وہ معاشی طور پر اتنے پسماندہ ہیں کہ شاید ہی کوئی اتنا متکبر ہو کہ وہ اکثریت کے نظریات کی توہین کرے پھر جانے کیوں ایسے واقعات سامنے آتے ہیں
شاید عالمی سیاست کا بدلہ پاکستانی شہری اپنے ہی ملک کی اقلیتوں سے لینا چاہتے ہیں یا پھر ملک میں انتہا پسندی تیزی سے عروج پکڑتی جارہی ہے ایک سال سے گلگت بلتستان اور بلوچستان میں شیعہ فرقہ کے افراد کو بسوں سے اتار کر قتل کیا جارہا ہے کراچی میں شیعہ اور سنی کمونٹی کو ٹارگٹ کلنگ کا سامناہے ان ساری باتوں کے محرکات جاننے کے لئے کسی سائنس کو سمجھنے کی ضرورت نہیں آپ یو ٹیوب پر چلے جائیں یا کسی بھی سوشل میڈیا کی ویب سائیٹ نکال لیں سوائے فرقہ وارانہ اور تعصب بھری گفتگو کہ آپ کو کچھ نہیں ملے گا انتہا پسندی کا عالم یہ ہے کہ کسی عام سے نوجوان نے بھی کوئی دینی بات شئیر کی ہوگی تو ساتھ ہی یہ دھمکی لکھی ہوگی کہ” اس کو آگے شئیر کرنے سے شیطان آپ کو روکے گا “یعنی انتہا پسندی کی حد یہ ہے کہ اگرکوئی اس پوسٹ کو آگے نہیں پہنچاتا تو اسے شیطان کا ساتھی سمجھا جائے آج کے نوجوان کا سارا اسلام مخالفین کی عورتوں کے پردہ کرنے یا نہ کرنے کی بحث پر ہے آج محفل میں بیٹھے ہوئے پاکستانی کے فون کی رنگ ٹون سے آپ اس کے مسلک یا فرقہ کا اندازہ لگا سکتے ہیں فیس بک و دیگر ویب سائٹس پر اولیا اللہ کی قبروں کے ساتھ جانوروں کی تصاویر ، صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں گستاخی والے جملے اور مسلمانوں میں ہی مخالف مسلک کے مذہبی و روحانی اکابرین کی توہین اور اہانت دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ اسی دین کے ماننے والے ہیں جو کافروں اور مشرکوں کے جھوٹے معبودوں کو گالی دینے سے بھی منع کرتا ہے ہماری قوم آہستہ آہستہ اخلاقی موت مر رہی ہے اس کے اندر برادشت ختم ہورہی اور انتہا پسندی کالاوا ابل رہا ہے اور کوئی بھی اس شعلہ برساتی آگ پر پانی ڈالنے کو تیار نہیں اسلام میانہ روی کا دین ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس امت مسلمہ اور ملت اسلامیہ کی پہچان یہی فرمائی ہے وکذلک جعلنکم امة وسطاً”اور اے مسلمانو اسی طرح ہم نے تمہیں اعتدال والی بہتر امت بنایا


مکمل تحریر  »

03/09/12

Ehsaas

حضرت ایوب ؑکو جب اپنی بیماری سے نجات ملی اور ان کی تکالیف دور ہوئی تو کسی نے سوال کیا کہ اب کیسا محسوس ہوتا ہے اللہ نے آپ کی پریشانی دور کر دی ہے اور صحت نصیب کی ہے فرمانے لگے کہ بیماری تو اب ٹھیک ہوگئی ہے لیکن ایک کمی سی محسوس ہوتی ہے کہ جب میں درد و کرب کی کیفیت میں مبتلا تھا تو دن کے چوبیس گھنٹوں میں کم ازکم ایک دفعہ میرا محبوب حقیقی مجھ سے سوال پوچھتا تھا کہ بتاﺅ کیاحا ل ہے ؟ بس اس کا یہ پوچھنا اتنا دلنشین ہوتا تھا کہ اس کی ایک ڈھارس سے میرا سارا دن شاد گزرتا تھا اور میں دردو الم کی کیفیت کو بھلاکراپنے دوست کے محبت بھرے انداز سے سارا دن اطمینان محسوس کرتا تھا اب صحت مل گئی ہے اور میں اس احساس یار کی لذت سے محروم ہوگیا ہوں

مکمل تحریر  »