آج ہمارے پرونس میں امیگرنٹس کی نیی کونسل کی میٹنگ تھی جس میں بقول اسیسورے کے بڑی سوچ بچار اور دو ماہ کی انتھک محنت کے بعد انہوں نے کونسل تجویز دی ہے جس میں ٹاپ ٹین کمیونیٹز میں سے ہر ایک کمونٹی سے ایک نماءندہ چنا گیا ہے اور پاکستانیوں کی چار ہزار کی کمونٹی میں سے میرا بھی نام چنا گیا ہے اور مجھے بھی اس کونسل کا ممبر منتخب کر لیا گیا ہے یعنی جس سیٹ کے لیے دوسرے پرونسز میں لوگ ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں اور دشمنیاں اور بیر مول لیکر خرچہ کرکے پہنچتے ہیں اور پاکستان میں اپنے گھر کے باہر ممبر صوباءی اسمبلی لکھواتے ہیں وہ سیٹ اتنی آسانی سے مجھے دے دی گیی میں نے اس فیصلہ اور اس کونسل کی کھل کر مخالفت کی ،کیونکہ پوری دنیا کوجمہوریت کا سبق دینے والے ،اور الیکشن الیکشن کی رٹ لگانے والے جب اپنی مرضی ہو تو الیکشن کے راستے سے فرار حاصل کرکے سلیکشن کو ہی غنیمت جانتے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہے ہم نے اس بات کی مخالفت بھی کی اور ان کے اس طرز سلیکشن کو باعث تنقید بھی بنایا اور سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اس پوسٹ کی کوءی خوشی بھی نہیں ہے کیونکہ جو میڈل جو اعزاز بغیر محنت کے مل جاءے وہ کیا اعزاز ہو ا، ہنسی والی بات یہ تھی کہ پہلی میٹنگ میں ہی تارکین وطن شہریوں کو ووٹ کا حق دیے جانے کے مطالبہ پر زور تھا یعنی جن کے بارے تجاویز دینی والی کونسل کو ہی جمہوری طریقے سے منتخب نہیں کیا گیا ان کو ووٹ کا حق کیسے ملے گا
0 commenti:
Posta un commento